Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

11 - 12
سیّدی و مرشدی امام اہل سنت !
سیّدی و مرشدی امام اہل سنت 

جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ کے صدر مدرس، شیخ الحدیث، شیخ التفسیر، رئیس دارالافتاء، جامع مسجد گکھڑ کے خطیب، خانقاہ موسیٰ زئی کے جرعہ نوش، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے گل سرسبد، امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی واں بھچراں کے تلمیذ و مجاز، ان کی فکروسوچ کے امین اور سلوک و احسان اور تفسیر و بیان میں ان کے علمی جانشین، دارالعلوم دیوبند کے نامور سپوت، شیخ العرب والعجم شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی کے شاگرد رشید اور علمائے ہند وپاک کے ترجمان، حلقہ دیوبند کے معتمد و مرجع، علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کے ماتھے کا جھومر، تحریر و بیان کے ماہر، حق گوئی و بے باکی کی تصویر، اسلاف واکابرکی روایات کے امین، عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت کے کوہ گراں، سرمایہ ملت کے نگہبان، بیسیوں دینی مدارس و مساجد کے سرپرست، ہر دینی تحریک کے روح رواں، باطل پرستوں کے مقابلہ میں ابراہیمی استقامت کے علم بردار، دین ِحنیف کے پاسبان، اکابر دیوبند اور بالخصوص: محدث العصر حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی، حضرت مولانا مفتی مہدی حسن خان، رئیس دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا فخر الدین شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، محدث العصر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی، خیرالعلمأ حضرت مولانا خیر محمد جالندھری، شیخ التفسیر حضرت مولانا شمس الحق افغانی، حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی جامعہ اشرفیہ لاہور، حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی، زبدة الفقہاء حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی، یادگار اسلاف حضرت مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، سیّدالعلماء حضرت مولانا عبدالخالق مظفر گڑھی، خواجہ خواجگان مولانا خواجہ خان محمد خانقاہ کندیاں شریف، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا مفتی محمد حسن بانی و مدیر جامعہ اشرفیہ لاہور ،حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی اور محمود الملة والدین مولانا مفتی محمود قدس اللہ اسرارہم جیسے اکابر کی لسان اور ان کے معتمد و ترجمان، دنیا بھر کے اہل حق اور اصحاب علم کے دلوں کی دھڑکن اور عالم اسلام کی مایہ ناز علمی و تحقیقی شخصیت، ہمارے مخدوم و محبوب، شیخ و مرشد امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا ابو زاہد محمد سرفراز خان صفدر ۵/ مئی ۲۰۰۹ء مطابق ۹/ جمادی الاولیٰ ۱۴۳۰ھ پیر اور منگل کی درمیانی شب دو بجے رحلت فرمائے عالم آخرت ہوگئے۔ انا للّٰہ واناالیہ راجعون ۔ ان للّٰہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل عندہ باجل مسمّٰی۔
ہمارے شیخ و مرشد اور امام اہل سنت قدس سرہ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ کمالات، خصوصیات و مزا یا سے سرفرازفرمایا تھا، سمجھ نہیں آتا کہ حضرت کے کس کس کمال، خصوصیت اور امتیاز کو ذکر کیا جائے؟ اور کس کو چھوڑا جائے؟ حضرت کی ایک ایک ادا دل نواز اور ایک ایک قول، فعل اور عمل حجت و سند کا درجہ رکھتا تھا، آپ نے جس میدان میں قدم رکھا کامیابی و کامرانی نے آپ کی قدم بوسی کی اور آپ نے جس فتنہ اور فتنہ پرور کا تعاقب کیا، اس کو گھر تک پہنچاکر دم لیا، مگر بایں ہمہ آپ نے ہمیشہ متانت و سنجیدگی اور قوت استدلال سے بات کی، کٹرے سے کٹر مخالف بھی آپ کی حذاقت و صداقت اور اعتدال کا قائل اور آپ کے زور استدلال کا معترف تھا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف کو سند و حجت کا درجہ حاصل تھا اور ایسے تمام اختلافی مسائل جن پر ہندوپاک میں ایک عرصہ سے میدان کار زار اور جنگ و جدل کا اکھاڑہ برپا تھا، آپ نے نہایت مدلل و محقق انداز میں نہ صرف ان کو مبرہن فرمایا بلکہ مخالفین کے دانت کھٹے کردیئے اور فریق مخالف کو چاروں شانے چت کردیا۔
