Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

6 - 11
کیا نماز باجماعت میں ٹخنے سے ٹخنا ملانا ضروری ہے؟
کیا نماز باجماعت میں ٹخنے سے ٹخنا ملانا ضروری ہے؟

علاوہ ازیں حضرت نعمان بن بشیر کی روایت کے مطابق نمازی کا دوسرے نمازی کے ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے حقیقتاً ملانا ضروری نہیں ہے‘ اس میں ظاہری معنی مراد ہی نہیں‘ بلکہ اس سے مقصود صفوں کو سیدھا کرنا اور درمیانی خلا کو پُر کرنا ہے۔ جیساکہ حضرات شارحین اور محدثین رحمہم اللہ نے صحیح بخاری شریف کے مذکورہ باب اور روایات کا یہی مقصد اور مطالب بیان فرمایا ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
”المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ“۔ (فتح الباری:۲/۲۱۱)
ترجمہ:۔”الزاق:سے مقصود تعدیل صف اور خلل پُرکرنے کے لئے مبالغہ ہے“۔
اس کی مزید وضاحت کے لئے علامہ عسقلانی اس روایت کو بطور استشہاد پیش فرماتے ہیں:
”عن عبد اللّٰہ بن عمر ان رسول اللّٰہ اقال: اقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب‘ وسدوا الخلل ولاتذروا فرجات للشیطان‘ ومن وصل صفا وصلہ اللّٰہ ومن قطع صفا قطعہ اللّٰہ“۔ ( فتح الباری:۲۱۱‘کتاب الاذان)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ا نے فرمایا: صفیں سیدھی کرو اور کندھے ایک سیدھ میں رکھو‘ اور خالی جگہ پُر کرو اور شیاطین کے لئے خالی جگہ نہ چھوڑو‘ جو صف کو ملائے گا اللہ اسے اپنی رحمت سے ملائے گااور جو صف کو کاٹے گا اللہ اسے کاٹ پھینکے گا“۔
علامہ قسطلاتی نے ارشاد الساری ج:۲‘۳۶۸ میں بعینہ یہی عبارت نقل فرمائی ہے:
”المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ“۔
علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں:
”واشار بہذا الی المبالغة فی تعدیل الصفوف وسد الخلل“۔ (عمدة القاری:۵/۲۵۹)
خاتم المحدثین علامہ محمد انور شاہ کشمیری  فرماتے ہیں:
”قلت: وہو مرادہ عند الفقہاء الاربعة ای لایترک فی البین فرجة تسع فیہا ثالثاً‘ وہذا المسئلة اوجدہا غیر المقلدین فقط“ (فیض الباری:۲/۲۳۶)
ترجمہ:․․․”میں کہتا ہوں کہ یہی فقہاء اربعہ کے نزدیک مراد ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان اتنا خلا نہ چھوڑے کہ جس میں تیسرے آدمی کی گنجائش ہو اور اس مسئلہ کو یعنی ٹخنے ملاناصرف غیر مقلدین نے جنم دیا ہے“۔
جو منفی سوچ اور نامناسب طرز عمل غیر مقلدین حضرات نے اپنایا ہے اور ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملانے کا ظاہری معنی مراد لیاہے‘ اس میں تکلف‘ تصنع‘ کلفت اور مشقت پائی جاتی ہے‘ حالانکہ اللہ جل شانہ نے دین میں آسانی اور سہولت رکھی ہے۔ جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:
۱:- ”وما جعل علیکم فی الدین من حرج“۔ (حج: ۷۸)
۲:-”لایکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا“۔ ( بقرہ: ۲۳۳)
اگر مذکورہ روایت کے ظاہری الفاظ کو حقیقت پر محمول کرنا ہی ہے تو حضرت نعمان بن بشیر کی اسی روایت میں ”ورکبتہ برکبة“ (ابوداود:۱/۶۷)”اور گھٹنے سے گھٹنا ملایا جائے“ کا اضافہ بھی مذکور ہے‘ پھر گھٹنے سے گھٹنا ملانے کو بھی ضروری قرار دیں۔مولانا خلیل احمد سہارنپوری ”شارح سنن ابی داود“ تحریر فرماتے ہیں:
