Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

8 - 12
سیداحمدشہیداورتحریک جہاد
سید احمد شہید اور تحریکِ جہاد (۲)
سن رسیدہ نواب مظفر خان والئی ملتان اور اس کے جواں مرد بیٹوں کی بدست جنگ اور دلیرانہ شہادت کے بعد ملتان حملہ آوروں کے رحم وکرم پر تھا‘ چار پانچ سو مکانات پیو ند زمین ہوگئے‘ عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا‘ بہت سی عورتوں نے کنوؤں میں گر کر جان دی اور عزت بچائی ۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: محمد لطیف کی THEHISTORY of THEPUNJABص:۴۱۲) قصور میں سکھوں نے لوگوں کے بدن کے کپڑے تک اتارلئے ‘ عورتیں ننگے سر ‘ ننگے بدن‘ بے ستر ہوکر جابجا اپنے آپ کو چھپاتی پھرتی تھیں ‘ مگر کوئی امن کی جگہ نہیں ملتی تھیں‘ بہت سی جوان عورتیں اور لڑکیاں اور لڑکے سکھوں نے شہر سے پکڑ لئے اور غلام بنانے کے ارادے سے اپنے پاس رکھ لئے۔ (تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۸۲)
افغانستان وسرحد
افغانستان وسرحد مسلمانوں کی طاقت کا بڑا مرکز رہے ہیں‘ ہندوستان میں مسلمان فاتح یا تو اسی ملک کے رہنے والے تھے یا اس راستے سے آئے۔ آخر آخر میں بھی جب ہندوستان کے مسلمانوں اور ان کی حکومتوں پر کوئی نازک وقت آیا ہے تو اس ملک نے عین وقت پر مدد کی ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے آخر وقت میں مسلمانوں کی عزت رکھ لی اور مرہٹوں کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے فناکر دیا‘ لیکن احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد انیسویں صدی کی ابتداء میں جب تمام عالم اسلام میں ایک عام زوال تھا‘ یہ ملک بھی طوائف الملوکی اور بے نظمی کا شکار ہوگیا۔ نا اتفاقی اور خانہ جنگی نے اس طاقت ور ملک کو اتنا کمزور کردیا کہ ہندوستان اور پنجاب کے مسلمانوں کی مدد تو درکنار اس کو اپنی آزادی اور اپنے مقبوضات کا برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔
پشاور پر سکھوں کا قبضہ
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانستان کے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ۱۸۱۸ء میں مہاراجہ کو اطلاع ملی کہ پشاور میں اس کے مقابلے کے لئے کوئی منظم فوج نہیں۔ ۲۰/ نومبر کو اس نے پشاور پر قبضہ کرلیا ۔ یار محمد خان نے سکھوں کی آمد پر پشاور چھوڑ کر یوسف زئی کے پہاڑ پر پناہ لی‘ مہاراجہ نے شہر کوتباہی سے بچالیا مگر ”بالا حصار وچمکنی“ کو جو مشہور بزرگ شیخ عمر کا مدفن ہونے کی وجہ سے متبرک مقام سمجھا جاتا ہے‘ آگ لگادی ۔ چوتھے دن پشاور کو اپنے حلیف اور وفادار جہانداد خان وزیر خیل کو سپرد کرکے لاہور کو کوچ کیا‘ بعد میں دوست محمد خان نے پچاس ہزار کی ہنڈی (چیک روپیہ کا رقعہ) اور گھوڑے پیش کرکے پشاور کو دوبارہ حاصل کرلیا‘ اس وقت سے پشاور اور یوسف زئی کا علاقہ حکومت لاہور کا باج گزار (ریاست کو محصول دینے والا) بن گیا۔ ہر سال خالصہ (یعنی سکھ) لشکر اس علاقہ میں آکر سالانہ نذرانہ اور تحائف وصو ل کرتا اور واپس چلا جاتا۔
سرحد کا انتخاب
سید صاحب کے نزدیک اگرچہ مقصود اصلی ہندوستان تھا‘ جیساکہ خود ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