یوں تو جب سے شعور اور ہوش آیا، حضرت امام اہل سنت سے تعارف اور عقیدت اساتذہ اور اکابر کی برکت سے ورثہ میں ملی تھی، مگر حضرت کو دیکھنے کی سعادت تب میسر آئی جب حضرت کی کراچی آمد و رفت شروع ہوئی اور آپ کو بالمشافہ سننے کا موقع بھی تب ہی میسر آیا، سچی بات یہ ہے کہ جب تک ہمارے شیخ حضرت اقدس حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید حیات رہے ہم نے کسی دوسرے بزرگ کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنا بھی گوارانہ کیا، جب حضرت شہید کی شفقتوں کا سائبان ہمارے سروں سے ہٹا تو شفقت و محبت کے سائے کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا، تو بحمداللہ! بہت جلد محبت و عقیدت اور شفقت و الفت کے درج ذیل تین مراکز پر جاکر نگاہیں رک گئیں: امام الاولیاء حضرت خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد مدظلہ کندیاں شریف، امام اہل سنت حضرت اقدس مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور قطب الارشاد حضرت اقدس سیّد نفیس شاہ الحسینی  ۔
بلامبالغہ ان مراکز رُشد و دہدایت پر پہنچ کر ماں باپ کی محبت و شفقت کا احساس تازہ ہوجاتا تھا۔
”ہرگلے را رنگ و بوئے دیگر است “ کے مصداق ان اکابر کی محبت و شفقت اور سرپرستی کا اپنا اپنا انداز تھا، حضرت قبلہ سیّد نفیس شاہ الحسینی قدس سرہ کا رائے پوری انداز تھا تو امام اہل سنت پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ کے رنگ کا غلبہ تھا جبکہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کا ان سب سے نرالا انداز تھا، اے کاش کہ اب ہم اول الذکر ہر دو حضرات کی محبتوں اور شفقتوں سے محروم ہوگئے۔ خدا کرے کہ حضرت خواجہ صاحب کا سایہ عاطفت صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رہے۔ آمین۔
حضرت امام اہل سنت قدس سرہ کی سیرت و سوانح اور خصوصیات پر بہت کچھ لکھا جائے گا بلکہ لکھا جاتا رہے گا، سچ پوچھئے تو میں اپنے اکابر کی شخصیت اور ان کی سیرت و سوانح پر لکھنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتا ہوں، کیونکہ بڑوں پر لکھنے کے لئے بڑا علم، بڑی عقل، بڑی فہم، بڑا تدبر، بڑا سلیقہ اور بڑا حوصلہ چاہئے ․․․نہیں تو کم از کم اتنا تو ہو کہ لکھنے والا ان اکابر کی سیرت و سوانح اور اخلاق و کردار، علم و عمل، جہد، مجاہدہ، فہم و فراست، زہد، تقویٰ، ایثار و قربانی، توکل و تبطل، جود و سخا، صدق و صفا، حلم و تحمل اور صبر و شکر وغیرہ کمالات سے آگاہ و آشنا ہو، جبکہ ادھر تو مذکورہ عنوانات اور ان ملکات کی حقیقت تو کجا ان الفاظ کا معنی آجائے تو بڑی بات ہے۔
بہرحال حضرت اقدس امام اہل سنت کو اللہ تعالیٰ نے جتنا بڑا مقام عطا فرمایا تھا ،اس سے کہیں زیادہ آپ کو ظرف بھی عطا فرمایا تھا، چنانچہ آپ اگرچہ بیک وقت علوم عقلی و نقلی: قرآن، سنت، تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، اسمائے رجال، جرح و تعدیل، فقہ، اصول فقہ، ادب، معانی، بیان، بدیع، بلاغت، کلام، صرف، نحو، منطق، فلسفہ، ناسخ، منسوخ ، عروض و کافیہ وغیرہ تمام علوم متداولہ و غیر متداولہ کے ماہر و شناور تھے، لیکن مجال ہے کہ ان کے کسی قول، فعل، عمل، چال، ڈھال، رنگ، ڈھنگ یا کسی اشارے اور کنائے سے اس کا اندازہ یا پتہ چلتا ہو، کہ آپ اتنا بڑے مدرس، محدث، مفسر، محقق اور مصنف ہیں، یا اتنا بڑی تعداد میں آپ کی کتب اور تصانیف ہیں! یا آپ اتنا بڑے مناظر و باحث اور قادر الکلام مقرر ہیں!
