Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء

ہ رسالہ

7 - 10
رویت ہلال
رویت ہلال فلکیاتی مسائل اور شرعی احکامات


اسلامی عبادات کے لئے اوقات اور ایام کے تعین میں سورج اور چاند دونوں کی گردش کا اعتبار کیا گیا ہے‘ مگر اس میں فرق یہ ہے کہ اوقات کا تعین سورج کی گردش کے حوالہ سے ہوتا ہے اور ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے کیا جاتاہے‘ مثلا: روزے کے دن کا تعین قمری ماہ کے طور پر رویت ہلال کے ذریعہ ہوتا ہے‘ مگر روزے کے روز مرہ دورانیہ کا تعین سورج کی گردش کے مطابق کیا جاتاہے۔ اسی طرح حج کے ایام کا تعین چاند کی گردش کے حساب سے ہوتاہے‘ مگر حج کے ارکان وافعال مثلا: عرفات‘ مزدلفہ‘ منیٰ کے وقوف اور اوقات کا تعین سورج کی گردش کے مطابق ہوتا ہے۔ ایام کے تعین کو چاند کی گردش کے ساتھ مخصوص کرنے کی حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس طرح مثلا رمضان مختلف موسموں میں آتا رہتاہے اور اگر ایک مسلمان پندرہ سال کی عمر میں بالغ ہوکر پچاس سال کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسے اتنے عرصے میں سال کے ہر موسم کے روزے مل جاتے ہیں اور اسی طرح حج میں بھی یہی صورتحال ہوتی ہے کہ ایام حج بھی سال کے مختلف موسموں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے‘ جدید علوم اور سائنسی ایجادات سے بہرہ ور اقوام ہوں یا جاہل وغیر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ‘ سب کے لئے اسلامی عبادات کی بجا آوری فطرت کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق یکساں ایام اور یکساں اوقات میں ممکن ہے۔ اسلام نے یورپ وامریکہ کے شہروں میں رہائش پذیر تعلیم یافتہ افراد کے لئے‘ جو علم ہیئت وفلکیات سے مکمل آگہی رکھتے ہیں اور ایشیاء وافریقہ کے دور افتادہ دیہات اور صحراؤں میں بسنے والے ان پڑھ لوگوں کے لئے‘ فرائض مذہبی بجا لانے کے الگ الگ پیمانے مقرر نہیں کئے‘بلکہ غیر آباد اور سائنسی ایجادات سے محروم علاقوں میں آلہ ساعت سے ناواقف مسلمان بھی انہی اوقات میں نمازیں ادا کرتے ہیں جن کے لئے ہم گھڑی کی سوئیاں اور اوقات نماز کی جدولیں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ لوگ سورج اور ستاروں کی کیفیات سے نمازوں اور سحر وافطار کے اوقات معلوم کرلیتے ہیں ۔ آغاز رمضان اور عیدین کے تعین کے لئے انہیں کسی رسدگاہ سے پیش گوئی حاصل کرنے یا اس کی تصدیق کروانے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ بلکہ آسمان پر نمودار ہونے والا نیا چاند بیرونی دنیا سے انقطاع کی صورت میں بھی ان کے لئے درست ایام کی نشاندہی کردیتا ہے‘ یوں مہذب اور غیر تہذیب یافتہ دونوں علاقوں میں اسلامی عبادات اور تقریبات کے دنوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ چودہ سو سالوں سے اسی طرح چلتا آرہاہے۔ عبادات کے لئے قمری مہینوں کو بنیاد بناکر اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کے لئے یکسانیت کا ایک مینار مقرر کیا ہے‘ ماہ رمضان کے روزوں کی مثال لیجئے‘ برکت والے اس مہینے کے مختلف موسموں میں گردش کرتے رہنے ہیں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ روزہ داروں کو بھوک اور پیاس کے احساس اور دوسرے موانعات سے متاثر کرنے کا جو تربیتی مقصد ہے وہ تمام عالم کے مسلمانوں کو یکساں طور پر حاصل ہو‘ یہ نہیں کہ کرہ ارض کے ایک حصے کے لوگ تو روزہ رکھنے میں ہمیشہ ایک خاص موسم کے مخصوص اثرات کا سامنا کرتے رہیں اور دوسرے حصے کے لوگ اس احساس سے محروم رہیں۔ اگر ہم چاند کے بڑھنے گھٹنے کے عمل پر غور کریں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ قمری ماہ کے پہلے دو ہفتے یہ ہمیں روز بڑھتا ہوا دکھائی دیتاہے‘ یہاں تک کہ ایک موقع پر یہ دائرے کی صورت میں مکمل ہوجاتاہے۔ اس کے بعد اگلے دو ہفتے اس کی جسامت ہر روز کم ہوتی نظر آتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اس کا وجود بالکل غائب ہوجاتاہے‘ اس کے ساتھ ہی چاند بڑھنے کا عمل نئے سرے سے شروع ہوتا ہے‘ عین اس وقت کو قیران شمس وقمرہ اتصال شمس وقمر یا اماوس کہتے ہیں‘ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سورج اور چاند ایک سیدھ میں صفر درجہ پر ہوتے ہیں۔ علوم فلکیات میں یہی وقت ”نیا چاند“ کہلا تا ہے اور رصد گاہی کتب میں نئے چاند کے اوقات اسی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں‘ اسے نئے چاند کی پیدائش بھی کہتے ہیں اور چاندکی طبعی عمر اسی وقت سے شمار کی جاتی ہے۔ فلکیاتی اصطلاح کا نیا چاند اپنے ابتدائی دور میں بال سے زیادہ باریک ‘ سورج سے بہت قریب اور اس کی طاقت ور شعاعوں کی براہ راست زد میں ہوتا ہے‘ لہذا انسانی آنکھیں یا غیر معمولی قوت کی دور بینیں بھی اسے دیکھنے کے قابل نہیں ہوتیں‘ جوں جوں چاند کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے‘ اس کی جسامت بڑھتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ سورج سے دور ہٹتے ہوئے اس کی شعاعوں کی طاقت سے بھی ایک حد تک محفوظ ہوتا جاتاہے ۔ بالآخر ایک وقت اس کا وجود اس قدر ہوجاتاہے کہ سورج سے ایک خاص فاصلے پر غروب آفتاب کے بعد انسانی آنکھوں کو پہلی بار نظر آنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ بصری نیا چاند ہے جو دوسرے الفاظ میں رویت ہلال کے معروف نام سے موسوم ہے۔ چاند کی پیدائش سے لے کر اس کی گولائی مکمل ہونے کے عرصہ کی اوسط مدت‘ کم وبیش ساڑھے تین سو گھنٹے ہیں‘ اس حساب سے چاند کا صرف ایک فیصد حصہ نظر آنے کے لئے تقریباً ساڑھے تین گھنٹے درکار ہیں‘ ظاہر ہے کہ اس جسامت کے چاند کا دیکھا جانا محال ہے۔ حقیقی رویت کے لئے اس کا چند فیصد وجود ظاہر ہونا ضروری ہے اور اس کے لئے اس حساب سے مزید وقت چاہئے۔ ماہرین فلکیات کے مشاہدات کے مطابق نیا چاند بہت اچھی کیفیات میں بھی اس وقت تک دیکھے جانے کے قابل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی عمر موزوں ترین مقام پر غروب آفتاب کے بعد کم از کم بیس گھنٹے نہ ہوجائے۔ کیفیات اچھی نہ ہونے کی صورت میں یہ وقفہ بڑھ کر تیس گھنٹے تک بھی ہوسکتا ہے‘ اس حساب سے فلکیاتی نئے چانداور رویت ہلال میں کم از کم ایک روز کا فرق ہونا لازمی ہے‘ چونکہ نیا چاند شام کے وقت ہی دکھائی دینا ممکن ہے‘ اس لئے اس وقت تک چاند کی عمر کافی نہ ہونے کے باعث یہ فرق دو دن بھی ہوجاتاہے۔ مثلا ایک مقام پر غروبِ آفتاب کا وقت تقریباً چھ بجے شام ہے‘ مقامی وقت کے مطابق چاند کی پیدائش ۱۱/بجے قبل از دوپہر ہوئی ہے‘ ظاہر ہے کہ اس شام اس کی عمر صرف ۷/ گھنٹے ہوگی‘ اس لئے اس کا دکھائی دینا قطعا ممکن نہیں۔اگلی شام کو اس کی عمر مزید ۲۴/گھنٹے بڑھ کر ۳۱/ گھنٹے ہوجائے گی‘ اس لئے نظر آجائے گا۔ اس طرح فلکیاتی نئے چاند اور رویت ہلال میں ایک دن فرق پڑا۔ اگر چاند کی پیدائش کا وقت اس کے برعکس دن کی بجائے ۱۱/بجے رات ہو تو یہ اگلی شام کو بھی نظر نہیں آئے گا‘ کیونکہ اس وقت اس کی عمر صرف ۱۹/ گھنٹے ہوگی جو چاند دکھائی دینے کے لئے ناکافی ہے‘ لہذا رویت ہلال اس سے بھی اگلی شام کو ہوگی‘ اس وقت اس کی عمر ۴۳/ گھنٹے ہوگی اور مذکورہ فرق دو دن ہوجائے گا۔ (۱)
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ یا اس کے اعتقادی مواد کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آغاز قمری ماہ کے لئے ہمیشہ رویت ہلال کو بنیاد بنایا گیا ہے‘ رویت ہلال کا فیصلہ ہمیشہ سے عینی شہادتوں کی بنیاد پر کیا جاتا رہا اور اس کے لئے شرعی طور پر ایک معیار مقرر رہاہے‘ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:
”ہو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب“۔ (۲)
ترجمہ:․․․”وہی (خالق کائنات) ہے جس نے بنایا سورج کو روشن اور چاند کو ایک نور اور مقرر کیں اس کے لئے منزلیں تاکہ تم جان سکو سالوں کی گنتی اور حساب“۔
