Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

6 - 13
اسلام کا نظام معیشت
اسلام کا نظام معیشت قرآن وسنت کی روشنی میں (۲)

اسلام نے مثبت طور پر رزق کی جد وجہد کی ترغیب دی ہے اور اسے ہرمسلمان پر فرض کیا‘ رسول اللہ ا نے فرمایا:”جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنی روزی کی تلاش سے غافل ہوکر سوتے نہ رہو“ (۳) اس طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:
”ولاتنس نصیبک من الدنیا“(القصص:۷۷)
․․․․․”یعنی اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھولو“ آنحضرت ا نے کسب حلال کو
”فریضة بعد الفریضة“
قرار دیا ہے: آپ انے ایک صحابی کو دیکھا جوخستہ حال تھے‘ آپ ا نے ان سے پوچھا تمہارے پاس کچھ ہے؟ انہوں نے بتایا دو درہم ہیں‘ آپ ا نے ان میں سے ایک درہم کی کلہاڑی خریدی اور اسے لکڑیاں کاٹنے پر مامور کیا‘ اس طرح آپ انے محنت کرنے کی ترغیب دلائی۔ صنعت وحرفت کے ذریعے سے روزی کی تکمیل انسان پر فرض کفایہ ہے اور بعض گناہوں کا کفارہ: روزی کمانے میں مغموم ومتفکر رہنا ہے‘ آپ ا نے فرمایا: ”جو شخص دنیا کو جائز طریقے سے حاصل کرتا ہے کہ سوال سے بچے اور اہل وعیال کی کفالت کرے اور ہمسایہ کی مدد کرے تو قیامت کے دن جب وہ اٹھے گا تو اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہوگا“ (۴) اسلامی فقہ میں معاشی جد وجہد کو فرض عین اور پیداوار کو فروغ دینے کی کوشش کو فرض کفایہ قرار دیا ہے ”رد المحتار علی الدر المختار“ میں ہے کہ ضروری صنعتوں کا قیام فرض کفایہ میں ہے“ (۵) شیخ الاسلام امام تقی الدین احمد ابن تیمیہ اور اس سلسلے میں مختلف فقہاء نے جو نقطہ نظر بیان کیا ہے اس کی تلخیص اس طرح بیان کی گئی ہے۔ ”بہت سے فقہاء نے جن کا تعلق شافعی‘ حنبلی فکر سے ہے‘ نیز دوسرے فقہاء جیسے امام غزالی اور امام ابن جوزی وغیرہما نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ ان صنعتوں کا قیام فرض کفایہ میں سے ہے‘ اس لئے کہ معاش کی تکمیل ان کے بغیر ممکن نہیں ہے‘اس فرض کفایہ کی حکایت ایسی ہے جیسے جہاد کی جو فرض کفایہ ہے۔ (۶) اسلامی معاشیات کا ایک اساسی اصول یہ ہے کہ تمام انسانوں کے لئے معاشی سہولتیں فراہم کی جائیں‘ قدرت کے ودیعت کردہ وسائل کو ترقی دی جائے‘ رزق کے مخزنوں کو چند ہاتھوں میں اس طرح مرکوز نہ ہونے دیا جائے کہ دوسروں پر اس کے دروازے بند ہوجائیں۔ اسلام کے معاشی نظام کے مثبت معاشی مقاصد میں غربت کا انسداد اور تمام انسانوں کو معاشی جد وجہد کے مساوی مواقع فراہم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام سب کو حصول رزق کے مواقع عطا کرنے اور مثبت طور پر ایسی حکمت عملیاں بنانے کی تاکید کرتا ہے‘ جس سے غربت وافلاس ختم ہوں اور انسانوں کو ان کی بنیادی ضروریات لازماً حاصل ہوں‘ اسلام محض افلاس‘ غربت‘ معیار زندگی کے گرنے کے خطرات اور قلت وسائل کے غوغا ء سے انسان کشی اور نسل کشی کی پالیسی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں قرآن مجید نے واضح طور پر تنبیہ بیان فرمائی ہے:
”ولاتقتلوا اولادکم خشیة املاق نحن نرزقہم وایاکم ان قتلہم کان خطأً کبیراً“۔ (بنی اسرائیل:۳۱)
ترجمہ:․․․”اور تم اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو‘ ہم ہی ان کو رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی‘ ان کا مارنا بڑی خطا ہے“۔ ”رسول اللہ انے مالداروں کو حکم دیا کہ بکریاں پالیں اور غریبوں کو حکم دیا کہ وہ مرغیاں پالیں تاکہ فراخی حاصل کریں“۔ (۷) اسلام کا مزاج مغرب کی تمام معاشی تحریکات سے منفرد اور جداگانہ ہے۔ وہ ہر فرد اور پوری امت کی توجہ کو معاشی وسائل کی ترقی اور پیداواری امکانات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں مرکوز کرتا ہے‘ معاشرت میں انصاف اور آزادی کے قیام کے ساتھ ساتھ غربت وافلاس کا انسداد کرکے بہتر معاشی زندگی کا قیام ممکن بناتاہے۔ قرآن پاک اور حدیث میں رزق حلال کی جتنی اہمیت بیان کی گئی ہے‘ وہ اس امر کو ثابت کرتی ہے کہ اسلام کے معاشی نظام میں صرف جائز اور حلال رزق کے فروغ کے مساعی ہوں گے‘ ارشاد الٰہی ہے:
