Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ - ستمبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

1 - 11
قانونِ توہین رسالت کی منسوخی کی سازش !
قانونِ توہین رسالت کی منسوخی کی سازش


الحمدللّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
بلاشبہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اکابر و اسلاف کے ادب و تکریم اور عزت و احترام کی تعلیم دیتا ہے، اس لئے وہ تمام انبیأ، رُسل، ملائکہ اور آسمانی کُتب پر ایمان لانے اور حسب مراتب ان کے حقوق و آداب بجالانے کی تلقین کرتا ہے۔
اس کے برعکس قادیانیت چونکہ اسلام کی ضد ہے، اس لئے اس کی جڑ اور بنیاد میں بے ادبی اور گستاخی کا عنصر شامل ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ قادیانیت کا خمیر ہی اسلام، پیغمبر ِ اسلام اور مقدس ہستیوں کی توہین و تنقیص سے اٹھایا گیا ہے، اس لئے ناممکن ہے کہ کوئی قادیانی، گستاخی و بے ادبی کا مرتکب نہ ہو، بلکہ صحیح معنی میں کوئی قادیانی اس وقت تک قادیانی نہیں کہلاسکتا، جب تک وہ توہین انبیاء و رسل کا مرتکب نہ ہو۔
دیکھا جائے تو اس میں قادیانیوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس لئے کہ قادیانیت کی بنیاد اور اس کے وجود کا سبب ہی: ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ کے استعماری فلسفہ کا مرہون منت ہے۔ چنانچہ جب تک برطانوی استعمار ہندوستان پر مسلط رہا، وہ اپنے اس خود کاشتہ پودے ...مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی ناپاک ذریت...کو اس مقصد کے لئے استعمال کرتا رہا، آزادیٴ ہند اور تقسیم ملک کے بعد اگرچہ برطانوی استعمار یہاں سے چلا گیا، مگر قادیانی گروہ اپنی رَوِش بد پر قائم رہا اور وہ حسب سابق مسلمانوں کی مقدس ہستیوں اور حضرات انبیاء کرام  و رسل  کی توہین و تنقیص کرکے مسلمانوں کے سینے چھلنی کرتا رہا۔
چنانچہ جب قادیانی استعمار کی جارحیت حد سے بڑھنے لگی اور اس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پاکستان کو قادیانی اسٹیٹ میں تبدیل کرنے اور مسلمانوں پر اپنی ناپاک حکومت قائم کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی، تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر ان کے سامنے بند باندھا اور ان کی اس جارحیت کو روکنے کے لئے عوامی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔
یوں ۱۹۵۳ء کی تحریک برپا ہوئی، جس میں ہزاروں مسلمانوں اور عاشقانِ رسول نے جامِ شہادت نوش کیا اور لاکھوں افراد نے گرفتاریاں پیش کرکے قادیانیت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔
چونکہ وقتی طور پر حکومت اور استعماری نمائندوں نے اس تحریک کو بزور قوت دبا دیا، اور قادیانیوں کو اورزیادہ شہ مل گئی، اوروہ پہلے سے زیادہ جری ہوگئے ،اپنی رَوِش پر ڈٹ گئے، تاآنکہ ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں نے ایک بار پھر مسلمانوں کو للکارا اور ربوہ اسٹیشن کا سانحہ پیش آیا، تو پاکستان بھر کی مسلم عوام قادیانیت کی جارحیت اور اسلام دشمنی کے خلاف صف آرا ہوگئی، یہ اسی کا نتیجہ اور ثمرہ تھا کہ ۱۴ دن کی طویل بحث کے بعد پاکستان کے آئین ساز ادارہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
۷/ستمبر ۱۹۷۴ء کو اگرچہ قانونی طور پر قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار دے دیئے گئے، مگر وہ اپنی گستاخانہ روش سے ایک دن، بلکہ ایک لمحہ کے لئے بھی پیچھے نہیں ہٹے، بلکہ وہ پہلے سے بڑھ کر اسلام، مسلمانوں، پیغمبر ِ اسلام اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین و تنقیص کرنے لگے، چنانچہ انہوں نے کھلے عام شعائر اسلام اوردینی اصطلاحات کو استعمال کرنا شروع کردیا، ستم بالائے ستم یہ کہ جب ان کو اس سے روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے حسب سابق اپنی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ مولانا محمد اسلم قریشی کو اغوا کرکے مسلمانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کا فیصلہ سنادیا، اسے قدرت الٰہی کا کرشمہ کہئے! کہ ان کی یہ حکمت عملی خود ان کی ذلت و رسوائی کا سبب بن گئی۔اور ۱۹۸۴ء کی تحریک بر پا ہوگئی جس کی برکت سے آئین میں ترمیم کرکے امتناع قادیانیت آرڈی نینس جاری کردیا گیا، جس میں قرار دیا گیا کہ:
”جو شخص الفاظ کے ذریعے خواہ زبان سے ادا کئے جائیں یا تحریر میں لائے گئے ہوں، یا دکھائی دینے والی تمثیل کے ذریعے یا بلاواسطہ یا بالواسطہ تہمت یا طعن یا چوٹ کے ذریعہ نبی کریم (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کی بے حرمتی کرتا ہے اس کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔“
اس آرڈی نینس کے اجرأ اور نفاذ سے جہاں قادیانی گروہ کی جانب سے شعائر اسلام کے استعمال اور توہین انبیاء ایسی گھناؤنی ریشہ دوانیوں پر کسی حد تک روک لگ گئی، وہاں قادیانیت کا ہیڈ کوارٹر بھی مستقل طور پر پاکستان سے لندن منتقل ہوگیا۔ قادیانی استعمار اور اس کی قیادت کے لندن منتقل ہوتے ہی قادیانیوں نے پاکستان اور اسلام کے خلاف اپنا منفی پروپیگنڈا تیز تر کردیا اور انہوں نے اپنے آقاؤں کو باور کرانا شروع کردیا کہ پاکستان میں نافذ قانون توہین رسالت اقلیتوں کے خلاف لٹکتی تلوار ہے، اور اس کو اقلیتوں کے خلاف استعمال کرکے ان کو دیوار سے لگانے کے منصوبہ پر عمل ہورہا ہے، لہٰذا اس کو ختم ہونا چاہئے یا کم از کم اس میں ترمیم ہونی چاہئے۔ چنانچہ ان کی اس دُھائی کی تائید میں امریکا، برطانیہ سمیت پوری اسلام دشمن قوتیں اس قانون کے خلاف صف آرا ہوگئیں، دوسری طرف قادیانیوں نے پاکستان بلکہ دنیا بھر کے عیسائیوں کے کان میں یہ افسوں پھونک دیا کہ تم قصداََتوہین رسالت کا ارتکاب کرو، جب تمہارے خلاف توہین رسالت کا کیس رجسٹرڈ ہوجائے تو اس کی ایف آئی آر کی نقل دکھا کر بیرون ممالک پناہ کی درخواست دے دو ،جس کے نتیجہ میں تمہیں بیرون ملک کی پر آسائش رہائش اور سکونت مل جائے گی۔ چنانچہ عیسائیوں نے جب ان گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا اور انہوں نے قادیانی نسخہ پر عمل کیا تو انہیں واقعی یورپ، امریکا اور جرمن وغیرہ میں پناہ مل گئی، تب قادیانیوں کی طرح عیسائی بھی اپنی غرض و مطلب کے لئے قانون توہین رسالت کی منسوخی میں ان کے ہمنوا بن گئے اور پاکستان میں آئے دن توہین رسالت کا ارتکاب ہونے لگا اور قادیانی،عیسائی گٹھ جوڑ سے اس قانون کی خلاف ورزی ہونے لگی اور دھڑا دھڑ قادیانی اور عیسائی بیرون ملک جانے لگے،یوں قادیانی عزائم کی تکمیل ہونے لگی۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں توہین رسالت کے جتنے واقعات ہوئے یا ہورہے ہیں، ان کے پیچھے یہی سازش کارفرما ہے، اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان بھر میں قادیانی مسلم اور عیسائی مسلم فسادات کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ سب کچھ کیوں اور کس مقصد لئے ہورہا ہے؟
چنانچہ گزشتہ دنوں فیصل آباد کے قریب گوجرہ شہر میں عیسائی مسلم فسادات اور کشت و خون کے گھناؤنے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے راقم الحروف نے لکھا تھا:
”۳۱/جولائی ۲۰۰۹ء بروز جمعہ فیصل آباد کے قریبی شہر گوجرہ میں عیسائی، مسلم فسادت کا ایک ناخوشگوار سانحہ پیش آیا، جس میں تقریباً سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ، جبکہ چالیس مکانات نذر آتش کردیئے گئے۔ بلاشبہ اس ناخوشگوار سانحہ کی جتنا بھی مذمت کی جائے کم ہے، کیونکہ کسی اسلامی ملک میں رہنے والے مسلم و غیر مسلم شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت کے فرائض اور ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