اس آیت کریمہ سے ایک بات یہ واضح ہوتی ہے کہ یہ حساب چاند کی اس منزل سے شروع ہوتاہے جس میں نور ہے یعنی دکھائی دیتاہے‘ دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے:
”یسئلونک عن الاہلة قل ہی مواقیت للناس والحج“۔ (۳)
ترجمہ:․․․”لوگ آپ سے ہلالوں کے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ ان سے فرما دیجئے کہ یہ (ہلال) مقررہ اوقات ہیں‘ لوگوں کے (معاملات وعبادات) اور حج (کے تعین) کے لئے“۔
ظاہر ہے کہ اس آیت میں بھی ان ہلالوں کا ذکر ہے جو لوگوں کو نظر آتے تھے اور جن کے بارے میں انہوں نے حضور ا سے دریافت کیا اور آپ ا کو وضاحت فرمانے کی ہدایت ملی۔ اس ارشاد ربانی میں ہلال اور حج یعنی عبادات کے واضح تعلق کا ذکر موجود ہے۔حدیث کی کتابیں رویت ہلال کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں‘ حضورا کا ارشاد ہے:
”عن ابی ہریرة قال: قال رسول اللہ ا صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ فان غم علیکم فصوموا ثلاثین یوما“۔ (۴)
ترجمہ:․․․”حضرت ابوہریرة سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم اسے دیکھو تو افطار کرو‘ پھر اگر تم پر بادل ہوجائیں تو تیس روزے پورے کرو“۔
یعنی ۲۹/ تاریخ کی شام کو مطلع ابر آلود ہونے کے باعث چاند نظر نہ آئے تو مہینے کے تیس دنوں کی گنتی پوری کرو۔ حدیث کے الفاظ میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ روزے رکھنے والے خود اپنی آنکھوں سے ضروری طور پر چاند دیکھیں‘ بلکہ اس کا مفہوم ہے کہ :”جب چاند دکھائی دے جائے“ بادل کا لفظ اس بات کی دلالت کرتاہے کہ اسلامی احکامات میں نئے چاند کا مطلب اس کا آنکھوں سے دکھائی دینا ہے‘ کیونکہ بادل چاند دکھائی دینے کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جب شعبان کی ۲۹/تاریخ ہو تو لوگ رمضان المبارک کا چاند دیکھیں‘ اگر چاند نظر آجائے تو دوسرے دن روزہ رکھیں‘ اگر نظر نہ آئے تو شعبان کے ۳۰/دن پورے کریں اور اس کے بعد رمضان المبارک کا آغاز کریں اور روزہ رکھیں‘ حدیث پاک میں ہے :
”عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ ا الشہر تسع وعشرون لیلة فلاتصوموا حتی تروہ‘ فان غم علیکم فاکملوا العدة ثلاثین“۔ (متفق علیہ) (۵)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضور ا نے فرمایا: مہینہ ۲۹/رات کا ہوتا ہے‘ پس روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو ۳۰/دن پورے کرو“۔
رویت ہلال رمضان کی متعدد صورتیں ہیں:
۱- ۲۹/ شعبان کو مطلع صاف ہو اور چاند نظر آنے کی کہیں سے کوئی اطلاع نہ ملے اس صورت میں اگلے روز روزہ نہیں رکھا جائے گا اور شعبان کے ۳۰/ دن پورے کرنے کی بعد رمضان المبارک کا آغاز ہوگا۔
۲- ۲۹/شعبان کو مطلع ابر آلود ہو اور کہیں سے کوئی اطلاع چاند دیکھنے کی نہ ملے تب بھی یہی حکم ہوگا۔
۳- ۲۹/شعبان کو مطلع صاف ہو عام لوگوں کو چاند نظر نہیں آیا اور بعض لوگوں نے چاند دیکھنے کی شہادت دی تو ان کی شہادت اس وقت قابل قبول ہوگی جب کہ ایک جم غفیر چاند کو دیکھنے کی شہادت دے‘ اگر گنتی کے چند آدمی یہ شہادت دیں کہ انہوں نے چاند دیکھاہے اور ان کی تصدیق ملک کے طول وعرض سے کہیں سے بھی نہیں ہوئی تو قاضی ان کی شہادت کو مسترد کردے گا‘ کیونکہ یہ خیال کرنا ہمارے لئے آسان ہے کہ ان چند آدمیوں کو دھوکا ہوا ہے‘ بجائے اس کے کہ ہم تمام امت کو بے بصر اور نابینا تصور کرلیں۔
جم غفیر کے متعلق علماء کی متعدد آراء ہیں۔ بعض نے اس کے لئے پانچ سوکی تعداد بتلائی ہے کسی نے ایک ہزار اور امام ابویوسف سے مروی ہے کہ پچاس کی تعداد جم غفیر ہے‘ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ اس امر کا فیصلہ امام یا اس کے نائب کو تفویض کیا جائے گا‘ جس تعداد کو وہ جم غفیر قرار دے اس تعداد کی رویت سے ہلال کی رویت ثابت ہو جائے گی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اتنی تعداد کو جم غفیر کہا جائے گا جن کی شہادت سے علم شرعی ثابت ہوتا ہے اور علم شرعی سے مراد غلبہ ظن ہے‘ صاحب درمختار اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
