Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

8 - 10
تسخیر کائنات اور اسلام
تسخیر کائنات اور اسلام


دینِ اسلام اور دینِ اسلام کی آسمانی کتاب قرآنِ کریم کا بنیادی مقصد انسانیت کی تکمیل ہے یعنی انسان کو درندوں اور حیوانات کی صف سے نکالاجائے اور اس کی ایسی تربیت کی جائے اور ایسے اعلیٰ مکارم اخلاق سے آراستہ کیا جائے کہ دنیا میں وہ باعزت اور پُر سکون زندگی سے سرفراز ہوسکے اور عظیم الشان محیر العقول کار خانہٴ قدرت کے خالق ومالک کی خوشنودی حاصل کرسکے۔
وحی آسمانی اور تعلیمات نبوی ا کا مرکزی نقطہ
وحی آسمانی اور ہدایات وتعلیمات نبوی کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ انسان حق تعالیٰ کی (جو اس کائنات کا خالق ومالک ہے) معرفت تک رسائی حاصل کرسکے اور اس تخلیقی نظام کے نتائج پر غور کرے اور اس کے فوائد ومنافع اور آثار وثمرات کو سمجھے اور ان سے فائدہ اٹھا کر شکر بجالائے اور آفاقی وانفسی آیاتِ بینات میں غور وخوض کرکے خالق ومالک کی عظمت وجلال کا گرویدہ ہو جائے اور انسان اپنی قیمت بھی سمجھ لے کہ اس کائناتی نظام کا مقصد انسان کی تکمیلِ حیات اور خدمت ہے اور اس منعم حقیقی کی ان حیرت انگیز نعمتوں کا بدل وجان شکر ادا کرے‘ نیز حقائق ومعارف کی گہرائیوں تک پہنچ جائے کہ یہ تمام کارخانہ جو اس ملکوتی عجائبِ قدرت پر مشتمل ہے ”بے مقصد تخلیق“ نہیں‘ بلکہ کوئی اہم مقصد پیش نظر ہے اور ان دل کی گہرائیوں سے حقیقت کا اعتراف کرلے کہ یہ جو انسان کی فانی حیات ہے‘ اس کے لئے ربوبیت کا یہ حیرت افزا نظام وجود میں آیاہے تا آنکہ وحی الٰہی کا وہ پیغام خداوندی جو حضرت ابو البشر آدم علیہ السلام سے لے کر تمام انبیاء ورسل جس کی خبر دیتے ہیں کہ یہ دور عبوری دور ہے اور یہ حیات فانی حیات ہے اور اس کے بعد ایک جاودانی زندگی کا دور ضرور آنے والا ہے‘ اس پیغام کا بدِل وجان اعتراف کرلے اور یہ کہ ان تمام مظاہرِ قدرت میں قدم قدم پر اس جاودانی زندگی کے روشن دلائل موجود ہیں‘ تاکہ کسی طرح بھی عقل انسانی اس کا انکار نہ کر سکے اور حق تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے۔ حق تعالیٰ شانہ نے انسان کو عقل وادراک جیسی نعمت عطا فرمائی اور ملکوتی روح سے سرفراز فرمایا‘ جس کے اسرار سربستہ کی عقدہ کشائی سے بیالوجیا (علم الحیاة) والے بھی حیران اور عاجز ہیں‘ خصوصاً آج کے دور میں کہ عقل کی ایجادات واختراعات نے کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیئے ہیں‘ تاکہ عقلی پرواز کے ان فوق العادة کمالات کو دیکھ کر اس کے خالق کی عظمت کا اعتراف کیا جائے۔ بلاشبہ عقل کی جتنی پختگی ہوگی اور نسلِ انسانی اس سے فائدہ اٹھائے گی‘ جدید سے جدید اختراعات وجود میں آئیں گی‘ بجلی‘ ٹیلیویژن‘ ٹیلیفون‘ ریڈیو‘ ٹیلیگراف‘ لاسلکی نظام‘ ہوائی جہازوغیرہ سینکڑوں عجائبات جو آج کل سامنے آرہے ہیں‘ تمام عقلی کمالات کے آثار ومظاہر ہیں۔
”ہرکہ بیشتر راہ رفت آں راہ دید“