” یعنی اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا‘ تاکہ اسے کفر وشرک سے پاک کیا جائے۔ اس لئے میرا مقصد اصلی ہندوستان پر جہاد ہے‘ نہ کہ ملک خراسان (سرحد افغانستان) میں سکونت اختیار کرنا لیکن پنجاب میں جس پر کچھ عرصہ سے رنجیت سنگھ کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی تھی۔ مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات ان کی فوری امداد کی ضرورت جو ایک شرعی فریضہ تھا نیز فوجی مصالح اور سیاسی تدبر کا تقاضا تھا کہ یہ مہم ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے شروع کی جائے۔ جو طاقتور وپرجوش افغان قبائل کا مرکز ہے اور جہاں سے ترکستان آزاد مسلمان حکومتوں کی ایک مسلسل زنجیر ہے‘ نقشے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوسکتاہے کہ پنجاب کے مسلمانوں کی امداد ہندوستان کی دوبارہ تسخیر اور ایک طاقتور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے بظاہر اس سے زیادہ موزوں مقام نہیں ہوسکتا“۔
سید صاحب کی نگاہ کے سامنے ان لوگوں کا انجام تھا جنہوں نے ہندوستان کے کسی حصہ کو اپنی تحریک اور جنگی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور بہت جلد ان کے گرد سازشوں ‘مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کا ایک جال پھیلادیا گیا جس میں وہ جکڑتے چلے گئے‘ انگریزوں کی زیرک اور پُر فن حکومت ہر حوصلہ مند قائد اور اپنے ہرمخالف کے لئے ایسے حالات پیدا کردیتی تھی کہ اس کی جنگی کاروائیوں اور آزادانہ سرگرمیوں کا میدان تنگ سے تنگ ہوتا چلا جاتا تھا اور وہ محسوس کرلیتا کہ وہ ایک قفس میں محبوس ہے۔ یہ سید صاحب کی بہت بڑی سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے ہندوستان کے اندر اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں کا مرکز نہیں بنایا‘ جس کے لئے بہت جلد ایک ایسا جزیرہ بن جانے کے قوی امکانات تھے جس کے چاروں طرف مخالفتوں ‘ مزاحمتوں اور سازشوں کا ایک سمندر پھیلا ہوا ہوتا اور جس کو کہیں سے کمک یا رسد ملنے کی کوئی توقع نہ رہتی۔ چنانچہ خود سید صاحب نے اس انتخاب اور فیصلے کی وجہ اپنی زبان سے ایک تقریر میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”میں نے ہندوستان میں خیال کیا کہ کوئی جگہ ایسی محفوظ ہو کہ وہاں مسلمانوں کو لے کر جاؤں اور جہاد کی تدبیر کروں ۔ باوجود اس وسعت کے کہ صدہا کوس (میل) میں ملک ہند واقع ہوا ہے‘ کوئی جگہ ہجرت کے لائق خیال میں نہ آئی: کتنے لوگوں نے صلاح دی کہ اسی ملک میں جہاد کرو‘ جو کچھ مال خزانہ ‘ سلاح وغیرہ درکار ہو‘ ہم دیں گے۔ مگر مجھ کو منظور نہ ہوا‘ اس لئے جہاد سنت کے موافق چاہیئے‘ بلویٰ کرنا منظور نہیں۔ تمہارے ملک کے ولایتی بھائی حاضر تھے‘ انہوں نے کہا: کہ ہمارا ملک اس کے واسطے بہت خوب ہے‘ اگر وہاں چل کر کسی ملک میں قیام اختیار کریں تو وہاں کے لاکھوں مسلمان جان ومال سے آپ کے شریک ہوں گے‘ خصوصاً اس سبب سے کہ رنجیت سنگھ والئی لاہور نے وہاں کے مسلمانوں کو نہایت تنگ کر رکھا ہے‘ طرح طرح کی ایذاء پہنچاتا ہے اور مسلمانوں کی بے آبروئی کرتا ہے‘ جب اس کی فوج کے لوگ اس ملک میں آتے ہیں تو مسجدوں کو جلا دیتے ہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو پکڑ لے جاتے ہیں اورر اپنے ملک پنجاب جاکر بیچ دیتے ہیں‘ پنجاب میں وہ مسلمانوں کو اذان بھی نہیں کہنے دیتے‘ مسجدوں میں گھوڑے باندھتے ہیں‘ یہ سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور یہی مناسب ہے کہ مسلمانوں کو متفق کرکے کفار سے جہاد کریں اور ان کے ظلم سے مسلمانوں کو چھڑائیں“۔
دعوتِ جہاد
