Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ - مئی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

9 - 12
مجموعہ خاندانی فلاح و بہبود سے متعلق چند غور طلب اور قابل اصلاح امور !
مجموعہ خاندانی فلاح و بہبود سے متعلق چند غور طلب اور قابل اصلاح امور

گذشتہ ماہ وزارت بہبودی آبادی کی طرف سے ایک بلا عنوان مسودہ بغرض تبصرہ بھیجا گیا، جس میں بنیادی طور پر خاندانی منصوبہ بندی اور موانع حمل تدابیر کو موضوع بنایا گیا تھا۔ مسودہ اسلامی نظریاتی کو نسل کے ایک معزز رکن کی تحریر بتا یا گیا ہے۔ ادارہ کی طرف سے جو سرسری تبصرہ متعلقہ ادارہ کو بھیجا گیا تھا۔ اسے افادہٴ عام کے لئے شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)


۱… خاندان کی فلاح و بہبود کا یہ مطلب لینا کہ ” خاندان کے ہر رکن کو اس کے حقوق ملیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کر سکے، کئی پہلووٴں پر مشتمل ایک وسیع اور پھیلے ہوئے موضوع کو ایک ہی رخ سے موضوع بحث بنا نے کی وجہ سے محل نظر ہے، ہونا تو یہی چاہے تھا کہ اس ہمہ جہتی موضوع کے ہر ہر پہلو کو لے کر اس کے تمام عوامل و نتائج سے بحث ہو تی کہ خاندان کی فلاح و بہبود کا مقصد مکمل حاصل ہو سکے۔
تو ملحوظ رہے کہ وسائل و اخراجات کی تنظیم و تقسیم کا تعلق اصل” معاشیات “ سے ہے ، خاندان کی فلاح و بہبود کے موضوع سے کسی گونا تعلق ہونے کی وجہ سے اس پر ضمنی طور پر تو بحث ہو، لیکن اسی کو خاندان کی فلاح و بہبود کا اصل مطلب قرار دیکر بنیاد بنانا غور طلب امر ہے۔
۲…” بغل اور زیر ناف بال“ کے عنوان کے تحت صرف اتنا ذکر کرنا کافی تھا کہ یہ بھی صفائی وستھرائی کے فطری امور میں سے ہیں ،غیر ضروری تفصیلات ،علتوں ، حکمتوں اور صفائی کے قدیم و جدید طریقے ذکر کرنے کی بجائے اتنی بات لکھ دیناکافی تھا جس سے بغل اور زیر ناف بالوں کی صفائی و ستھرائی کا ضروری ہونا معلوم ہوجائے۔ کیونکہ یہ مجموعہ نو مسلموں کے لئے ترتیب نہیں دیا گیا کہ جن کو ہر چیز تفصیل سے سمجھانی پڑے ، بلکہ یہ ایک ایسے مسلم معاشرے کے لئے ہے، جس میں صفائی کا ضرورت مند ہر مسلمان صفائی کے طریقے کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔
۳… ” ختنہ کروانا“ کے زیر عنوان ختنہ کروانے والے کے لئے مرد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، حالانکہ مسلمانوں میں عموما بچپن ہی میں ختنہ کرنے کا رواج پایا جاتا ہے، اکاد کا واقعات کے علاوہ ختنہ کرنے کے لئے بچپن سے بڑھ کر بالغ ہونے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔،لہٰذا ” مرد“ کی تعبیر بدل کر ”بچے “ کی تعبیر استعمال کرنی چاہیے۔
۴… انسانی صحت اور جسمانی قوت کی تباہی اور لا علاج امراض پیدا ہونے کے جہاں اور اسباب ہیں، وہیں ایک بڑا اور مہلک سبب جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مرض” ایڈز“ ہے، جس کی تباہ کاریوں سے مسلم معاشرے کو تحفظ دینا خاندانی فلاح و بہبود کے مقاصد کی برآری میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ اس لئے خاندانی فلاح و بہبود کے لئے خاندانی منصوبہ بندی کے بظاہر خوش نما لیکن درحقیقت مسلم سوسائٹی کے لئے تباہ کن نعرے لگانے کی بجائے اس طرف اصل توجہ ہو نی چاہیئے کہ خاندانی نظام کی چولیں ہلادینے والے امر یعنی” جنسی بے راہ روی“ کی روک تھام کیسے ممکن ہو ، اس کے لئے کیا اسباب اختیار کئے جائیں اور کن وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
لیکن افسوس کامقام یہ ہے کہ ہمارے ملک میں” جنسی بے راہ روی“ کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کے سامنے بندباندھنا توکجا، الٹا اسے حدود آرڈیننس کے ترمیمی بلوں کے ذریعے تحفظ دے دیا گیا ہے، جنسی بے راہ روی، ناجائز اولاد پیدا کرنے کی مذمت اور اس کے انسداد کی بجائے خاندانی فلاح و بہبود کے لئے خاندانی منصوبہ بندی اور غربت کے خاتمے کے لئے صرف جائز اولاد کی روک تھام کرنے کوہی اولین ترجیح دی جارہی ہے ،جو کسی طرح بھی اسلامی مزاج و مذاق سے میل نہیں کھاتی ،بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ سراسر خاندان کی اسلامی فلاح و بہبود کے منافی ہے۔
