Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

3 - 10
اسلام ایک ابدی صداقت
اسلام ایک ابدی صداقت

وہ دور جس میں کفر نے اپنی نحوست سے سارے عالم کو تاریک کررکھا تھا‘ شرک کا ہر طرف دور دورہ تھا‘ ہرشخص اپنے دین سے بیگانہ ہوکر بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا تھا‘ ہرایک بداخلاقی کی دلدل میں لت پت تھا‘ کسی عورت کی عزت محفوظ نہ تھی‘ لوگوں میں اپنی ماں‘ بہن میں تمیز نہ تھی‘ شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو دوسرے اموال کے ساتھ تقسیم کیا جاتا تھا‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو قتل کردیا جاتا‘ سارا عالم جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا‘ سارا معاشرہ ہمہ جہت بگاڑ کا شکار تھا‘ اسی دور کو زمانہ جاہلیت کے ساتھ موسوم کیا جاتاہے۔ پھر ”ہراندھیرے کے بعد ایک روشنی“ کے مصداق نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ا مبعوث کئے گئے‘ آپ ا سارے عالم کے لئے رحمت بن کر آئے‘ آپ کے آنے سے کفر وضلالت کے اندھیرے چھٹ گئے‘ آپ ا نے لوگوں کو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف دعوت دی‘ لوگوں کو کفر وشرک کے اندھیرے سے نکال کرنور ایمان کی طرف ہدایت کی‘ آپ نے حیاء کو ایمان کا شعبہ قرار دیا‘ آپ ا نے زندگی گزارنے کے تمام راہنما اصول بیان فرمائے‘ جن کے نصیب میں ہدایت تھی‘ وہ نبی ا پر ایمان لاکر ہمیشہ کی کامیابی سے سرفراز ہوگئے اور پوری امت کے لئے ستاروں کی مانندبن گئے‘اور جو شقی القلب تھے وہ ایمان تو کیا لاتے‘ انہوں نے طرح طرح کے اعتراضات کرکے دینی احکام پر استہزاء کیا‘ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی تو وہ اس کو اساطیر الاولین (پچھلوں کی کہانیاں) کہتے‘ آپ ا پر یہ الزام لگاتے کہ قرآن کریم کو آپ نے گھڑ لیا ہے‘ کبھی آپ کو ساحر‘ کبھی کاہن کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کرتے۔ انہی لوگوں نے ہدایت کو ضلالت کے بدلے اختیار کیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آگ کا ایندھن بن گئے۔ چونکہ دعوت کے مؤثر ہونے اور قابل فہم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پیغام کو اس اسلوب میں ڈھال کر پیش کیا جائے جس سے وہ معاشرہ مانوس ہے‘ لہذا آپ ا نے اسلام کو اس اسلوب سے بیان کیا جس سے عرب مانوس تھے اور چونکہ اسلام فطرت کے ماحول میں شروع ہوا اور دور اول کے مخاطبین کے لئے فطری دلائل ہی کافی تھے‘ اس لئے کافی تعداد میں لوگ صرف قرآن کریم کو سن کر ہی اسلام میں داخل ہوگئے۔ پھر جب زمانہ کچھ اور آگے چلا اور عباسی خلافت تک پہنچا تو اب ماحول بدل گیا‘ ہر طرف یونانی علوم پھیل گئے ‘ منطق اور فلسفے نے رواج پالیا‘ اس وقت اسلام پر ایک اعتراض اٹھایا گیا کہ منطق اور فلسفے نے علمی غور وفکر کا جو معیار قائم کیا ہے‘ اسلام کے عقائد اس پر پورے نہیں اترتے ‘ چنانچہ اس دور کے مسلم علماء اٹھے اور انہوں نے اسلام کی صداقت کو اس طرح ثابت کیا کہ لوگوں کی عقلیں دنگ رہ گئیں۔ پھر جب گردش ایام زمانے کو انیسویں صدی تک لائی تو اب دنیا میں جدید سائنس کا غلبہ ہوچکا تھا‘ اس وقت ایک اور اعتراض اسلام کی صداقت کو تار تار کرنے کے لئے کیا گیا کہ اسلام کی صداقت جدید سائنس کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ چنانچہ علمائے حق دوبارہ میدان میں آئے اور انہوں نے از سر نو اسلام کا مطالعہ کیا اور ان پہلوؤں کی نشان دہی کی جن کی جدید سائنس بھی تصدیق کرتی ہے ‘ اور انہوں نے ثابت کیا کہ یہ دعوی غلط ہے اور اسلام اپنی ابدی صداقت بدستور زمانہ حال پر قائم رکھے ہوئے ہے اور اسلام کی صداقت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اب جب کہ گردش ایام نے زمانے کو اکیسویں صدی میں داخل کردیا ہے اسلام پر ایک اور اعتراض کیا جارہا ہے کہ اسلام ایک انتہاء پسند مذہب ہے اور اس پر عمل پیرا لوگ دہشت گرد ہیں‘ اگلی سطور میں ہم اس بات کو واضح کریں گے کہ یہ اعتراض اسلام کی صداقت پر کیوں کیا گیا؟ پچھلی صدی کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز اور پر آشوب ثابت ہوئی‘ اس صدی میں مادی ترقی جتنی تیزی سے اپنی انتہاء کو پہنچی اتنی ہی رفتار سے انسانی قدریں تنزل کی طرف بڑھیں‘ انسانی محنت کا سارا زور انسان سازی کے بجائے اشیاء سازی پر صرف ہونے لگا‘ مجموعی طور پر اس صدی کو جدیدیت کی صدی کہاجا سکتاہے‘ جس کی زمام قیادت مغرب کے ہاتھ میں رہی۔ اور اسی جدت پسندی کے شوق میں مشرق نے مغرب کی شاگردی اختیار کرلی اور مغربی ذوق ومزاج‘ تہذیب وثقافت‘ تعلیم وتربیت‘ معیشت ومعاشرت‘ سیاست وقانون اور مغربی افکار ونظریات کی اپنے استاد مغرب سے ایسی تعلیم حاصل کی کہ جس کے نتیجہ میں الحاد وتشکیک اور عقلیت پرستی نے جنم لیا اور وہ اپنے دین ومذہب کی ہرہربات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا‘ اس کو اپنے بزرگوں سے شرم آنے لگی اور وہ شعائر دین سے گھن کھانے لگا‘ چنانچہ دین اور حاملین دین کا مذاق اڑانا اس کی گھٹی میں داخل ہوگیا ۔ دینداری کی علامتوں کو اس قدر حقارت سے دیکھا جانے لگا کہ اس کو ”آثار قدیمہ“ اور ”پتھر کادور“ نام دے کر ٹھکرادیاگیا۔ خدا اوررسول ا کے ارشادات اور دین و شریعت کے احکام کی وقعت ان کے دلوں سے نکل گئی جس کی بناء پر دین وشریعت پر عمل کرنے کو انتہاء پسندی کہا جانے لگا۔ اے بہی خواہان مسلم! یہ سبب ہے اس اعتراض کا جو عام طور پر اس صدی میں مسلمانوں پر کیا جاتاہے‘ چونکہ اس اعتراض کا سبب ہی مغرب کی اندھی تقلید ہے‘ لہذا جب تک لوگ مغرب کی اس اندھی تقلید سے نکل نہیں جاتے‘ ان پر اسلام کی یہ ابدی صداقت منکشف نہیں ہوسکتی۔
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: مسجد کودوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم
Flag Counter