بلاشبہ ہمارے حضرت سوفیصد اکابر و اسلاف کی یادگار تھے، سیدھا سادا رہن سہن، مسنون پگڑی، جھکی نگاہیں، سوچ میں ڈوبی گہری خاموشی اور یادِ الٰہی میں مستغرق دل و دماغ، اتباع سنت میں چلتے تیز قدم اور ہاتھ میں عصا، آپ کی پہچان تھی۔ بلاشبہ ہمارے شیخ آیت من آیات اللہ اور حجة اللہ فی الخلق تھے، آپ پکے سچے دیوبندی اور مضبوط و متصلب حنفی تھے، آپ مسلک اعتدال کے داعی و علمبردار اور اپنے اسلاف و اکابر کی تحقیقات کے مقلد محض تھے، آپ اپنے اکابر کی تحقیقات کو علی وجہ البصیرت اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں خوشی اور فخر محسوس کرتے اور آپ کے ہاں اپنے اکابر کی تحقیقات سے سرمو انحراف ناقابل برداشت تھا، یہ ان کا امتیاز و اختصاص تھا کہ وہ اجماعی عقائد و نظریات اور مسائل و تحقیقات کو اپناتے، مگر شذوذ و تفردات سے اپنے آپ کو دور رکھتے، بلاشبہ یہ ان کی عظمت، تفوق اور بڑائی کی علامت و دلیل ہے کہ اتنے بڑے عالم اور عظیم محقق ہونے کے باوجود اخیار امت کی تحقیقات کو اپنے لئے حرف آخر اور باعث فوز و فلاح سمجھتے۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں آج کل کا عام چلن یہ ہے اور عموماً دیکھنے میں بھی یہی آیا ہے کہ جس کسی کو دو چار حرف لکھنا پڑھنا آجائیں وہ مجتہد مطلق کہلانے کی سعی و کوشش شروع کردیتے ہیں اور ان کو جدید تحقیقات اور نئی نئی جدتیں سوجھنے لگتی ہیں، انہیں اپنے اسلاف و اکابر کی تحقیقات، مجموعہ اغلاط نظر آنے لگتی ہیں اور دل ہی دل میں وہ اپنے بزرگوں کی ”جہالت“ و ”لاعلمی“ پر روشن خیالوں سے شرمندہ شرمندہ سے رہنے لگتے ہیں، چنانچہ وہ پہلی فرصت میں اپنے مافوق الفطرت ”علم و فہم“ ، غیر معمولی ”اجتہادی ملکہ“ اور ”زور اجتہاد“ کی برکت سے اسلاف و اکابر کی تحقیقات میں موجود خامیوں اور اغلاط و اسقام کی ”تصحیح“ کی اہم ”علمی و تحقیقی“ خدمت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر کبھی ان ”مجتہدین“ کا ”اجتہادی ملکہ“ یا ”تحقیقی دماغ“ اسلاف و اکابر کی عبارات، علمی تحقیقات، طرز استدلال اور طریق استشہاد وغیرہ کی حقیقت تک نہ پہنچ سکے یا وہ اسے ہضم نہ کرسکیں تو بجائے اس کے کہ اپنی جہالت و لاعلمی کا اظہار و اعتراف کرلیں، ان کی کج فکری، انہیں اکابر و اسلاف سے بغاوت کی راہ سجھاتی ہے، یوں وہ خوارج و معتزلہ کی طرح نصوص قطعیہ کے انکار سے بھی نہیں چوکتے، چنانچہ ایسے لوگ اکثر و بیشتر اپنی کج راہی اور خام عقلی کی بدولت نصوص قطعیہ کا انکار کرکے خوارج و معتزلہ کی مانند اسلاف امت سے الگ راہِ اعتزال اختیار کرکے ایک نئی فکر، نئے دین، نئے فرقے، نئے گروہ اور نئے مسلک کی بنیاد رکھ لیتے ہیں، اور چلتے چلتے ”لکل ساقطة لاقطعة“ ․․․گری پڑی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا مل ہی جاتا ․․․مصداق وہ اپنا ایک نیا حلقہ، اور نئی جماعت بناکر اسلاف امت کی تغلیط کرکے نئی نسل کو اسلاف سے کاٹ کر گمراہ کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