”بلاعلة جمع عظیم یقع العلم الشرعی وہو غلبة الظن بخبرہم وہو مفوض الی رای الامام من غیر تقدیر بعدد“۔ (۶)
یعنی اگر چاند دیکھنے سے بادل وغیرہ مانع نہ ہوں تو ایسی عظیم جماعت کا قول قبول کیا جائے گا جس سے علم شرعی حاصل ہوجائے اور اس علم شرعی سے مراد غلبہ ظن ہے اور یہ امر امام کے سپرد ہے‘ کسی عدد کے تعین کی ضرورت نہیں یعنی جس عدد سے امام کو چاند کے ہونے کا غلبہ ظن حاصل ہوجائے خواہ وہ تعداد کم ہو یا زیادہ۔
علامہ طحطاوی علم شرعی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مرادہ الشرعی المصطلح علیہ فی الاصول فیشمل غالب الظن والا فالعلم فی فن التوحید ایضا شرعی ولا عبرة بالظن ہناک“۔ (۷)
یعنی علم شرعی سے مراد وہ علم ہے جو اصول فقہ کی اصطلاح میں علم شرعی کہلاتاہے (جو استنباط احکام کے لئے کافی ہے) اور یہ غلبہ ظن کو شامل ہے‘ وگرنہ عقائد کو بھی علم شرعی کہا جاتاہے (لیکن وہاں اس سے مراد علم یقینی ہوا کرتاہے‘ کیونکہ عقائد کے ثبوت کے لئے دلیل قطعی درکار ہے) یہاں غلبہ ظن کا اعتبار نہیں۔
۴- اگر ۲۹/ شعبان کو مطلع ابر آلود ہو تو ہلال رمضان کے لئے ایک عادل ‘مستور الحال مسلمان بھی چاند دیکھنے کی خبر دے تو رویت ہلال ثابت ہو جائے گی اور ہلال رمضان کی رویت کی خبر دینے والے کے لئے دوسرے گواہوں کی طرح نہ لفظ ”اشہد“ کہنا ضروری ہے اور نہ مجلس قضا ضروری ہے اور نہ دعویٰ دائر کرنے کی ضرورت ہے‘ اس سلسلے میں صاحب درمختار لکھتے ہیں:
”وقبل بلا دعویٰ‘ وبلا لفظ اشہد‘ وبلاحکم ومجلس قضاء‘ لانہ خبر لاشہادة للصوم مع علة کغیم وغبار‘ خبر عدل او مستور علی ما صححہ البزازی علی خلاف ظاہر الروایة لافاسق اتفاقا“۔ (۸)
یعنی دعویٰ‘ لفظ اشہد‘ حکم اور مجلس قضاء کے بغیر ایک آدمی کی خبر جو عادل ہو یا مستور الحال‘ صوم رمضان کے لئے قبول کی جائے گی‘ کیونکہ یہ خبر ہے شہادت نہیں‘ یہ اس وقت جبکہ مطلع ابر آلود ہو یا غبار آلود․․․․ ہلال رمضان کی رویت کے بارے میں جاننے کے بعد ہلال عید کی بھی مختلف صورتیں ہیں‘ ان میں دو صورتیں وہی ہیں جو ہلال رمضان میں بتائی گئیں۔ ہلال عید کی رویت کی دو صورتیں ہلال رمضان کی رویت سے مختلف ہیں۔
۱- اگر مطلع صاف ہو تو پھر رویت ہلال عید کے لئے جم غفیر کا دیکھنا ضروری ہے‘ جمع غفیر کی تشریح ماقبل میں گزر چکی ہے۔
۲- اگر مطلع صاف نہ ہو تو پھر دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتیں جو مسلمان ہوں عادل ہوں‘ وہ قاضی کے روبرو شہادت دیں اور قاضی جرح وقدح کے بعد ان کی شہادت کو قبول کرلے تو ہلال عید کی رویت ثابت ہو جائے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہرشہر‘ قصبہ اور ہرفرد کے لئے رویت ہلال ضروری ہے یا کسی ملک وعلاقہ میں ایک جگہ دیکھا جانا وہاں کے تمام باشندوں کے لئے کافی ہے‘ اس سلسلے میں اگر چہ بعض ائمہ احناف سے یہ مروی ہے کہ اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں‘ اگر مشرق میں چاند دیکھا جائے اور اہل مغرب کو شرعی طریقے سے اس کی رویت کا علم ہوجائے تو وہ بھی روزہ رکھیں یا عید منائیں‘ لیکن علماء ومحققین کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اگر دو علاقوں کے درمیان بعد مسافت قلیل ہو تو اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں ہوگا اور اگر بعد فاحش ہو یعنی بہت زیادہ دوری ہو تو پھر اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا۔ اگر ملک کے ایک شہر میں تو چاند دیکھا گیا لیکن فلک کے دوسرے حصوں میں ہلال کی رویت متحقق نہ ہوئی‘ اب وہاں کے لوگوں پر اس رویت کے مطابق روزہ رکھنا یا عید منانا لازم ہوگا یا نہیں؟ اس سلسلے میں فقہاء نے جواب دیا ہے کہ جہاں کے بھی ”طرق موجبہ للعلم الشرعی“ سے رویت کا ثبوت ہوجائے گا وہاں کے لوگوں پر لازم ہوگا کہ وہ اس رویت کے مطابق عمل کریں۔ مطلب یہ کہ ایسے ذرائع جن سے رویت ہلال کا علم شرعی حاصل ہو جاتاہے‘ ان میں سے اگر ایک ذریعہ سے بھی رویت ہلال ثابت ہوجائے تو اس کے مطابق عمل کرنا لازمی ہوجائے گا۔ یہ بات ملحوظ نظر ہو کہ علم شرعی سے یہاں علم یقینی نہیں‘ بلکہ غلبہ ظن مراد ہے۔ علماء نے بطور مثال نہ کہ بطریق حصر تین طرق موجبہ کا ذکر کیا ہے۔