بہرحال اس خونی معرکہ کے بعد حکومت و انتظامیہ بلکہ پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتیں اور وزارتیں متاثرین کی اشک شوئی اور ان کی اخلاقی و قانونی مدد کے لئے گوجرہ پہنچ چکی ہیں اور گوجرہ کے ڈی پی او، ڈی سی او اور دیگر سترہ نامزد افراد سمیت آٹھ سو نا معلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت سنگین نوعیت کی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، علاقہ بھر سے سو افراد گرفتار ہوچکے ہیں اور مزید گرفتاریوں کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق: صورت حال کو کنٹرول کرنے، حالات کو معمول پر لانے، متاثرین سے مذاکرات کرنے، احتجاج ختم کرانے، ریلوے ٹریک بحال کرانے، جنازے اٹھانے اور صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اتوار ۲/ اگست تک وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی، وفاقی وزیر ٹیکسٹائل انڈسٹری رانا فاروق سعید، سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد، صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان، صوبائی وزیر بلدیات سردار دوست محمد کھوسہ، صوبائی وزیر اقلیتی امور کامران مائیکل، آئی جی پولیس پنجاب، ہوم سیکریٹری پنجاب، کمشنر فیصل آباد ڈویژن، ریجنل پولیس آفیسر فیصل آباد، تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی مسلم لیگ (ن) و پی پی پی کے عہدیداران بھی گوجرہ میں پہنچ گئے تھے، جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے متاثرین کی امداد اور متاثرہ مکانوں کی تعمیر اور زخمیوں کے علاج معالجہ کا اعلان بھی کردیا ہے۔
بلاشبہ اس صورت حال کا یہی تقاضا تھا اور ایک مسلمان ملک کی مسلم انتظامیہ کو اپنے شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کے لئے ایسا ہی کرنا چاہئے تھا، لیکن اگر حکومت و انتظامیہ اس صورت حال کے پیدا ہونے سے قبل ایسے شرپسندوں کی مجرمانہ سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھتی تو شاید ایسی سنگین صورت حال پیش نہ آتی، تاہم جہاں اس سانحہ کے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے، وہاں اس کا کھوج لگانے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ دلخراش صورت حال کیوں پیش آئی؟ لہٰذا اس سانحہ کے پس پردہ اسباب و محرکات سے چشم پوشی بھی مجرمانہ غفلت ہوگی، کیونکہ اگر ان اسباب و علل کو بے نقاب نہ کیا گیا تو ایسے واقعات و سانحات کا تدارک نہیں ہوسکے گا، بلکہ آج نہیں تو کل پھر اس قسم کے واقعات رونما ہوں گے، اس لئے کہ:
۱:… اخباری اطلاعات اور پرنٹ میڈیا کی رپورٹیں بتلاتی ہیں کہ اس ساری صورت حال کے ذمہ دار وہ بدنہاد عیسائی ہیں، جنہوں نے قرآن پاک کی توہین کی، اور قرآنی اوراق کو پھاڑ پھاڑ کر اچھالا، جب اس پر سنی تحریک (روزنامہ امت کراچی، ۲/اگست ۲۰۰۹ء) نے ہڑتال کی اور اس گستاخی کے خلاف پُرامن احتجاجی ریلی نکالی تو عیسائیوں نے اس پر فائرنگ کرکے حالات کو اس سنگینی تک پہنچایا، لہٰذا اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو ”البادی اظلم“...ابتداء کرنے والا ہی مجرم ہوتا ہے... کے مصداق گوجرہ کی عیسائی برادری ہی قرآن پاک کی توہین کرنے اور پُرامن ریلی کے شرکاء پر ناروا فائرنگ کرنے کی وجہ سے مجرم ہے۔ سوال یہ ہے کہ عیسائیوں کے اس مجرمانہ عمل کے پیچھے کہیں قادیانیوں کا ہاتھ تو نہیں ہے؟ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ اس کے پیچھے قادیانی سازش کام کررہی ہے، لہٰذا ان کے اس سازشی عمل سے صرفِ نظر نہیں کیا جانا چاہئے۔
۲:… اس کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کہیں ان موذیوں نے یہ سارا کچھ کسی خاص منصوبے اور ملک دشمنی پر مبنی سازش کے تحت تو نہیں کیا؟ جی ہاں عین ممکن ہے کہ یہ سب کچھ قانونِ توہین رسالت کو ختم کرانے یا اس میں مجوزہ ترمیم کرانے کے لئے کیا گیا ہو، کیونکہ اس سانحہ کو وجہ جواز بناکر اقلیتی امور کے وزیر نے جو بیان دیا ہے وہ اس سازش کی چغلی کھاتا ہے، لیجئے ملاحظہ ہو:
”گوجرہ (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی نے کہا ہے کہ توہین رسالت ایکٹ کا غلط استعمال روکنے کے لئے اس میں ترامیم کی جائیں گی، وہ گوجرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ شہباز بھٹی نے کہا کہ توہین رسالت ایکٹ کے غلط استعمال کے کئی واقعات ہوچکے ہیں، جنہیں روکنے کے لئے ترامیم ہونی چاہئیں، انہوں نے کہا کہ فسادات میں انتظامیہ اور پولیس نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، انہوں نے بتایا کہ فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے ورثاء کو 5،5لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ تباہ ہونے والے مکانات کی تعمیر کے لئے 3،3لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے متاثرین کے لئے الگ پیکج کا اعلان جلد ہوگا۔ (چشم بددور! عیسائی ”مظلوموں“ کی اشک شوئی کے لئے وزیر اعظم کا وہ پیکج بھی اخبارات میں آچکا ہے، چنانچہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کو دس دس کروڑ کی امداد دیں گی۔ (روزنامہ امت کراچی، ۷/اگست ۲۰۰۹ء...ناقل) دریں اثناء صدر زرداری نے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو فوری طور پر گوجرہ جاکر وہاں کے حالات معمول پر لانے اور متاثرہ لوگوں کی بحفاظت اپنے گھروں میں واپسی تک ٹھہرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس حوالہ سے صدر کے ترجمان سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ صدر زرداری نے گوجرہ واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وہاں ہونیو الے واقعات پر تشویش ظاہر کی ہے، جس سے عالمی برادری کو ہمارے ملک اور معاشرے کے بارے میں ایک غلط پیغام ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں قصور میں رونما ہونے والے اس قسم کے ایک اور واقعہ نے اس صورت حال پر فوری طور پر قابو پانے کی اہمیت بڑھادی ہے۔ صدر نے کہا کہ کسی بھی حالت میں کسی شخص کو اس امر کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ حقیقی یا سوچی سمجھی شکایات کے ازالہ کے لئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ صدر مملکت نے کہا کہ صوبائی حکومت نے بھی اس ضمن میں اقدام اٹھائے ہیں اور وزیر اقلیتی امور حالات کو معمول پر لانے کے لئے صوبائی حکومت سے رابطہ رکھیں۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ انکوائری اور تحقیقات کے نتیجہ میں ملزمان انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں گے۔ انہوں نے متاثرہ گھرانوں کو معاوضہ ادا کرنے کی بھی ہدایت کی۔ “
(روزنامہ اسلام کراچی، ۳/اگست ۲۰۰۹ء)
اگر اس کے ساتھ روزنامہ امت کراچی ۵/اگست ۲۰۰۹ء کی خبر بھی ملا دی جائے تو قانون توہین ِرسالت کے خاتمہ سے متعلق اسلام دشمن عناصر کے عزائم بلکہ مستقبل کی بھیانک صورت حال اور زیادہ کھل کر سامنے آجاتی ہے، لیجئے خبر پڑھئے: ”کراچی (اسٹاف رپورٹر) کیتھولک آرچ ڈایویس کراچی کے آرچ بشپ ایورسٹ پٹو نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ توہین رسالت کے قانون دفعہ ۲۹۵-سی کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔ اقلیتوں کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک کمیشن بنایا جائے۔ سانحہ گوجرہ کی تحقیقات کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ وہ مختلف چرچوں کے فادرز کے ساتھ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے مسیحی و دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے جان و مال کی حفاظت کا بھی مطالبہ کیا ہے۔“
۳:… یہ بھی دیکھنے کی چیز ہے کہ کہیں اس ”قربانی“ کے پیچھے پنجاب کی تقسیم اور اس میں عیسائی صوبہ کے قیام کی راہ ہموار تو نہیں کی جارہی؟ کیونکہ جس طرح انڈونیشیا کو تقسیم کرکے اس کے عین وسط میں مشرقی تیمور نامی عیسائی آبادی کا اعلان کیا گیا تھا، بہت ممکن ہے کہ عیسائی قوتیں اس قسم کے واقعات و سانحات کو جواز بناکر یہ مطالبہ نہ کرنا شروع کردیں کہ: چونکہ پاکستان میں عیسائی اقلیت پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کے لئے الگ صوبہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔
یہ سب کچھ مفروضے نہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے اور اس قسم کی آوازیں اٹھائی جارہی ہیں، چنانچہ عیسائی دنیا اور اس کے کارندے لاہور سے لاؤنج ہونے والی اپنی ایک ویب سائٹ: ”یونائیٹڈ کرسچن آرگنائزیشن“ میں اس کا اعلان کرچکے ہیں، اور ہم ہفت روزہ ختم نبوت شمارہ ۲۶ج ۲۸میں اس کی نشاندہی کرچکے ہیں، لیجئے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے:
