Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

10 - 12
انسان کامل
انسان کامل ا

آمد اندر جہان جان ہرکس جانِ جہاں محمد آمد وبس
اس وقت بیٹھے بٹھائے یہ خیال آتا ہے کہ اس خدائے لایزال ذات بے مثال کی بے انتہاء مخلوقات ہے‘ اس میں سے اس نے انسانی مخلوق کو اپنی خلافت کا جامہ پہنا کر آراستہ وپیراستہ کیا ہے‘ مگر چونکہ اس خلافت کا تمغہ حاصل کرنے والے بھی مقدار میں کچھ کم نہ تھے‘ اس وجہ سے اس غیر محدود ذات ستودہ صفات نے ان میں سے بعض افراد کو اپنی درگاہ لم یزلی کارکن بناکر اپنی مرضیات پاس شدہ کی اطاعت کے لئے انبیاء بناکر دنیا میں پیدا کیا اور ان کو ہمرازی عطا کرکے اپنے اسرار مضمرہ کا منشاء انکشاف قرار دیا‘ ان کو اس عہدہ داری کی صداقت کے لئے علامات بھی عطا فرمائیں‘ جس کو معجزہ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ تاکہ عام افراد انسان نبی کو غیر نبی سے ممتاز کر لیں‘ اس کے بعد ضروری ہے کہ اس محبوبوں کے محبوب‘ شاہوں کے شاہ نے اپنی ازلی کچہری کا کسی کو افسر اور اپنی درگاہ ابدی کا صدر نشین جو وزیر اعظم یا معلول اول کہلائے جانے کا مستحق ہو‘ جس پر فعل تخلیق کا اثر تام بالذات اور سب سے پہلے ہواہو‘ ضرور پیدا کیا ہوگا‘ ورنہ صدارت کی کرسی خالی ہی رہ جاتی ہے اور افسری کا چولہ بے نیل مرام رہ جاتا ہے۔ میرے معزز ناظرین! سوال یہ ہوتاہے کہ وہ فرد‘ افرادِ انسان سے کون ہے؟ اس کی تعیین کا معیار کیا ہے؟ اس کے جواب میں تحیر اور پریشانی کی کچھ ضرورت نہیں ہے‘ دونوں جوال میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے تکے مضمون میں عرض کرتا ہوں ۔ گر قبول افتد رہے عز وشرف۔ بات یہ ہے کہ جو فردِ انسان اپنے خالق بے چون وچگوں کے اتباع اور جانشینی میں سب سے زیادہ کامل اور اکمل پایا جائے ․․․یعنی جس کی عادات روحانی اور اخلاقی‘ جس کا کالبود جسمانی‘ جس کے حالات یقظانی اور منامی اس واجب الوجود ”مستجمع لجمیع صفات الکمال کے ساتھ بہ نسبت اپنی جمیع نوع کے زیادہ ملتے جلتے ہوں وہی آپ کا مطلوب ہے․․․ جس کو روح الکائنات کہئے یا انسان کامل کہئے یا معلول اول سے تعبیر کیجئے‘ غرض عنوانات مختلفہ ہیں‘ معنون واحد ہے‘ یہ معیار اور کسوٹی ہے‘ پرکھ لینا بہت آسان ہے‘ خصوصاً جبکہ علم تاریخ انسان نے اس جنگل کو خس وخاشاک سے بالکل صاف میدان بنا رکھا ہو۔ انہیں اراکین درگاہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے حالات کی ورق گردانی کیجئے۔ میں اس وسیع مضمون کو مختصر پیرایہ میں تحریر کرتا ہوں‘ دنیا کا بچپن بالکل اندھیرے میں ہے‘ کیونکہ انبیائی سلسلہ میں پہلے نبی حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلاة والتسلیم ہیں جوکہ واقعی اس پروردگار عالم کے مقرب بندے اور اس بارگاہ خداوندی کے ایک اعلیٰ مظہر ہیں‘ کیونکہ ان کی پہلی وہ ذات ہے‘ جس کو خلافت کا جبہ پہناکر دنیا میں بھیجا گیا‘ لیکن ان کی خلافت اور عظمت اس سے زیادہ بلند ہوکر صدارت تک نہیں پہنچی‘ کیونکہ ان کی سوانح میں گندم خوری کا واقعہ اگرچہ فی نفسہ ان کی اس منزلت اور مرتبت کو دھبہ نہیں لگاتا‘ لیکن تاہم عصیان صوری ہونے کی وجہ سے انسان کامل ہونے سے روک بنجاتا ہے‘ یہ ہی واقعہ ایک مست بارگاہ الست کو اس کہنے پر مجبور کرتا ہے:
من ملک بودم وفردوس بریں جایم بود آدم آورد دریں ملک خراب آبادم
اصل یہ ہے کہ اس احکم الحاکمین کو یہ منظور نہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام تمام مخلوقات کا نچوڑ بن کر روح الکائنات کہلائے جاویں۔ دنیا کے ہوش سنبھالنے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام خدا کے پیغمبر اس عالم میں تشریف لاتے ہیں اور زمانہ کو خرابیوں سے پاک کرنے کا قصد کرتے ہیں اور اس میں بڑی تندہی سے کام لیتے ہیں‘ لیکن صدہا برسوں کے بعد ان کی اس گراں مایہ کوشش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند گنے چنے لوگ جادہٴ کجی سے راہ راست اختیار کرتے ہیں ان کے بعد نبوت کے سرتاج حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاة والتسلیم منبر رسالت پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور اس معبود حقیقی کے اوامر ونواہی کی بہت اچھی طرح اشاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کو جو قعر ضلالت میں گرے ہوئے تھے سیدھا راستہ بتلا کر منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں‘ آہ! اس زمانہ میں کہ جب سرکشی اور طغیانی اپنے وسیع دریا میں بڑے زوروں سے موجزن تھی‘ آپ کیسی تکالیف کے متحمل ہوکر حق کی تلقین فرماتے ہیں‘ آپ کی منزلت کا کچھ ٹھکانا ہے‘ آپ بلاواسطہ قادرو قیوم سے متکلم ہوتے ہیں مگر چونکہ اس حقیقی معبود نے تمام عالم کے لئے رحمت تو ایک اور ہی ذات کو پسند فرما رکھا تھا‘ اس وجہ سے حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ التحیة والتسلیم ایک خاص قوم گم گشتہ راہ بنی اسرائیل کے لئے چراغِ ہدایت مقرر ہوئے‘ ادھر آپ کا جلال وغضب حد کو پہنچا ہوا ہے‘ قبطی کا واقعہ اس پر شاہد ِعدل ہے۔ نیز رقتِ قلب جو صفت رحمت کو بھڑکا دینے والی شے ہے آپ میں حد کمال سے کمتر ہے‘ جس کا اندازہ فرعون کے وقتِ نازک پر استغاثہ کرنے اور آپ کا اس پر ترس نہ کھانے سے ہوسکتا ہے۔ دنیا کے سن رسیدہ ہوجانے کے بعد ایک بڑے اولوا العزم نبی حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاة والتسلیم مبعوث ہوتے ہیں اور اس مالک دوجہان ‘ خالق کون ومکان کی مرضیات اور غیر مرضیات کا اشتہار دیتے ہیں اور اس کی توحید کا سبق پڑھا تے ہیں۔ غرض اپنے نصب العین کو بہت خوبی کے ساتھ پورا کردیتے ہیں‘ جیساکہ ایک سچے نبی‘ خدا کے مقرب بندے کو کرنا چاہئے‘ لیکن اس مرتبہ ٴصدارت کے کرسی نشین یہ حضرت بھی نہیں قرار دئے جاتے‘ اسی وجہ سے یہ بھی ایک محدود مخلوق کے لئے باعث ہدایت بنائے جاتے ہیں اور ان کے پیرواں ان کے دامن ِعصمت کو خدائی کی تہمت سے گرد آلودہ کرتے ہیں‘ کیونکہ ایک حادث فنا ہو جانی والی چیز کو خدا ماننا اس کو معیوب کردینا ہے۔ اس میں وہ خود اگرچہ معذور ہیں لیکن استدلال اسی امر پر ہے کہ اس قادر قیوم کو یہ منظور ہی نہیں ہے کہ جمیع کائنات کے سردار حضرت عیسیٰ علیہ التحیة والتسلیم بنائے جاویں․․․ عرب کے اخلاق اور مذہب کا یہ حال ہے کہ بت پرستی ان کا شعار ہے اکثر بتوں پر ان کی قربانیاں چڑھائی جاتی ہیں‘ ہر قبیلہ کے خاص خاص بت اور خاص خاص مندر یا شوالے ہوتے ہیں اور مختلف مندروں کے پجاریوں میں اکثر خونریزی کی نوبت آتی ہے‘ جہالت اپنا جدا رنگ دکھاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلاف زمانہ جاہلیت میں جنگل جارہے ہیں‘ راستہ میں اگر کوئی خوبصورت پتھر ملجاتا ہے تو اس کو خدا بناکر اس کی عبادت کرتے ہیں‘ دوسرے روز اس سے زیادہ خوبصورت کوئی اور پتھر ملجاتاہے تو کل کے پتھر سے جس کو معبود بنایا تھا آج استنجاء کرکے پھینک دیتے ہیں‘ غرض ان کو نہ مذہب عیسوی نے کچھ فائدہ پہنچایا نہ مذہب موسوی مرتبہ ٴ انسانیت میں اوج ورفعت بخش بن سکا‘ عیسائیوں نے عرب کو پانچ سو برس تعلیم وتلقین کی‘ اس پر بھی کچھ اکا دکا عیسائی کہیں کہیں نظر آتے تھے‘ مذہب عیسائی سے مذہب موسوی بمراتب زیادہ عرب میں قوت رکھتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ سب قبائل میں باہم اس قدر حسد اور نفاق تھااور اختلاف قوم اور تخالف مذہب کی وجہ سے ایک دوسرے کا ایسا عدو جان تھا کہ اسی باہمی خصومت وعناد کے باعث اہل عشر اور اہل بال اور یونانیوں اور رومیوں اور فارسیوں نے مختلف صوبجات شمالی ومشرقی اور اضلاع جنوبی ومغربی پر قبضہ کرلیا تھا‘ جب زمانہ کی تیرگی نے بہت عروج پکڑ لیا اور دنیا ظلمت سے پُر ہوگئی اور خدائے لایزال نے عالم کو روشن کرنا چاہا‘ جس کی بشارت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب انبیاء علیہم السلام دیتے چلے آئے تھے‘ جس کی شہادت انجیل متی کے تیسرے باب میں اس قول سے ہوتی ہے:
”کہ وہ میرے بعد آتا ہے‘ مجھ سے زور آور ہے کہ میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے بھی قابل نہیں‘ وہ تمہیں روح قدس اور آگ سے غوطہ دے گا اور وہ اپنی کھیتیاں کو خوب صاف کرے گا اور اپنے گیہوں کھیتی میں جمع کرے گا پھر بھوسے کو اس آگ میں جلائے گا جو کبھی نہیں بجھتی“۔
وہ آفتاب جہاں تاب جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس خشک جنگل کو بسایا‘ جہاں سبزی کا نشان نہیں تھا اور خدا سے اس کے ظہور کی دعا کی ․․․․ جس نے قلیل مدت میں بے یار مددگار بے مادر پدر عالم میں ہل چل مچادی‘ جس نے اس تیرہ وتاریک زمانہ کی ایسی کایا پلٹ دی‘ جس کی نظیر صفحہ عالم پر ابتداء دنیا سے نہ جب تک نظر آئی تھی اور نہ اس کے بعدتا قیامت وقوع میں آوے گی‘ یہ ہی وہ ذات ہے جس نے اپنے روحانی انجذا بات سے اس سرکشی اور آوارہ قوم کو راستی کا سبق پڑھادیا‘ جس نے اس خشک صحرا کو ایسا سرسبز اور شاداب کردیا کہ آج وہ ملک تہذیب اور شائستگی کا منبع اور مصدر خیال کیا جاتا ہے‘ جس کی مقناطیسی قوت نے ایسی کشش کی کہ وہ جنگجو قوم کہ جو خانہ جنگی اپنا شعار اور عاجزی اور انکساری اپنا عار خیال کرتی تھی‘ اپنے آبائی اجدادی طریقہ کو چھوڑ کر اس امر کی مدعی ہے کہ جہاں ہمارے سردار سرور کائنات‘ تاجدار مدینہ کا جہاں پسینہ گرے ہم وہاں اپنا خون گرانے کو تیار ہیں‘ جس کے اخلاق کی یہ حالت ہے کہ طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کررہے ہیں‘ لیکن بددعا کا لفظ بھی کبھی زبان پر نہیں آتا‘ آپ کی جو بات ہے واللہ! وہ دوسرے اہل مذاہب کے لئے قابل رشک ہے‘ تمام محبوبوں کا محبوب اور تمام کائنات کی جان وہی ذات ہے:
وہی ہے مخدوم خادموں کا وہی تو معشوق عاشقاں ہے یہ رتبہ ملکوت میں کہاں کہ سدرة المنتہی مکاں ہے
آپ کے وہ کارنامے جو اصول فطرت سے بالکل ملے جلے تھے‘ جس کے ذریعہ سے آپ روح الکائنات کہلائے گئے‘ کسی نے آپ کو معلول اول کا لقب دیا‘ کسی نے انسان کامل کہہ کر پکارا
”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ منصبِ صدارت کے کرسی نشین کی شناخت کا معیار کیا ہے‘ اب میں اس برترذات کی سوانح سناتا ہوں جس کی خلقت عالم کی مخلوقیت کی راز مضمر ہے۔ پہلے مذکور ہوچکا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی حکومت اور قانون نہ ہو‘ جہاں خونریزی اور قتل معمولی بات ہو‘ جہاں کے باشندے وحشت اور غارتگری میں درندوں کے مشابہ جہالت اور لایعقلی میں انعام سے بدتر ہوں‘ ایک ایسے دعویٰ کا پیش کرنا جو تمام ملک کے نزدیک عجیب اور جملہ قبائل میں مخالفت کی فوری آگ لگادینے والا ہو‘ کچھ آسان نہ تھا۔ پھر اس دعویٰ کا ایسی حالت میں سرسبز ہونا کہ کروڑوں اشخاص کی انتہائی مخالفت اس کے ملیامیٹ کرنے پر دل سے ‘ جان سے‘ زرسے‘ مال سے سالہا سال متفق رہی ہو‘ بالکل تائید ربانی کا ثبوت ہے‘ مفصل واقعات کے ضمن میں نبی ا کے اخلاق ومحاسن‘ صفات ومحامد کی چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن اور ان واقعات سے ہی یہ پتہ لگتا ہے کہ مظلومی وبیچارگی اور قوت وسطوت کی متضاد حالتوں میں یکساں سادگی وغربت کے ساتھ زندگی پورا کرنے والا وہی شخص ہوسکتا ہے جس کے دل پر ناموس الٰہی نے قبضہ کرلیا اور اسے علائق دنیوی سے پاک کردیا ہو۔ نبی ا کی زندگی کے مبارک واقعات ہرملک اور ہر طبقہ کے فرد اور جماعتوں کے لئے بہترین نمونہ اور مثال ہیں‘ میں اس سرخی کے تحت میں مختصر طور پر آنحضرت اکے اخلاق کا جو ”علمنی ربی فاحسن تأدیبی“ کا مصداق ہیں‘ ذکر کروں گا۔خلق محمدی‘ ایسا لفظ ہے کہ اب بہترین بزرگوں کے عادات واخلاق‘ اطوار وشمائل کے اظہار کے لئے مشتبہ بہ بن گیا ہے۔ ایک یورپین مؤرخ لکھتا ہے کہ: آنحضرت ا خندہ رو اور ملنسار‘ خاموش رہنے والے‘ ذکر خدا میں مشغول رہنے والے‘ لغویات سے دور‘ بیہودہ پن سے نفور‘ بہترین رائے‘ بہترین عقل والے تھے۔ انصاف کے معاملہ میں قریب وبعید آنحضرت ا کے نزدیک برابر ہوتا تھا۔ مساکین سے محبت فرمایا کرتے تھے‘ غرباء میں رہ کر خوش ہوتے‘ کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے اس کو حقیر نہ سمجھا کرتے اور کسی بادشاہ کو بادشاہی کی وجہ سے بڑا نہ جانتے‘ اپنے پاس بیٹھنے والوں کی تالیف قلوب کرتے‘ جاہلوں کی حرکات پر صبر فرمایا کرتے ‘ سفید زمین پر ․․․بلاکسی مسند وفرش کے ․․․ نشست فرمایا کرتے‘ اپنے جوتے کو خود گانٹھ لیتے‘ اپنے کپڑے میں خود پیوند لگالیا کرتے تھے ‘ دشمن اور کافر سے کشادہ پیشانی سے ملاکرتے تھے‘ کنبہ والوں اور خادموں پر بہت زیادہ مہربان تھے‘ حضرت انس  نے دس سال تک خدمت کی‘ اس عرصہ میں ان کو کبھی ․․․ہونھ․․․ تک نہ فرمایا‘ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یاگالی نہیں آتی تھی‘ کسی پر لعنت نہیں کی۔
