Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

9 - 11
چند اہم اسلامی آداب !
چند اہم اسلامی آداب
(۸)

ادب :۲۴
جب آپ کسی بیمار کی تیمار داری کریں تو یہ نہ بھولیں کہ تیمار داری کے بھی کچھ آداب ہیں، جو کہ تیمار داری کرنے والے سے مطلوب ہیں ،تاکہ یہ تیمار داری مریض کے لئے نشاط کا ذریعہ بنے اور اس کی ہمت کو بڑھائے ،اور اس کی تکالیف کو ہلکا کرنے میں مدد گار ہو۔ اور یہ اس اجر و ثواب کے علاوہ ہے جو اسے صبر کرنے اور اجر کی نیت پر ملتا ہے۔
مریض کی تیمار داری کرنے والے کو چاہئے کہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھہرے، کیونکہ مریض کے مرض کے بعض حالات ایسے ہوتے ہیں، جو زیادہ دیر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے ،مریض کی عیادت کی مثال جمعہ کے خطیب کے جلسہ کی سی ہے یعنی جس طرح وہ دو خطبوں کے درمیان مختصر اور ہلکا سابیٹھتا ہے، اسی طرح مریض کے پاس بھی مختصر وقت بیٹھنا چاہیئے، اس سلسلہ میں عربی کے چند اشعار ہیں:
”ادب العیادة ان تکون مسلما وتکون فی اثر السلام مودعا“ ترجمہ:۔” تیماداری کے آداب میں سے یہ ہے کہ مریض کو سلام کرو ،اور سلام کے بعد اسے الوداع کہہ دو،نیز کہا گیا ہے:
”حسن العیادة یوم بین یومین
واقدر قلیلا کمثل اللحظ با لعین
لا ُتبرَ منَّ علیلا فی مسأ لة
یکفیک من ذاک تسالہ بحرفین“
ترجمہ:۔” تیمار داری کا حسن ایک دن چھوڑ کر ہے، اور مریض کے پاس اتنا تھوڑا بیٹھو جیسے آنکھ جھپکنے کا وقت ،اور مریض سے سوالات کرکے اسے پریشان مت کرو، پس دوحرفی سوال کافی ہے،یعنی تیمار داری کرنے والا مریض سے کہے: آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے ۔“
حافظ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالیٰ نے” الکافی “ میں لکھا ہے :” جو شخص کسی تندرست سے ملاقات کرے یا کسی بیمار کی تیمار داری کرے تو اسے چاہئے کہ جہاں وہ اسے بیٹھائے وہاں بیٹھے، کیونکہ ہر شخص اپنے گھر کے پردہ کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔
بیمار کی عیادت سنت موٴکدہ ہے ،اور سب سے اچھی عیادت وہ ہے جو مختصر ہو، تیمار دار کو چاہئے کہ بیمار کے پاس زیادہ نہ بیٹھے ۔ الا یہ کہ وہ اس کا دوست ہو، جو اس سے مانوس ہے ،اور اس کے بیٹھنے سے وہ خوش ہو تا ہو۔
ادب :۲۵
تیمار داری کرنے والے کو چاہئے کہ اس کا لباس، صاف ستھرا ہو، اور ہلکی پھلکی خوشبو والا ہو، تاکہ مریض کی طبیعت میں انشراح پیدا ہو، اور اس کی صحت میں اضافہ ہو، اور یہ مناسب نہیں کہ مریض کے پاس ایسے لباس میں جائے جو عموماً خوشی اور شادی وغیرہ کی مناسبت سے پہنا جاتا ہے،اور ایسی تیز خوشبو بھی نہ لگا کر جائے جس سے مریض پر یشان ہوجائے، کیونکہ وہ اپنی کمزوری اور عدم تحمل کی وجہ سے ایسی خوشبو برداشت نہیں کرسکتا۔
نیز تیمار دار کو چاہئے کہ مریض کو ایسی کوئی خبر نہ سنائے اور نہ ہی اس کے پاس بیان کرے ،جس سے وہ غم اور فکر میں پڑ جائے ،جیسے تجارت میں نقصان کی خبر جس میں اس مریض کا بھی حصہ ہے ،یا کسی کی وفات کی خبر ،یا کوئی بھی مریض سے متعلق بیکار خبر ،یا اسی طرح کی خبر جو مریض کے غم کا ذریعہ بنے یا جس سے اس کی صحت اور جذبات پر اثر پڑے۔
نیز تیماردار کو مناسب نہیں کہ وہ بیمار سے اس کے مرض کے بارے میں تفصیلی سوال کرے ،کیونکہ اس سے مریض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ،ہاں اگر وہ ڈاکٹر ہے جو اس مرض کا اسپیشلسٹ ہے تو وہ پوچھ سکتا ہے۔
