Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

12 - 13
آہ ! عالم اسلام کا ایک اور چراغ بجھا
آہ․․․․عالمِ اسلام کا ایک اورچراغ بجھا

شیخ الحدیث امام اہلسنت ومفسرقرآن حضرت علامہ مولانا محمدسر فرازخان صفدر دامت برکاتہم کے چھوٹے بھائی (مدرسہ نصرة العلوم جامع مسجد نور گوجرانوالہ کے بانی ومہتمم) مفسر قرآن وشیخ الحدیث حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت اقدس حضرت نفیس شاہ صاحب کی رحلت کا صدمہ اور غم ابھی ہلکا ہواہی نہیں تھا کہ ایک اور صدمہ آپہنچا․․․مفسر قرآن حضرت صوفی صاحب مرحوم کا شمار بھی کبار علمائے کرام میں ہوتا ہے‘ آپ ۱۹۱۷ء میں ہزارہ کے مقام کٹرمنگ بالا میں پیدا ہوئے‘ حضرت صوفی صاحب مرحوم دار العلوم دیوبند کے ممتاز فضلاء میں سے تھے‘ آپ کا تعلق شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی کے بعد حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے تھا‘ شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی کے مرید وشاگرد اور امام اہلسنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی فاروقی کے شاگردوں میں سے ہیں۔ آپ کو حکیم الامت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی اور امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی سے شرفِ ملاقات اور اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیر گل اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی سے خط وکتابت کا شرف بھی حاصل تھا۔ حضرت نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ نظامیہ طبیہ کالج حیدر آباد دکن سے طب میں گریجویشن بھی کیا ہوا تھا‘ کالج میں چاروں سال ممتاز پوزیشن حاصل کی۔تقریباً ۵۰ سے زائد آپ کی تصانیف ہیں‘ جن میں درس قرآن کریم پر مشتمل تفسیر ”معالم العرفان فی دروس القرآن“ کو اردو کی سب سے بڑی تفسیر شمار کیا جاتاہے جوکہ بیس ضخیم جلدوں میں آپ کا بہت ہی بڑا علمی کارنامہ ہے‘ تیرہ ہزار سے زائد صفحات پر پھیلی ہوئی اس تفسیر کی وجہ سے علمی دنیا آپ کو مفسر قرآن کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اسی طرح حضرت صوفی صاحب کی تصانیف میں دروس الحدیث‘ خطبات سواتی ‘ خطبات صدارت‘ نماز مسنون‘ شمائل ترمذی مترجم‘ مقالاتِ سواتی‘ مجموعہ رسائل‘ دلیل المشرکین‘ صحیح مسلم کا مقدمہ‘ مولانا عبید اللہ سندھی کے علوم وافکار اور دیگر تصانیف موجو ہیں۔آپ نے ۱۳۷۲ھ مطابق ۱۹۵۲ء میں بے سروسامانی کے عالم میں مدرسہ نصرة العلوم وجامع مسجد نور کی بنیاد رکھی۔ حضرت کی محنت اور لگن ہی کا نتیجہ ہے کہ”مدرسہ نصر العلوم“ گوجرانوالہ شہر میں اسلام کا بڑا قلعہ شمار کیا جاتاہے۔ الحمد للہ! نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے طلبہ آکر دین اور علم کی پیاس بجھا رہے ہیں۔۔حضرت صوفی صاحب کی ساری زندگی قناعت‘ صبر‘ شکر‘ تواضع اور سادگی سے لبریز تھی۔حضرت صوفی صاحب میرے والد محترم جناب مولانا عبد الرزاق لدھیانوی صاحب کے بھی استاد ومربی تھے۔ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ: میری ازدواجی نسبت حضرت صوفی صاحب ہی نے فرمائی۔نانا جان دامت برکاتہم کے بہت اصرار کرنے پر حضرت صوفی صاحب گاؤں تلونڈی موسیٰ خان ․․․جوکہ شہر سے ۱۲/۱۳/ میل کا سفر ہے․․ جانے پر رضامند ہوگئے۔ چنانچہ طویل سفرتانگہ پر کیا اور نکاح پڑھا کر فوراً مدرسہ تشریف لے آئے۔ یہ ہے حضرت صوفی صاحب کی انتہائی سادگی اور بے تکلفی کا عالم‘ حضرت والد صاحب مدرسہ کے ابتدائی طلبہ میں سے ہیں۔والد صاحب کا جب بھی گوجرانوالہ جانا ہوا‘ اپنے استاد محترم حضرت صوفی صاحب سے ضرور ملاقات کی‘ جس سے دل کوانتہائی سکون ملتا تھا‘ ملاقات کے دوران حضرت صوفی صاحب کراچی کے حالات اور جامعہ کے متعلق ایک ایک بات پوچھتے اور بہت خوشی کا اظہار فرماتے۔ حضرت کا شروع سے معمول رہا کہ نماز جمعہ کے بعد عوام وخواص کو اپنے دفتر اہتمام میں چائے ‘ کیک‘ بسکٹ وغیرہ سے نوازتے‘ بے شمار حضرات شریک ہوتے‘ نیز مفید باتوں ‘ مشوروں‘ مسئلے مسائل دیگر دینی باتوں سے مستفید فرماتے اور اہل محلہ ‘ اڑوس پڑوس کے مسائل کو حل یا شکایات سن کر مفید مشورے دیتے اور آپس میں محبت بھائی چارگی سے رہنے کا درس دیتے۔ حضرت سے ملاقات کے لئے اہل محلہ کا کوئی فرد یا ادنیٰ سے ادنیٰ شخص آجاتا آپ خوب خاطر تواضع فرماتے‘ رات کا وقت ہوتاتوحکم فرمادیتے کہ کمرہ یا مہمان خانہ میں آرام کرایا جائے‘ خادمین کو ہدایات فرمادیتے کہ صبح کے ناشتہ وغیرہ کا بندوبست کردینا‘دوسرے تیسرے دن وہ شخص جانے لگتا تو حضرت فرماتے کہ: خدمت میں کوتاہی ہوگئی ہو تو معا ف کردینا‘اور ساتھ ہی جیب سے رقم نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیتے‘ اللہ نے حضرت کو ایسا ملکہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کو بے شمار احادیث ربانی یاد تھیں‘حتی کہ راویوں کے نام تک زبانی یاد تھے‘ بہت ہی بارعب شخصیت اور اتنے باہمت تھے کہ باوجود ضعف اور کمزوری کے جب منبر پر بیٹھتے تو ڈیڑھ گھنٹہ تک تقریر فرما لیتے۔بہرحال حضرت نے ساری زندگی قال اللہ و قال الرسول‘ دین اسلام کی اشاعت‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکراور محمد رسول اللہ ا کے دین کے اتباع میں گذاردی۔ حضرت صوفی صاحب کے ۴/ صاحبزادے( ۱/ صاحبزادہ جوانی ہی میں فوت ہوگئے) اور ۳/صاحبزادیاں ہیں ‘ ماشاء اللہ سب حافظ قرآن‘ عالم فاضل ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت کی دینی خدمات کو قبول فرمائے‘ کروٹ کروٹ اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ جولائی ۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اسلام میں سنت اور حدیث کا مقام
Flag Counter