۱- چاند دیکھنے والے اپنی شہادت پر دو آدمیوں کو گواہ بنائیں اور انہیں کہیں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے‘تم ہماری رویت پر لوگوں کے سامنے شہادت دے سکتے ہو کہ فلاں فلاں شخص نے چاند دیکھا ہے۔
۲- قاضی کی قضاء پر دو آدمیوں کا شہادت دینا کہ فلاں علاقے کے قاضی نے رویت ہلال کے بارے میں ہمارے رو برو فیصلہ کیا ہے اور ہم اس کے فیصلے پر شہادت دیتے ہیں۔
۳- استفاضہ خبر‘ جس شہر میں چاند دیکھا گیا ہے‘ وہاں سے لوگوں کی ایک کثیر تعداد دوسرے شہر یا علاقہ میں آکر بتائے کہ فلاں فلاں آدمی نے چاند دیکھا ہے۔
علامہ شامی کی ذیل کی عبارت سے ایک چوتھے طریقہ کا بھی عندیہ ملتاہے کہ: اگر حاکم اسلام نے یہ طریقہ مقرر کر رکھا ہو کہ شعبان کی ۲۹/ تاریخ کو اگر چاند نظر آجائے تو توپیں داغی جائیں یا بلند میناروں پر قندیلیں روشن کی جائیں تو جہاں تک ان توپوں کی آواز پہنچے گی‘ جہاں تک ان قندیلوں کی روشنی نظر آئے گی‘ وہاں تک لوگوں پر روزہ رکھنا فرض ہوگا۔اسی طرح عید الفطر کا حکم ہے‘ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:
”یلزم اہل القری الصوم بسماع المدافع او رؤیة القنادیل من المصر لانہ علاقة ظاہرة تفید غلبة الظن‘ وغلبة الظن حجة موجبة للعمل کما صرحوا بہ واحتمال کون ذلک لغیر رمضان بعید اذ لایفعل مثل ذلک عادة فی لیلة الشک الا لثبوت رمضان“۔ (۹)
یعنی شہر سے قندیلوں کی روشنی دیکھنے یا توپوں کی آواز سننے سے قریہ والوں پر لازم ہے کہ وہ روزہ رکھیں‘ کیونکہ یہ علامت ظاہرہ ہے جو غلبہ ظن کا فائدہ دیتی ہے اور غلبہ ظن حجت موجبہ ہے عمل کے لئے‘ جیسے کہ اس کی تصریح کی گئی اور اس امر کا احتمال کہ یہ توپیں یا قنادیل کی روشنی رمضان کے لئے نہ ہوں‘ بلکہ کسی اور مقصد کے لئے ہوں بعید ہے‘ کیونکہ عادت یہ ہے کہ شک کی رات کو اس طرح کا فعل نہیں کیا جاتا مگر ثبوت رمضان کے لئے یہ فعل کیا جاتاہے۔
فقہاء کرام نے جب توپ کی گونج دار آواز اور قندیلوں کی روشنی کو طرق موجبہ میں شمار کیا ہے جو رویت ہلال کے لئے محض علامت ہے تو ریڈیو وغیرہ کے اعلان کو طرق موجبہ میں شمار نہ کرنا شاید بے انصافی ہوگی‘ کیونکہ رویت ہلال کمیٹی شرعی شہادت کے بعد رویت کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ اعلان کیا جاتاہے کہ کل رمضان ہوگا یا عید ہوگی۔ رہا اعلان رویت تو یہ بھی حضور ا کے ذیل کے ارشاد گرامی سے ثابت ہے:
”عن ابن عباس قال جاء اعرابی الی النبی ا فقال انی رایت الہلال یعنی ہلال رمضان فقال اتشہد ان لا الہ الا اللہ‘ قال نعم! قال اتشہد ان محمد ارسول اللہ‘ قال نعم‘ قال یا بلال! اذن فی الناس ان یصوموا غداً“۔ (۱۰)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عباس سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم ا کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے چاند دیکھا یعنی رمضان کا چاند دیکھا ہے‘ حضور ا نے فرمایا: تو گواہی دیتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی خدا نہیں‘ اس نے جواب دیا ”جی ہاں“ پھر فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد ا اللہ کے رسول ہیں‘ اس نے جواب دیا جی ہاں! حضورا نے فرمایا: اے بلال !لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل روزہ رکھیں“۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ گواہ کا گواہی دیتے وقت قاضی کی عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے‘ تاکہ قاضی اس پر جرح کرکے اس کے عادل یا فاسق‘ صادق یا کاذب ہونے کا فیصلہ کرسکے۔ ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے اگر کوئی شخص شہادت دے گا تو وہ شرعاً معتبر نہیں ہوگی‘ لیکن اگر گواہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوکر گواہی دیتاہے اور قاضی اس پر جرح وقدح کرکے اس کی گواہی کو قبول کرتاہے اور اس کے مطابق شرعی فیصلہ صادر کرتاہے تو اس کے بعد قاضی یا قاضی کے نائب کا ریڈیو وغیرہ کے ذریعے یہ اعلان کرنا کہ شرعی شہادت کے مطابق چاند کی رویت ثابت ہو گئی ہے تو ایسے اعلان کے حجت موجبہ للعلم شرعی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ رویت ہلال کی مذکورہ شرعی بحث کے بعد اس کے پیشین گوئی کی طرف آتے ہیں ۔ یہ بات تو صحیح ہے اور سائنس دان خود بھی اسے تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہر ماہ کی رویت ہلال کی حتمی پیشین گوئی کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے مشاہدات کی رو سے واضح ہوتا ہے کہ رویت ہلال کے لئے بہترین کیفیات میں بھی ۲۰ گھنٹوں سے کم عمر کا چاند نظر نہیں آتا۔۳۰/گھنٹے کی عمر کا چاند عموما دکھائی دے دیتاہے۔ ۲۰ تا ۳۰ گھنٹوں کی عمر کا چاند کبھی نظر آجاتاہے‘ ممکن ہے یہ مشاہدات ان علاقوں کی ترجمانی کرتے ہوں جہاں صنعتی کارخانوں کی بہتات ہو یا وہاں کی عمومی زندگی میں تیل اور پٹرول کے باعث پیدا ہونے والے دھوئیں یا گرد وغبار کی زیادتی کے باعث فضا کا شفاف پن متاثر ہوتا ہو‘ ا سلئے ۲۰ گھنٹے کی اس کم از کم مدت میں کچھ رعایت دی جاسکتی ہے‘ اگر ہم اسے ۱۷ یا ۱۸ گھنٹے کی حد تک پیچھے لے جائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ کسی جگہ پر بھی شام کے وقت اس سے کم عمر کا چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں ہوسکتا۔اسی طرح اگر چاند نظر آجانے والی مدت کو احتیاطا اتنا ہی بڑھاکر ۳۲ یا ۳۳ گھنٹے تک لے جائیں تو رویت ہلال کے امکانات قوی تر ہو جائیں گے‘ درمیانی مدت جو غیر یقینی میعاد کے زمرے میں آتی ہے‘ اس کے چاند دیکھنے کے لئے ماہرین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ وہ ہر ماہ آسمان پر نئے چاند کی موجودگی کے صحیح رخ کی نشاندہی کرسکتے ہیں‘ تاکہ اسے درست سمت تلاش کرنے میں آسانی ہو‘ نئے چاند کی ایک خاص عمر کو حد فاصل قرار دے کر رویت ہلال کے پیشگی تعین کردینے کا عمل بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا موجب بن سکتاہے‘ سب سے پہلے اس بات کا یقین حاصل کرنا ہوگا کہ اس عمر سے زیادہ کا چاند ضروری نظر آجاتا ہے اور اس سے کم عمر کا بالکل نہیں۔اس کے لئے کوئی بھی حد متعین کرنا سائنسی اور شرعی اصولوں کے تحت کسی طور پر درست نہیں ہوسکتا‘ ویسے بھی اس طرح بعض اوقات مضحکہ خیز صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ فرض کریں کہ کسی ماہ حد فاصل سے کم عمر کا چاند ‘جو رویت ہلال کے نہ ہونے کا ایک متعینہ معیار بنا دیا گیا ہے‘ اچھی کیفیات کے باعث خلاف توقع نظر آجائے تو ملک میں کیا کیفیت برپا ہوگی؟ رویت ہلال نہ ہونے کے حتمی پیشگی فیصلہ کے باعث بے فکر عوام سخت الجھن میں پڑجائیں گے‘ آنکھوں دیکھے چاند کو وہ عدم رویت کیسے تصور کریں گے؟ اگر اس عجیب وغریب صورت حال سے بچنے کے لئے حد فاصل کو اس قدر پیچھے کردیا جائے کہ اس سے دو تین گھنٹے زیادہ عمر کا چاند بھی کسی صورت دکھائی نہ دے سکتا ہو تو اس درمیانی عرصہ کے دکھائی نہ دے سکنے والے چاند کو کس شرعی سند کے تحت رویت ہلال قرار دیا جائے گا؟ لہذا چاند کی ایک خاص عمر کو رویت ہلال قرار دینے کا خیال ناممکن العمل ہے۔ (۱۱)
