Deobandi Books

ماہنامہ الابرار جنوری 2010

ہ رسالہ

6 - 15
دعوتِ دین
ایف جے،وائی(January 22, 2010)

مولانا خالد محمود طاہر فیصل آبادی

قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : من رای منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فن لم یستطع فبلسانہ، فن لم یستطع فبقلبہ، وذلک اضعف الیمان۔ (کتاب الاٰداب، باب الامر، بالمعروف، مشکوة)

ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص کوئی بات شریعت کے خلاف دیکھے اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے اس کی اصلاح کردے، اگر اتنی قدرت نہ ہو تو زبان سے اس کی مخالفت کرے، اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم اپنے دل میں اس کی ناگواری برابر محسوس کرتا رہے اور یہ درجہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (ترجمان السنة ص۳۱۲، ۲)

تشریح: جب خاتم النبین سیدنا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نبوت کا وہ مبارک سلسلہ ختم کردیا گیا اور آپ آخری نبی اور سید الانبیاءہیں تو کارنبوت کو جاری رکھنے کی ذمہ داری اور اس کے طریقہ کار کو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات عالیہ میں جابجا نہایت احسن طریقہ سے واضح فرمایا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی ایک کڑی مذکورہ بالا حدیث ہے۔

علمائے کرام (اﷲ ان کو جزاءخیر عطا فرمائے) نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس حدیث کا خلاصہ حتی الامکان خیر کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا ہے۔ جو کہ دین کا نہایت ہی اہم جزو ہے۔ اگر اس کو یکسر نظر انداز کردیا جائے تو دین کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ کیونکہ اس امت کی بھلائی جن امور کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے ان میں بنیادی حیثیت ایمان کو حاصل ہے۔ اورایمان کے لوازمات میں سے اہم لازم حتی الامکان خیر کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا ہے۔ اسلام میں ایمان نماز روزہ حج زکوٰة تو بنیادی ارکان ہیں لیکن اس کے ساتھ دعوت الی اﷲ کی خاص اہمیت ہے جس سے آدمی کو احکام اسلام پر عمل کی توفیق ہو۔ اور یہ بات عیاں ہے کہ قوت ایمانی کے بغیردعوت الی اﷲ ہو ہی نہیں سکتی، لہٰذا جس میں قوت ایمانی اور تعلق مع اﷲ زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ دعوت الی اﷲ کے لیے مضطر ہوگا اور اگر اس کی قدرت نہ ہو تو کم از کم منکر اس کے دل کو ناگوار ہو اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے۔ اگر یہ احساس ناگواری بھی نہ رہا تویہ غیرت ایمانی سے محرومی کی دلیل ہے اور یہی حدیث مذکور کا حاصل ہے۔

ہمارے زمانے میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو خیر کی طرف بلانے میں اتنا غلو کرتے ہیں کہ انبیاءکرام کی سنت کوچھوڑ دیتے ہیں اور دعوت کے کام میں لگ کر بسا اوقات والدین اور بیوی بچوں کے ان حقوق سے لاپرواہی اختیار کرتے نظر آتے ہیں جو واجبات کے درجہ میں ہیں۔

دوسرے لوگ وہ ہیں جو برائی کی روک ٹوک کے معاملے میں گونگے شیطان بنے رہتے ہیں۔ اس مقام پر حضرت تھانوی رحمة اﷲ علیہ کا قول ہی اس حالت کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ ”افسوس! دوسروں کو تو ہم اپنے مذہب میں کیا لاتے اپنے بھائیوں کو اپنے مذہب میں نہیں رکھ سکتے خدانخواستہ اگر یہی نوبت رہی تو آج نومسلموں پر مشق ہے۔ اگر مخالفین کا حوصلہ بڑھ گیا تو کل وہ پرانے مسلمانوں کو بھی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کریں گے۔“

الغرض یہ دونوں حدیں انتہائی غلط ہیں اور دین کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہیں۔

علماءکرام نے جہاں دوسرے احکام و مسائل میں امت پر احسان عظیم کرکے ان کی رہنمائی کی ہے، اس معاملہ میں بھی انہوں نے کچھ اصول بتلائے ہیں۔ ان اصولوں میں سب سے جامع اور مختصر اصول حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کا ہے کہ داعی کو دعوت دیتے وقت ان تین شرائط پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے: (۱) بات حق ہو، (۲)نیت حق ہو، (۳)طریقہ حق ہو۔

یعنی مخاطب کی خیر خواہی اور اﷲ کی رضا مقصود ہو، اپنی بڑائی جتانا یا مخاطب کی تذلیل و تحقیر کرنا مقصود نہ ہو۔ اور سنت انبیاءعلیہم السلام کے مطابق خیر خواہانہ اور حکیمانہ انداز اختیار کیا جائے۔ اور جب یہ تینوں باتیں جمع ہوجائیں تو فائدہ ضرور ہوتا ہے اور ان کا حصول بزرگوں کی طویل صحبت سے ہی ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ نصیب فرمائیں، آمین۔
Flag Counter