ایک سے ایک بڑھ کر عجائبات سامنے آرہے ہیں‘ عقلی ادراکات وایجادات ہی نے آلاتِ تلسکوبیہ اور آلاتِ میکروسبیہ کی اختراعات کے اسرار تخلیق کے کتنے رازہائے سربستہ کی عقدہ کشائی کی ہے۔ سبحان اللہ العظیم۔ خلاصہ یوں سمجھ لیجئے کہ حق تعالیٰ نے اس دنیا میں جہاں عقلاء وحکماء فلاسفہ وسائنسدان پیدا کئے‘ ساتھ ہی ساتھ انبیاء ورسل کا سلسلہ بھی جاری فرمادیا‘ تاکہ عقل کی طغیانی حد سے نہ بڑھ جائے‘ حضرت ادریس علیہ السلام کے عہد ہی سے حکماء وعقلاء کا سلسلہ جاری ہوگیا‘ حضرت ادریس علیہ السلام کا عہد حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے ہے‘ اس لحاظ سے وہ تاریخی دور سے بہت پہلے کی شخصیت ہیں تو گویا حکماء کا دور بھی اسی وقت سے شروع ہے اور کچھ بعید نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی رہنمائی میں ابتداءً یہ حکماء کام کرتے ہوں گے‘ لیکن انبیاء کی رہنمائی سے استغناء کیا ہوگا تو ٹھوکریں کھانا شروع کی ہوں گی۔ فیثاغورث وبطلیموس‘ پھر وادئ بابل ونینوی میں حکماء صائبین پھر ہندوستان میں ارجہد سے لے کر روما ویونان کے سقراط وبقراط‘ افلاطون وارسطو‘ ابرخس وارسطراطیس وغیرہ وغیرہ سینکڑوں حکماء عالم کے گوشے میں پیدا کئے‘ تاکہ ملکوت کے مشاہدات سے کائنات کے اسرار کا انکشاف ہوتا رہے‘ لیکن حیات بعد الممات کے حقائق کے ادراک سے یہ حکماء وعقلاء عاجز رہے‘ اگرچہ یونان کے حکماء نے الٰہیات کی طرف بڑی توجہ دی‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ حقائق عقل کے دائرہ ادراک وامکان سے باہر تھیں‘ اس لئے ٹھوکریں کھائیں اور ناکام رہے۔ اس کے برعکس انبیاء علیہم السلام کا منصب ان ہی حقائق کو بیان کرنا ہوتاہے‘ جس کے ادراک سے حکماء وعقلاء عاجز رہے ہوں‘ عقل کا دائرہ تحقیقات ‘ مشاہدات وتجربات تک محدود ہوتا ہے‘ حق تعالیٰ نے عقل کی تخلیق ضرور فرمائی اور اس میں یہ حیرت انگیز صلاحیت بھی رکھی کہ وہ اسرار عالم مادی کی عقدہ کشائی کرسکے‘ لیکن وحی الٰہی کا منصب اور نبوت کا مقام یعنی الٰہیات اور مابعد الطبیعات‘ نیز عقل وادراک سے بالا تر حقائق الٰہیہ کا دائرہ حکماء کی دسترس سے بالا تجویز فرمادیا۔
دین اسلام کیا ہے؟
بہرحال ”دین اسلام“ یا شریعتِ اسلامیہ نام ہے اس عالمگیر نظامِ انسانیت کا جس میں تکمیلِ انسانیت کے کسی گوشے کو نظر انداز نہیں کیا گیا‘ خالق ِ کائنات سے رشتہ ہو یا مخلوق سے اور وہ بھی شخصی زندگی سے متعلق ہو یا اجتماعی زندگی سے‘ غرض عبادات ہوں یا معاملات‘ معیشت ومعاشرت ہو یا احوال واخلاق واعمال ان سب کے لئے ایک علمی دستور اور مقصد ونصب العین ہے۔ دینِ اسلام کا علمی دستور قرآن کریم اور مقصود رضائے الٰہی ہے اور دنیا کے عبوری دور میں رضائے الٰہی اور تکمیلِ انسانیت کی جلیل القدر خدمات انجام دے کر ابد الاباد کی نعمتوں اور لازوال حیاتِ طیبہ کا مستحق ہوجائے۔
قرآن کریم کیا ہے؟
قرآنِ حکیم انسانیت کی تکمیل چاہتاہے اور اس کے لئے اس نے اسلام کے بنیادی اصول واحکام اور اساسی اغراض ومقاصد انتہائی محیر العقول اور معجزانہ اسلوبِ بیان کے ساتھ واضح کردیئے ہیں‘ ان مقاصد وسلسلہٴ بیان میں وہ مظاہرِ قدرت اور آثار ِ قدرت کو بھی اگربیان کرتاہے تو اس کا مقصود بھی یہی ہے کہ انسان کے فکری اور اعتقادی پہلوؤں کی تکمیل کی جائے‘ اگر وہ تاریخی حقائق بیان کرتا ہے تو اس کی غرض بھی یہی ہے کہ ان عبرت انگیز وقائع تکوینی اور آیاتِ الٰہیہ سے انسانی بصیرت واعتبار کی تربیت وتکمیل کی جائے‘ اگر احکامِ الٰہیہ کا ذکر ہوگا تو اس سے مراد بھی یہی ہوگی کہ اشرف المخلوقات بنانے کی تدبیر ہوجائے‘ ذات وصفات کی توحید وکمال کا بیان ہو یا اصول واحکام کی تمہید وانضباط‘ ان سب ہی سے انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچادینا مقصود ہے۔ قرآنِ کریم نہ تاریخی کتاب ہے کہ محض واقعات کی تفصیل ہی بیان کرتارہے اور نہ ہی طبعی نوامیس کی تفصیل وبیان پر مشتمل کتابِ طبیعات ہے کہ محض علمی اور ذہنی عیاشی کے افسانوں میں وقت ضائع کرے‘ وہ تاریخ کی روح پیش کرتا ہے اور طبیعات کے فکر وعمل کے نتائج بیان کرتا ہے‘ جس سے توحیدِ الٰہی‘ خلق وربوبیت کے حقائق‘ انسان کے دل ودماغ میں پیوست ہوں اور روح کو پاکیزگی حاصل ہو‘ تاکہ وہ نظامِ عالم میں خلیفة اللہ کے منصبِ اعلیٰ کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اہل بن جائے۔ قرآن اگر کائنات میں غور کرنے کی دعوت دیتا ہے تو اس کی غرض وغایت یہی ہوتی ہے کہ انسانی ذہن وفکر کے سامنے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا راستہ کھل جائے اور اس غور وفکر کے بصیرت آموز نتائج سے ایمان بالغیب کی تائید اور پرورش ہو‘ اس لئے کہ ان حقائقِ کونیہ اور حقائق ِ الٰہیہ میں غور وخوض سے ایمان قوی ہوگا‘ وہ ان کی طرف محض علم وفن کی حیثیت سے کبھی دعوت نہیں دیتا کہ محض فن ہی کو مقصد بنالیا جائے یادنیا میں محض برتری یا عالم انسانیت پرپنجہٴ استبداد مضبوط کرے۔ قرآنِ کریم کے بعض جدید مفسرین کو اس سلسلہ میں بڑی غلط فہمی ہوئی ہے‘ انہوں نے ان موضوعات میں محض قرآنی مباحث کی تفسیر اور ان مباحث کی غرض وغایت بیان کرنے میں بڑے غلو سے کام لیا ہے اور یہ حقیقت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے کہ قرآن اگر طبیعات میں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے تو اس کا مقصد بھی معرفتِ الٰہی تک پہنچنا ہے اور کسی جگہ ان طبعی مسائل کو خدمتِ خلق کا ذریعہ بنایاجائے‘ نہ یہ کہ صرف مال ودولت اور ثروت کا ذریعہ بنایاجائے‘ ظاہر ہے کہ ذات وصفاتِ الٰہی کے بحر بیکراں میں شناوری کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ انسان ان حقائق میں غور کرے‘ تاکہ اس وادی میں ان کے فکر ونظر کی صلاحیتیں زیادہ وسیع ہوں اور ان کے سامنے معرفتِ الٰہیہ کے نئے نئے باب کھلیں اور جب اس طرح قلب وروح کی تربیت ہوجائے اور انسانیت کا صحیح شعور بیدار ہوجائے تو عملی دائرہ کا صحیح مقصد بھی خود بخود متعین ہوجاتاہے۔ اس تمام بحث وتفصیل کا حاصل یہ ہے کہ الغرض کائنات اور کونیات حق تعالیٰ کے کمالاتِ قدرت اور صفاتِ جلال وجمال کا ایک صحیفہ ہے‘ جس کے مطالعہ سے اور اس میں غور وفکر کرنے سے ایمان میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور اس حیثیت سے طبیعات کے جدید علوم ان اصحاب کے لئے بلاشبہ بصیرت افزاء اور بے حد بصیرت افروز ہیں‘ جن کو وحی والہام اور مکاشفہ کی راہ سے وصول الی اللہ حاصل نہ ہو ‘ معرفتِ الٰہیہ ان علوم پر منحصر نہیں ہے‘ بلکہ ظاہر بین اصحاب کے لئے حصولِ معرفت کا یہی ایک راستہ باقی رہ گیا ہے۔ عملی معارف کے بعد عملی نتائج ہیں اور اس علم وعمل سے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لئے صحتِ مقصد اور تصحیحِ مقصد کی ضرورت ہے اور تصحیحِ مقصد کے لئے ایمان باللہ‘ ایمان بالرسل اور ایمان بالآخرت کے سوائے کوئی دوسری راہ نہیں ہے‘ ایمان ویقین سے محرومی اور بے مقصد علم وعمل ہی کی وجہ ہے کہ روس‘ امریکہ اور یورپ کی قومیں ان سائنسی ترقیات اور محیر العقول ایجادات واختراعات کے باوجود انسانیت کی صفوں سے نکل کر پوری درندگی کی حدوں تک پہنچ چکی ہیں‘ نبوت ختم ہوچکی ہے‘ اس لئے معجزاتِ نبوت