”یا ایہا الناس کلوا مما فی الارض حلالا طیباً“۔ (البقرة:۱۶۸)
ترجمہ:․․”اے لوگو! جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں حلال اور پاک چیزیں کھاؤ“۔ رسول کریم ا نے فرمایا:
”ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یاکل من عمل یدیہ وان نبی اللہ داؤد علیہ السلام کان یاکل من عمل یدیہ“۔ (۸)
ترجمہ:․․․”کسی نے بھی اپنے ہاتھ کے کمائے ہوئے عمل سے زیادہ بہتر طعام نہیں کھایا‘ اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے“۔ اسلام نے معاشی جد وجہد کو حلال وحرام کا پابند کیا ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جس سے دور جدید کی معاشیات قطعاً نا آشنا ہے‘ اسلامی معیشت میں صرف کی تکثیر کی جگہ اس کے انسب سطح کا حصول پیش نظر رہتا ہے اور ایک حقیقی فلاحی معیشت ظہور میں آتی ہے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک حرمت ربوا ہے جو معاشی ظلم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ اسلام میں سود کو اس کی ہر شکل میں حرام قرار دیا ہے اور اس کے لینے والے کو اللہ اور اس کے رسول اللہ ا کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے‘ قرآن میں ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لاتاکلوا الربوا اضعافاً مضاعفةً واتقوا اللہ لعلکم تفلحون“ ۔ (آل عمران:۱۳۰)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! سود مت کھاؤ دو نے پر دونا اور ڈرو اللہ سے تاکہ تمہارا بھلاہو“۔ ایک حدیث میں رسول اللہ انے سود کھانے والے پر‘ سود لکھنے والے پر‘ سود کے گواہوں پر لعنت بھیجی ہے اور سب کو برابر قرار دیا ہے۔ (۹) اسلام میں سود کی ممانعت محض اخلاقی بنیادوں پر نہیں‘ بلکہ اس کے خطرناک اقتصادی‘ سماجی اور سیاسی مضمرات کی بنا پر بھی ہے۔ اسلام نے تجارتی اخلاقیات کا ایک ضابطہ پیش کیا ہے‘ تجارتی لین دین میں دیانت داری اور خدا ترسی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے‘ ارشاد ربانی ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارة عن تراض منکم“۔ (النساء:۲۹)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! اپنے اموال کو آپس میں باطل کی راہ سے نہ کھاؤ‘ بلکہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارت کی راہ سے نفع حاصل کرو“۔ اسلام نے معیشت کے ان تمام ذرائع کو ممنوع قرار دیا ہے جو ظلم وزیادتی اور دوسروں کی حق تلفی پر منحصر ہوں‘ آنحضرت انے فرمایا:
”امانت دار تاجروں کا حشر صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا“۔(۱۰)
آجر اور مزدور کے تعلقات کے ضمن میں قرآن پاک نے مزدور کی صفات طاقت ور اور امانت دار بتائی ہیں‘ ارشاد ربانی ہے:
”قالت احداہما یا ابت استئجرہ‘ ان خیر من استئجرت القوی الامین“۔ (القصص:۲۶)
ترجمہ:․․․”ان دو لڑکیوں میں سے ایک نے کہا کہ: اے میرے باپ! آپ اسے مزدوری میں رکھ لو‘ بے شک جنہیں تم مزدور بناؤ‘ ان میں وہی بہتر ہے جو طاقت ور اور امانتدار ہو“۔ حضور ا نے فرمایا:”تین شخص ایسے ہیں کہ میں‘ قیامت کے دن ان کا دشمن ہوں گا‘ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر لے پھر اس سے پورا کام لے اور اجرت نہ دے“۔ (۱۱) حضور انے فرمایا:
”مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردی جائے“۔ (۱۲)
تجارت کے سلسلے میں اسلام باہمی آزاد رضامندی کی تلقین کرتا ہے‘ تجارت کی بنیاد تعاون باہمی پرہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیانت‘ جائز اور مباح کی تجارت‘ ذخیرہ اندوزی کی ممانعت‘ اسراف کی بندش بھی عائد کرتا ہے۔جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:
”’کلوا واشربوا ولاتسرفوا“۔(الاعراف:۔۳۱)
․․․”کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو“۔ اسلام دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں کرتا‘ اسلام نے اس بات کاا نصرام کیا ہے کہ مختلف معاشرتی‘ ادارتی‘ قانونی اور اخلاقی تدابیر سے دولت کی تقسیم زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو اور پورے معاشرہ میں گردش کرے‘ ارشاد ربانی ہے:․․․․”کی
لایکون دولة بین الاغنیاء منکم“ (الحشر:۷)
․․․”ایسا نہ ہو کہ یہ مال ودولت تمہارے دولت مندوں ہی میں گردش کرتا رہے“۔ حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:
”اقسموا المال بین الفرائض علی کتاب اللہ“۔ (۱۳)
اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق اپنا مال ان لوگوں میں تقسیم کرو جن کا حق مقرر کیا گیا ہے۔
۲:-”والذین یکنزون الذہب والفضة ولاینفقونہا فی سبیل الله فبشر ہم بعذاب الیم‘ یوم یحمیٰ علیہا فی نار جہنم فتکویٰ بہا جباہہم وجنوبہم وظہورہم ہذا ما کنزتم لانفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون“ ۔ (التوبة:۳۴)
ترجمہ:․․․”اور جو لوگ سونا اور چاندی گاڑھ کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اس کو خرچ نہیں کرتے پس ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنادے‘ جس دن دوزخ کی آگ دہکائیں گے اس مال پر پھر اس سے ان کے ماتھے اور کروٹیں اور پیٹھیں داغیں گے (کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے گاڑھ کر رکھا تھا اپنے واسطے‘ اب مزا چھکو اپنے گاڑھنے کا“۔ ہنگامی ضرورت کے وقت لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ انہوں نے اپنی ضروریات کے لئے رکھا ہے‘ ا س میں سے بھی حسب ضرورت عطیہ دیں جسے صدقات کہتے ہیں‘ یہ بھی نظام مملکت کے تابع ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے:
”خذ من اموالہم صدقة تطہرہم وتزکیہم بہا وصل علیہم‘ ان صلوٰتک سکن لہم‘ والله سمیع علیم“۔ (یونس:۱۰۳)
ترجمہ:․․․․”لے ان کے مال میں سے زکوٰة‘ پاک کرے تو ان کو اور بابرکت کرے تو ان کو اس کی وجہ سے اور دعا دے ان کو بے شک تیری دعا ان کے لئے تسکین ہے اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے“۔ قرآن پاک اس بات کی سخت مذمت کرتا ہے کہ انسان جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو ناجائز کاموں میں اڑائے یا اپنے ہی عیش وعشرت پر اسے صرف کرتا چلاجائے‘ ارشاد الٰہی ہے: ۱:-”ولاتسرفوا‘ انہ لایحب المسرفین“۔ (الاعراف:۳۱)․․․”خرچ میں حد سے نہ گزرو اللہ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا“۔ (جاری ہے)
حوالہ جات
۳- المتقی‘ الشیخ علاء الدین علی الہندی- کنزل العمال فی سنن الاقوال والافعال ج۲ ص۱۹۶
۴- الاصبہانی‘ ابو نعیم‘ حلیة الاولیاء‘ دار الکتاب العربی بیروت لبنان ۱۹۶۷ء
۵- ابن عابدین‘ محمد امین‘ رد المحتار علی الدر المختار ج‘ ص:۳۲
۶- ابن تیمیة‘ احمد بن عبد الحلیم شیخ الاسلام: الحسبة فی الاسلام ص۱۴-۱۷
م ۷- ابن ماجہ‘ ابو عبد اللہ محمد بن یزید‘ السنن ج۲ ص۲۸ الطبعة الاولی المطبعة التازیة بمصر ۱۳۴۹ھ
۸- البخاری ‘ محمد بن اسماعیل‘ الجامع الصحیح ج۲: ص:۵ مطبعة مصطفی البابی مصر ۱۳۵۵ھ-۱۹۳۶ء
۹- النیشابوری‘ مسلم بن الحجاج الامام‘ الصحیح ج‘۲ص:۲۷ اصح المطابع دہلی ۱۳۷۶ھ
۱۰- الترمذی‘ محمد بن عیسی سورة‘ الجامع ج:۱ ص:۱۴۵ ونصہ التاجر الصدوق مع النبیین ․․․․
۱۱- النیشاپوری‘ مسلم بن الحجاج الامام- الصحیح ج۲ص:۲۷ اصح المطابع دہلی ۱۳۷۶ھ
۱۲- الترمذی‘ محمد بن عیسی بن سورة‘ الجامع ج۱ صں۱۴۵ ونصہ التاجر الصدوق الأمین
۱۳- البخاری‘ محمد بن اسماعیل‘ الجامع الصحیح ج۱ص:۳۰۲ یاثم من منع أجر الأجیر
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: وقت کی اہم ضرورت
Flag Counter