Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

7 - 11
قرآن کا مدار عام عربی گفتگو ہے !
قرآن کا مدار عام عربی گفتگو ہے


حضرت شیخ فرمایا کرتے تھے کہ:قرآن کریم اگرچہ بہت سے لطیف دلائل وبراہین کو متضمن ہو جو فلسفیانہ ذوق ومزاج والوں کے لیے مفید ہیں، لیکن اس کے باوجود قرآن کریم کے ان لطیف دلائل کو مقصد وفائدہ اور معیار ومدار قرار نہیں دیا جاسکتا ،البتہ جو شخص خوب غور وفکر کرے گا اور قرآنی خفیہ اسرار ورموز میں غوطہ زن ہونا چاہے گا تو اس کو قرآن کریم میں ایسے روشن اور منور دلائل ملیں گے جس سے قرآن کریم پر اس کے ایمان ویقین میں پختگی اور قوت حاصل ہوگی۔
بہرحال قرآنی نظم کو عام ماحول میں جاری وساری عربی گفتگو کے مطابق ہی لایا گیا ہے، جس میں مخفی براہین ودلائل کے بجائے ان مسلم قواعد وضوابط اور دلائل وحجج کو پیش کیا جاتا ہے ،جو اہل عرف میں مسلم ومقبول ہوں ،یہ تعبیر گذشتہ پیش کردہ تعبیر( کہ قرآن کریم کا ظاہری انداز خطیبانہ ہے اور باطنی طور پر قرآن کریم براہین کا خزینہ ہے )سے بہتر ہے اگرچہ ”ظہر،، اور ”بطن،، کا لفظ حدیث نبوی میں وارد شدہ ہے، لیکن موضع بحث میں اس طرح ظہر وبطن کی تعبیر سے یہ واہمہ گذرسکتا ہے کہ اللہ جل شانہ نے ان دونوں کواپنے کلام میں بطور مدار ومعیار پیش فرمایا ہے ۔
خلاصئہ بحث یہ ہے کہ: قرآنی آیات کے مطالب ومعانی تو وہ ہیں جو عام عرف میں عربی طرز گفتگو کے مطابق ہوں اور اسی کو تفسیر قرآن کا مدار ٹھہر ایاجاتاہے ،پھر قرآنی معارف وعلوم کی تفسیر کے لئے نظم قرآنی میں پائے جانے والے اشارات وکنایات کی روشنی میں ان لطائف واسرار کا ادراک کیا جاتا ہے جو بحر ناپیدا کنار کی مانند قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اور بلاشک وشبہ استدلال واحتجاج میں اس انوکھے اسلوب کا پیش کرنا جو تمام طبائع کے موافق ہو ،یعنی جو ایک بلندپایہ حکمت دان اور ایک ادنی انسان کے فہم کے مطابق ہو، بہت ہی دشوار گذار اور پیچیدہ ہوا کرتا ہے ۔ بشری قدرت کے وسائلِ عقل ودانش اور فنی طور وطرق کی پہنچ اس تک نہیں ،
آیت توحید کا مدار ومقصد
حضرت فرمایا کرتے تھے کہ: باری جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: ”لو کان فیہما اٰلہة الا اللّٰہ لفسدتا“ اس آیت توحید کا مدار جیساکہ عموماً لوگ سمجھتے ہیں کہ ”تعدد اٰلہة کی صورت میں نظر آنے والا یہ محکم ومضبوط کائناتی نظام ،فساد اور تباہی کا شکار ہوکر نیست ونابود ہوجائے گا“ یہ نہیں ہے ،بلکہ اس آیت کا مقتضیٰ ومطلب یہ ہے کہ اگر اس کائناتی نظام کا چلانے والا خداوند برحق وقہار کے علاوہ کوئی ہوتا ،عام ہے کہ ایک الٰہ ہوتا یا متعدد الہة ہوتے تو یہ نظام فساد اور تعطل کا شکار ہوجاتا ،یعنی اس تعطل کا سبب صرف خدائے برحق کے نہ ہونے پر منتج ہوجائے گا ،چاہے خدا تعالیٰ کے علاوہ ایک معبود ہو یا متعددہوں ،اس آیت کا حقیقی مدار اور اساسی فائدہ اسی غرض کا مستفاد ہے ،حضرت کشمیری نے اپنے قصیدہ ”ضرب الخاتم علی حدوث العالم“ میں بھی اس معنیٰ ومقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے، فرماتے ہیں :