نیز تیمار دار کو یہ بھی مناسب نہیں کہ مریض کو کسی دواء یا غذاء کے استعمال کا مشورہ دے ، اس بناء پر کہ خود اس کو اس سے نفع ہوا ہے، یا کسی دوسرے سے اس کے فائدہ کا سنا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ مریض اپنی ناسمجھی یا بیماری کی شدت سے اسے استعمال کرلیتا ہے، اور اس دواء سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے، یا معالج اور ڈاکٹر کے علاج میں خلل پڑ سکتاہے،اور کھبی مریض کی ہلا کت تک نوبت آجاتی ہے۔اور یہ بھی مناسب نہیں کہ مریض کے سامنے اس کے معالج ڈاکٹر سے تکرار کرے ،جب کہ وہ خود ڈاکٹر اور متخصص نہیں ہے، اس سے مریض کے نفس میں اپنے ڈاکٹر کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔
ادب:۲۶
جب آپ اپنے کسی دوست ، رشتہ دار یا متعلقین میں سے کسی کو ناخوشگوار خبر یا افسوسناک حادثہ ،یا اس کے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی وفات کی خبر بتانے پر مجبور ہوں تو اسے یکدم خبر نہ سنائیں بلکہ اسے لطیف انداز میں پیش کریں ،پہلے ایک تمہید باندھیں جس سے مصائب کے نزول کے اثرات میں کمی آئے، مثلاً آپ اس سے کہیں: بھائی! سنا ہے فلان صاحب بہت سخت بیمار تھے ،پھر ان کی حالت زیادہ خراب ہو گئی،اب سنا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ لیکن بعض لوگوں کی طرح یہ انداز اختیار نہ کریں کہ اس سے یوں کہیں: آپ کو معلوم ہے کہ آج کس کی وفات ہو ئی ہے؟ یا ملتے ہی یوں کہے کہ آج فلاں صاحب وفات پاچکے ، بلکہ مناسب یہ ہے کہ پہلے اس شخص کا نام لیں جس کی وفات کا آپ ذکر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر آپ نے یہ کہا :کہ آپ کو معلوم ہے کہ آج کس کی وفات ہوئی ہے؟ یا یہ کہا : کہ آج فلاں کی وفات ہو گئی ہے، تواس کے ذہن میں فوراً پریشان کن خیالات آئینگے ،اور وہ یہ سمجھے گا کہ اس کے کسی قریبی رشتہ دار کی وفات ہو ئی ہے۔ جو بیمار تھایا بوڑھا تھا یا جوان تھا، تو آپ کے اس سوالیہ طرز یا اس خبر سے وہ بہت سخت پریشان ہو گا۔
لیکن اگر آپ نے نام لے کر اسے وفات کی خبر دی تو اس کا اثر ہلکا ہو گا، اور پریشانی سے محفوظ ہو جائے گا۔اور اصل خبر ،جو غم لا نے والی ہے، یا ناپسندیدہ ہے وہ کم رہ جائیگی۔
اسی طرح جب آپ خدانخواستہ آگ لگنے ،پانی میں کسی کے غرق ہو نے یا کسی دوسرے افسوسناک حادثہ کی خبر دیں تو اس کی تعبیر کے الفاظ کا خاص خیا ل رکھیں۔ اور خبر دینے سے پہلے ایسی تمہید باندھیں جس سے مخاطب پر اس حادثہ کے اثرات کم ہوں ،بڑے نرم انداز میں حادثہ میں متاثر شخص کا نام لیں۔ اور یکدم اپنے دوست رشتہ دار یا اپنے ہم مجلس حضرات کے کانوں کو اس تکلیف دہ خبر سے نہ کھٹکھٹائیں، کیونکہ بعض کمزور دل حضرات میں ایسی خبر کے سننے کی طاقت کمزور ہو تی ہے، اور بعض اوقات بعض حضرات کو خبر سن کر بے ہو شی کا دورہ پڑجاتا ہے ، لہٰذا اگر آپ کو مجبور اً ایسی افسوسناک خبر دینی پڑ جائے تو نہایت نرم اور معقول انداز میں اسے خبر دیں۔
اسی طرح افسوسناک خبر سنانے کے لئے مناسب وقت کا انتخاب کریں، لہٰذا ایسے وقت میں اسے خبر نہ سناوٴ جب وہ کھانا کھا رہا ہو،یا سونے کی تیاری کررہا ہو، یا بیمار ہو، یا پریشانی کی حالت میں ہو ،یا اس قسم کی کوئی کیفیت ہو، ایسی حالت میں آپ کی عقلمندی اور حکمت کا ظہور ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی ہو، اور آپ کی راہنمائی فرمائے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: حضرت مولانا سرفرازخان صفدر بحیثیت مفسر قرآن کریم !
Flag Counter