Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ - مئی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

1 - 12
عدل وانصاف کی اہمیت !
عدل وانصاف کی اہمیت


محدث العصرحضرت مولاناسید محمد یوسف بنوریکایہ مضمون قند مکرر کے طورپربصائر وعبر کی جگہ دیاجارہاہے۔ (ادارہ)

الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ان سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے، ان میں سرفہرست ”امام عادل،، کا نام آتا ہے،وہ حدیث درج ذیل ہے:
”عن ابی ہریرة  عن النبی ا قال: ”سبعة یظلہم الله فی ظلہ، یوم لاظل الا ظلہ، امام عادل، وشاب نشأ فی عبادة الله، ورجل قبلہ معلق بالمسجد، ورجلان تحابا فی الله اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ، ورجل دعتہ امرأة ذات حسب وجمال فقال: إنی أخاف الله ، ورجل تصدق بصدقة فأخفاہا حتی لاتعلم شمالہ ما تنفق یمینہ، ورجل ذکر الله خالیاً ففاضت عیناہ،،۔ (صحیح بخاری:ج:۱،ص:۱۹۱)
ترجمہ:۔”حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ۱…عادل بادشاہ، ۲…وہ جو ان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھاہو، ۳…وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لٹکاہوا رہتا ہے، ۴…ایسے آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی، اسی کے لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے…۵…وہ آدمی جس کو کسی صاحب ِ حسب وجمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا مجھے خدا کا خوف ہے، ۶…وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی اور ۷…وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں ابل پڑیں،،۔
عدل درحقیقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے:
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”شہد الله انہ لا الٰہ الا ہو والملائکة واولوا العلم قائماً بالقسط، لا الٰہ الا ہو العزیز الحکیم،،۔ ( آل عمران:۱۸)
ترجمہ:۔”اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے، کسی کی بندگی نہیں سوا اس کے، زبردست ہے، حکمت والا،،۔
حق تعالیٰ شانہ خود عادل ہے، اس کا نازل کردہ قانون (شریعت محمدیہ) سراپا عدل ہے، اس لئے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔
قرابت کے موقع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں اور وہ جنبہ داری کی خاطر عدل وانصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی نازک صورت حال میں بھی عدل وانصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے، جیساکہ ارشاد ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء للّٰہ ولو علیٰ انفسکم اوالوالدین والاقربین، ان یکن غنیاً او فقیراً فالله اولیٰ بہما، فلاتتبعوا الہویٰ ان تعدلوا،،۔ (النساء:۱۳۵)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کی طرف کی، اگرچہ نقصان ہو تمہارا یا ماں باپ کا یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیر خواہ تم سے زیادہ ہے، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں،،۔
اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عموماً بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے لئے آدمی ہر جائز وناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل وانصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں،جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا کونوا قوامین لله شہداء بالقسط ولایجرمنکم شنآن قوم علی ان لاتعدلوا، اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ، واتقوا الله ان الله خبیر بما تعملون،،۔ (المائدہ:۸)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو ،عدل کرو ، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے، اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو،،۔
نظام عالم اور عدل وانصاف
دراصل کائنات کا نظام ہی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، نظام عالم کے لئے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں، بلاشبہ حاکم عادل کا وجود اس عالم کے لئے سایہ ٴ رحمت ِ الٰہی ہے اور کسی عدل کش حاکم کا تسلط عذابِ الٰہی ہے جو بندوں کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے:
”شامتِ اعمال ما صورتِ نادر گرفت،،