اور انبیاء کے خوارق کی جگہ اللہ تعالیٰ ان علمی راہوں سے ان پر اپنی حجت پوری کررہا ہے اور خود ان ہی کے ایجاد کردہ علوم سے ان حقائق کو اس نے واشگاف کردیا ہے کہ بے شعور طبیعت اور اس کے ان حیرت انگیز مظاہر اور حیرت افزا خواص ومنافع میں کرشمہٴ الٰہیہ کے اعتراف کے سوائے اور کوئی توجیہ نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سائنس کی موجودہ ترقیات اور حیرت انگیز ایجادات واختراعات کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی عقل میں کیا کیا صلاحیتیں دے رکھی ہیں اور جب ان صلاحیتوں سے کام لیا گیا ہے تو عقل نے کہاں تک رسائی حاصل کرلی ہے‘ ان چیزوں کو دیکھ کر سائنس دانوں کے کمالات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے‘ لیکن یہ صورت کمال کا صرف ایک ہی رخ ہے‘ اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے کہ ان آیات ِ قدرت اور عجائباتِ خلق وتکوین کو دیکھنے کے بعد بھی وہ اب تک اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور ایمان باللہ کی دولت سے محروم ہیں‘ تو حیرت ہوتی ہے کہ یہی عقلاء فکر ونظر کے اس رخ پر اس قدر جاہل کیسے رہ گئے‘ لیکن حق تعالیٰ ان کے اس کفر وانکار کی حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتاہے‘ ارشاد ہے:
”یعلمون ظاہراً من الحیاة الدنیا وہم عن الآخرة ہم غافلون“۔ (روم:۶)
ترجمہ:․․․”وہ حیات دنیا کے ظاہر ہی میں سے کچھ جانتے ہیں اور یہی لوگ آخرت سے تو بالکل ہی غافل ہیں“۔ دنیا کا بھی ظاہر اور وہ بھی ہم بہت محدود مقدار میں جانتے ہیں‘ ان کا ذہن اور ان کی فکر ونظر اس طرف بالکل نہیں جاتی کہ اس حیرت انگیز کائنات اور پُر اسرار حقائق مخلوقات کے خالق پر ایمان لائیں ایک طرف یہ ذہانت اور حیرت انگیز ذہانت اور دوسری طرف اس قدر غباوت اور غیر معمولی غباوت بجائے خود کس قدر عجیب اور حیرت ناک ہے اور حق تعالیٰ کے اس ارشاد کی صداقت کتنی کتنی سچی گواہی ہے:
”ومن لم یجعل اللہ لہ نوراً فمالہ من نور“۔(النور)
ترجمہ:․․․․”اللہ تو جس کو روشنی نہ دے تو اس کے لئے کہیں روشنی نہیں ہے“۔ اس بحرِمحیط کے چند قطرے ہی مناسب ہیں‘ اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم وحی ربانی قرآنِ کریم کی زبانی پیش کرتے ہیں‘ ارشاد ہے:
۱․․․”ان فی خلق السموت والارض واختلاف اللیل والنہار لآیات لأولی الألباب‘ الذین یذکرون اللہ قیاماً وقعوداً وعلی جنوبہم ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت ہذا باطلاً سبحانک فقنا عذاب النار“۔ (آل عمران:۱۹۱)
ترجمہ:․․․”بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں دلائل ہیں اہل عقل کے لئے جن کی حالت یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! آپ نے اس کو لا یعنی پیدا نہیں کیا‘ ہم آپ کو پاک سمجھتے ہیں‘ سو ہم کو عذابِ دوزخ سے بچالے“۔
۲․․․․”واٰیة لہم اللیل نسلخ منہ النہارفاذاہم مظلمون‘ والشمس تجری لمستقرلہا ذلک تقدیر العزیز العلیم․․․ لاالشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر ولا اللیل سابق النہار‘ وکل فی فلک یسبحون“۔ (سورہٴ یٰسین:۳۷-۴۰)
ترجمہ:․․․․”اور ایک اور نشانی ان لوگوں کے لئے رات ہے کہ ہم اس پر سے دن کو اتار لیتے ہیں سو یکایک وہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے‘ یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس کا جو زبردست علم والا ہے ․․․․ نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات‘ دن سے پہلے آسکتی ہے اور دونوں ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں“۔