حج سے واپسی کے بعد تقریباً پونے دو سال دعوتِ جہاد میں صرف ہوئے۔ مولانا عبد الحئی اور شاہ اسماعیل نے تبلیغ جہاد کے لئے اطرافِ ہند کا دورہ کیا‘ ان تبلیغی اور جہادی دوروں کا یہ اثر ہوا کہ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ جوق در جوق آکر اس تحریک سے وابستہ ہونے لگے‘ خواتین اسلام کے ایثار وقربانی کا یہ عالم تھا کہ مولانا شاہ عبد الحئی اور مولانا شاہ محمد اسماعیل کی مجالس وعظ میں جن کے پاس نقد جمع کیا ہوا نہ تھا وہ اپنے طلائی زیورات تحریک جہاد کو پروان چڑھانے کے لئے پیش کردیتی تھیں‘ نیز اس دعوت تبلیغ کا یہ اثر ہوا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اعلیٰ خاندانوں کے ناز ونعم میں پلے ہوئے نوجوان سید صاحب کی قیادت میں سندھ کے تپتے ہوئے ریگستان سے گذر کر بلوچستان کے صحراؤں اور کابل وقندھار کے دشوار گزار پہاڑی راستوں کو عبور کرکے پشاور پہنچے‘ پہاڑوں اور جنگلوں میں مرنے مارنے کے لئے تیار ہوگئے۔ (بریلی سے بالاکوٹ ص:۱۳۶ مصنف قمر امجد عثمانی)
سفر ِھجرت
جب سید صاحب نے جہاد کے عزم سے ہندوستان کو خیر باد کہا اور اپنے مخلص رفقاء کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت فرمائی اور ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر پہنچنے کے لئے آپ نے ہندوستان‘ بلوچستان‘ افغانستان کا نہایت طویل اور بے حد پُرمشقت سفر اختیار کیا آپ کی بلند ہمتی‘ عالی حوصلگی اور جوشِ جہاد اور مجاہدین کی جفا کشی‘ صبر وضبط اور شوقِ جہاد کا اندازہ کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہندوستان‘ سرحد‘ افغانستان کے نقشے پر ایک نظر ڈاالی جائے اور راجپوتانے‘ مارواڑ‘ سندھ‘ بلوچستان‘ افغانستان اور صوبہ سرحد کے ان ریگستانوں میدانوں‘ پہاڑوں‘ دروں‘ جنگلوں اور دریاؤں کا تصور کیا جائے جو ان مجاہدین کو طے کرنے پڑے حقیقت میں اس ہفتخواں کا سر کرنا خود ایک مستقل جہاد تھا۔ (اصل میں ہفت خوان رستم ہے) رستم کا سات منزلوں کا نہایت پر خطر اور دشوار گزار سفر جو اس نے کیکاؤس کو شاہ ماژندران کی قید سے چھڑانے کے لئے اختیار کیا تھا ہر منزل پر اژدہا ‘ جادوگر اور دیوں سے مقابلہ ہوتا رہا اور سب کو تہس نہس کرکے نکل گیا۔ چونکہ ہر منزل پر اپنی کامیابی اور سلامتی کے شکرانہ میں دسترخوان بچھاتا تھا اس لئے یہ نام ہوا۔(تاریخ دعوت وعزیمت مصنف مولانا سید ابو الحسن ندوی ج:۶‘ ماخوذ حصہ اول)
مجاہدین کی روانگی
سید صاحب نے جنوری ۱۸۲۶ء بریلی سے روانہ ہوکر راہ ہجرت میں قدم رکھا اور سرزمین وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا مال خانہ سے رقم نکلوائی تو کل دس ہزار روپے نکلے دن بھر سٹی ندی کے کنارے دوستوں اور عزیزوں سے رخصتی ملاقاتیں جاری رہیں رات کے وقت ندی کو عبور کیا اور چند روز کی مسافت کے بعد گوالیار پہنچ گئے۔
گوالیار
گوالیار میں فتح علی خان کے باغ میں قیام ہوا اور مہاراجہ گوالیار دولت راؤ کی طرف سے جو سید صاحب کا معتقد تھا مہمان داری کا انتظام کیا گیا کئی مرتبہ راجہ ہندو راؤ نے پُر تکلف دعوتیں کیں اور بہت سے تحائف پیش کئے دس بارہ روز ٹھہرکر عازم ٹونک ہوگئے۔
ٹونک
جب سید صاحب ٹونک پہنچے تو نواب امیر خان اور ان کے فرزند نواب وزیر الدولة خود گھوڑوں پر سوار ہوکر ملاقات کے لئے آتے ‘ یہاں ایک ماہ سے زائد قیام ہوا ۔ ٹونک سے روانگی کے وقت نواب امیر خان نے اسلحہ اور دوسرے سازو سامان کے علاوہ ایک بڑی رقم بطور نقد پیش کی ۔
اجمیر
ٹونک سے چل کر چند روز اجمیرمیں قیام فرمایا ۔
سرزمین سندھ