”فان الزاق الرکبة بالرکبة والکعب بالکعب فی الصلاة مشکل“ ۔ (بذل المجہود:۴/۳۳۰)
ترجمہ:․․․ ”نماز میں گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانا مشکل ہے“۔
علامہ ظفر احمد عثمانی قدس سرہ فرماتے ہیں:
”ولایخفی ان فی الزاق الاقدام مع الزاق المناکب بالمناکب مشقة عظیمة لاسیما مع ابقائہا کذلک آخر الصلاة کما ہو مشاہد والحرج مدفوع بالنص“۔ (اعلاء السنن:۴/۳۶۰)
ترجمہ:․․”یہ بات ظاہر اور مشاہدہ کی ہے کہ گھٹنے سے گھٹنا ملانے کے ساتھ قدم سے قدم ملانے میں بہت زیادہ مشقت ہے‘ جبکہ اس کو اسی طرح نماز کے آخر تک باقی رکھنا ہو اور حرج نص سے مدفوع ہے یعنی زائل کیاگیا ہے“۔
مذکورہ روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنے سے یعنی ٹخنے سے ٹخنا‘ قدم سے قدم‘ گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا ملانے سے نماز میں عجیب سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے‘ پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ سے طبعی وضع بدل جاتی ہے اور یہ کیفیت خشوع صلاة کے منافی بھی ہے۔
محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فزعمہ بعض الناس انہ علی الحقیقة ولیس الامر کذلک‘ بل المراد بذلک مبالغة الراوی فی تعدیل الصف وسد الخلل کما فی الفتح والعمدة وہذا یرد علی الذین یدعون العمل بالسنة ویزعمون التمسک بالاحادیث فی بلادنا حیث یجتہدون فی الزاق کعابہم بکعاب القائمین فی الصف ویفرجون جد التفریج بین قدمیہم ما یؤدی الی تکلف وتصنع ویبدلون الاوضاع الطبیعیة ویشوہون الہیئة الملائمة للخشوع‘ وارادوا ان یسدوا الخلل والفرج بین المقتدین فابقوا خللاً وفرجة واسعة بین قدمیہم ولم یدروا ان ہذا اقبح ذلک“۔ (معارف السنن:۲/۲۹۷)
ترجمہ:․․․”بعض لوگ یہ سمجھے ہیں کہ یہ روایت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے‘ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد راوی کا صف درست کرنے اور خلاء پُر کرنے میں مبالغہ ہے‘ جیساکہ فتح الباری اور عمدة القاری میں ہے۔ اور یہ بات ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جو ہمارے شہروں میں سنت پر عمل کے دعویدار ہیں اور تمسک بالاحادیث کا دم بھرتے ہیں۔ وہ اپنے ٹخنے صف میں کھڑے نمازی کے ٹخنوں کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے دونوں قدموں کے درمیان کشادگی کی وجہ سے بہت چوڑے ہوکر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں جو تکلف وتصنع تک پہنچ جاتا ہے اور وہ لوگ طبعی وضع کو بدلتے ہیں اور مناسب خشوع و ہیئت کو بگاڑ دیتے ہیں‘ بظاہر وہ مقتدیوں کے درمیان خلا پُر کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن اپنے دونوں قدموں کے درمیان اس سے بھی زیادہ خلاء اور فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں یہ خیال نہیں آتا یہ تو اس سے بھی زیادہ قبیح عمل ہے“۔
غور طلب
