Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

10 - 13
تحفہٴ علم وحکمت
تحفہٴ علم وحکمت
حضرت مولانا محمد اسحاق خان مدنی دامت برکاتہم‘ ساکن دبئی حضرت بنوری کے اخص تلامذہ میں سے ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو زبان وبیان کے ساتھ علم وحکمت سے بھی سرفراز فرمایا‘ ان کی کتاب” تحفہٴ علم وحکمت“ پر حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب  نے جس خوبصورت انداز سے اس کو خراج تحسین پیش کیا ہے‘ وہ جہاں کتاب کی عظمت پر دلالت کرتا ہے وہاں وہ ایک قابل قدر شاہ کار بھی ہے‘ ملاحظہ ہو:
”تحفہٴ علم حکمت“ حقیقتاً تحفہٴ علم وحکمت ہی ہے‘ جس میں دلوں کی صلاح وفلاح کی ساری علمی اور عشقی تدبیریں کلام نبوت سے جمع کردی گئی ہیں‘ جس میں علم کے ساتھ حکمت ‘ حکمت کے ساتھ معرفت اور معرفت کے ساتھ حقیقت کے خزانے اسی طرح بھرے ہوئے ہیں جیسے اتہاہ سمندر کی گہرائیوں میں موتی اور جواہرات چھپے ہوئے رہتے ہیں‘ اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ ”تحفہٴ علم وحکمت“ فقہ باطن کی ہدایہ اولین ہے تو بے جا نہیں ہوگا‘ کیونکہ: ہدایہ اولین میں اعمالِ جوارح کے احکام ہیں اور تحفہٴ علم وحکمت میں احوالِ قلوب کی ہدایات ہیں۔ ایک کا تعلق علم سے ہے اور ایک کا عشق سے‘ قوالب کے سدھار کا سر چشمہ ہے اور یہ قلوب کو بگاڑ سے بچانے کا ذخیرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مقدم اندرونی اور قلبی بگاڑ سے ہی بچنا ہے کہ اس پر ہیز کے بغیر دوا وغذا مؤثر نہیں ہوسکتی۔ وجہ ظاہر ہے کہ قلب ”سلطان الاعضاء“ ہے بقیہ تمام اعضاء اس کے خدام ہیں‘ جو اس کے اشاروں پر چلتے ہیں اور بنص حدیث نبوی اگر وہ صالح ہے تو پورا انسان صالح ہے اور وہ فاسد ہے تو سارا انسان فاسد ہے‘ اس جامع کتاب میں اسی سلطان مملکت کی سلامتی اور بچاؤ کی تدبیریں جمع کردی گئی ہیں۔ نیت سے لے کر عمل تک‘ ایمان سے لے کر اسلام تک‘ اخلاق سے لے کراحسان تک‘ اور تقوائے ظاہر سے لے کر تقوائے باطن تک‘ کے ان تمام مدارج کی نشاندہی کر دی گئی ہے‘ جو احادیث ِ شریفہ کے جوامع الکلم میں لپٹے ہوئے ہیں اور جن تک نگاہِ بصارت نہیں ‘ بلکہ نگاہِ بصیرت ہی پہنچ سکتی ہے ‘ اگر آج کی مریض دنیا کو اس کتاب کے ان کیمیا اثر نسخوں اور اس اسوہٴ حسنہ کا استعمال نصیب ہوجائے تو دنیا سے لے کر آخرت تک کی ساری منزلیں بآسانی طے ہوسکتی ہیں‘ اور رضاء حق کے ساتھ رضاء خلق کی دولتیں مفت میں ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ اسلامی عہد کے اوائل میں اصلاح قلب کا فن جسے شرعی اصطلاح میں احسان اور عرفی اصطلاح میں تصوف کہتے ہیں‘ فقہ ہی کا ایک جزو تھا اور اس ایک ہی فن کے دو حصے تھے: ایک فقہ ظاہر اور ایک فقہ باطن‘ بعد میں جب فن احسان کے اصول وقواعد کی تدوین ہوئی اور اس کے مسائل ‘ ابواب وفصول پر مرتب کئے گئے تو اس نے ایک مستقل فن کی صورت اختیار کر لی جس میں ہزار وں کتابوں کا ذخیرہ معرض وجود میں آگیا۔ لیکن یہ فن کی علیحدگی‘ کتابوں ہی کی حد تک محدود رہی‘ جامع ظاہر وباطن ہستیوں کے قلوب میں اس تفریق نے کوئی راہ نہیں پائی‘ بلکہ جہاں ان کے قلم وزبان اور جوارح واعضاء پر فقہی احکام کا تسلط رہا‘ وہیں ان کے قلوب وارواح میں فن احسان کا غلبہ بھی قائم رہا‘ جہاں تک اندازہ ہوا مصنف ممدوح اپنی اس کتاب ”علم وحکمت“ میں ایسی ہی جامع ہستی نظر آرہے ہیں جنہوں نے ظاہر وباطن اور اصول وفروع کے امتزاج کو پالیا اور جمع کرلیا ہے ‘ چنانچہ ان کے حرف حرف سے احکام بیانی کے ساتھ ہی ساتھ احوالِ قلوب پر بھی روشنی پڑتی جاتی ہے اور جہاں اس کتاب سے آنکھیں نور پاتی ہیں‘ وہیں قلوب اس سے سرور بھی حاصل کرتے ہیں۔ اسی جامعیت کے ساتھ ممدوح الصدر نے پچاس احادیث کا یہ انمول ذخیرہ جمع کردیا ہے اور اس میں حال وقال کے درجات ومراتب کی ضروری حد تک نشاندہی فرمادی ہے‘ جو اہلسنت والجماعت کا ہمیشہ سے امتیازی نشان رہا ہے کہ وہ اقوال کے ساتھ احوال‘ صحف کما ل کے ساتھ اسوہٴ رجال اور ادب دانی کے ساتھ سوختہ جانی سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ بقول حضرت امام ابن سیرین کے:
”ان ہذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم“ ۔ (مشکوٰة‘ص:۳۷)
․․․․”یہ علم (کتاب وسنت) تمہارا دین ہے تم جس سے دین حاصل کرو (پہلے) اسے دیکھ لو (کہ خود اس میں بھی دین ہے یا نہیں)؟ یہی راز ہے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا کہ وہ تعلیم ربانی کے ساتھ اخلاقِ رحمانی بھی جو ان کے پاک قلوب میں موجزن ہوتے ہیں‘ مخلوق کے قلوب میں بھی انہیں اپنی قلبی حرارت سے مخلوق کے جاگزین فرمائیں‘ چنانچہ کتاب وسنت میں جو چیزیں اقوال ہیں‘ وہی حضور کی ذات میں اعمال ہیں۔ اور احکام الٰہیہ میں جو چیزیں اعمال ہیں وہ حضور اقدس کی ذات میں احوال ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ بنت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:”وکان خلقہ القرآن“ یعنی اگر آپ کے اخلاق کو دیکھنا چاہو تو قرآن حکیم کو دیکھ لو کہ جو کچھ اس میں بصورت احکام ہے‘ وہی حضور اکی ذات میں بصورت ِ اخلاق وملکات جلوہ گر ہے:
درسخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگ گل
ہرکہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
یہی صورت اس ”تحفہٴ علم وحکمت“ میں بھی محسوس ہوتی ہے کہ اس کے حروف وکلمات میں مصنف کے قلبی اثرات کی روح دوڑی ہوئی ہے‘ اس لئے مجموعی حیثیت سے یہ کتاب ہی نہیں‘ بلکہ ایک لاجواب مربی ہے‘ جس میں خود مصنف کے آثار واحوال جلوہ گر ہیں۔
فجزاہ اللہ عنا وعن جمیع المسلمین احسن الجزاء۔
جدید ایڈیشن میں اگر ہر حدیث کی ابتداء میں اوپر وہ عنوان بھی دے دیا جائے جو فہرست میں دیا گیا ہے تو افادیت کے ساتھ ناظر کتاب اور طالبِ اسوہٴ حسنہ کو سہولت مزید بھی میسر آجائے گی۔ حق تعالیٰ اس ذخیرہ ٴ خیر وبرکت کو قبول فرماکر مصنف ممدوح اور ہر طالب خیر کے لئے باعث خیر وبرکت بنائے۔ ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد۔۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: مذہبی درسگاہیں اورعصری فنون
Flag Counter