خاندانی فلاح و بہبود کا تصور اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ معاشرتی اور خاندانی نظام کو جنسی آزادی اور شہوانی خواہشات پورا کرنے کے ناجائز اور غیر اسلامی طریقوں سے بالکل پاک نہ کر دیا جائے اور اسلام نے نکاح کی شکل میں مسلم معاشرے و خاندان کی بقاء کا ضامن ، عزت و عصمت کے تحفظ اور عفت و پاکدامنی حاصل کرنے کا جو بہترین راستہ بتلایا ہے، صرف وہی اختیار نہ کر لیا جائے۔لہٰذا اسلامی نظریاتی کونسل اپنے قیام کے مقاصد کو پورا کرتے ہوئے اس طرف خصوصی اور بھر پور توجہ دے، تاکہ خاندانی بہبود آبادی کا پروگرام اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ ترقی پذیر ہو کر پایہ تکمیل کو پہنچے۔
۵… قرآن کریم، احادیث اور دیگر تفسیری و تشریحی عبارتوں کے ذکر کرتے وقت ان کے اعراب یعنی زیر زبر پیش وغیرہ کو ٹھیک ٹھیک لگانے کا اہتمام ضروری ہے، چنانچہ” بچوں پر سختی “ کے عنوان کے تحت جو حدیث ذکر کی گئی ہے ،اس میں لفظ”مرّوا“ (تشدید کے ساتھ) ذکر گیا ہے۔ جبکہ صحیح ” مروا“ (بلا تشدید)ہے۔
۶… اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا دارالا سباب ہے ،جس میں پیش آمدہ ہر واقعے اور حادثے کا کوئی نہ کوئی سبب اور پس منظر ضرور ہو تا ہے، جیسا کہ مجموعہ ہٰذا میں اسلامی ممالک کودر پیش غربت کے خوفناک مسئلے کا سبب معاشی عوامل کے نظر انداز کرنے کو بتلایا گیا ہے ،لیکن اس کی تلافی اور حل کے لئے صرف اس بات پر ہی زور دینا کہ مسلمان” تنظیم نسل“ کے لئے بچوں کی افزائش میں کمی کریں، تاکہ مسلم ممالک کو درپیش غربت کا خاتمہ ہوسکے، درست نہیں ، بلکہ اس کے حل کے لئے غربت کے انفرادی، معاشرتی ، اجتماعی او رملکی اسباب کی نشاندہی کرنی چاہیے، خلفاء راشدین علیہم الرضوان، اسلامی تاریخ کے عادل وانصاف پسند امراء و سلاطین کے حالات اور ان کے قائم کردہ تقسیم دولت کے نظام کا مطالعہ کرکے تجاویز مرتب کی جائیں، سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی طبقاتی تقسیم کو ختم کیا جائے اور زکوة ،عشر ، خراج بیت المال وغیرہ اسلامی اصطلاحات کو امانت و دیانت کے ساتھ جاری کرنے کا منصوبہ بنا لیا جائے تو غربت کا یہ عفریت یقینا قابو میں آسکتا ہے۔
” آیات رزق“ سے علماء اسلام نے جو کچھ سمجھا اور لکھا ہے ، دیگر آیات و احادیث اور سلف صالحین ہی کی تشریحات کی روشنی میں لکھا ہے کہ فقرو فاقے کے خوف سے افزائش نسل میں کمی کرنے کی بجائے ان کی معاشی کفالت کا بندو بست کرنا چاہیے، چنانچہ التحریر والتنویر میں علامہ طاہر بن عاشور لکھتے ہیں:
”وجملة ” نحن نرزقکم وایاہم“ معترضة، مستانفة، علة للنہی عن قتلہم ، ابطالا لمعذرتہم، لان الفقر قد جعلوہ عذرا لقتل الاولاد ومع کون الفقر لا یصلح ان یکون داعیا لقتل النفس فقد بین الله انہ لما خلق الاولاد فقد قدر رزقہم ،فمن الحماقة ان یظن الاب ان عجزہ عن رزقہم یخولہ قتلہم ، وکان الاجدر بہ ان یکتسب لہم ( ابن عاشور/ التحریر والتنویر/ الجزء الثامن ،ص:۱۵۹)
اس واضح اور صاف مفہوم و مطلب کو مجموعہٴ ہٰذا کے موٴلف کے صحیح نہ کہنے اور اپنی رائے کو اس کے مقابلے میں صحیح باور کرانے سے دراصل ان علماء دین کی ٹھوس علمی منزلت اور مقام و مرتبے پر شک کی چوٹ اور امت مسلمہ کی ان سے قلبی وابستگی اور ان پر ان کے پختہ اور مضبوط اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔
۷… ” شادی کی عمر بلوغ یارشد“ کے زیر عنوان شادی کی عمر کے لئے” بلوغت“ کی بجائے” رشد“ کو معیار قرار دیکر اس کی حکمتوں اور علتوں سے جو بحث کی گئی ہے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں رواج یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی شادی ایسی عمر میں کراتے ہیں جب وہ اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے اور شادی کے معاملات نمٹانے کے قابل ہو چکے ہو تے ہیں۔ لیکن بچپن میں یا بالغ ہونے کے فوراً بعد شادی کرنے کا اگر کہیں رواج بھی ہو تو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہونے کی بناء پر یہ بھی جائز ہے، اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا نکاح ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ نے چھ سال کی عمر میں حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کردیا تھا، حضرت قدامہ بن مظعون رضی الله عنہ نے حضرت زبیر رضی الله عنہ کی بیٹی سے اسی دن نکاح کر لیا تھا، جس دن وہ پیدا ہوئی تھیں۔( علی القاری، مرقاة :۶/۲۹۴، کتاب النکاح، باب الولی ، الفصل الاول، ط: رشیدیہ کوئٹہ)
اسی طرح رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی چچا زاد بہن امامہ بنت حمزہ رضی الله عنہما کا نکاح بچپن ہی میں عمر بن ابی سلمہ سے کیا تھا،( ابن الہمام/ فتح القدیر:۱/۲۷۶ ، کتاب النکاح ، باب الاولیا والاکفاء، ط: دار الفکر)
اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کل ہر لڑکے اور لڑکی کے برابر کا جوڑ ملنا خاصا مشکل ہے، اس لئے اگر بچپن میں یا بالغ ہونے کے بعد برابری کا جوڑ ملنے پر ان کی شادی کرادی جائے تو اس سے ان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہونگے اور خاندانی فلاح و بہبود کا مقصد بھی حاصل ہو سکے گا۔ لہٰذا صرف یہ عذر پیش کرکے کہ” شادی صرف جنسی تسکین کے لئے نہیں“ بلوغت یا بچپن میں شادی کرنے کی بجائے سن رشد کو معیار اور ضابطہ بنالینے سے دین اسلام کے احکام کو معطل کرنے اورشرعی گنجائشوں کو قانون کے خول میں بند کرنے کا ارتکاب لازم آرہا ہے۔ اس لئے جائز احکام کو جائز ہی رہنے دیا جائے، اپنی طرف سے معیار اور ضابطے بنا کر احکام کی آزادی کو ختم نہ کیا جائے۔
۸… ” منع حمل کے مصنوعی ذرائع“ :۔ خاندانی بہبود آبادی اور خاندان کے نظم و تنظیم کے تحت اس موضوع کو غیر معمولی تفصیل سے ذکر کرنے سے یہ بات بادی النظر میں سمجھی جا سکتی ہے کہ خاندان کی تنظیم کا اساسی اور بنیادی ستون اسی کو قرار دیا جا رہا ہے، اور مسلمانوں کو افزائش نسل میں کمی اور بچوں کی شرح پیدائش پر کنٹرول کرنے کے لئے منع حمل کے ذرائع استعمال کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاندانی تنظیم کے لئے اس پہلو سے ہٹ کردیگر پہلو بھی ہیں ،جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
دوسری بات یہ ہے کہ عزل وغیرہ کے ذریعے منع حمل کی تدابیر اختیار کرنا کوئی قانونی یا شرعی امر نہیں بلکہ یہ نجی سطح پر میاں بیوی کا انفرادی عمل ہے، جس کی اجازت مخصوص حالات و اعذار اور جزوی مواقع میں بلاکراہت دی گئی ہے، جیسا کہ اس کی مثالیں ص: ۶۵ پر مفتی رشید احمد صاحب اور مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہا الله کے فتاویٰ میں موجود ہیں۔ضرورت کی بناء پر منع حمل کی تدابیر اختیار کرنے سے کسی عالم و مفتی نے منع نہیں کیا، لیکن ان ” خاص حالات و اعذار“ سے صرف نظر کرکے عزل اور منع حمل کی دیگر تدابیر کو علی الاطلاق بالکل ہی جائز قرار دینا ور اس کو فقہی مسالک کا متفقہ فیصلہ بتانا محل نظر ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ عام حالات میں معاشی تنگی، متوقع بیماریوں اورغیر یقینی جسمانی کمزوریوں کی بنا پر مانع حمل ذرائع اختیار کرنے کا مشورہ دینا اور اس کو قانونی شکل دینے کی سعی پیہم کرنا اسلام کی دیگر واضح تعلیمات کے بھی خلاف ہے، کیونکہ اسلام میں جہاں چار سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت ہے، وہیں اولاد کی کثرت کو ہادی عالم صلی الله علیہ وسلم نے قیامت کے دن اپنے لئے دیگر امتوں پر باعث افتخار بتایا ہے، اور شادی کے لئے ایسی عورتوں کے انتخاب کی ترغیب دی ہے جو بکثرت بچے جننے والیاں ہوں۔ لہٰذا ان واضح اور ٹھوس تعلیمات پر عمل کرنا ایمانی تقاضا ہے اور یہی مسلمان کے ضمیر کی آواز ہے۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۱ھ - مئی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: شریعت میں DNAٹیسٹ کی حیثیت !
Flag Counter