یہ بات غور طلب ہے کہ غیر مقلدین نماز میں ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم ملانے کے باعث اپنے دونوں قدموں کے درمیان جتنا وسیع اور کشادہ فاصلہ اختیار کرتے ہیں‘ کیا اس کا ثبوت کسی حدیث سے اور فرمانِ نبوی سے پیش کرسکتے ہیں؟ دو نمازیوں کے درمیان تو شیطان کے لئے خالی جگہ نہیں چھوڑتے لیکن اپنی ٹانگوں کے درمیان اسے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں۔ یاللعجب
صحابہ کرام کے تعامل سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازی دوپاؤں کے درمیان نہ تو زیادہ فاصلہ رکھے اور نہ ہی ملاکر کھڑا ہو، یہ کیفیت تنہا نماز میں اور جماعت کی حالت میں بھی قرار رہتی تھی۔
”وکان ابن عمر لایفرج بین قدمیہ ولایمس احداہما بالاخرٰی ولکن بین ذلک لایقارب ولایباعد“۔ (المغنی ابن قدامہ:۱/۶۹۸)
علامہ محمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
”انالم نجد الصحابة والتابعین یفرقون فی قیامہم بین الجماعة والانفراد علمنا انہ لم یرد بقولہ الزاق المنکب الا التراص وترک الفرجة“۔ (فیض الباری:۲/۲۳۷)
امام نسائی  کی روایت میں ہے:
”عن ابی عبیدة عن عبد الله انہ رأی رجلا یصلی قد صف بین قدمیہ فقال خطأ السنة ولو راوح بینہما کان اعجب الیّ“۔ (سنن نسائی:۱/۹۰)
ترجمہ:․․”حضرت عبد اللہ بن مسعود نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا جس نے دونوں پاؤں ملا رکھے تھے ‘ انہوں نے فرمایا: اس نے سنت کو پانے میں غلطی کی ہے‘ اگر یہ آدمی دونوں پاؤں کے درمیان ”مراوحة“ کرتا تو مجھے زیادہ پسند ہوتا“۔ دوسری روایت میں ہے:”لو راوح بینہما کان افضل“
”مراوحة“ دومعنوں میں استعمال ہوتا ہے:
۱- دونوں پاؤں میں سے کبھی ایک پر کھڑاہونا اور دوسرے پاؤں کو آرام دینا۔
۲:- دوسرا معنی تھوڑی سی کشادگی اور تھوڑے سے فاصلہ کو بھی ”مراوحة“ کہا جا تا ہے۔
اس روایت میں یہی دوسرا معنی مراد ہے‘لہذا اس سے دونوں پاؤں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ کرنا ثابت ہوتا ہے“۔ ( فیض الباری :۲/۲۳۷)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اس نمازی کے دونوں قدم کے ملانے پر نکیر وانکار پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے ”مراوحة“یعنی تھوڑے فاصلہ کا بھی ذکر فرمایا۔علامہ سید محمد یوسف بنوری فرماتے ہیں:
”ثم لم ینکر ابن مسعود الوصل فقط بل عدم المراوحة ولعل الغرض ہو الانکار علی المبالغة فی الزاق قدمہ بقدمہ‘ فالسنة ان لایفرج المصلی بین قدمیہ جداً ولایصل جداً‘ بل بین التفریج والوصل‘ فاذا لم یکن التفریج کثیرا لم یکن الزاق کعب المصلی بکعب آخر۔ ”فاذن تکون روایة الالزاق محمولة علی ما ذکرہ البدر والشہاب“۔ (معارف السنن:۱/۲۹۸)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
”امام بخاری  نے ترجمة الباب میں منکب (کندھا) اور قدم دونوں میں سے ہرایک کے ملانے کا ذکر کیا ہے‘ اس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کندھے اور قدم کو ملانے میں محاذات اور مبالغہ فی القرب ہی کا معنی ممکن ہے‘ حقیقتاً کندھے کو کندھے اور قدم کو قدم سے ملانا مراد نہیں ہے‘ پھر امام بخاری  نے تعلیقاً حضرت نعمان  کی روایت کو ذکر کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جو معنی (محاذات اور مبالغہ فی القرب کا) پہلے دونوں میں یعنی کندھے اور قدم میں مراد ہے‘ وہی معنی تیسرے میں یعنی ٹخنے میں مراد ہے‘ اس لئے کہ روایات کا سیاق متحد ہے“۔ (حاشیہ لامع الداری:۳/۲۲۸)