”...یہ ایک این جی او ”یونائیٹڈ کرسچن آرگنائزیشن“ کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ مواد کا اردو ترجمہ ہے، جس کا بانی اور صدر قیصر ایوب ہے، اور اس کا لوگو صلیب ہے، اس پر یو- سی- او، طبع شدہ ہے، اس کے دفتر کا پتہ ہے: 97 /ایف راجہ سینٹر ،مین مارکیٹ گلبرگ لاہور، اس کا فون نمبر: 5091181-042 موبائل نمبر: 9811775-0322 اور اس کا ای میل پتہ ہے: contact@ucopak.org, qaiser@ucopak.org
اس ویب سائٹ کے اغراض و مقاصد میں سے یہ ہے کہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ ہم سے رجوع کرے، خصوصاً جو لوگ پسے ہوئے ہوں، ان کی اور تباہ حال عیسائیوں کی ہم مدد کرتے ہیں، نیز اس این جی او اور آرگنائزیشن کے مشن اور مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں عیسائیوں کے لئے الگ صوبہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔...“ ( ہفت روزہ ختم نبوت کراچی، جلد:۲۸، شمارہ:۲۶، صفحہ:۵)
۴:… پھر اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اگر پاکستان کی عیسائی برادری ملک، قوم، اسلام، مسلمانوں اور ان کے مقدس شعائر کے خلاف اعلان بغاوت کرے یا ان کو للکارے اور اس کے جواب میں کچھ جذباتی نوجوان احتجاج کریں تو ان کے خلاف مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک کی پوری دنیا کے اسلام دشمن سراپا احتجاج بن جاتے ہیں، ہمارے ملک کی پوری حکومتی مشینری ان کی ”مظلومیت“ کے ازالہ کے لئے جُت جاتی ہے اور صفائیاں پیش کرتے نہیں تھکتی، اس کے برعکس دوسری طرف عیسائی دنیا کے ”مہذب“ ملک جرمنی کی بھری عدالت میں ایک مسلمان خاتون کو سرِ عام قتل کردیا جاتا ہے مگر اس پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی؟ آخر کیوں؟ صرف یہی نہیں بلکہ جب اس معصومہ کے شوہر نے اسے بچانے کے لئے، بربریت کا مظاہرہ کرنے والے سفاک درندے کے خلاف دفاعی اقدام کرنا چاہا تو مہذب دنیا کی مہذب پولیس نے نہ صرف اس کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ جب اس سفاک نے اس پر حملہ کردیا تو وہ تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی، یہاں تک کہ اس سفاک نے اس معصومہ کے شوہر کو بھی ادھ موا کردیا، ستم بالائے ستم یہ کہ اس پر نہ کسی کو افسوس ہوا اور نہ احساس، بلکہ بین الاقوامی پریس نے اس خبر کو ایسے دبا دیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان انسان نہیں؟ کیا ان کے کوئی جذبات نہیں؟ کیا مسلمانوں کے کوئی بنیادی انسانی حقوق نہیں؟ کیا دنیا میں لاقانونیت اور جنگل کا قانون ہے؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف عیسائی اور غیر مسلموں کے حقوق کی علمبردار ہیں؟ اگر نہیں تو یہ سب کچھ کیوں اور کس لئے؟ اسی طرح روزنامہ اسلام ملتان کے بیورو چیف، جناب ڈاکٹر دین محمد فریدی کی بیٹی اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اندرونِ سندھ کے مبلغ مولانا محمد علی صدیقی کی ہمشیرہ کو دن دہاڑے گھر میں گھس کر دو بیٹوں سمیت نہایت بے دردی سے شہید کردیا جاتا ہے، چادر و چار دیواری کا مذاق اڑایا جاتاہے ،صنف نازک اور معصوم بچوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، آج اس سانحہ کو آٹھ روز ہوچکے ہیں، مگر تاحال وہ درندہ صفت قاتل گرفتار نہیں کئے جاسکے، سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت و انتظامیہ پیپلاں ضلع میانوالی میں ہونے والی اس واردات کے سدباب یا ان بے کسوں کی تسلی تشفی کے لئے آخر ادھر کا رخ کیوں نہیں کرتی؟ اور ان مظلوموں کی اشک شوئی کے لئے کوئی اقدام کیوں نہیں کرتی؟ وہاں آئی جی ، وزراء اور نمائندگان قومی و صوبائی اسمبلی کیوں نہیں جاتے؟ صرف اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں اور ان کے پیچھے کسی بڑی طاقت کی پشت پناہی نہیں ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو بتلایا جائے یہ دوہرا معیار کیوں اور کس لئے؟
بلاشبہ سانحہ گوجرہ میں احتجاج کرنے والے مجرم ہیں تو ان کو اس احتجاج پر مجبور کرنے والے ان سے زیادہ مجرم ہیں، اگر وہ قابل سزا ہیں اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے، تو جو لوگ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا چاہتے ہیں تو ان کو بھی انہی آہنی ہاتھوں سے سزا دینے کی ضرورت ہے۔“