غور کیجئے ! تو آج کل جتنا باطل فرقے، جماعتیں، حلقے اور طرز فکر نظر آتے ہیں، وہ سب اسی کجراہی غلط فکر و سوچ اور نام نہاد ”اجتہادی ملکہ“ یا ”تحقیقی دماغ“ کے ثمرات و نتائج ہیں۔
دور کیوں جایئے! تھلہ سادات ضلع ملتان کے ابوالخیر اسدی نامی اسی طرح کے ایک جدت پسند کو لے لیجئے کہ اس کو جب کسی مناظرہ میں اس کے حریف نے کسی نامور بزرگ کی کوئی عبارت پیش کرتے ہوئے لاجواب کیا، تو نہ صرف یہ کہ وہ مناظرہ ہار گیا، بلکہ اسی دن سے وہ ایمان کی بازی بھی ہار بیٹھا، اس لئے کہ اس عبارت کا مطلب و مفہوم اس کی سمجھ سے بالاتر تھا، شروع شروع میں تو ابوالخیر نے اپنی جدت پسند عقل کا ماتم کرنے کی بجائے صاحبِ عبارت بزرگ کو ہدف تنقید بنایا اور اس سے اپنی برأت کا اظہار کیا، لیکن افسوس کہ رفتہ رفتہ اس اللہ والے کی گستاخی اسے لے ڈوبی اور آخرش وہ منکر حدیث بلکہ ایک گمراہ فرقہ کا بانی و سربراہ ہوکر مرا۔
الغرض ہمارے شیخ و مرشد اور امام اہل سنت قدس سرہ نے ساری زندگی نہ صرف اکابر، اسلاف اور اہل تحقیق کی تحقیقات پر اعتماد کیا، بلکہ ان کی تحقیقات و عبارات پر مخالفین کے وارد کردہ ایک ایک اعتراض و اشکال کا نہایت سلیقہ سے بہترین ، معقول اور دندان شکن جواب دیا اور نئی نسل کو اپنے اکابر و اسلاف سے وابستہ رہنے اور ان پر مکمل اعتماد کرنے کی تعلیم و تلقین فرمائی۔ امام اہل سنت قدس سرہ کی مشہور زمانہ کتاب ”عبارات اکابر“ آپ کے انہیں جوابات پر مشتمل نہایت ہی ایمان افروز تحقیقی گلدستہ ہے، جس نے بلامبالغہ سینکڑوں ڈانواں ڈول نوجوانوں کو شکوک و شبہات سے بچایا اور ان کے دین و ایمان کا تحفظ کیا۔
بلاشبہ ہمارے شیخ و مرشد امام اہل سنت نوراللہ مرقدہ دین و مذہب اور مسلک کے معاملہ میں مضبوط و متصلب ضرور تھے، لیکن متعصب نہیں تھے۔
ایک بار راقم الحروف نے کسی سلسلہ کلام میں عرض کیا کہ حضرت میرا خیال ہے کہ آج کل کے حالات میں جب تک کوئی آدمی اپنے مسلک و موقف میں متعصب نہ ہو، اس وقت تک اس کا اپنے مسلک و موقف پر کاربند رہنا ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل ضرور ہے، میری اس حماقت پر حضرت نے بغیر کسی ناگواری کے نہایت شفقت سے فرمایا:
”نہیں! نہیں! آدمی کو متعصب نہیں، متصلب ہونا چاہئے، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: متصلب کا معنی یہ ہے کہ اپنے اسلاف و اکابر کی تحقیقات پر مضبوطی سے کاربند ہو، لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس کو کہیں سے کوئی حق و سچ کی بات ملے تو ازارہ تعصب اس کا انکار کردے، پھر فرمایا کہ جو شخص متعصب ہوگا وہ قبول حق سے محروم ہوگا، لیکن جو متعصب کی بجائے متصلب ہوگا وہ اگرچہ کسی سے متاثر تو نہیں ہوگا، لیکن اس پر جب دلائل و براہین کی روشنی میں حقیقت حال منکشف ہوگی، وہ اس کے قبول کرنے سے انکار بھی نہیں کرے گا۔
