Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

5 - 12
دینی مدارس اور دہشت گردی کی تازہ لہر ۔۔۔!
دینی مدارس اور دہشت گردی کی تازہ لہر

وطن عزیز اس وقت بدامنی اور دہشت گردی کی جس لہر کی لپیٹ میں ہے اس پر ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی فکر مند ہے‘ اس دہشت کے اسباب ووجوہات اور اس کے پسِ منظر کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور سنا گیا ہے‘لیکن ان دنوں ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے ڈانڈے دینی مدارس کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ دینی مدارس ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کا مصداق بن جائیں۔
دینی مدارس قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک دینی اور تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اس عرصے میں یہ ادارے کسی قسم کی دہشت گردی میں نہ کبھی ملوث رہے ہیں اور نہ ہی ان اداروں نے کسی قسم کے تشدد کا درس دیا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ان اداروں کو دہشت گردی سے منسوب کرنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی رہی‘ پہلے پہل جب مدارس کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جانے لگا تو اربابِ مدارس نے ہر فورم پر ایسے مبہم الزامات عائد کرنے کی بجائے ان مدارس کی نشاندہی کرنے کو کہا‘ جہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو یا جہاں اسلحہ موجود ہو‘چنانچہ نہ تو کسی مدرسے کے بارے میں ٹھوس شواہد پیش کئے جاسکے اور نہ ہی کہیں سے اسلحہ برآمد کیا جاسکا‘ بلکہ خود وزارتِ داخلہ نے اس حوالے سے اعلیٰ سطحی تحقیقات کرنے کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ پاکستان کا کوئی مدرسہ بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں‘ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کے بعد پروپیگنڈہ کا یہ سلسلہ رک جاتا‘لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا اور اب پروپیگنڈہ کا سلسلہ ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے اور مدارس پر چھاپے مار کر اور مدارس کے بے گناہ طلباء کو حساس اداروں کے ذریعے غائب کروا کر دہشت گردی کا ملبہ مدارس پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امن وامان کی موجودہ سنگین صورتحال اور مذہبی قوتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے باوجود مدارس کے منتظمین‘ اساتذہ اور لاکھوں طلباء کو اس دہشت گردی سے خود کو الگ تھلگ رکھنے اور وطن عزیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مشکلات کھڑی نہ کرنے کی بنا پر اہلِ مدارس کو خراج تحسین پیش کیا جاتا‘ لیکن الٹا مدارس کے لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے اور دھونس‘ دباؤ اور خوف پر مبنی پالیسیاں تشکیل دی جارہی ہیں‘ حالانکہ بارہا اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے کہ طاقت اور دباؤ پر مبنی پالیسیوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
ایک بات اور اہل مدارس محسوس کرتے ہیں کہ ۷/۷ کے بعدجس طرح برطانوی آرڈر کی تعمیل میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا‘ اسی طرح ان دنوں بھی مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے مدارس کو تنگ کیا جارہا ہے‘ حالیہ دنوں میں متعدد مدارس پر چھاپے مارے گئے۔ اسلام آباد کے ایک مدرسہ میں کمانڈوز‘ حساس اداروں اور پولیس کی بھاری نفری نے اس انداز سے یلغار کی جیسے انڈین فوج کشمیر کی کسی بستی پر لشکر کشی کیا کرتی ہے۔ جب ان لوگوں سے اس ”یلغار“ کی وجہ معلوم کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک ایسے طالبعلم کی تلاش میں آئے ہیں‘جو لال مسجد میں زیر تعلیم تھا اور آپریشن سائلنس کے دوران اس پر مقدمات بنائے گئے اور اس کے جملہ کوائف کاریکارڈ سیکورٹی اداروں کے پاس موجود ہے اور وہ صرف دو دن قبل عدالت میں بھی پیش ہوا تھا‘ عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی اس کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے جاسکتے تھے‘ اسے سانحہ لال مسجد سے اب تک گزرنے والے پونے دو برسوں کے دوران کہیں سے بھی حراست میں لیا جاسکتا تھا‘ اگر اس سے کوئی اور جرم سرزد ہوا تو صرف دو پولیس اہلکار آکر مدسہ انتظامیہ سے اس طالبعلم کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرسکتے تھے‘ اس معاملے پر وفاق المدارس سے رجوع کیا جاسکتا تھا‘لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور اس مدرسے پر یلغار کردی گئی‘ اس یلغار کا انداز بتاتا ہے کہ یہ سب کچھ بدنیتی پر مبنی ہے۔
یہ تو صرف ایک مثال ہے‘ ورنہ اس وقت ملک کے تقریباً اکثر اداروں کو اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اسلام آباد ہی کے ایک دینی ادارے میں حساس اداروں کے اہلکار نمازِ فجر سے قبل آدھمکے اور مدرسہ انتظامیہ سے ایک طالبعلم کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور اسے ساتھ لے جانے کا مطالبہ کیا‘ انتظامیہ نے لاکھ کہا کہ یہ طالبعلم ہماری ذمہ داری میں ہے‘ آپ اس کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کریں‘ کوئی پوچھ گچھ کرنی ہے تو ہم آپ کو موقع فراہم کرتے ہیں‘ یہیں پوچھ گچھ کرلیں‘ لیکن وہ طالبعلم کو ساتھ لے جانے پر مصر رہے اور بالآخر انہوں نے دباؤ ڈال کر مدرسہ انتظامیہ کو اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ بھی اس طالبعلم کے ساتھ جائیں اور سرسری پوچھ گچھ کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسے واپس لے آئیں ‘ چنانچہ مدرسے کے دو نمائندے ان کے ساتھ چلے گئے‘ انہیں قریبی تھانے میں لے جاکر صاف جواب دے دیا گیا کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں‘ یہ طالبعلم آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس تھانے کا ایس ایچ او بھی اس طالبعلم کے بارے میں اظہار لاعلمی کررہا ہے۔
اسلام آباد کا ایک معیاری دینی ادارہ جس مسجد سے ملحق ہے آج سے دس برس قبل مسجد کی منتظمہ کمیٹی سے مالی خورد برد کے الزام میں برطرف ہونے والے ایک شخص کو حال ہی میں دوبارہ مسجد کمیٹی میں عہدے کے حصول کا شوق چڑھا تو اس نے اس مدرسہ کے خلاف جھوٹے الزامات پر مبنی درخواست دے دی اور پھر حساس اداروں نے اس شخص سے شواہد کا مطالبہ کئے بغیر مسجد ومدرسہ کے منتظمین کا ناک میں دم کئے رکھا۔ یہ تو صرف اسلام آباد کی چند مثالیں ہیں‘ ملک کے دیگر حصوں کے مدارس کے حالات اس سے کہیں زیادہ ابتر ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں اس طرح کے واقعات سے مدارس میں اشتعال اور انتشار پیدا ہوتا ہے‘ نوجوان طلباء میں رد عمل کی سوچ پروان چڑھتی ہے جو انہیں تشدد پر آمادہ کرتی ہے اور پھر ایسے طلباء کے دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس صورتحال میں مدارس کی نمائندہ تنظیموں اور منتظمین کے لئے یہ صورتحال خاصی پریشان کن ہے۔ نوجوان طلباء ہم سے مسلسل پوچھتے ہیں کہ آخر ہمارا جرم کیا ہے جس کی پاداش میں ہم سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے؟ آخر ہم کب تک صبر کے گھونٹ پیتے رہیں گے؟ جب یہ سوچ مزید پختہ ہوتی ہے تو ایسے ناراض نوجوان مدارس کو خیر باد کہہ جاتے ہیں‘ کیونکہ یہ طلباء جب تک مدارس کے نظم اور چاردیواری کے اندر ہوتے ہیں‘ انہیں کسی منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی‘ بلکہ داخلے کے موقع پر ان سے عہد لیا جاتا ہے کہ: ”وہ دوران تعلیم اپنی تمامتر توجہ حصول تعلیم پر مرکوز رکھیں گے اور ہر قسم کے لایعنی مشاغل سے اجتناب کریں گے اور ملک میں کام کرنے والی تمام تنظیموں سے الگ تھلگ رہیں گے اور بالخصوص سیاسی سرگرمیوں سے مکمل اجتناب کریں گے“ یہ عبارت تقریباً تمام مدارس کے داخلہ فارم میں موجود ہوتی ہے۔ اس لئے مدارس میں زیر تعلیم طلباء کے کسی بھی منفی سرگرمی کے لئے استعمال ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں‘ لیکن اگر وہ مدرسہ چھوڑ کر چلے جائیں تو وہ کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے‘ اس لئے مدارس کے طلباء کو مدارس کی محفوظ چاردیواریوں کے اندر ہراساں کرنے کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہئے‘ تاکہ وہ کسی قسم کے انتہائی اقدام اور بغاوت پر آمادہ نہ ہوپائیں۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مدارس کی حیثیت سے تو کبھی بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی گئی‘ لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی طالبعلم انفرادی طور پر کسی منفی حرکت کا مرتکب پایا بھی جائے تو اس وجہ سے مدارس کے پورے سسٹم کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا‘ جیسے حکومت نے خود اجمل قصاب کے معاملے میں ”نان سٹیٹ ایکٹرز“ کا تصور پیش کیا تھا‘ اسی طرح اگر کوئی مدارس سے متعلقہ شخص ایسے کسی عمل میں ملوث پایا گیا تو وہ بھی مدارس کے حق میں ”نان مدارس ایکٹرز“ ہیں‘ ان کے انفرادی افعال پر مدارس پر یلغار کرنے سے گریز کیا جائے۔ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی راہ میں مدارس رکاوٹ نہیں بنیں گے‘ تاہم ثبوت اور شواہد کا مطالبہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے اور کسی کو اس کی اجازت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ وجہ بتائے بغیر مدارس کے طلباء کی ماورائے قانون اغواء کاری کا ارتکاب کرے۔
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے اجلاس کے بعد حکومت کو یہ بھی پیشکش کی گئی ہے کہ مدارس اور مذہبی طبقات کی نمائندہ قیادت موجودہ دہشت گردی کے خاتمے‘ امن وامان کی بحالی اور ناراض لوگوں سے مفاہمت کے لئے ہرممکنہ کردار ادا کرنے پر آمادہ ہے۔ لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے لئے ارباب مدارس کا تعاون حاصل کرنے کی بجائے مدارس کو تنگ کرکے بعض جذباتی نوجوانوں کو دہشت گردی کا راستہ دکھانے اور دہشت گردی کی اس آگ پر تیل چھڑکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سروے فارمز کی تقسیم اور مدارس کا موقف
وطن عزیز کے دینی مدارس کے منتظمین‘ اساتذہ کرام اور ان اداروں میں زیر تعلیم لاکھوں طلباء نے ہمیشہ حب الوطنی کا ثبوت دیا اور ملک وقوم کے لئے کسی قسم کی مشکلات پیدا نہیں کیں‘ بلکہ یکسوئی کے ساتھ اپنی تعلیمی اور دینی خدمات میں مصروف رہے‘ لیکن بدقسمتی سے ان مدارس کو ہمیشہ مشکلات سے دو چار کیا گیا اور ہر نئے حکمران نے دینی مدارس کو تختہ مشق بنایا۔ کچھ عرصے کے سکوت کے بعددینی مدارس کے لئے ایک مرتبہ پھر مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں‘ کہیں انکوائری اور تحقیقات کے نام پر حساس اداروں کے اہلکار مدارس ومساجد کی انتظامیہ کو پریشان کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں سے سروے فارمز کی تقسیم کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں‘ کسی مدرس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اچانک دھاوابول دیتے ہیں اور کبھی کسی مشکوک شخص کی گرفتاری کے بہانے مدارس پر چھاپے پڑنے لگتے ہیں۔
