Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

9 - 12
چند مطبوعہ تفاسیر کی خصوصیات وامتیاز
چند مطبوعہ تفاسیر کی خصوصیات وامتیازات

مفید تفاسیر کے موضوع سے متعلق ․․․․جن کا تذکرہ جاری تھا․․․․میں نے ایک محاظرہ پیش کیا تھا، جس کا خلاصہ یوں ہے کہ میں نے مطبوعہ کتب تفسیر کو چار اقسام پر تقسیم کیا ہے:
۱- علماء وائمہ ٴ عربیت کی تفاسیر
جیسا کہ ”الکشاف“ تفسیر ابی السعود ،اسی طرح کشاف سے اختصار کردہ ”البیضاوی“ اور ”المدارک“،امام ابوحیان کی تفسیر ”البحر المحیط“ ،؟؟؟” النہر المادمن البحر“، الدر اللقیط من البحر المحیط۔تفسیر ”الکشاف“ کی خصوصیات کے متعلق میں نے اپنے محاظرے میں کافی بحث کی اور اس کے فوائد بھی بتلائے ،ساتھ ساتھ مسلک اعتزال سے علامہ زمخشری کا تعصب ‘ اہل سنت پر طعن درازی‘ ان پر اجبار وحشو کے فتوے‘ ان کے متعلق سخت کلام ،یہاں تک کہ دشنام طراز ی ،سب وشتم اور باوجود اپنے زہد اور پرہیزگاری کے بعض علمی جوابات میں زبان درازی کے متعلق بھی میں نے خوب وضاحت کی ،اللہ کی قدرت بھی بڑی عجیب ہے کہ جس نے اس قسم کی طبائع تخلیق فرماکر تقسیم فرمائے اور میں نے یہ بھی کہا کہ: جو شخص بھی ان کے بعد آیا،وہ ان کے قائم مقام نہ بن سکا ،چاہے اس نے علامہ ہی کے کلام کو مختصر وملخص کیوں نہ کیا ہو،یا چند الفاظ کا تغیر اور بعض تعبیرات کا اضافہ ہی کیوں نہ کیا ہو ۔ تفسیر کشاف کے بعد عمدہ ترین تفاسیر میں سرفہرست علامہ ابو سعود کی تفسیر ”ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم“ ہے ،اس لئے کہ کچھ فوائد ومسائل علامہ نے ایسے بیان فرمائے ہیں جو کشاف کے فوائد سے زیادہ ہے۔ بہرحال علمائے لغت اپنی تفاسیر میں علامہ زمخشری کے مرہون منت ہیں، اور ان کی تفاسیر کا تانا بانا اسی سے بندھا ہے ۔ مذکورہ تفاسیر کے علاوہ شیخ عبد الرحمن جزائری ثعالبی کی تفسیر ”الجواہر الحسان“ کے متعلق بھی میں نے اپنا مدحی وتعریفی تأثر پیش کیا، اس لئے کہ اس میں ابن عطیہ کی تفسیر کا خلاصہ ونچوڑ پیش کیا گیا ہے ،اور سینکڑوں تفاسیر سے ابن عطیہ کی تفاسیر کی جانچ کی گئی ہے ؟؟خلاصہ وما حصل یہ کہ مذکورہ تفاسیر علماء لغت کی بہترین تفاسیر شمار کی جاتی ہیں اور علماء وطلباء میں رائج ہیں۔
۲-محدثین کرام کی تفاسیر
۱:․․․تفسیر ابن جریر‘۲:․․․ تفسیر ابن کثیر ،۳:․․․اور الدر المنثور فی التفسیر بالماثور یہ تین تفاسیر محدثین کرام کی بقیہ تفاسیر سے مستغنی کردینے والی ہیں۔
۳-علمائے منطق وکلام کی تفاسیر
متکلمین کی نظیر میں سرفہرست تفسیر علامہ رازی کی ”مفاتیح الغیب“ اور اس کا خلاصہ” غرائب الفرقان“ جو علامہ نیسابوری کی کاوش ہے، شمار کی جاتی ہیں اور اس موضوع کے متعلق قدیم ترین تفسیر علامہ ابو منصور ماتریدی کی ”التاویلات“ ہے، جس کی شرح شیخ ابوبکر سمرقندی نے تحریر فرمائی ہے، اس کا بہترین نسخہ مکتبہ الحرم المکی سے چھپ کر شائع ہوا ہے، یہ انتہائی عمدہ تفسیر ہے اور علم کلام کی وسیع ابحاث سے بھر پور ہے۔