پھرقانون توہین ِ رسالت کو اقلیتوں کے خلاف لٹکتی تلوار کہنے والوں کو اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا گیا کہ اگر کوئی غیر مسلم توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، بلکہ، کسے باشد، جو بھی اس گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کرے گا، اس کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا۔
چنانچہ پاکستان میں رہنے والی دوسری اقلیتوں میں سے ہندو، سکھ، پارسی وغیرہ بھی ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ قانون ان کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ اس لئے ناں! کہ وہ لوگ ان جرائم کا ارتکاب نہیں کرتے،جب وہ ان جرائم کا ارتکاب نہیں کرتے تو ان کے خلاف قانون کیونکر حرکت میں آئے گا؟
لہٰذا گر قادیانی اور ان کے اشاروں پر چلنے والے عیسائی، توہین رسالت کا ارتکاب نہ کریں تو ان کے خلاف بھی یہ قانون حرکت میں نہیں آئے گا، کیا اس قانون کے خلاف شور قیامت برپا کرنے یا اس قانون کو ختم کرانے اور اس میں ترمیم کرنے کی دُہائی دینے والوں کا مقصد صرف اور صرف یہ نہیں کہ وہ بدبخت کھلے عام توہین انبیاء کا ارتکاب کرتے رہیں، اور ان کا ہاتھ اور زبان روکنے والا کوئی نہ ہو؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اس کے خلاف آواز اٹھانا، اس میں ترمیم کرنے کی تحریک چلانا یا اس کی منسوخی کا مطالبہ کرنا ،توہین رسالت کے ارتکاب کی کھلی چھوٹ کے مطالبہ کے مترادف نہیں؟ کیا کوئی مسلمان اور باغیرت انسان اس کو برداشت کرسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں!!
اگرتاریخ میں جھانک کر دیکھا جائے توقانون توھین رسالت کوئی نیا نہیں، بلکہ یہ قانون انگریزی دور سے رائج اور نافذ چلا آرہا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ پہلے یہ قانون ڈھیلا ڈھالا تھا اور اب اس کو کسی قدرمدون و مرتب کرکے موثر انداز میں نافذ کیا گیا ہے، چنانچہ متحدہ ہندوستان میں جب راجپال جیسے ازلی بدبختوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر ناپاک حملے کئے اور وہ غازی علم الدین شہید جیسے فدائیانِ رسالت کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچے، تو انگریزوں کو مذہبی راہنماؤں کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے باقاعدہ قانون وضع کرنا پڑا، یوں ۱۹۲۷ء کی تعزیرات ہند میں دفعہ ۲۹۵-الف ایزاد کی گئی جو مجموعہ تعزیرات ہند ۱۹۶۲ء میں بایں الفاظ مذکور ہے:
”دفعہ ۲۹۵- الف- جو کوئی شخص ارادتاً اور اس عداوتی نیت سے کہ پاکستان کے شہریوں کی کسی جماعت کے مذہبی احساسات کو بھڑکائے بذریعہ الفاظ زبانی یا تحریری اشکال محسوس العین اس جماعت کے معتقدات مذہبی کی توہین کرے یا توہین کرنے کا اقدام کرے اس کو دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی قید کی سزا دی جائے گی، جس کی میعاد دو برس تک ہوسکتی ہے یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔“
چوہدری محمد شفیع باجوہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
”یہ دفعہ ۱۹۲۷ء میں ایزاد کی گئی تاکہ اگر کسی مذہب کے بانی پر توہین آمیز حملہ کیا جائے تو ایسا کرنے والے کو سزا دی جاسکے۔ اس سے پہلے اس قسم کے اشخاص کے خلاف دفعہ ۱۵۳۔الف استعمال ہوا کرتی تھی مگر ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی رو سے یہ طریقہ غلط قرار پایا۔ تقریر کرنے والے یا مضمون لکھنے والے۔“ (شرح مجموعہ تعزیرات پاکستان، ص:۱۲۱، ۱۲۲)
چونکہ توہین رسالت کے جرم کی سزا انگریزوں نے تجویز کی تھی اور اسے مجموعہ تعزیرات ہند میں جوں کا توں رکھا گیا تھا، اور وہ بالکل ناکافی تھی،اس لئے توہین رسالت کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا، اس لئے ۱۹۸۴ء میں ۲۹۵-سی کا مذکورہ بالا اضافہ کرکے توہین رسالت کے سدباب کی کوشش کی گئی۔