سکوت اور کلام
نبی کریم ا اکثر خاموش رہا کرتے تھے‘ بلاضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے‘ آنحضرت ا نہایت شیریں کلام اور کمال فصیح تھے‘ گفتگو ایسی دل آویز ہوتی تھی کہ سننے والے کے دل وروح پر قبضہ کر لیتی تھی‘ اسی سبب سے کفار سحر اور جادو کے ساتھ موصوف کرتے تھے‘ سلسلہٴ سخن ایسا مرتب ہوتا تھا کہ جس میں مضامین میں کچھ خلل نہ ہوتا تھا۔
ہنسنا ‘رونا
نبی کریم ا کبھی کھل کھلا کر ہنسانہ کرتے تھے‘ تبسم ہی آپ کا ہنسنا تھا ‘ نماز تہجد میں بسا اوقات آپ روپڑتے تھے۔
مرض ومریض
بیمار کو طبیب حاذق سے علاج کرانے کا ارشاد فرماتے اور پرہیز کرنے کا حکم فرماتے۔
عیادتِ بیماراں
صحابہ کرام میں سے جو کوئی بیمار ہوجاتا اس کی عیادت فرمایا کرتے تھے‘ عیادت کے وقت مریض کے پاس بیٹھ جاتے‘ بیمار کو تسلی دیتے ‘ ایک یہودی کا لڑکا آپ کی خدمت کیا کرتا تھا‘ اس کی عیادت کو بھی تشریف لے گئے۔
علاج :
حالتِ مرض میں دوا کا استعمال فرمایا کرتے اور لوگوں کو علاج کرنے کا ارشاد فرماتے۔
ارباب فضل کی قدر ومنزلت
حضرت سعد بن معاذ  جوغزوہٴ خندق میں سخت زخمی ہوگئے تھے۔ بنو قریظہ نے اپنا حکم اور منصف کرکے بلایا تھا ‘جب وہ مسجد تک پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ کرام سے جو قبیلہ اوس کے تھے فرمایا:
”قوموا الی سیدکم“
اپنے سردار کی پیشوائی کو جاؤ۔
خادم کے لئے دعا:
حضرت انس بن مالک نے دس سال تک مدینہ میں آنحضرت ا کی خدمت کی‘ اس عرصہ میں ان سے کبھی یہ نہ کہا کہ: یہ کام کیوں کیا ۔ ایک روز ان کے حق میں دعا فرمائی:
”اللہم اکثر مالہ وولدہ وبارک لہ ما اعطیتہ“
الٰہی! اسے مال بھی بہت دے اور اولاد بھی زیادہ دے اور جو کچھ اسے عطا کیا جاوے‘ اس میں برکت بھی دے۔
ادب اور تواضع
مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے ‘ جو کوئی ملجاتا اسے سلام پہلے خود کرتے‘ مصافحہ کے لئے پہلے خود ہاتھ پھیلا دیتے۔
شفقت ورافت
۱:-حضرت عائشہ صدیقہ  فرماتی ہیں کہ کوئی شخص بھی آنحضرت ا سے اچھے خلق میں برابر نہ تھا‘ اگر کوئی صحابی بلاتا یا کوئی گھر کا آدمی بلاتا آپ اس کے جواب میں ”لبیک“ ․․․حاضر․․․ ہی فرمایا کرتے ۔ ۲:- عبادت نافلہ چھپ کر ادا فرمایا کرتے‘ تاکہ امت پر اس قدر عبادت کرنا شاق نہ گذرے۔ ۳:-جب کسی معاملہ میں دو صورتیں سامنے آتیں تو آسان صورت کو اختیار فرماتے۔ ۴:- اللہ پاک سے معاہدہ کیا کہ جس کسی شخص کو میں دشنام اور لعنت کروں وہ دشنام اور لعنت اس کے حق میں گناہوں کا کفارہ‘ رحمت وبخشش اور قرب کا ذریعہ بنادے۔ ۵:- فرمایا کہ: ایک دوسرے کی باتیں مجھے نہ سنایا کرو‘ میں چاہتاہوں کہ دنیا سے جاؤں تو سب کی طرف سے صاف سینہ جاؤں۔ ۶:-فاطمہ نامی ایک عورت نے مکہ میں چوری کی‘ لوگوں نے حضرت اسامہ سے پوچھا جو رسول اللہ اکو بہت پیارے تھے‘ سفارش کرائی‘ نبی کریم ا نے فرمایا: کیا تم حدود الٰہی میں سفارش کرتے ہو‘ سنو! اگر فاطمہ بنت محمد بھی ایسا کرتیں تو میں حد جاری کرتا۔ ۷:-ایک صحابی کہتے ہیں کہ وہ ایک روز آنحضرت ا کے سامنے دری کا رنگین کپڑا پہن کر گئے‘ آپ نے ہٹ ہٹ فرمایا اور چھڑی سے ان کے شکم میں چو نکا بھی دیا‘ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں تو قصاص لوں گا آنحضرت نے جھٹ اپنا شکم برہنہ کرکے میرے سامنے کردیا۔ ۱:-مکہ میں سخت قحط پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے مردار اور ہڈیاں بھی کھانی شروع کردیں‘ ابو سفیان بن حرب ان دنوں دشمن غالی تھا‘ نبی کریم ا کی خدمت میں آیا‘ عرض کیا کہ: آپ تو لوگوں کو صلہ رحمی‘ سلوک یا قرابت داری کی تعلیم دیا کرتے ہیں‘ دیکھئے! آپ کی قوم ہلاک ہور ہی ہے‘ خدا سے دعا کیجئے‘ نبی کریم ا نے دعا فرمائی اور خوب بارش ہوئی۔ ۲:-حضرت سمامہ بن آثال  نے نجد سے مکہ کو جانے والا غلہ بند کردیا‘ اس لئے کہ اہل مکہ آنحضرت اکے دشمن ہیں‘ آنحضرت انے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔ ۳:۔حدیبیہ کے میدان میں آنحضرت ا مسلمانوں کے ساتھ نماز صبح پڑھ رہے تھے ستر ‘ اسی آدمی کوہ تنعیم سے اترے‘ تاکہ مسلمانوں کو نماز ہی میں قتل کردیں‘ یہ سب گرفتار ہوگئے اور نبی کریم ا نے بلاکسی معاوضہ اور سزا کے آزاد کر دیا۔
جود وکرم
سائل کو کبھی رد نہ فرماتے‘ زبان مبارک پر حرف انکار نہ لاتے‘ اگر کچھ بھی دینے کو نہ ہوتا تو عذر کرتے‘ گویا کوئی شخص معافی چاہتاہے۔ ایک شخص نے آکر سوال کیا‘ فرمایا: میرے پاس اس وقت تو کچھ نہیں ہے‘ تم کسی شخص سے ادھار لے لو‘ میں اس کو اتار دوں گا۔
عفو ورحم
۱:-حضرت عائشہ طیبہ کا قول ہے کہ نبی کریم انے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ۲:- جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم اکے دانت توڑے‘ سر پھوڑا‘ حضورا ایک غار میں گر گئے تھے‘ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ان پر بددعا فرمایئے!نبی کریم انے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں اور یہ فرمایا کہ اے خدا! میری قوم کو ہدایت فرما‘ وہ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ ۳:-ایک درخت کے نیچے نبی کریم ا سو گئے‘ تلوار شاخ سے آویزاں کردی‘ غورث بن الحراث آیا‘ تلوار نکال کر نبی کریم اکو گستاخانہ جگایا‘بولا: اب تم کو کون بچاوے گا؟ فرمایا: اللہ! وہ چکر کھاکر گر پڑا‘ آنحضرت انے تلوار اٹھالی‘ فرمایا: اب تجھے کون بچاسکتا ہے؟ حیران ہوگیا‘ فرمایا: جاؤ میں بدلا نہیں لیا کرتا۔ ۴:-ایک گستاخ نے آنحضرت اکی بیٹی حضرت زینب کے نیزہ مارا‘ وہ ہودج سے گر پڑیں اور حمل ساقط ہوگیا اور بالآخر یہی صدمہ ان کی موت کا باعث ہوا اس نے عفو کی التجاء کی‘ معاف فرمادیا۔ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت سے لے کر جن باتوں پر قبائل میں باہمی جنگ وجدل چلا آتا ہے‘ میں سب کو معدوم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندان کے خون کا دعویٰ اور اپنے چچا کی رقوم قرضہ کو معاف کرتا ہوں۔
(مأخوذ:الرشاد ۱۳۳۴ھ)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: چند مطبوعہ تفاسیر کی خصوصیات وامتیاز
Flag Counter