ولوکان الله قدقام فیھما
لقد فسد بالجور یجری لماھنا
ترجمہ:۔”اگر اللہ کے علاوہ اس نظام کا کوئی کارساز ہوتا تو آسمان وزمین کا نظام بے عدل اور ظلم کا شکار ہوکر تباہ وبرباد ہوجاتا۔
راقم الحروف عرض کرتاہے کہ: علمائے نحو نے جو یہ کہا کہ اس آیت میں ”الاّ“ استثنائیہ نہیں بلکہ ”صفت،، کے بیان کے لئے ہے جوکہ ”غیر،، کے معنی میں ہوتا ہے ،اس میں بھی یہی راز مضمر ہے کہ اگر یہاں پر الا کو استثناء پر محمول کیا جائے تو آیت کا مفہوم یوں ہوگا :
”اگر آسمان وزمین میں متعدد الہ ہوتے اور ان میں اللہ جل شانہ نہ ہوتے تو فساد برپا ہوجاتا،،
اس مفہوم سے ایک دوسرا پہلو بھی حاصل ہوگا اور وہ یہ کہ اگر اس متعدد آلہہ میں سے اللہ جل شانہ کا استثناء کیا جاتا، بلکہ اللہ رب العزت بھی ان میں بطور ایک الٰہ ہوتے اور ان کے ساتھ کار فرما ہوتے تو فساد برپا نہ ہوتا ،ایسی صورت میں آیت کو توحید محض پر کیسے دلیل قرار دیا جاسکتا ہے ،اس تقدیر پر تو یہ ممکن ہے کہ زمین اور آسمان میں متعدد اٰلہہ کو مستثنی کیے بغیر ہوسکتے ہیں جوکہ سراسر ایک باطل معنی ہے لیکن اگر ”الا،، کو ”غیر،، کے معنی پر حمل کیا جائے، تب معنی یوں حاصل ہوگا کہ :
”اگر اللہ برحق بزرگوار کے علاوہ کوئی کارساز ہو، چاہے ایک ہو یا بہت ہوں ،چاہے اللہ رب العزت ان کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں ،بہرصورت آسمان وزمین کا یہ نظام تباہ وبرباد اور محض تعطل کا شکار ہو جائے گا اور کائنات کا یہ محیر العقول محکم ومضبوط نظام درہم برہم ہو جائے گا ،جیساکہ باری جل شانہ کا فرمان اقدس ہے:
”وما کان معہ من الٰہ اذا لذہب کل الٰہ بما خلق ولعلا بعضہم علی بعض،،
آیت کا ظاہری مقصد ومنشأاسی غرض ومطلب کا بیان ہے، البتہ آیت کے مفہوم سے تعدد کے بطلان کا بھی فائدہ حاصل ہو رہا ہے ،اسی طرح سمجھ لینا چاہئے اور خوب یاد رکھنا چاہئے۔
پھر اس برہان تمانع کے ،جس کی طرف اس آیت کریمہ کے ذیل میں اشارہ کیا گیا ہے ،متعدد طرق اور محامل ہیں، جن کی علمائے امت نے خوب تحقیق وتشریح فرمائی ہے ،انہی طرق میں سے بعض ظنی ہیں اور بعض قطعی ہیں۔
امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر ”التفسیر الکبیر“ میں برہان تمانع کی۲۰ سے کچھ اوپر وجوہ بیان فرمائی ہیں ،جن میں بعض طرق برہانی اور بعض اقناعی ہیں ،اس تفاصیل کے متعلق سیرابی کے حصول کے لئے اسی تفسیر کی طرف مراجعت کی جا سکتی ہے، جو شخص اپنی پیاس بجھانا چاہے ،مراجعت کرلے ۔
واللّٰہ الموفق والہادی الی سواء الطریق
قرآن کریم کی مقدار معجز
جان لینا چاہئے کہ علمائے امت کا اس بارے میں اختلاف رائے ہوا ہے کہ کتنی مقدار قرآن کریم کی معجز ہے۔