چاہئے تو یہ تھا کہ اس دفعہ کو مزید موثر بنانے اور اس کی سزا میں شدت پیدا کرکے اس قسم کے جرائم کے سد باب اور روک تھام کا انتظام کیا جاتا، مگر افسوس کہ عدل و انصاف پر مبنی اس قانون میں بجائے شدت کے مزید تخفیف کرکے قادیانی اور عیسائی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اس میں مزید ترمیم در ترمیم کرکے اس کو گویا غیر موثر بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی، بلکہ ایک گونا توہین رسالت کے مرتکب مجرموں کی حوصلہ افزائی کی ناپاک کوشش کی گئی، چنانچہ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شروع شروع میں جب یہ قانون نافذ ہوا تو اس کی دہشت بیٹھ گئی، پھر جب ۱۹۹۷ء میں یہ طے پایا کہ جو ملعون اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرے گا اس کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا، تو اس کے خاطر خواہ نتائج و ثمرات نکلنے لگے، چنانچہ اس کا ایک خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ اس قسم کے جرائم میں خاطر خواہ کمی آگئی۔
مگر افسوس کہ ۱۹۹۸ء میں ضابطہ فوجداری CRPC۱۹۶کا اضافہ کرکے قرار دیا گیا کہ کوئی بھی شخص 295-CRPCکامقدمہ اس وقت تک درج نہیں کرواسکے گا جب تک کہ وہ سینٹرل گورنمنٹ ، صوبائی حکومت یا ایس پی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے برابر کے کسی عہدیدار سے اس کی منظوری نہ لے لے۔
دوسرے الفاظ میں جب تک وفاقی یا صوبائی حکومت یا ایس پی اور ضلعی مجسٹریٹ کے رینک کا کوئی عہدیدار اس کی تحقیق کرکے کیس کے اندراج کی منظوری نہ دے دے، اس وقت تک توہین رسالت کے مجرم کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہوگا۔ گویا تحقیق پہلے ہوگی اور مجرم کے خلاف ایف آئی آر بعد میں درج ہوگی، حالانکہ دنیا بھر کے کسی ملک اور قانون میں ایسا نہیں ہے کہ پہلے ارتکاب ِجرم کی تحقیقات کی جائیں اور بعد میں ایف آئی آر درج کی جائے، اولاً تو ایف آئی آر ہوتی ہی تحقیقات کے لئے ہے، کیونکہ جب تک کسی مجرم کے خلاف استغفاثہ درج نہ ہو، اس کے خلاف تحقیقات کا کیا معنی؟ بہرحال اس دفعہ کے ذریعے توہین رسالت کے مجرموں کو ایک گونا چھوٹ دے دی گئی، اور دوسرے مجرموں کی نسبت ان کو یہ رعایت دی گئی بلکہ ان کو ایک قسم کے اختصاص و امتیاز سے نوازا گیا کہ اتنے میں تمہارے خلاف تحقیق ہو، یا ایف آئی آر درج ہو، تم کہیں بھی فرار ہوسکتے ہو۔
دوسرے الفاظ میں ایف آئی آر کے اندراج سے قبل تحقیقات کے لئے وفاقی، صوبائی حکومت یا ایس پی اور ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے منظوری کی شرط سے مجرموں کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ تحقیقات ہونے تک بیرون ملک فرار ہوسکیں گے،اس لئے کہ عام طور پر ایسے افسران تک ہر کسی کی رسائی نہیں ہوتی اور اگر کسی کی رسائی ہو بھی جائے تو عام طور پر ایسے بڑے لوگ مصروف ہوتے ہیں اور دستیاب نہیں ہوتے ،لہذا نہ تحقیقات ہوں گی اور نہ ایف آئی آر درج ہوگی۔
الغرض ایسا ڈھیلا ڈھالاآرڈی ننس جس کی ایف آئی آر کے اندراج کے لئے کڑی شرائط رکھی گئی ہوں، اس کی منسوخی کا مطالبہ کرنا گویا عملی طور پر ایسے موذیوں کو توہین رسالت کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔
اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے اس قانون پر مزید تیشہ چلاتے ہوئے یہ قرار دیا کہ ایسے تمام کیسوں کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے نکال کر عام کورٹوں کے حوالہ کیا جائے،چنانچہ جیسے ہی یہ آرڈر پاس ہوا تو توہین رسالت کے جرائم کی تعداد میں ایک دم اضافہ ہوگیا، گویا اب اسلام دشمن اور ان کے ہمنوا ...خواہ سرکاری وزیر و مشیر ہو یا کوئی دوسرا... وہ ناموس رسالت کے مجرموں کو کھلے عام ان جرائم کے ارتکاب کی اجازت بلکہ سند جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں، کیا کہا جائے کہ جو لوگ اس قسم کا مطالبہ کررہے ہیں یا ان کے مطالبہ کو معقول قرار دے رہے ہیں، وہ مسلمان ہیں؟ یا ان کا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ محبت و عقیدت کا تعلق ہے؟ یا ان کے دشمنان کے ساتھ؟