۳․․․․”اللہ الذی خلق السموات والارض وانزل من السماء ماءً فاخرج بہ من الثمرات رزقالکم وسخر لکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ‘ وسخر لکم الانہار‘ وسخر لکم الشمس والقمر دائبین وسخر لکم اللیل والنہار“۔ (ابراہیم:۳۳-۳۳)
ترجمہ:․․․اللہ ایسا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان میں سے پانی برسایا‘ پھر اس پانی سے پھلوں کی قسم سے تمہارے لئے رزق پیدا کیا اور تمہارے نفع کے لئے کشتی کو مسخر بنایا‘ تاکہ وہ خدا کے حکم سے دریا میں چلے اور تمہارے نفع کے واسطے نہروں کو مسخر بنایا اور تمہارے نفع کے واسطے چاند اور سورج کو مسخر بنایا جو ہمیشہ چلنے ہی میں رہتے ہیں اور تمہارے نفع کے واسطے رات اور دن کو مسخر بنایا“۔
۴․․․․”اللہ الذی رفع السموات بغیر عمد ترونہا ثم استوی علی العرش وسخر الشمس والقمر‘ کل یجری لاجل مسمی‘ یدبر الامر یفصل الآیات لعلکم بلقاء ربکم توقنون“۔ (رعد:۲)
ترجمہ:․․․”اللہ ایسا ہے کہ اس نے آسمانوں کو بدون ستون کے اونچا کھڑا کردیا چنانچہ تم ان کو دیکھ رہے ہو‘ پھر عرش پر قائم ہوا اور آفتاب اور مہتاب کو کام میں لگادیا‘ ہرایک‘ ایک وقتِ معین پر چلتا رہتا ہے‘ وہی ہرکام کی تدبیر کرتا ہے‘ دلائل کو صاف صاف بیان کرتا ہے‘ تاکہ تم اپنے رب کے پاس جانے کا یقین کرلو“۔
۵․․․․”وسخر لکم اللیل والنہار والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ‘ ان فی ذلک لآیات لقوم یعقلون“۔ (النحل:۱۲)
ترجمہ:․․․”اور اس نے تمہارے لئے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر بنایا اور ستارے اس کے حکم سے مسخر ہیں‘ بیشک اس میں عقلمند لوگوں کے لئے چند دلیلیں ہیں“۔
۶․․․․”ولئن سألتہم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یؤفکون“۔ (العنکبوت:۶۱)
ترجمہ:․․․”اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے تو وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ اللہ ہے‘ پھر کدھر الٹے چلے جارہے ہیں“۔
۷․․․․”ألم تروا أن اللہ سخر لکم ما فی السموات وما فی الارض وأسبغ علیکم نعمہ ظاہرةً وباطنة“۔ (لقمان:۲۰)
ترجمہ:․․․کیا تم لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کررکھی ہیں“۔
۸․․․”ألم تر أن اللہ یولج اللیل فی النہار ویولج النہار فی اللیل وسخر الشمس والقمر کل یجری إلی اجل مسمی وان اللہ بما تعلمون خبیر“۔ (لقمان:۲۹)
ترجمہ:․․․”اے مخاطب ! کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کردیتاہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے کہ ہر ایک وقت مقررہ تک چلتا رہے گا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب عملوں کی پوری خبر رکھتاہے“۔
۹․․․”یولج اللیل فی النہار ویولج النہار فی اللیل وسخر الشمس والقمر کل یجری لاجل مسمی‘ ذلکم اللہ ربکم لہ الملک“۔ (فاطر:۱۳۰)
ترجمہ:․․․”وہ رات کو دن میں داخل کردیتاہے اور دن کو رات میں داخل کردیتاہے اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے‘ ہرایک مقررہ وقت تک چلتے رہیں گے‘ یہی اللہ تعالیٰ تمہارا پروردگار ہے‘ اسی کی سلطنت ہے“۔