امام باقلانی نے اپنی کتاب ”اعجاز القرآن،، (ص:۱۹۸) مطبوعہ سلفیہ) میں چند آراء بیان فرمائی ہیں، ہمارے حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ: میرے نزدیک قرآن کریم کی سب سے چھوٹی آیت معجز ہے ،ہاں اس جہت سے اور اس مقدار میں اعجاز بہت ہی پوشیدہ ہے ،اور کبھی کبھار اس اعجاز کی تحقیق ماہر علماء پر بھی مخفی رہا کرتی ہے اور اصل ہدف اعجاز صرف اس شخص پر نمایاں ہوتا ہے جس نے معانی ومفاہیم کی باریکیوں میں غور وخوض کیا ہو، اور علم بیان اور علم معانی کے سمندر میں غوطہ زن ہوا ہو اور مسلک اعجاز کی تمام جہات کی رعایت رکھنے پر بھی قدرت رکھتا ہو۔
حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ: امام الائمہ فقیہ الامة حضرت امام ابوحنیفہ سے منقول یہ مسئلہ کہ قرآن کریم کی ایک آیت نماز میں فرض قراء ت کے لئے کافی ہے ،اسی طرح یہ مسئلہ کہ جنبی شخص کے لئے ایک آیت سے کم تو بطور قراء ت پڑھنا جائز ہے،البتہ ایک پوری آیت کو پڑھنا صرف بطور دعاء اور ثناء جائز ہے ،بطور تلاوت قرآن جائز نہیں۔
یہ دونوں مسائل عین ممکن ہے کہ اسی کلیہ پر مبنی ہوں کہ ان کے نزدیک قرآن کریم کی معجز مقدار ایک آیت ہے اور اگر واقعی اسی کلیہ پر مبنی ہو تو یہ امام اعظم کی دقت نظر اور علو شان کی نمایاں مثال ہے اور بے شک وہ فقیہ الامة ہیں، اس لئے کہ حضرت امام ابوحنیفہ قرآنی حقائق اور اسرارورموز میں خوب غوطہ زن رہے ، میں نے فقہاء میں سے کسی کو نہیں دیکھا جنہوں نے اس کی تصریح فرمائی ہو،البتہ بعض فقہاء نے اتنا ضرور فرمایا ہے کہ امام موصوف نے ا س مسئلہ کے لئے استدلال اس طور پر کیا ہے کہ ایک آیت سے کم مقدار پر قرآن کریم کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ہے، واللہ اعلم
حضرت فرماتے ہیں کہ ایک طویل آیت میں سے کتنی مقدار معجز ہے ،اس کی تعیین میں نہیں کرسکتا ہوں۔
اعجاز قرآنی کے موضوع پر خاتمہ ٴ کلام:
جان لیجئے کہ میں نے ان چند اوراق میں اعجاز کے متعلق حضرت شیخ کے فوائد کو ذکر کیا ،اور مناسب طرز پر اپنی فکر کی رسائی کے بقدر اس کلام کی میں نے شرح وتفصیل بھی بیان کردی ،شاید کہ ان مباحث کے پیش نظر آپ کو حضرت کے مشکلات کے متعلق شرح وبسط قرآنی معارف میں رسوخ اور اعجاز قرآنی کے متعلق حضرت کے وسیع افکار وخیالات کا علم ہوا ہوگا ،اسی رسوخ کی بناء پر حضرت بطور تحدیث بالنعمة فرمایا کرتے تھے:
”اللہ رب العزت نے میری طبیعت میں فصاحت وبلاغت کا وہ معیار ودیعت فرمایا ہے ،جس کی بناء پر فصیح کلام غیر فصیح سے اور بلیغ کلام غیر بلیغ سے نمایاں طور پر آشکارا ہوجاتا ہے اور میرے ذوق ووجدان کے پیش نظر میں فصیح وبلیغ کلام کی امتیازی خصوصیات اور بلندپایہ مراتب کا ادراک بخوبی کرلیتاہوں ،اس معیار مقیاس میں میں کسی کی تقلید نہیں کرتا ہوں،علمائے ادب نے کتنے ہی اشعار کی فصاحت میں طعن وقدح فرمایا، جبکہ وہی اشعار میرے خیال میں فصیح ہیں اور کتنے ہی کلمات کی بلاغت کے متعلق علمائے ادب نے جرح فرمائی ہے اور وہی کلمات میرے نزدیک بلیغ ہیں۔“
راقم الحروف کہتا ہے: اس باب کی ایک مثال ابو الطیب متنبی کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ ہے:
وتسعدنی فی غمرة بعد غمرة
سبوح لھا منھا علیھا شواھد
ترجمہ :۔”میری ہرہر مشکل میں وہ گھوڑا مدد کرتا ہے جو گویا کہ تیراک گھوڑا ہے ،اس گھوڑے کی عمدگی کے لئے اسی کے خصائل اس پر گواہ ہیں۔“
بعض علمائے فن کا دعویٰ ہے کہ یہ دوسرا مصرع بوجہ کثرتِ تکرارِ ضمائر غیر فصیح ہے ،حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ اس مصرع میں کوئی وجہ نہیں کہ جس کی بناء پر اس کی فصاحت پر طعن کیا جاسکے بلکہ یہ مصرع میرے نزدیک فصیح ہے۔ چونکہ حضرت شیخ علوم فصاحت وبلاغت میں نہایت بلند مرتبہ پر فائز تھے ،اسی بناء پر ان کو حضرت امام باقلانی کی کتاب ”اعجاز القرآن“ کا طرز تألیف کچھ زیادہ پسند نہ تھا ،اور فرماتے تھے کہ: امام باقلانی تو ائمہ متکلمین کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ،اعجاز القرآن موصوف کا فن نہیں تھا، یہ فن تو حضرت شیخ عبد القاہر جرجانی اور حضرت شیخ زمخشری کا ہے، اللہ رب العزت نے ہر فن کے لئے رجال کار پیدافرمائے ہیں، چنانچہ علم بلاغت کے رجال علیحدہ اور علم کلام کے رجال علیحدہ مرتبت ومنزلت رکھتے ہیں۔
راقم کہتا ہے کہ: حضرت شیخ کا یہ کلام بالکل اسی طرح ہے جس طرح امام ابن اثیر جزرینے ”المثل السائر، ص:۱۴۸ پر“ امام ابو الفتح ابن جنی کے متعلق فرمایا ہے کہ:
”ابوالفتح ابن جنی کے متعلق یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ”المفسر“ میں جو ابو الطیب کے اشعار کی شرح ہے ،ابو الطیب کے اس شعر کی شرح:
تبل خدی کما ابتسمت
من مطر برقہ ثنایاہا
ترجمہ:۔”محبوبہ میرے رخسار کو جب بھی وہ ہنستی ہے ایسی بارش سے ترکردیتی ہے جس کی بجلی محبوبہ کے اگلے دانت ثنایا سے نکلا کرتی ہے۔“
یوں کی ہے کہ: محبوبہ ابو الطیب کے منہ پر تھوکا کرتی تھی ،پھر ابن جنی نے یوں اظہار خیال فرمایا ہے کہ: ابو الطیب اس تھوک پھینکنے کو اس طرح بیان کررہے ہیں کہ: وہ ہنستی ہے، جس کی وجہ سے تھوک اس کے منہ سے نکل کر ابو الطیب کے چہرے پر پڑجاتی ہے، چنانچہ ابو الطیب نے تھوک کو بارش سے تشبیہ دی ہے۔
ابن اثیر فرماتے ہیں کہ: میرا نہیں خیال کہ کسی عام شخص کا بھی وہم وگمان وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک اس آدمی (ابن جنی) کا خیال پہنچا ہے ،باوجود یہ کہ امام ابن جنی علمائے عربیت میں امام تسلیم کئے جاتے ہیں، جن کی طرف طلباء رخت سفر باندھا کرتے تھے ،اب دیگر کے متعلق کیا کہا جائے گا ،جو اس طرح کے امام بھی نہ ہوں اور پھر کسی فن میں کلام کریں؟ اس لئے کہ فصاحت وبلاغت کا فن، فن نحو واعراب سے بالکل علیحدہ فن ہے ۔“انتہی
پھر ص:۱۱۳ پر یوں فرماتے ہیں:
”فصاحت کے اسرار ورموز علمائے عربیت سے نہیں لئے جاسکتے ،ان سے تو صرف نحوی یا صرفی مسائل لئے جاسکتے ہیں یا لغوی کلمہ وغیرہ کے متعلق دریافت کیا جاسکتا ہے ،فن فصاحت کے اسرار ورموز کے لئے ایک الگ قوم ہے جو اس علم میں نمایاں کار کردگی کے ساتھ مخصوص ہے۔“