حضرت نعمان بن بشیر کی ایک روایت میں ہے:
”قال فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ ورکبتہ برکبتہ ومنکبہ بمنکبہ“۔ (مسند امام احمد:۴/۲۷۶)
ترجمہ:․․․”میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اپنے ساتھی کے ٹخنے سے اپنا ٹخنا اور گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے اپنا کندھا ملایا ہوا تھا“۔
یہ بھی حضرت نعمان بن بشیر ہی کی روایت ہے‘ ہم غیر مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے اور دوسروں کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب کیوں نہیں دیتے؟بعض روایات میں ہے: ”حاذوا بین المناکب“۔ (ابوداود:۱/۶۸)اس کی تشریح میں عون المعبود میں ہے:
”ای اجعلوا بعضہا حذاء بعض بحیث یکون منکب کل واحد من المصلین موازیاً لمنکب الآخر ومسامتالہ فتکون المناقب والاعناق والاقدام علی سمت واحد“۔ (نیل الاوطار:۳/۲۳۱‘ عون المعبود:۲/۲۷۵)
ترجمہ:․․․”کندھوں کے محاذات کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی کا کندھا دوسرے نمازی کے کندھے کے محاذی ومقابل اور ایک سمت میں ہو‘ اس صورت میں سب کے کندھے‘ گردن اور قدم ایک سمت میں ہوں گے“۔
یہی مفہوم ومقصود تمام روایات کا ہے‘ یعنی نمازی اپنا کندھا‘ ٹخنا اور قدم دوسرے نمازی کے کندھے‘ اور قدم کی محاذات اور سیدھ میں رکھے۔
صحیح بخاری شریف کی جن روایات کو غیر مقلدین حضرات اپنا مستدل ٹھہراتے ہیں اگر انہیں اپنے ظاہری معنی پر ہی رکھا جائے تب بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ”الزاق“ یعنی قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملانا سنت مقصودہ نہیں ہے‘ اس لئے کہ حضرت انس  سے ایک روایت جو معمر کے اضافہ کے ساتھ مروی ہے۔ اس نے اس تمام الجھن کو حل کردیا ہے کہ:
”وزاد معمر فی روایتہ ولو فعلت ذلک باحدہم الیوم لنفر کانہ بغل شموس“۔ (فتح الباری:۲/۲۱۱)
”حضرت انس فرماتے ہیں کہ اگر آج میں ان لوگوں میں سے کسی کے ساتھ ایسا کروں یعنی اس کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملاؤں تو وہ سرکش خچر کی طرح بھاگے گا“۔
حضرت انس کی اس فیصلہ کن روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ ا کے وصال کے بعد کندھے سے کندھا ‘ ٹخنے سے ٹخنا اور قدم سے قدم نہیں ملایا کرتے تھے اگر ”الزاق“ سنت مقصودہ ہوتی تو صحابہ کرام اسے کسی صورت ترک نہ کرتے اور نہ ہی کسی کی نفرت کی پرواہ کرتے۔ کیونکہ نفرت تو اس فعل سے ہوا کرتی ہے ‘ جو غیر ضروری ہو اور عام طور پر نہ کیا جاتا ہو۔ جو عمل ہرایک نمازی کرتا ہو‘ اس سے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘بلکہ جو حکم رسول اللہ ا نے دیا ہو اس سے مسلمان کیسے نفرت کرسکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر غیر مقلدین کا نظریہ درست ہوتا اور الزاق سنت مقصودہ ہوتا تو تمام صحابہ کرام اس پر عمل کرتے اور تابعین بھی صحابہ کرام کے عام اور دوامی عمل کو دیکھ کر سمجھ جاتے کہ یہ سنت صلاة ہے‘ پھر کسی کے ٹخنے سے ٹخنا‘ قدم سے قدم ملانے سے نفرت نہ ہوتی۔ غیر مقلدین حضرات نے حضرت انس  کی بخاری والی روایت کو تو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے لیکن حضرت انس  کی اسی مسئلہ سے متعلق دوسری روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے‘ گویا کہ:”افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض“ کے مصداق ہیں۔چاہئے کہ غیر مقلدین حضرات ناروا ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس مسئلہ میں جمہور علماء امت کی تحقیق کو قبول کر لیں‘ اسی میں ان کے لئے دارین کی کامرانی اور فلاح ہے۔
مسئلہ کی شرعی حیثیت:
اگرچہ گذشتہ تفصیلات سے مسئلہ کی اہمیت اوراس کا شرعی مقام پوری طرح واضح ہوگیا ہے‘ تاہم ائمہ فقہاء اور محدثین کی آراء اس کی شرعی حیثیت کو پوری طرح آشکارا کرتی ہیں۔شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی لکھتے ہیں:
”تسویہٴ صف‘ ائمہ ثلاثہ: امام ابوحنیفہ‘ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک نماز کی سنتوں میں سے ہے‘ لیکن شرط صحت نماز سے نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ امر تو وجوب کے لئے ہے‘ خصوصاً جب کہ ترک پر وعید بھی وارد ہوتو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں وعید بطور تغلیظ وتشدید کے ہے‘ جیساکہ علامہ کرمانی فرماتے ہیں: ”تاکیداً وتحریضاً علی فعلہا“۔جبکہ علامہ عینی فرماتے ہیں کہ امر مقرون بالوعید وجوب پر دلالت کرتا ہے‘ لہذا یہ کہنا چاہئے کہ تسویہ واجب تو ہے مگر واجبات صلاة سے نہیں ہے‘ کہ اس کے ترک سے فساد صلاة کا حکم ہو‘ البتہ اس کے ترک سے گناہ لازم آئے گا‘ اسی لئے حافظ ابن حجر نے بھی کہا ہے کہ وجوب مانتے ہوئے بھی اس کے ترک سے نماز صحیح ہوجائے گی“۔ (حاشیہ لامع الدراری:۱/۳۷۹)
شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب زید مجدہ رقمطراز ہیں:
”جمہور کے نزدیک تسویة الصفوف نماز کی حقیقت میں داخل نہیں اور نہ ان شرائط میں سے ہے جن پر نماز کی صحت موقوف ہے۔ البتہ نماز کی ان سنن میں سے ہے جن پر نماز کا حسن وکمال موقوف ہے ۔“ علامہ عثمانی فرماتے ہیں کہ حضرات حنفیہ کے کلام کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تسویة الصفوف سنت مؤکدہ ہے‘ کیونکہ ترک کو مکروہ کہا گیا ہے اور کراہت مطلقہ سے مراد کراہت تحریمہ ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک کو مکروہ تحریمی کہا جا سکتا ہے‘ مطلق سنت کے ترک کو مکروہ تحریمی نہیں کہا جاتا ۔
علامہ شامی نے کراہت تحریمیہ کی تصریح کی ہے اور استدلال حضرت ابن عمر کی اس حدیث سے کیا ہے کہ:
”من وصل صفاً وصلہ اللّٰہ ومن قطعہ قطعہ اللّٰہ“۔
ملاعلی قاری فرماتے ہیں:
”اس وعید کی تشدید کی بناء پر علامہ ابن حجر  نے اپنی کتاب ”الزواجر“ میں ترک تسویہ کو کبائر میں سے شمار کیا ہے۔“ (نفحات التنقیح شرح مشکوٰة المصابیح:۲/۵۵۲)
اللہ رب العزت ہم سب کو سلف صالحین‘ محدثین عظام اور ائمہ فقہاء کرام کی احادیث کی تشریح وتوضیح کے مطابق سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بے جا ہٹ دھرمی سے محفوظ فرمائے۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: موت کی تیاری !
Flag Counter