۱۰:․․․”إن ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستة ایام ثم استوی علی العرض‘ یغشی اللیل النہار یطلبہ حثیثاً والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ‘ الا لہ الخلق والامر‘ تبارک اللہ رب العالمین“۔ (الاعراف:۵۴)
ترجمہ:․․․بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا‘ چھپا دیتاہے شب سے‘ دن کو ایسے طور پر کہ وہ شب اس دن کو جلدی سے آلیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں‘ یاد رکھو! اللہ ہی کے لئے خالق ہونا اور حاکم ہونا‘ بڑی خوبیوں کے بھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ جو تمام عالم کے لئے پروردگار ہیں“۔
۱۱:․․․ومن آیاتہ اللیل والنہار والشمس والقمر‘ لاتسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ الذی خلقہن ان کنتم إیاہ تعبدون“۔ (حم سجدہ:۳۷)
ترجمہ:․․․”اور من جملہ اس کی نشانیوں کے رات ہے اور دن ہے اور سورج ہے اور چاند ہے‘ تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرو اورنہ چاند کو کرو‘ اور اس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان نشانیوں کو پیدا کیا‘ اگر تم کو خدا کی عبادت کرناہے“۔
۱۲:․․․”سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی انفسہم حتی یتبین لہم انہ الحق‘ اولم یکف بربک انہ علی کل شئ شہید“۔ (حم سجدہ:۵۳)
ترجمہ:․․․”ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں ان کے گرد ونواح میں بھی دکھائیں گے اور ان کی ذات میں بھی‘ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ قرآن حق ہے‘ کیا آپ کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہرچیز کا شاہد ہے“۔
۱۳:․․․․”یسئلونک عن الأہلة‘ قل ہی مواقیت للناس والحج“۔ (بقرہ:۱۸۹)
ترجمہ:․․․”آپ سے چاندوں کی حالت کی تحقیقات کرتے ہیں آپ فرمادیجئے کہ وہ چاند ایک آلہٴ شناختِ اوقات ہے لوگوں کے لئے اور حج کے لئے“۔
۱۴:․․․”ہو الذی جعل الشمس ضیاءً والقمر نوراً وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب‘ ما خلق اللہ ذلک الا بالحق‘ یفصل الآیات لقوم یعلمون‘ ان فی الاختلاف اللیل والنہار وما خلق اللہ فی السموات والارض لآیات لقوم یتقون‘ ان الذین لایرجون لقاء نا ورضوا بالحیاة الدنیا واطمأنوا بہا والذین ہم عن آیاتنا غافلون‘ اولئک مأوٰہم النار بما کانوا یکسبون“۔ (یونس:۸۰۵)
ترجمہ:․․․”وہ اللہ ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اس کے لئے منزلیں مقرر کیں‘ تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو‘ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بے فائدہ پیدا نہیں کیں‘ وہ یہ دلائل ان لوگوں کو صاف صاف بتلا رہے ہیں جو دانش رکھتے ہیں‘ بلاشبہ رات اور دن کے لئے یکے بعد دیگرے آنے میں اور اللہ نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے‘ ان سب میں ان لوگوں کے واسطے دلائل ہیں جو ڈر مانتے ہیں‘ جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا کھٹکا نہیں ہے اور دنیوی زندگی پر راضی ہوگئے اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے بالکل غافل ہیں‘ ایسے لوگوں کا ٹھکا نا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے“۔ پہلے اس سے کہ ہم لفظ کلمہٴ تسخیر کے معنی بیان کریں‘ قرآن کریم کی ان آیاتِ ربانی سے سرسری طور پر جن حقائق کی طرف رہنمائی ہوتی ہے ان کو اجمالاً پیش کرنامناسب سمجھتے ہیں:
۱- یہ تمام کارخانہ قدرت جس میں آسمان زمین ‘ چاند‘ سورج‘ سمندر اور دریاؤں کا حیرت انگیز نظام جسے نظام شمسی کہا جاتاہے‘ قائم ہے‘ یہ پورا نظام عالم انسان کی خدمت وآسائش کے لئے ہے۔
۲- یہ تمام عالم ملکوت حق تعالیٰ کی تخلیق کا نتیجہ ہے‘ اسی کے تصرف میں ہے‘ اسی کے قبضہٴ قدرت میں ہے اور یہ سب کچھ اس کی عظمت وجلال کی نشانیاں ہیں۔
۳- ان ملکوتی عجائبات میں غور کرنے والے یقیناً خالقِ کائنات کی عظمت کے قائل ہوں گے اور اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ کارخانہ کسی عظیم ترین مقصد کا پیش خیمہ ہے اور اس کا نتیجہ فوق العادت نکلنے والا ہے نہ از خود وجود میں آیا ہے‘ نہ ہی بے مقصد ہے‘ یہ تخلیق بھی اس کی ہے‘ اس پر اقتدارِ تصرف بھی اسی کا ہے۔
۴- چاند‘ سورج اور رات دن کا یہ چکر اس دنیا کے نظام سے وابستہ ہے اور ایک وقت آئے گا کہ یہ پورا نظام ختم ہوگا‘ جب تک وہ وقت نہیں آئے گا‘ اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔
۵- چاند‘ سورج کے جہاں اور منافع ہیں مہینوں اور برسوں کا حساب اور اوقاتِ کار کا تعلق بھی ان سے وابستہ ہے‘ تاکہ دنیا کے کاروبار کے اوقات اور عبادات کے اوقات خصوصاً حج کا موسم معلوم ہوتا رہے۔
۶- چاند کی منزلیں مقرر کی گئی ہیں‘ تاکہ ان سے پورے مہینہ کے دنوں کا حساب معلوم ہوسکے اور سورج سے برسوں اور موسموں کا حساب معلوم ہوتا رہے۔
۷- ان آسمانی اور ذہنی حقائق پر غور کرو اور ان کی تخلیق کے رازوں سے زیادہ توجہ اس طرف کروکہ کتنے عظیم فوائد اور منافع ان سے وابستہ ہیں۔
۸- صحابہ کرام نے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی علت اور سبب کو دریافت کیا‘ جواب میں سبب بتلانے کی بجائے مقصد سے آگاہ کیا گیا کہ یہی معلوم کرنا اہم اور کار آمد ہے‘ باقی سبب وعلت یہ تو عقلی چیز ہے‘ خود مشاہدات وتجربات سے سمجھ جائیں گے‘ اصلی مقصد اس نظام کے منشاء قدرت کو سمجھنا ہونا چاہیئے‘ سو اس کو بتلادیا۔
تسخیر کے معنی
عربی لغات میں تسخیر کے معنی ہیں کسی چیز کو اپنے ارادہ کے تابع کرلینا یا کام میں لگا لینا اور اس طرح مجبور کرنا کہ وہ خلاف نہ کر سکے‘ چاند‘ سورج‘ رات دن‘ اور کائنات کے تمام سیاروں اور تاروں کی تسخیر کی حقیقت یہ ہے کہ ان سب کو حق تعالیٰ نے ایک ایسے نظام میں منسلک کردیا ہے‘ کیا مجال ہے کہ اس میں مقرر کروہ نظام سے سر موتجاوز کر سکیں‘ حق تعالیٰ کے تکوینی اور تخلیقی نظام کے مطابق یہ سب اپنے اپنے مدارت پر معلق ہیں اور ایک نظام کے تحت چل رہے ہیں یعنی اپنا اپنا کام انجام دے رہے ہیں اور یہ تسخیر محض حق تعالیٰ کے ارادہ واختیار اور تصرف واقتدار کا کرشمہ ہے‘ انسانی دسترس سے بالاتر ہیں ‘ یہ تسخیر شدہ کائناتی اشیاء کونیہ ہیں اور ان کو مسخر کرنے والی صرف حق تعالیٰ کی ذات جل ذکرہ ہے اور جس کے لئے ان کو تسخیر کیا گیا وہ حضرتِ انسان ہیں۔
نظامِ کائنات میں انسان کی پرواز