۴- وہ تفاسیر جن میں فقہی احکام اور مذاہب فقہیہ کی ابحاث کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے
ان میں سرفہرست علامہ قرطبی کی ”احکام القرآن“ جس میں فقہی ابحاث سمیت لغوی ابحاث کا بھی قدرے اہتمام کیا گیا ہے ۔اسی طرح علامہ ابوبکر جصاص رازی کی تفسیر بھی فقہی رنگ سے مزین ہے ،جس میں علامہ موصوف نے مسائل فقہیہ کو بیان فرماکر ان کے دلائل کے متعلق خوب شرح وبسط فرمائی ہے اور” الفصول فی الاصول“ گویا اپنی تفسیر کے لئے مقدمہ کے طور پر تصنیف فرمائی ہے ،اس کا بہترین نسخہ قاہرہ کے مکتبة الحکومة میں موجود ہے، اسی نسخہ کی ہم نے بھی نقل لی تھی ،اسی طرح ہندوستان کے صوبہ دکن کے شہر حیدر آباد کے احیاء المعارف النعمانیہ کا منقولہ نسخہ بھی بہت عمدہ ہے اور علامہ جصاص تو علم اصول ‘ علم کلام‘ علم فقہ ‘ علم حدیث میں تحقیق وتفتیش کا اعلیٰ درجہ رکھتے تھے ،اور ان علوم میں حذاقت ومہارت کے ساتھ ساتھ خوب معلومات رکھتے تھے انہی فقہی تفاسیر میں قاضی ابوبکر بن العربی اورقاضی ثناء اللہ پانی پتی کی تفاسیر بھی قابل ذکر ہیں ،قاضی ثناء اللہ نے اپنی تفسیر کا نام اپنے مرشد کریم عارف باللہ شیخ مظہر جان ِجاناں نقشبندی کے نام پر” التفسیر المظہری“ رکھا، فقہی مذاہب کی تحقیق کے متعلق یہ تفسیر عمدہ ترین تفاسیر میں شمار کی جاتی ہے اور دس مجلدات میں طبع کی گئی ہے، علامہ احمد جونپوری ہندی کی ”التفسیرات الاحمدیة“ جو احکام کی مشہور آیات کی ہی تفسیر ہے۔
۵-تفاسیر کی پانچویں قسم صوفیاء کرام کی تفاسیر ہیں
جیسے شیخ اکبر اور امام غزالی کی تفسیر،انہی کے مانند مہائمی ہندی کی تفسیر ”تبصیر الرحمن“ بھی ہے، جس میں بڑی قابل قدر ابحاث ودیعت فرمائی گئی ہیں، عراق کے مفتی سید محمود آلوسی نے اپنی تفسیر ”روح المعانی“ میں ان تمام پانچوں موضوعات کو اپنی مشہور تفسیر میں جمع کرنے کا ارادہ فرمایا ،چنانچہ یہ سب سے جامع ترین تفسیر ہے ،جو ان ممیزات وخصائص کو حافظ ابن حجر کی ”فتح الباری“ جیسی مضبوط عمدہ عبارات پر مشتمل ہے ،لیکن اس تفسیر پر بھی ادبی اور کلامی رنگ غالب ہے اور چونکہ علامہ موصوف متاخرین میں سے ہیں ،اس وجہ سے عصر حاضر کے مسائل ومشکلات کے متعلق بھی خوب بحث فرمائی ہے اور بعضے مواضع میں علامہ رازی کے پیش کردہ مسائل کے جوابات پر بھی کچھ نقد ونظر فرمایا ہے ،لیکن ان کے جوابات کے متعلق سکوت فرمایا ہے
علماء ہند خاص طور پر علماء دیوبند کے قرآن کریم کے متعلق کارہائے نمایاں اور اہل باطل واہل حق کی تفاسیر پر تنبیہات