بعض لوگ قمری مہینے کی ۳۰ تاریخ کی شام کو دکھائی دینے والے نئے چاند کی جسامت کو نسبتاً بڑا دیکھ کر یہ قیاس آرائی کرنے لگتے ہیں کہ یہ لازمی طور پر دوسری رات کا چاند ہے۔ یہ سوچ چاند کے فلکیاتی نظام سے لاعلمی پر مبنی ہے نئے چاند کی جسامت کا کوئی خاص پیمانہ نہیں ہوتا‘ اس کا اندازہ اس کی عمر سے کیا جاسکتاہے‘ ماقبل میں بیان کیا جاچکا ہے کہ ماہرین فلکیات کے مشاہدوں کے مطابق ۲۰ گھنٹے تک کی عمر کا چاند عموما دکھائی نہیں دیتا اور ۲۰ سے ۳۰ گھنٹے کے درمیانی عمر کا چاند دکھائی دینے کا انحصار متعدد فلکیاتی کیفیات پر ہوتا ہے‘ اس طرح چاند کے پہلی مرتبہ نظر آنے کی عمر ۵۰ سے بھی زائد گھنٹوں تک ہو سکتی ہے‘ لہذا مختلف عمروں کے چاند مختلف جسامت کے حامل ہوتے ہیں‘ اس کی وضاحتیں درج ذیل مثالوں سے ہوگی۔ اگر ایک قمری مہینے کی ۲۹ تاریخ کی شام کو ایک مقام پر چاند کی عمر ۲۱ گھنٹے ہے اور اس کے دیکھے جانے میں کوئی فلکیاتی کیفیت مزاحم نہیں‘ لہذا رویت ہوگی۔ اگر اس کی عمر ۱۸ گھنٹے ہوتی تو وہ نظر نہ آتا‘ بلکہ اگلی شام کو مزید ۲۴ گھنٹے گزر جانے کے باعث ۴۲ گھنٹے کی عمر ہو جانے پر پہلی مرتبہ دکھائی دیتا‘ اب اندازہ کیجئے کہ نیا چاند اول صورت میں ۲۱ گھنٹے کی عمر میں نظر آگیا‘ جبکہ دوسری صورت میں ۴۲ گھنٹے کی عمر میں دکھائی دیا‘ دونوں چاند پہلی رات کے ہیں‘ لیکن مؤخر الذکر صورت میں اس کی عمر دوگنا ہوجانے کے باعث اسی قدر جسامت کا حامل ہوگا اور اسی حساب سے افق سے کافی بلند ہوگا‘ جسے لوگ غلطی سے دوسری رات کا چاند خیال کریں گے۔ نیا چاند اس سے بھی بڑی جسامت کا ہوسکتاہے جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ ۲۰ سے ۳۰ گھنٹوں کے درمیانی عمر کا چاند دکھائی دینے کا انحصار متعدد فلکیاتی کیفیات پر بھی ہوتا ہے‘ لہذا فرض کیجئے کہ ۲۴ گھنٹے کی عمر کا چاند فلکیاتی کیفیات کے موزوں نہ ہونے کے باعث دکھائی نہ دے سکا‘ جب وہ اگلی شام کو نظر آئے گا تو اس کی عمر میں ۲۴ گھنٹے کا مزید اضافہ ہوکر ۴۸ گھنٹے ہوچکی ہوگی‘ لہذا وہ مذکورہ بالا مثال میں ۴۲ گھنٹے کی عمر میں دکھائی دینے والے چاند سے بھی بڑا ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ ایک صورت میں پہلی رات کا چاند دوسری رات کے چاند سے بھی بڑا ہوسکتاہے۔جیساکہ پہلی مثال میں ۲۱ گھنٹے کی عمر کا چاند نظر آگیا‘ لہذا اگلی شام کو جب یہ دوسری تاریخ میں داخل ہوگیا تو اس کی عمر (۲۱ جمع ۲۴) ۴۵ گھنٹے ہوگی‘ جبکہ مثال دوئم میں پہلی رات کا چاند ۴۸ گھنٹے کی عمر میں دکھائی دیا‘ لہذا ظاہر ہوا کہ پہلی رات کا ۴۸ گھنٹے کی عمر کا چاند دوسری رات کے ۴۵ گھنٹے کی عمر کے چاند سے بھی بڑا ہے۔ (۱۲)
عوام الناس میں یہ تصور عمومی پر پایا جاتاہے کہ چودھویں رات کو چاند پوری شب مکمل دائرے کی صورت میں روشن ہوتا ہے‘ اس تصور کے تحت بعض لوگ چاند کی گولائی کی ظاہری تکمیل سے اس ماہ کی رویت ہلال کی درستگی کا اندازہ کرتے ہیں‘ جبکہ حقیقت میں یہ معیار درست نہیں‘ کیونکہ چاند کی روشن جسامت لمحہ بہ لمحہ مسلسل بڑھتی یا گھٹتی رہتی ہے‘ قمری مہینے کے نصف اول میں بڑھتے رہنے کے عمل کے بعد ایک لمحہ ایسا آتاہے کہ زمین کے مقابل چاند کی پوری جسامت روشن ہوجاتی ہے‘ فلکیات کی اصطلاح میں اسے (Full Moon) یا ماہ کامل کہا جاتاہے اور یہ وقت کرہ ارض پر صبح‘ دوپہر شام اور رات کے ۲۴ گھنٹوں پر پھیلے ہوئے اوقات میں کوئی لمحہ بھی ہوسکتاہے‘ اس کے فوراً بعد اس کی روشن سطح کے گھٹنے کا عمل جاری ہوجاتاہے‘ لہذا معلوم ہوا کہ چاند ساری رات یکساں جسامت کے ساتھ روشن نہیں رہتا‘ محض آنکھوں سے چاند دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کہ یہ پورا چاند ہے‘ بالکل ممکن نہیں اور نہ ہی بظاہر پورا دکھائی دینے والے چاند پر گھنٹوں نظر جماکر بھی یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ تکمیل کے مرحلے میں ہے یا اس کے بعد مسلسل گھٹنے کے عمل میں ہے۔ یہ کام رصد گاہی آلات ہی انجام دے سکتے ہیں جس طرح ماہرین فلکیات اپنے خصوصی فارمولوں سے چاند کی پیدائش کے ماہانہ اوقات کا تعین کرتے ہیں‘ اسی طرح وہ ہر مہینے کے ماہ کامل کے اوقات بھی معلوم کرتے ہیں‘ پس چودھویں رات کے عمومی تصور سے اس ماہ کی رویت ہلال معلوم کرنے کا معیار مقدر کرنا درست نہیں۔