لاریب ان حضرات کا جو منصب و مقام تھا ان کو اسی درجہ کا اعتدال و میانہ روی زیب دیتا تھا، یہی وہ اعتدال تھا جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عزیز جہاں بنادیا تھا، اپنے تو اپنے پرائے اور مخالف بھی آپ کی عظمت کے قائل تھے، بہت کم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہوگا کہ جس نے قریب قریب تمام فروعی مسائل اور فرق باطلہ کی تردید میں مدلل و محقق انداز میں لکھا ہو، اور ان کی کھل کر تردید کی ہو، مگر بایں ہمہ اسے ہر فرقہ کے لوگ بلکہ عوام و خواص اور جاہل و عالم، عظمت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوں ۔
آپ کے اسی حسن اعتدال، علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف میں مہارت و کمال کی برکت تھی کہ جب اجماعی عقیدہ مسئلہ حیات انبیاء میں اختلاف پیدا کیا جانے لگا تو اس وقت کے اکابر و اساطین امت کی باہمی مشاورت اور غوروخوض سے اس عنوان پر لکھنے کے لئے بالاتفاق آپ کا انتخاب عمل میں آیا، جیسا کہ محدث العصر حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
”حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی حیات بعد الممات کا مسئلہ صاف و متفقہ مسئلہ تھا۔ شہداء کی حیات بنص قرآن ثابت تھی اور دلالة النص سے انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات قرآن سے ثابت تھی اور احادیث نبویہ سے عبارت النص کے ذریعہ ثابت تھی، لیکن بُرا ہو اختلافات اور فتنوں کا کہ ایک مسلمہ حقیقت زیر بحث آکر مشتبہ ہوگئی، کتنے تاریخی بدیہات کو کج بحثیوں نے نظری بنادیا اور کتنے حقائق شرعیہ کو کج فہمی نے مسخ کرکے رکھ دیا، یہ دنیا ہے اور دنیا کے مزاج میں داخل ہے کہ ہر دور میں کج فہم اور کج رو اور کج بحث موجود ہوتے ہیں۔ زبان بند کرنا تو اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے۔ ملاحدہ و زنادقہ کی زبان کب بند ہوسکی۔ کیا اس دور میں امام حسین کی شہادت کو افسانہ نہیں بنایا گیا اور کہا گیا کہ واقعہ ہے ہی نہیں ، اور کیا امام حسین کو باغی واجب القتل اور یزید بن معاویہ کو امیرالمومنین خلیفہ برحق ثابت نہیں کیا گیا، کسی صحیح حدیث کو ضعیف بنانے کے لئے کسی راوی کے بارے میں کتب رجال میں جرح کا کوئی کلمہ دیکھا بس کافی تھا کہ اس پر بنیاد قائم کی جائے، اگر عقل سلیم سے کام نہ لیا جائے اور صرف کتاب میں جرح کو دیکھا جائے تو امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل تمام کے تمام ائمہ مجروح ہوکر دین کا سرمایہ ہی ختم ہوجائے گا۔ الغرض حیات انبیاء کرام علیہم السلام کا مسئلہ بھی تقریباً اسی قسم کے کج بحثوں میں الجھ کر اچھا خاصا فتنہ بن گیا، عصمت تو انبیاء کرام کا خاصہ ہے، علماء معصوم تو ہیں نہیں، کچھ حضرات نے دانستہ یا نادانستہ حدیثی و کلامی بحثیں پیدا کردیں اور سمجھا یہ گیا یا سمجھایا گیا کہ اس طرح تو سل بالآموات اور استعانت بغیر اللہ وغیرہ وغیرہ بہت سی بدعات کا خاتمہ ہوجائے گا گویا علاج یہ تجویز کیا گیا کہ حیات انبیاء کرام سے انکار کرنے ہی سے یہ مفاسد ختم ہوسکتے ہیں، اس کی مثال تو ایسی ہوئی کہ بارش سے بچنے کے لئے پرنالے کے نیچے جاکر بیٹھ گئے۔ بہرحال ان تفصیلات میں جانے کی حاجت نہیں ،اس خلفشار کو ختم کرنے کے لئے ارباب فکر و اخلاص نے چند حضرات کے نام تجویز کئے کہ اس اختلاف کو جس نے فتنہ کی شکل اختیار کرلی ہے ختم کرنے کی کوشش کریں، راقم الحروف کا نام بھی ان میں شامل تھا، تجویز یہ ہوئی کہ اس موضوع پر ایک محققانہ کتاب موثر انداز میں لکھی جائے اور تشکیک پیدا کرنے والے حضرات کے شبہات کے جواب بھی دیئے جائیں اور مسئلہ کے تمام گوشوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا جائے، باتفاق رائے اس کام کے انجام دہی کے لئے جناب برادرگرامی مآثر مولانا ابوالزاہد محمد سرفراز صاحب منتخب ہوگئے، جن کے دماغ میں بحث و تمحیص کی صلاحیت بھی ہے، قلم میں پختگی بھی، علوم دینیہ اور حدیث و رجال سے اچھی قابل قدر مناسبت بلکہ عمدہ بصیرت بھی ہے، مختلف مکان سے غرر نقول جمع کرنے کی پوری قدرت بھی ہے اور حسن ترتیب کی پوری اہلیت بھی۔الحمدللہ کہ برادر موصوف نے توقع سے زیادہ مواد جمع کرکے تمام گوشوں کو خوب واضح کردیا ہے اور تحقیق کا حق ادا کردیا ہے، میرے ناقص خیال میں اب یہ تالیف اس مسئلہ میں جامع ترین تصنیف ہے اور اس دور میں جتنی تصانیف اس مسئلہ پر لکھی گئی ہیں ان سب میں جامع وواضح و عالمانہ بلکہ محققانہ ہے، اللہ تعالیٰ موصوف کی اس خدمت کو خلعتِ قبو ل سے نوازے اور مزید اس قسم کی خدمات کی توفیق عطا فرمائے۔“
اللہ تعالیٰ ہمارے حضرت شیخ و مرشد کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی رحلت کے بعد کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے اور ان کے اجر سے محروم نہ کرے اور ان کے پسماندگان اور روحانی ونسبی اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ادارہ بینات اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی انتظامیہ، مدیر، نائب مدیر اور تمام اساتذہ کرام اس سانحہ کو اپنا ذاتی سانحہ سمجھتے ہیں اور حضرت مرحوم کے ابنأاور جمیع پسماندگان سے دلی تعزیت کرتے ہیں اور قارئین بینات سے درخواست کرتے ہیں کہ حضرت کو اپنی دعاؤں اور ایصال ثواب میں فراموش نہ فرماویں۔ آمین۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: آئینی بحران اور اس کا دانشمندانہ حل !
Flag Counter