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف توقانون توہین رسالت کو منسوخ کرنے پر زور دیا جارہا ہے اور حضرات انبیاء کرام کی عزت و ناموس کو پامال کرنے کی سند جواز فراہم کرنے کا سوچا جارہا ہے، مگر دوسری طرف صدر پاکستان اور ملک بھر کی مقدس ہستیوں ...فورسز اور عوامی قائدین...کے خلاف فون پر ایس ایم ایس بھیجنے والوں کے خلاف قانون بنایا جارہا ہے، لیجئے اس طرفہ تماشہ کی خبر ملاحظہ ہو:
”اسلام آباد(نمائندہ جنگ/ مانیٹرنگ سیل) وزارت داخلہ نے سیکورٹی فورسز اور عوامی قائدین کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لیتے ہوئے نازیبا ای میلز اور ایس ایم ایس کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور ایف آئی اے کو سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت کارروائی کا حکم جاری کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایسے ای میلز اور ایس ایم ایس کرنے والوں کو ۱۴ سال قید تک کی سزا اور جائیداد کی قرقی بھی ہوسکے گی۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں انٹرپول سے بھی مدد لی جائے گی اور بیرون ملک مطلوبہ افراد کو انٹرپول کے ذریعے واپس لایا جائے گا۔ اس سلسلے میں وزیر داخلہ نے کہا کہ پروپیگنڈا، ایس ایم ایس نے اسٹاک مارکیٹ کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین ارکان اسمبلی نے بھی نازیبا ایس ایم ایس کی شکایات کیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایف آئی اے نے آزاد کشمیر سے ایک شخص کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ نازیبا ای میلز اور ایس ایم ایس سیکورٹی فورسز اور عوامی قائدین کے خلاف بھی کئے گئے۔ رحمن ملک نے کہا کہ پوری دنیا سائبر کرائمز کے خلاف ہے اور ایس ایم ایس اور ویب سائٹ کے بارے میں تحقیقات شروع کردی ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی طرح کی ایک مہم سیکورٹی فورسز کے خلاف انٹرنیٹ پر مذموم پروپیگنڈا کرنے والی بعض تنظیموں کے خلاف بھی شروع کی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے اتوار کو یہاں جاری بیان کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو اس طرح کی خبروں اور میسجز پر پیغامات کی نگرانی و چیکنگ اور سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے اس حوالے سے اقدامات کئے ہیں اور اس طرح کے عناصر کے خلاف آئندہ چند دنوں میں کارروائی کی جائے گی۔“ (روزنامہ جنگ کراچی ، ۱۳/جولائی ۲۰۰۹ء)
کیا کہا جائے ان بزرچ مہروں کی عزت و ناموس حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس سے زیادہ اہم ہے؟ یا وہ نعوذباللہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ مقدس ہیں؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں، تو فورسز اور عوامی قائدین کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے قانون کی منظوری اور اس کے برعکس قانون توہین رسالت کی منسوخی پر غوروفکر چہ معنی دارد؟
ہم مسلمانانِ پاکستان سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ اس قانون کی منسوخی کے مطالبہ اور اس بر خود غلط تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور دشمنانِ اسلام یا ان کے آلہ کاروں کے عزائم و ارادوں کو خاک میں ملادیں۔
اگر ہمارے جیتے جی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس محفوظ نہ ہو تو ہماری زندگی سے مر جانا بہتر ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے کہ : ”اینقص الدین وانا حی“... کیا میرے جیتے جی دین میں کمی کی جائے ... ایسا ناممکن ہے، اسی طرح حضرت امام مالک کا یہ فرمان بھی ہمارے لئے کسی تازیانہ سے کم نہیں کہ ”اس قوم کی زندگی کا کیا فائدہ جس کے ہوتے ہوئے اس کے نبی کی توہین کی جائے یا آپ ا کی عزت و ناموس محفوظ نہ ہو۔“ خدا کرے ہماری ان گزارشات پر مسلمان غوروفکر کریں اور اس سازش کے سدباب کی سعی و کوشش کریں۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۰ھ - ستمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 
Flag Counter