اسلامی ممالک میں مذہبی تہواروں اور عبادات کے انعقاد کے دنوں میں اختلاف کے باعث بعض حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے‘ اس سلسلے میں رابطہ عالم اسلامی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ تمام عالم اسلام میں ایک ہی روز عیدین منانے کے لئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جائے‘ اس سلسلے میں جس فارمولے پر اتفاق ہوا‘ اس کے مطابق مکہ معظمہ کو مرکزی حیثیت دی جائے گی اور اس شہر میں چاند دیکھنے کو بنیاد بنایا جائے گا‘ یہ تجویز بظاہر نہایت دلکش معلوم ہوتی ہے مگر اس مقصد کے لئے شرعی قیود کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔
سوال یہ ہے کہ اس کے لئے کونسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے؟ جہاں تک رویت ہلال کے پیشگی تعین کا معاملہ ہے‘ اس بارے میں ماہرین کے دلائل کی روشنی میں یہ بحث کی جاچکی ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں‘ اس کے لئے واقعاتی شہادت کا بندو بست کرنا پڑے گا‘ اگرچہ سٹیلائٹ کی ایجاد سے دنیا کے دور دراز ممالک کے فاصلے سمٹ گئے ہیں‘ مگر یہ تجویز کہ جس ملک میں چاند پہلے نظر آجائے‘ وہاں کی شہادت کی بنیاد پر کسی عالمی رویت ہلال کمیٹی کے اختیارات کے تحت تمام اسلامی ممالک میں ایک ہی روز آغاز ماہ کا اعلان کردیا جائے ‘ قطع نظر اس کے کہ اختلاف مطالع کے سبب ایک ملک کی رویت دوسرے ممالک کے لئے حجت ہے یا نہیں‘ ناقابلِ عمل ہے۔ کرہ ارض کے مغربی حصوں میں رویت ہلال کے امکانات مشرقی حصوں کی نسبت عموماً زیادہ ہوتے ہیں‘ کیونکہ مشرقی ممالک میں اگر نیا چاند کم عمر ہونے کے باعث دکھائی نہ دے سکے تو مغربی ممالک میں پہنچنے تک اس کی عمر بڑھ جاتی ہے اور وہاں نظر آجاتا ہے۔ جس خطے میں رویت ہلال ہوجائے یہ اس سے مغرب میں واقع ممالک کے لئے تو سند ہوسکتی ہے‘ مگر اس فیصلے کو انتہائی مشرقی ممالک میں نافذ کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ وہاں رات کا کافی حصہ گزر چکا ہوگا یا ممکن ہے کہ اس سے بڑھ کر صبح ہوچکی ہو‘ وسطی حصوں میں بھی نصف شب یا اس کے بعد تک بے یقینی کے باعث عوام پریشانی سے دو چار رہا کریں گے‘ کیونکہ رویت ہلال کا تعلق بعض اوقات مغرب کے کچھ دیر بعد عبادات کی ادائیگی سے بھی ہوتاہے اور اگلے روز مثلاً عید کی تیاری کے لئے بھی۔ مشرقی ممالک کے لوگوں کے لئے رویت ہلال کے انتظار میں شب بیداری ایک مسئلہ بن جائے گی۔ مراکش اور انڈونیشیا کے ملکوں میں معیاری وقت کا انتہائی فرق ۹/گھنٹے ہے‘ اس حالت میں مراکش کی رویت پر انڈونیشیا میں کیسے عمل درآمد ہوسکتاہے اور اس صورت میں وہاں کے عوام کی کیا کیفیت ہوگی؟ سعودی عرب کو مرکز ماننے سے بھی یہی مسئلہ رہے گا‘ صرف یہ فرق کم ہو کر ۶/گھنٹے تک آجائے گا جس سے مذکورہ کیفیت میں کوئی خاص کمی نہیں ہوگی۔ مزید یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سعودی عرب سے مغرب میں واقع ممالک میں چاند پہلے ہوجائے تو پھر مکہ معظمہ کی مرکزی حیثیت کیسے برقرار رہے گی؟ (۱۳)
مراجع ومصادر
۱- خالد اعجاز مفتی‘ رویت ہلال مسئلہ اور حل‘ دار الکتب غزنی سٹریٹ لاہور‘ ۲۰۰۶ء ص:۳۵۔
۲- سورہ یونس :۵۔ ۳- سورہ بقرہ:۱۸۹
۴- ابو الحسین مسلم ابن حجاج ‘ صحیح مسلم‘ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‘ ج:۱‘ ص:۳۴۷ کتاب الصیام
۵- شیخ ولی الدین محمد بن عبد اللہ الخطیب‘ مشکوٰة المصابیح‘ نور محمد اصح المطابع دہلی‘ ۱۹۳۲ء‘ ص:۱۷۴
۶- شیخ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی‘ درمختار‘ مکتبہ حقانیہ محلہ جنگی پشاور‘ ج:۳‘ ص:۴۱۰
۷- علامہ سید احمد طحطاوی الحنفی‘ طحطاوی علی الدر مختار‘ مکتبہ عربیہ کاسی روڈ کوئٹہ ‘ ج:۱‘ ص:۴۴۷
۸- درمختار‘ ج:۳‘ ص:۴۰۶‘ بحوالہ بالا ۹- محمد امین بن عمر بن عبد العزیز‘ حاشیہ ابن عابدین‘ مکتبہ حقانیہ پشاور‘ ج:۳‘ ۴۰۸
۱۰- مشکوٰة المصابیح ص:۱۷۴ بحوالہ بالا ۱۱- خالد اعجاز مفتی‘ ص:۴۸ بحوالہ بالا
۱۲- ایضا‘ ص:۶۳ ۱۳- ایضا‘ ص:۵۰
اشاعت ۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, صفر المظفر۱۴۲۸ھ مارچ ۲۰۰۷ء, جلد 70, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: اسلامی قانون سازی میں ا حوال واقعی کی رعایت 
Flag Counter