کسی زمانے میں مطلق العنان بادشاہ کو من ”لمن الملک،، بجاتے تھے اور آئین وقانون ان کے اشاروں پر رقص کرتا تھا، لیکن دور جدید نے ملوکیت کو جمہوریت میں بدل ڈالا، آئین ودستور وضع کئے گئے، بادشاہت کی جگہ کہیں دور صدارتی نظام رائج ہوا اور کہیں وزارتی نظام نافذ کیا گیا، گویا دورِ قدیم کے شہنشاہ کا منصب دورِ جدید کے صدرِ مملکت یا وزیر اعظم کو تفویض ہوا، فرق یہ پڑا کہ دورِ قدیم میں بادشاہ اوپر سے آتے تھے اور دورِ جدید میں نیچے سے جاتے ہیں، لیکن عدل وانصاف محسن ملوکیت یا آج کی جمہوریت کا نام نہیں، بلکہ اس کا مدار خدا ترس اور عدل پر ور اربابِ اقتدار پر ہے، حاکم اعلیٰ عدل وانصاف کے جوہر سے مالامال ہو تو ملوکیت بھی رحمت ہے ،یہ نہ ہو تو جمہوریت بھی چنگیزی کا روپ دھار لیتی ہے، جس طرح مملکت کی آبادی وشادابی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، اسی طرح اشخاص کی بقاء وفلاح عدل وانصاف کی رہین منت ہے۔
قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب
کسی مملکت کی تباہی وبربادی کے عوامل کا جائزہ لیجئے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی:
۱:… قوم کا فسق وفجور ، ۲:…اور حکمرانوں کا ظلم وعدوان، جب کوئی قوم خدافراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، الٰہی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق ومعصیت کے نشہ میں بدمست ہوکر حلال وحرام اور جائز وناجائز کی حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر ظالم حاکم مسلط کردیئے جاتے ہیں، قرآن کریم میں کسی قوم کی تباہی وبربادی کے بارے میں ایک قانون ِ عام بیان فرمایاہے:
”واذا اردنا ان نہلک قریة امرنا مترفیہا ففسقوا فیہا فحق علیہا القول فدمرنٰہا تدمیرا،،۔ (بنی اسرائیل:۱۶)
ترجمہ:۔”اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچاتے ہیں، تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے، پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کرڈالتے ہیں،،۔
قوم کا فسق وفجور اور ملوک وسلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی وبربادی کا ذریعہ بنتاہے، ظلم واستبداد کی چکی میں پہلے سرکش قوم پستی ہے، بالآخر یہی چکی ظالم وجابر کو بھی پیس ڈالتی ہے، اہل دانش کا قول ہے کہ کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے ،مگر ظلم واستبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
درحقیقت کائنات کا حقیقی تصرف واقتداراللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے، حدیث میں ہے کہ ”اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا،،۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کے لئے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہوجاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہامان اور شداد ونمرود کو جانے دو۔ ماضی قریب میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ سمٹاکر ایک چھوٹے سے جزیرے میں پناہ گزین ہے، خود ہماری مملکتِ خداداد پاکستان کی چھوٹی سی عمر میں جابر حکمرانوں کی بے بسی کے عبرتناک مظاہر سامنے آتے رہے ہیں، کیا سکندر مرزا ، غلام محمد، ایوب خان اور یحی خان کے قصوں کو دنیا بھول جائے گی۔
حکومت کی بقاء کے لئے عدل وانصاف ضروری ہے
بہرحال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کے لئے بے حد ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار عدل وانصاف کو قائم کریں اور قوم فسق ومعصیت کا راستہ ترک کرکے انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے۔ دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤنوش، فسق وفجور اور فحاشی وبدکاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہولناک ہوا، پاکستان کی پاک سرزمین جو حق تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی، اس کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں عدل وانصاف کا دور دورہ ہوتا، پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا، تقویٰ وطہارت کی فضا قائم ہوتی، راعی اور رعایا اسلام کا سچا نمونہ پیش کرتے اور یہ مملکتِ خداداد دورِ جدید میں اسلام کی نشأةِ ثانیہ کی علمبردار ہوتی، لیکن افسوس صد افسوس کہ: ”خود غلط بود آنچہ ماپنداشیتم،،
یہاں نہ صرف یہ کہ دورِ غلامی کے تمام آثارِ کفر کو جوں کا توں باقی رہنے دیا گیا، بلکہ ”آزادی کے بعد یہ فرض کرلیا گیا کہ ہم خدا ورسول سے بھی آزاد ہیں ۔ سود، قمار اور دیگر صریح محرمات کو حلال کرنے کی کوشش کی گئی ، فواحش ومنکرات کی ترویج کی گئی، سینما، ریڈیو، ٹیلی ویژن کو بے حیائی کا منّا د بنادیا گیا ، رہی سہی کسر اخبارات نے پوری کردی، شعائر دین کا مذاق اڑایاگیا، اسلامی قوانین کو مسخ کیا گیا، دین کے قزاقوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا، بے خداقوموں کی تقلید میں آزادیٴ نسواں کا پرچار کیا گیا، اسلام کے مقابلہ میں نئے نئے ازموں کے نعرے لگائے گئے اور اب تو خدافراموشی کی حالت ایسی ناگفتہ بہ صورت اختیار کرچکی کہ اس کے انجام کا تصور کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک فطری اصول ہے کہ جرم انفرادی ہو تو اس کی سزا بھی افراد تک محدود رہتی ہے اور جب قوم کی قوم ہی جرم وبغاوت کا راستہ اختیار کرے تو اس کی سزا بھی عام ہوتی ہے، یہ سزا ہمیں ایک بار سقوطِ مشرق کی صورت میں مل چکی اور ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہو پایا تھا کہ سزا کی دوسری قسط کے خطرات سر پر منڈلانے لگے۔
مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکلنے کا نتیجہ
جس طرح روح نکل جانے کے بعد لاشہٴ بے جان اپنے وجود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، بلکہ اس کے اعضاء میں انحلال وانفصال کا عمل شروع ہوجاتاہے اور بالآخر سڑگل کر منتشر ہوجاتا ہے ٹھیک اسی طرح مسلمان قوم سے اسلام کی روح نکل جائے تو نتیجہ انحلال وانتشار کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ جس طرح امریکہ ، روس اور ہندوستان کی سازش سے ہم اپنے ملک کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہوبیٹھے ہیں، اسی طرح خاکم بدہن، مزید تباہی وبربادی سے دو چار نہ ہوجائیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ عقلوں پر کیسے پردے آجاتے ہیں اور ان حقائق سے کیوں عبرت نہیں لی جاتی۔ ایک طرف پورا ملک بے چینی وبے قراری کا شکار ہے، بیم ویاس کی کیفیت طاری ہے، ہوشرباگرانی سے کمر ٹوٹ رہی ہے، خیر وبرکت اٹھ چکی ہے، یہی خطہ ٴ زمین جو دوسرے علاقوں کو غلہ فراہم کرتا تھا، خود دانے دانے کے لئے دریوزہ گر ہے، ہر چیز کا قحط ہے، باہمی الفت ومحبت اور اتحاد واعتماد نصیبِ دشمنان ہے۔ رشوت، لالچ، چوربازاری، سٹہ بازی جیسے امراض دق کی طرح چمٹے ہوئے ہیں، چوری اور ڈاکے کی وارداتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں، کیا یہ سب عذابِ الٰہی کی شکلیں نہیں؟ صد حیف کہ ان تنبیہات سے سبق نہیں لیا جاتا، بلکہ فواحش ومنکرات میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، کلبوں اور ناچ گھروں میں عریانی، بے حیائی کے دردناک مظاہر ہیں، ظلم وبربریت کی آخری حدوں کو چھویا جارہا ہے، غفلت وخدافراموشی کا نشہ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ آخر حق تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی زندگی کب تک برداشت کی جائے گی؟ اور انتقام الٰہی کی بے آواز لاٹھی کب تک تھمی رہے گی؟ گذشتہ بے خدا قوموں کے بارے میں فرمایاہے:
”الذین طغوا فی البلاد، فاکثروا فیہا الفساد، فصبّ علیہم ربک سوط عذاب، ان ربک لبالمرصاد،،۔ (الفجر:۱۲۔۱۴)
ترجمہ:۔”یہ سب وہ تھے جنہوں نے زمین میں سرکشی کی، پس اس میں بہت اودھم مچایا، پھر برسایا ان پر تیرے رب نے کوڑا عذاب کا، بلاشبہ تیرا رب گھات میں ہے،،۔
ان تمام دردناک صورتِ حال سے نجات حاصل کرنے کے لئے از بس ضروری ہے کہ راعی اور رعایا بارگاہِ ربوبیت میں توبہ وانابت اختیار کریں، اجتماعی معاصی سے یکسر پرہیز کریں اور گذشتہ گناہوں پر بارگاہِ رحمت میں توبہ واستغفار کریں، اسلامی شعائر کو بلند کریں اور غیر اسلامی نشانات کو پامال کریں، سورہ نوح میں اس قسم کے معاصی کوکثرت سے قحط وتنگ سالی جیسے عذاب کا نازل ہونا اور اس کا علاج توبہ واستغفار بتایاگیا ہے:
”فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمددکم باموال وبنین ویجعل لکم جنٰت ویجعل لکم انہاراً،،(نوح:۱۰۔۱۲)
ترجمہ:۔”(نوح علیہ السلام بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں کہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے) میں نے کہا: گناہ بخشواؤ اپنے رب سے، بے شک وہ ہے بخشنے والا، چھوڑدے گا تم پر آسمان کی دھاریں اور بڑھادے گا تم کو مال اور بیٹوں سے اور بنادے گا تمہارے واسطے باغ اور بنا دے گا تمہارے لئے نہریں،،۔
مقصد یہ کہ توبہ وانابت کی برکت سے نہ صرف آخرت کی کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی،بلکہ دنیا کے عیش وآرام کی صورتیں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل واحسان سے مہیا فرمادیں گے، دلوں کو سکون واطمینان نصیب ہوگا، اموال میں خیر وبرکت ہوگی، اولاد صالح اور خدمت گار ہوگی، آسمان سے ابر رحمت کا نزول ہوگا، پھلوں اور غلوں کی کثرت اور بہتات ہوگی، فرصت کے لمحات بہت مختصر ہیں اور فیصلے کی گھڑی سر پر آئی کھڑی ہے، اس لئے ہمیں موجودہ حالات کا صحیح علاج فوراً کر لینا چاہیئے، ورنہ ہماری ظاہری اور سطحی تدبیریں سب ناکام ہوں گی، اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت فرمائے، ہماری قوم کو فسق وفجور اور حکمرانوں کو ظلم وعدوان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ربنا اغفرلنا ذنوبنا واسرافنا فی امرنا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۱ھ - مئی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 
Flag Counter