اس مقام پر پہنچنے کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ علماء ہند خاص طور پرعلماء دیوبند کی قرآن وحدیث کے متعلق خدمات‘ شریعت اسلامی سے بدعات کی روک تھام ،برطانوی سامراج سے خلاصی اور آزادی وطن کی خاطر علمی وعملی جد وجہد‘ حمیت اسلامی اور دینی غیرت کی تخم ریزی ،ہند کے عوام وخواص کے قلوب میں اسلامی عروج وترقی اور حریت وطن کی روح پھونکنا ،اور انہیں پردیسی دھوکہ باز خائن حکومت کے شکنجے سے بچانے کے بارے میں ان علماء کی خدمات کو آشکارا کردوں،یہ تمام خدمات ان علماء کرام کے بڑے احسانات ہیں ،جو روز روشن سے زیادہ نمایاں ہیں، جن کو مؤرخین ہرگز فراموش نہ کر سکیں گے ، عرب ممالک میں رہائشی باشندوں کی ان علماء کی خدمات سے متعلق عدم واقفیت اوربعض اہل ِقلم اور صحافیوں کی ان کے متعلق طعن زنی اور ان کی ان خدمات کے اخفاء کے ساتھ ساتھ انصاف اور دیانت سے قطع نظر حق جوار میں کوتاہی کرتے ہوئے ان پر اتہام طرازی نے مجھے برانگیختہ کیا کہ میں ان خدمات کی وضاحت کروں ۔ ہائے افسوس! کہاں ہے انصاف!! کدھر گئی دیانت!! انصاف ودیانت کو تودور لے جانے والاعنقا لے اڑا ، اور دور افتاد بیابانوں تک لوگوں کی رسائی بھی کم ہے ۔ لیکن ان تمام خدمات کی تفصیلات اس مقام پر ممکن نہیں، لہٰذا چند خدمات کے متعلق ذیل میں ذکر ہوگا جو گویا بجلی اور چمک ہیں جو موسلادھار بھرے بادلوں کی طرف رہبری ورہنمائی کرے گی ۔ ۱-علمائے ہند کے ان کا رہائے نمایاں میں سے فارسی زبان میں تحریر کردہ تفسیر ”البحر المواج“ ہے ، جو آٹھویں صدی ہجری کے علامہ شمس الدین دولت آبادی ،الدہلوی کی ہے ،یہ قاضی عبد المقتدر شریحی کندی کے احباب ارادت میں سے ہیں ۔ ۲- شیخ علی بن احمد المہائمی متوفی ۸۳۵ھ کی عربی تفسیر ”تبصیر الرحمن“ ہے جو چار مجلدات پر حاوی ہے، مہائم بمبئی کے قریب ساحل سمندر پر واقع ایک شہر ہے ،مصر سے یہ تفسیر طبع کی گئی ہے ،یہ نہایت عمدہ اور نفیس تفسیر ہے ،جس میں ربط بین السور والآیات کے متعلق خصوصی فوائد ذکر کئے گئے ہیں اور دیگر کئی فوائد بھی اس تفسیر میں موجود ہیں۔ ۳- شیخ محدث محقق قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی ”تفسیر مظہری“ ہے، یہ بھی عربی تفسیر ہے ،،قاضی صاحب حجة اللہ البالغة کے مصنف حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے تلامذہ میں سے ہیں ،یہ بھی نہایت عمدہ تفسیر ہے ،خاص کر احکام ومسائل اور مختلف فقہی مذاہب کے متعلق نفیس ابحاث پر مشتمل ہے ،حال ہی میں دس بڑی مجلدات پر یہ تفسیر طبع ہوئی ہے۔ ۴- ابو الفیض فیضی کی تفسیر ”سواطع الالہام “ہے جو آٹھویں صدی ہجری کے ہندوستانی بادشاہ جلال الدین اکبر کی سلطنت اکبریہ کے علماء میں سے ہیں ،ابو الفیض نے قرآن کریم کی یہ تفسیر غیر منقوط حروف سے لکھی ہے اور اس کے متعلق خوب تکلف سے کام لیا ،جس کی بناء پریہ تفسیر فی نفسہ بے فائدہ ہوگئی، لیکن اتنی سخت محنت ومشقت سے تحریر کردہ یہ تفسیر بہرحال قابل تعریف ہے ،جو مؤلف کی عربی زبان پر حذاقت ومہارت کی خبر دیتی ہے کہ اس غیر منقوط حروف کے استعمال کو اخیر تفسیر تک برقرار رکھا ہے۔ ۵-نواب صدیق حسن خان قنوجی کی تفسیر ”فتح البیان“ہے ،جو کئی مجلدات پر مشتمل ہے ،ان تفاسیر کے علاوہ ،دیگر کئی تفاسیرعربی اور فارسی زبان میں ہندی علماء کے شاہکار ہیں ،جن کی تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے ۔ علاوہ ازیں ہندوستان میں قرآن کریم کا فارسی میں سب سے پہلا ترجمہ کرنے والے اور امت میں قرآن کریم کے ترجمہ کا رواج ڈالنے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی ۱۱۷۶ھ تھے جو ”حجة اللہ البالغة“ ”البدور البازغة“ ”الخیر الکثیر“ ”التفہیمات الالہیة“ ”ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء“ ”المسوي“ اور ”المصفي“ ․․․جو مؤطا کی دو لائق قدر شروحات ہیں․․․ کے علاوہ دیگر کئی قیمتی اور قابلِ قدر تصانیف کے مؤلف ہیں ،ترجمہ قرآن کے متعلق علامہ محترم نے بڑی باریک بینی سے کام لیا ہے اور ان اسرار ومعارف اور لطیف اشارات کی رعایت فرمائی ہے جو ہرکس وناکس کو سمجھ میں نہیں آسکتے ،جب تک کے وہ اس میدان کا شہسوار نہ ہو اور اس ترجمہ پر مزید تفسیری فوائد ونکات مختصر طور پر تحریر فرمائے ہیں ،اور اسرائیلیات کو یکسر ترک کیا ہے ،اس ترجمہ کا نام انہوں نے ”فتح الرحمن“ تجویز فرمایا، یہ ترجمہ تحریر فرما کر گویاانہوں نے امت مسلمہ میں وحدت کی بنیاد رکھی ہے ،اللہ کریم ان کو خوب رحم وکرم سے نوازے ،انہوں نے ہمیں قرآن کریم کے عربی زبان کے علاوہ ترجمہ کرنے کے متعلق بحث سے مستغنی فرمادیا ،جو مسئلہ کافی عرصہ تک علماء مصر کے درمیان زیر بحث رہا ۔اور ظاہرسی بات ہے کہ قرآن کریم کی معجز فصاحت کا غیر لغت میں ترجمہ کہاں مقابل ومساوی ہوسکتا ہے کہ ترجمہ کی عدم فصاحت واعجاز کا قرآن کریم کے اعجاز پر اثر پڑے؟ بیشک قرآن کریم کا فہم تو اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے، جب علوم عربیت کی تحصیل کے ذرائع عربی گرامر وغیرہ حاصل کیے جائیں اور جو علوم ذرائع فہم ہیں، وہ بے شک لائق تحسین ہیں ۔ قرآن کریم کے معانی کا فہم علومِ عربیت کی تحصیل ․․․عربی گرامر وغیرہ ․․․اور دیگر متعلقہ لازمی علوم کے ذریعہ بے شک لائقِ تحسین اور اولیٰ ہے ،لیکن جس شخص کو ان علوم کے حصول پر قدرت نہ ہو تو کیا اس کی قرآن کریم کی واقفیت سے محرومی بہتر ہے یا اپنی مادری زبان میں قرآن کا سمجھ لینابہترہے؟ قیاسی اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ دوسری شق اچھی ہے اور خداوند کریم نے قرآن کریم کو تمام لوگوں کے واسطے نازل فرمایا ہے انس ہوں یا جن عرب ہوں یا عجم سب کے فہم کے واسطے قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔ پھر یہ بات بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ قرآن کریم جن اصول واحکام کی رہنمائی کرتا ہے، ان کا جاننا اور سمجھنا ہرمکلف پر واجب ہے ،جب کہ عربی علوم گرامر وغیرہ کا حصول اس طرح واجب نہیں ہے ،چنانچہ اگر فہم قرآنی کے حصول کا معاملہ ان علوم پر موقوف کردیا جائے ․․․جب کہ قرآن کے بعض حصے کا فہم واجب ہے ․․․تو یہ علوم بھی ہر مکلف پر واجب ہوجائیں گے، اس لئے کہ امر واجب تک پہچانے والا عمل بھی واجب ہوا کرتا ہے، جیساکہ یہ اصول اپنے مقام پر مسلم ہے۔ یہ بات تسلیم ہے کہ قرآن فہمی ترجمہ سے حاصل کرنا عزیمت نہیں ہے ،لیکن جہاں عزیمت کے رأساً وکلیةً فوت ہونے کا اندیشہ ہو ،وہاں رخصت پر عمل کر لینا ہی عزیمت ہوتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو قرآنی اعجاز کی معرفت کے حصول کا اور قرآن کے ایجاز واطناب کے باریک ولطیف نکات کے پہچاننے کا مکلف نہیں ٹھہرایا ہے، اس لئے کہ یہ ہرشخص کی قدرت سے بالا تر ہے ،کیونکہ کچھ کو اس طرح کا جہت فہم میسر ہوجاتاہے اور کچھ محروم رہتے ہیں ،جبکہ قرآن پاک تمام لوگوں کے واسطے خدائے کریم کا پیام اور جہاں والوں کے لئے ہدایت نامہ ہے، اگر مختلف لغات میں اس کے تراجم کرکے اس کی نشر واشاعت کی جائے تو تمام انسانوں پر خدا کی حجت تمام ہوجائے گی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر“
یہ آسانی اور تیسیر کیونکر حاصل ہوسکے گی ،اگر عجمی زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کرنا جائز ہی نہ ٹھہرے ؟حالانکہ آیت مذکورہ کے ذیل میں قرآن کریم کی یہ خاصیت آشکارا کی گئی ہے کہ ہر شخص اس قرآن سے مستفید ومستفیض ہوسکتا ہے ،عالم اپنے علم کے ذریعے اور عامی جب اس کے معنی ومفہوم کو حاصل کرلے اور اغراض ومقاصد کو سمجھ لے تو اپنے فہم سے اس قرآن سے بہرہ ور ہوسکتا ہے ،بیان کردہ یہ مقدمات غور واعتبار کے قابل ہیں ،تاکہ مسئلہ مسجوثہ واضح ہوجائے جہاں تک قرآن کریم کی تفسیر کا معاملہ ہے تو کبار علماء میں سے بھی چند ایک افراد ہی اس بھاری ذمہ داری کے متحمل ہوسکتے ہیں ،چہ جائیکہ عام جہلاء وعوام کو اس کا اختیار دیدیاجائے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ ہند وپاک کے علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ فی زمانہ قرآن کریم کا ترجمہ مختلف لغات میں جائز ہے ،جب کہ مصری علماء اور مشائخِ ازہر شریف اب تک اس مسئلہ کے متعلق شش وپنج میں متبلا ہیں ،اور علیحدہ رسائل صرف اسی مسئلہ کے متعلق تحریر فرمائے ہیں، لیکن مقام ہذا میں راقم ان تمام تر تفصیلات کے بیان سے قاصر ہے۔
واللہ الموفق
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: سیداحمدشہیداورتحریک جہاد
Flag Counter