نوٹ: راقم الحروف کہتا ہے: ۱۳۴۶ھ میں حضرت شیخ کا علامہ باقلانی کی ”اعجاز القرآن“ پر یہ تبصرہ میں نے سنا تھا اورمیرے دل میں حضرت شیخ کی رائے ہی اتری ہوئی تھی، اس لیے کہ میں اجمالاً حضرت شیخ کا بلند مرتبے کا معتقد تھا ،پھر جب کچھ عرصہ بعد بتوفیق خداوندی مجھے باقلانی کی اس کتاب کے مطالعہ کا موقع میسر آیا اور موصوف کی اس عالی شان کتاب کی مجھے کچھ معرفت ہوئی تو میں حضرت شیخ کے اس کتاب کے متعلق تبصرہ پر بہت تردد کا شکار ہوگیا اور میرا جو اس کتاب کے متعلق خیال تھا ،وہ ختم ہوگیا -اللہ حضرت شیخ کا مرتبہ بلند فرمائے- بہرحال بعد ازاں میں نے باقلانی کی اس کتاب کا مطالعہ دوبارہ بصد غور وفکر کیا اور حضرت شیخ کے کلام کے متعلق منتشر افکار کو جمع کیا اور ”اعجاز قرآنی“کے باب کے متعلق شیخ کے فرمودات کے متعلق جانچ پڑتال کی، پھر حضرت شیخ اور امام باقلانی کے کلام میں تقابل کیا اور ان میں امتیاز واختصاص کو جانچا ،پرکھا ،تب مجھے یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ حضرت شیخ کا تبصرہ اس کتاب کے متعلق برحق ہے ،اس لئے کہ فن اعجاز کے متعلق حضرت شیخکی معرفت بہت زیادہ ہے ،جس کی بناء پر حضرت شیخ جیسی شخصیت کو امام باقلانی کے کلام پر اعتراض کا حق بجا ہے،پھر ان امور کے متعلق میں نے غور وفکر کیا جن کی بناء پر اس کتاب پر تنقید کی گئی ہے تو خدا کا فضل ہوا کہ مجھے اطمینان بخش وجوہات مل گئیں۔ ذیل میں وجوہ کی طرف میں اجمالی طور پر اشارہ کرتا ہوں:
امر اول
امام باقلانی کی کتاب سامنے رکھئے اور بصیرت افروز گہری نظر سے اس کا مطالعہ کیجئے اور اس کی مختلف منتشر ابحاث میں غور وفکر کیجئے تو آپ پر یہ بات نمایاں ہوگی کہ امام موصوف نے اعجاز القرآن کے متعلق کوئی ایسی جدیدبات تحریر نہیں فرمائی ہے جو ان سے پہلے نہ واضح کی جا چکی ہو اور قرآنی اعجاز کے متعلق کوئی ایسا بند دروازہ نہیں کھولا ہے جو ان سے پہلے کسی نے نہ کھولا ہو اور دیگر علماء ان کے خوشہ چین ہوں، بلکہ امام خطابی، امام واسطی اور علامہ جاحظ وغیرہ جہابذہ علم بلاغت ،حضرت باقلانی کی پیش کردہ آراء ،ان سے پہلے پیش فرما چکے ہیں، البتہ اتنی بات ضرور مسلم ہے کہ علامہ موصوف نے ان حضرات کے اجمالی کلام کی تفصیل ،مبہم مقامات کی تفسیر اور ہربحث کو اس کے مناسب موقع ومرتبہ دیا ہے ،لیکن علامہ باقلانی جیسی باکمال شخصیت کے لئے یہ کوئی کارنامہ شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کتاب کے پیش نظر ان کی یہ تحریر کوئی قابل تعجب بات ہرگز نہیں ہے ،یہ بھی ممکن نہیں کہ یوں کہا جاسکے کہ موصوف کو متقدمین علماء کی اس بات کے متعلق آراء کی اطلاع نہ ہو،اس کے ساتھ ساتھ علامہ باقلانی نے چند ایسے امور میں تفصیل وتطویل سے کام لیا ہے جن کا وجوہ اعجاز سے کوئی تعلق نہیں اور قاری اس طویل توضیح سے کافی تنگدلی کا شکار ہوجاتا ہے ،اس کے بالمقابل آپ حضرت شیخ کے کلام میں باوجود غور کیجئے اور خوب جانچئے آپ ایسے امور کی بحث پائیں گے جو اس باب میں بالکل جدید ہوں گے، ان شاء اللہ۔ اور بلاشبہ آپ ان کو ان کے تحقیق کردہ امور میں اس وسیع میدان کا سب سے سائق شخص پائیں گے ،جس میں آراء وافکار کی سواریاں تھک کر نڈھال ہوجاتی ہیں ۔