اجمیر سے مارواڑ اور جودھ پور کے راستے سوہالی‘ سورہا‘ کھوسا بلوچ‘ پاڑیو اور کٹھیا رو غیرہ کی کٹھن منزلیں طے کرتے ہوئے سرزمین سندھ میں داخل ہوئے۔ تمام علاقہ ریگستان تھا راسستے میں دور‘ دور تک کہیں آب وگیاہ کا نام ونشان نہ تھا‘ سندھ میں داخل ہوکر عمر کوٹ کے قریب سے ہوتے ہوئے کارو‘ میر پور‘ ٹنڈو اللہ یار اور ٹنڈجام کے راستے حیدر آباد پہنچے۔
پیر صبغة اللہ شاہ عرف پیر پگاڑا
حیدر آباد سے اگلی منزل پیر کوٹ تھا جہاں سید صبغة اللہ شاہ کی ملاقات کا عزم تھا سید صبغة اللہ شاہ پیر محمد مکی کی اولاد میں سے ہیں ان کے والد پیر محمد راشد کے عہد میں مریدوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرگئی تھی۔ سید صبغة اللہ شاہ والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے سید صاحب ۱۷/ ذی قعدہ کو پیر کوٹ پہنچے تھے تین دن تک پیر صبغة اللہ شاہ کے یہاں سارے لشکر کی دعوت رہی یہاں کم وبیش دو ہفتے قیام رہا پیر کوٹ سے روانہ ہوکر دریا ئے سندھ کو عبور کیا ایک رات جیب کوٹ میں قیام ہوا اس کے بعد شکار پور پہنچے۔
سفر کوئٹہ
۲۰/جولائی ۱۸۲۶ء کو سید صاحب کا قافلہ شکارپور سے روانہ ہوا۔ ۲۶/ذی الحجہ کو بھاگ حاجی اور ریڑی کے مقامات سے ہوتے ہوئے دھاڈر پہنچ گئے۔
درہ بولان
یہ راستہ انتہائی خطرناک تھا دونوں جانب بلند پہاڑوں کی دیواریں کھڑی تھیں چور‘ ڈاکو پہاڑی کمین گاہوں سے نکل کر اچانک حملہ کردیتے تھے ۔ انگریز سیاح لکھتا ہے کہ : یہ لوگ یعنی بلوچستان والے بڑے ہی نادان تھے جنہوں نے ایسے درے کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنے ملک میں آنے دیا غرض سید صاحب چار روز کا سامان خورد نوش ہمراہ لے کر یہ محرم الحرام کو درے میں داخل ہوگئے یہاں سے کوئٹہ صرف آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا نماز فجر پڑھ کر درے سے باہر نکلے اسی روز یا اگلے روز کوئٹہ پہنچ گئے۔ ۱۸/محرم کو کوئٹہ سے روانہ ہوئے۔ ۲۸/ محرم کو قندھار پہنچے غزنی‘ کابل کے راستے نومبر ۱۸۲۶ء میں پشاور۔
پشاور
کیوں نہ آپ کے سامنے سید صاحب اور ان کی جماعت اور تحریک پر دشمن انگریز ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی ”تالیف“ سے اقتباس پیش کردوں جو اس نے ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ کے نام سے تصنیف کی ہے۔پہلے آپ اس فقرہ کو ذہن نشین کرلیں کہ مغربی اقوام کا یہ اصرار ہے کہ ہر محب وطن اور آزادی خواہ کو پہلے لیٹرے ہی کے لقب سے یاد کرتی ہے مولانا مدنی سنیئے سید احمد نے نہایت دانشمندی سے اپنے آپ کو زمانہ کے مطابق بدل دیا۔ چنانچہ انہوں نے قزاقی کا پیشہ ترک کرکے ۱۸۱۶ء میں احکام شرعیہ پڑھنے کے لئے وہاں جاکر ایک جید عالم شاہ عبد العزیز کی شاگردی قبول کی اورر پھر تین سال کی اس طالب علمانہ حیثیت کے بعد ایک مبلغ کی زندگی اختیار کی انہوں نے پرزور طریقہ پر ان بدعات کے خلاف جہاد شروع کیا جو مسلمانانِ ہند کے اسلامی عقائد میں داخل ہوچکی تھیں اور اس طرح پر جوش اور حوصلہ مند لوگوں کو اپنا مرید بنالیا۔ ۱۸۲۰ء میں اس مجاہد نے آہستہ آہستہ اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا ‘ صاحب ِ جاہ اور علماء عام خدمت گاروں کی طرح ان کی پالکی کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑنا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔ پٹنہ میں طویل قیام کے بعد ان کے مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت پیش آگئی‘ کلکتہ میں ان کے ارد گرد اس قدر ہجوم ہوگیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہوجائے گا ۔ ۱۸۲۲ء میں وہ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ چلے گئے اگلے سال ماہ اکتوبر میں بمبئی میں وارد ہوئے یہاں پر آپ کی تبلیغی کوششوں کو وہی کامیابی حاصل ہوئی جو کلکتہ میں ہوئی تھی مگر اس لیٹری ولی کے لئے انگریزی علاقے کے پرامن شہریوں کی بجائے ایک اور زیادہ موزوں میدان موجود تھا۔ ۱۸۲۴ء میں سرحد پشاور کے وحشی اور پہاڑی قبیلوں میں آنمودار ہوتے یہاں انہوں نے سکھ سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تبلیغ شروع کردی۔ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش وخروش کی ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی انہوں نے کابل اور قندھار کا سفر اختیار کیا اور جہاں کہیں بھی گئے ملک کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے‘ اس طرح پر مذہبی احکام کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کرنے کے بعد انہوں نے خدا کے نام پر ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی‘ پس ۲۱/دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف جہاد شروع ہوجائے گا۔ اس اثناء میں امام صاحب کے قاصدوں نے اس اعلان کو شمالی ہندوستان کے ان بڑے شہروں میں پہچادیا جہاں انہوں نے اپنے مرید بناتے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ایک مذہبی جنگ شروع ہوگئی اس جنگ میں کبھی ایک فریق غالب آیا اور کبھی دوسرے فریق کو فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح انہوں نے جنگ چپاول میں فتحمندی سے اپنا نام یہاں تک پیدا کر لیا کہ سکھ حاکم ان قبائل کی حمایت خریدنے پر مجبور ہوگیا جو چھا پہ مارنے میں سب سے پیش پیش تھے۔ ۱۸۲۹ء میں تو حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ میدان والوں یعنی سکھوں کو پشاور شہر کے متعلق بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا‘ سرحدی صوبہ کا دار الخلافہ تھا وہاں کے صوبہ دار نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے دغابازی سے امام صاحب کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس افواہ نے کوہستانی مسلمانوں کے جوش کو انتہائی درجہ تک پہنچادیا‘ وہ نہایت ہی جوش وخروش سے میدانی علاقوں پر ٹوٹ پڑے اور کفار کی تمام افواج کو تہ تغ اور اس کے جرنیل کو مہلک طور پر زخمی کردیا صرف شہر پشاور اس فوج کی وجہ سے بچ گیا جو شہزاد شیر سنگھ اور جرنیل وینطور کی ماتحتی میں تھا ایک لشکر جرار اپنے قابل ترین جرنیل کی سرکردگی میں روانہ کیا‘ جون ۱۸۳۰ء میں شکست کھانے کے باوجود امام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کرلیا اور اس سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دار السلطنت تھا فتح کرلیا پشاور کے چھن جانے کا غم رنجیت سنگھ کے بے نظیر سیاسی تدبر کو بروئے کا لایا اس چلاک سکھ نے معمولی معمولی ریاستوں کو ان کے اپنے مفاد کا واسطہ دے کر اسلامی فوج سے علیحدہ کرادیا اس صورت حال کو دیکھ کر امام صاحب پشاور کو خالی کردینے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۸۳۱ء میں سکھ فوج نے جو شہزادی شیر سنگھ کے زیرکمان تھی ان پر اچانک حملہ کردیا اور ان کو شہید کرڈالا۔ (ہمارے ہندوستانی مسلمان مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر انگریز ص:۱۸‘۱۹‘۲۰) (جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۲۹ھ اپریل ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: مکتوبات نبوی
Flag Counter