ظاہر ہے کہ اس حقیقت کی رو سے انسانی ارادہ واختیار اور تصرف واقتدار کو اس نظامِ کائنات میں ذرہ برابر بھی دخل نہیں‘ نہ اس نظام کو روک سکتا ہے نہ بدل سکتا ہے‘ انسان کی پرواز زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس کے فوائد منافع کا علم ہوجائے اور ان سے فائدہ اٹھائے‘ باقی فائدہ اٹھانے کی صلاحیت واہلیت ہرزمانہ اور ہردور میں عقل وفہم اور آلات ووسائل کی توانائی پر موقوف ہے‘ فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے‘ دیکھئے ایک بچہ بہت کم بوجھ اٹھا سکتا ہے‘ ایک نوجوان بہت زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے‘ جس طرح یہ مادی اور جسمانی کیفیت جو حالات کے اعتبار سے مختلف ہیں‘ ٹھیک اسی طرح عقل وادراک کی قوتیں بھی حالات کے اعتبار سے مختلف ہیں‘ حق تعالیٰ کی کائنات سے سابقہ حکماء کی عقلیں محدود فائدے حاصل کرتی رہیں‘ آج کے سائنس دانوں کی عقول نے دقیق سائنسی آلات کے ذریعہ ایسے بے شمار فوائد ومنافع حاصل کر لئے ہیں جن کا تصور بھی حکماء سابقین کو نہ تھا‘ لباس‘ پوشاک‘ زراعت‘ تجارت‘ صنعت وحرفت‘ نوبنو ایجادات واختراعات وغیرہ‘ یہ تمام اشیاء جس مرحلے پر آج پہنچ گئی ہیں‘ اس کے عشر عشیر کا ذکر بھی ماضی بعید میں تو کیا ماضی قریب میں بھی افسانے معلوم ہوتے تھے‘ اس دریافت کا نام تسخیر رکھنا صحیح نہیں ہوسکتا‘ یہ تو عقلی ترقی ہے یا تمدن کی ترقیات ہیں‘ یہ تمام مادی اشیاء تو حق تعالیٰ نے انسان کے انتفاع کے لئے تسخیر وتخلیق فرمائی ہیں‘ وہی ان کا خالق وہی ان کا تسخیر کنندہ ہے‘ رہے حضرتِ انسان تو ہردور اور ہر زمانہ میں انسانی عقول اپنے اپنے محدود دائرے میں ان سے انتفاع کرتی اور فائدے اٹھاتی رہی ہیں۔
قدرتِ الٰہی اور انسانی قوت کے دائرے
انسان نے اپنی فکری اور تجرباتی کاوش سے یہ توکر لیا کہ انسان کے جسم سے خون نکال کراسے محفوظ کرلیا اور بوقتِ ضرورت دوسرے آدمی کے جسم میں چڑھادیا‘ اور مان لیجئے کہ اس کی جان بچ گئی‘ لیکن آج تک انسان سے یہ نہ ہوسکا اور نہ ہو سکے گا کہ کسی لیبارٹری میں پھلوں اور غذاؤں سے خون تیار کرسکیں‘ قدرتِ الٰہی کے کرشموں کا دائرہ اور ہے اور انسانی قدرتِ تصرفات کا دائرہ اور۔ یہ تو ہوا کہ انسان چاند پر پہنچ گیا اور ہوسکتاہے کہ کل مریخ یا کسی اور کرّے کی زیارت بھی کر لے‘ لیکن چاند سورج کے نظام سے رات اور دن کا جو نظام قائم ہے‘ اس میں تصرف یا کسی قدر تبدیلی کرسکے‘ یہ ناممکن ہے۔ مثلاً جہاں رات ۱۲ گھنٹہ کی ہے‘ اسے ۱۳ گھنٹہ کی کردیں اور رات کا وقت کچھ کم کردیں۔
تسخیرِ کائنات کا مطلب
تسخیرِ کائنات کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے جو کائنات کا نظام مقرر فرمایاہے‘ اس میں انسان تصرف کرسکتا یا وہ نظام انسان کے اختیار واقتدار میں آجائے اور حسبِ منشاء جب چاہیں چھوٹے بڑے کرسکیں‘ زیادہ سے زیادہ بات اتنی ہے کہ جو ماضی میں اس کائنات سے فائدہ نہ اٹھا سکے‘ آج عقلی ترقی کے مراحل اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے ذریعہ اتنے عظیم فوائد حاصل کئے جارہے ہیں‘ جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے نہ کرسکتے تھے‘ ان قرآنی تعبیرات پر ذرا بھی کوئی غور کرے تو بات صاف اور واضح ہوجاتی ہے‘حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وسخرلکم الشمس والقمر“
تمہارے لئے یا تمہارے فائدے کے لئے یا تمہارے کاموں کے لئے چاند اور سورج کی تسخیر فرمادی‘ یہ نہیں فرمایا:
”سخرتم الشمس والقمر“
کہ تم نے چاند اور سورج کو مسخر کردیا‘ دراصل تسخیر کرنے والی حق تعالیٰ کی ذاتِ قدسی صفات ہے یہ موجودہ کائنات جس مقصد کے لئے تسخیر کی گئی ہے موجودہ انسانی معلومات کا قرآنی تعبیرات وکلمات کا واضح مفہوم بھی یہی ہے۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: رویت ہلال
Flag Counter