امر دوم
حضرت شیخ فرمایا کرتے تھے کہ: قرآن کریم کا اعجاز میرے لئے مشرق سے طلوع ہونے والے آفتاب سے بھی زیادہ روشن اور نمایاں ہے، اس کی وجہ گذشتہ صفحات میں بیان کی جاچکی ہے اور قرآن کریم کی سب سے چھوٹی آیت حضرت کے ہاں معجز تھی اور حضرت شیخ کا معاملہ اس طرح نہ تھا کہ بعض آیات میں ان کے لئے اعجاز واضح ہو اور بعض میں پوشیدہ ہو، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ مراتب اعجاز اور بلاغت کے درجات میں حضرت شیخ کے ہاں بھی تفاوت مسلم تھا ،لیکن یہ ایک الگ بات ہے جس کا اعجاز کے پوشیدہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ۔
دوسری جانب امام باقلانی ص:۱۶۵ پر یوں گویا ہوتے ہیں :
”ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ بعض قرآن کا اعجاز بہت واضح ہے ،جبکہ بعض قرآن کا اعجاز نہایت پوشیدہ اور دقیق الادراک ہے ۔
اور ص:۱۶۳ پر یوں تحریر فرماتے ہیں :بعض قرآن میں تو اعجاز پر دلالت بہت واضح اور آشکاراہے اور آیت بھی بالکل واضح ہوتی ہے -
پھر ص:۱۹۹ پر رقمطراز ہیں: آپ غور وفرمایئے تو آپ کو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ بعض سورتوں اور آیات میں قرآنی اعجاز نمایاں تر ہے اور بعض میں پوشیدہ تر ہے ،اس بناء پر بعض سور توں اور آیات کے اعجاز کی معرفت کے لئے بہت زیادہ غور وخوض اور شدید بحث وتمحیص کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ اعجاز ادنی تامل سے واضح ہوجاتا ہے اور بعض میں نظر وبصیرت کی گہرائی درکار ہوتی ہے ،پھر لطیف وعمیق بحث وتفتیش کے بعد اعجاز واضح ہوتا ہے اور غور وخوض کرنے والا اعجاز کا ادراک حاصل کرتا ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ بعض سورتوں میں وجہ اعجاز واضح ہی نہ ہو ،ایسی صورت میں اجماع کی طرف لوٹنا پڑتا ہے اور قرآن کریم کو بلاشک وشبہ معجر کہنا پڑتا ہے یا پھر توقیفا اعجاز کا مسلک اختیار کرنا ہوتا ہے یا پھر اعجاز اس دلیل سے اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر یہ سورت معجز نہ ہوتی تو تمام عرب اس سے عاجز نہ ہو تے ۔“
اس وقت وجوہ اعجاز اور اس سے منسلک قابل قدر مباحث جو مجھ کو میسر ہوئیں ،میں نے اس مقدمے میں پیش کردی ہیں اور محض اللہ کے فضل اور حسن توفیق سے اس باب اعجاز کا گویا ایسا وقیع خلاصہ میں نے پیش کردیا ہے کہ اہل عقل ودانش کے لئے اس باب کے متعلق اب علیحدہ کتاب کے مطالعہ سے مستغنی کردیا ہے
واللّٰہ ولی التوفیق والاعانة وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی افصح العرب والعرباء وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم وتسلیما کثیرا کثیرا۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: کیا نماز باجماعت میں ٹخنے سے ٹخنا ملانا ضروری ہے؟
Flag Counter