جہاں تک حکومت کی طرف سے مدارس کے کوائف اکٹھے کرنے کا معاملہ ہے‘ اس کی نہ مدارس نے کبھی مخالفت کی اور نہ ہی نیک نیتی پر مبنی ایسی کسی مہم کے راستے میں رکاوٹ ڈالی ‘ بلکہ اس معاملے کا حقیقی پسِ منظر یہ ہے کہ اس وقت تقریباً پاکستان کے تمام دینی مدارس کی باقاعدہ رجسٹریشن کروائی جاچکی ہے۔ رجسٹریشن کے مراحل کے دوران مدارس کے جملہ کوائف متعلقہ اداروں کے پاس جمع کروائے جاتے ہیں‘ بعد ازاں اعلانیہ اور خفیہ طور پر مدارس کے منتظمین کے علاقائی‘ خاندانی اور تعلیمی ریکارڈ کی خوب چھان پھٹک کی جاتی ہے‘ رجسٹریشن فارم جمع کروانے والے مدارس کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور پھر ویریفکیشن کے اس لمبے چوڑے پرسس کے بعد کہیں مہینوں بعد جاکر اس ادارے کو رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً مختلف اداروں کے اہلکار مدارس انتظامیہ سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور مدارس کے کوائف‘ اساتذہ وطلبہ کی تعداد اور تفصیلات وغیرہ سے متعلقہ معلومات کو ”اپ ڈیٹ“ کیا جاتا رہتا ہے۔ ان تمام مراحل کی تکمیل کے بعد تمام مکاتب فکر کے مدارس کی نمائندہ تنظیمات نے سابقہ حکومت کے ساتھ اصولی طور پر یہ بات کی تھی کہ اب بھی اگر قانون نافذکرنے والے ادارے مدارس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں تو وہ سرسری معلومات تو متعلقہ مدرسہ سے براہ راست حاصل کرسکتے ہیں‘ تاہم تفصیلی معلومات کے لئے متعلقہ مدارس کو پریشان اور ہراساں کرنے کی بجائے ان مدارس کی نمائندہ تنظیموں سے رجوع کیاجائے گا‘ لیکن اب اس معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے سروے فارمز کی تقسیم شروع کی گئی ہے۔ ان فارمز میں مدارس کے متعلق مختلف سوالات کئے گئے ہیں اور چونکہ اکثر مدارس ومساجد سے ملحق ہوتے ہیں‘ اس لئے ان فارمز کے ساتھ ساتھ مساجد کے بارے میں بھی ایک فارم گردش کررہا ہے جس میں مساجد کمیٹیوں کے اراکین کے بارے میں پوچھا گیا ہے‘ بالخصوص چند اہم مالی معاونین کے نام‘ پتے بھی مانگے گئے ہیں۔
مدارس کی نمائندہ تنظیموں کو اعتماد میں لئے بغیر شروع کئے گئے اس سروے کو اہلِ مدارس شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
مدارس کے حوالے سے موجودہ صورتحال پر غور کرنے کے لئے ۸/اپریل کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ اور ۹/اپریل کو مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا اور بعد ازاں تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کی نمائندہ تنظیموں پر مشتمل ”اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ“ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا‘ جس میں تمام مکاتب فکر کے مدارس کو پابند کیا گیا کہ وہ پوچھ گچھ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کریں اور انہیں اپنی نمائندہ تنظیموں سے رجوع کرنے کا کہیں۔ اسی طرح ملک گیر سطح پر تحفظ مدارس کنونشنز کے انعقاد کا فیصلہ بھی کیا گیا‘ جس سلسلے کا آغاز ۲۹/اپریل بروز بدھ دارالعلوم اسلام آبادسے کیا جائے گا۔
اسی طرح یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ صدر ‘ وزیر اعظم‘ دیگر مقتدر قوتوں اور متعلقہ اداروں کے نام بھی خطوط لکھے جائیں اور انہیں مدارس کے جملہ معاملات پر مدارس کی نمائندہ تنظیموں سے مذاکرات کرنے اور انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت پر زور دیا جائے کہ سابقہ حکومتوں کے ساتھ جو امور طے پاگئے تھے‘ انہیں نہ چھیڑا جائے اور مذاکرات کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جائے جہاں سے منقطع ہوا تھا‘ از سر نو زیر و پوائنٹ سے معاملات اور مذاکرات کا آغاز نہ کیا جائے۔ اگر حکومت نے اب بھی اس معاملے کو در خور اعتناء نہ سمجھا تو خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں معاملات میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: قلم کس کے ہاتھ میں ہے؟
Flag Counter