Deobandi Books

ماہنامہ الابرار ستمبر 2009

ہ رسالہ

9 - 13
اصلاحی خطوط اور ان کے جوابات
ایف جے،وائی(September 13, 2009)

عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

حال: سلام مسنون کے بعد عرض یہ ہے کہ بندہ غریب کے دل میں چند الشکالات ہیں۔ آپ سے قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے رحم فرمائیں گے۔ آپ کی تھوڑی سی توجہ پر ایک بندے کا ایمان بچ سکتا ہے وہ اشکالات یہ ہیں :

جب میں نے لاحول ولاقوة الا باﷲ کے تقدیری معنی دیکھے تو میرے دل میںاشکال پیدا ہوا کہ جب برائی سے روکنے کی توفیق اﷲ دیتا ہے اور نیک عمل کرنے کی توفیق بھی اﷲ دیتا ہے تو اس میں میں انسان کا کوئی بس نہیں۔ تو پھر برائی کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ جہنم میں کیوں ڈالتا ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ ہی نے روکنے کی توفیق نہ دی اور نیک عمل کرنے والے کی کیا حیثیت ہے کیونکہ اگر اﷲ تعالیٰ توفیق نہ دیتے تو وہ بھی برائی کرتے۔

کافر کو بھی اﷲ نے پیدا کیا ہے اور مسلمان کو بھی۔ اگر اﷲ تعالیٰ چاہتے تو کافر کو مسلمان بناسکتے اور مسلمان کو کافر۔ کوئی اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا ہے۔ اگر کسی کو عقل دی ہے تو بھی اﷲ تعالیٰ نے اگر کسی کو کم عقل بنایا ہے تو اﷲ تعالیٰ نے اور آپ کہتے ہیں کہ انسان کو اختیار دیا ہے کیا انسان اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کر سکتا ہے؟ نہیں۔ تو پھر کافر یا گناہ گار جہنم کے حقدار کیسے ہوسکتے ہیں اگر کوئی یہ کہے کہ جہنم ہے لیکن اﷲ تعالیٰ عذاب نہیں دیتا کیونکہ سب اﷲ تعالیٰ کے بندے ہیںتو اس کا عقیدہ کیسا ہے؟ کیا یہ کافر ہے؟ اور اس کو کیسے سمجھایا جائے، جبکہ وہ بالا باتیں کرتا ہو۔

جواب: عزیزم! بہت سے امور تعبدی ہیں یعنی وہ بندگی کا امتحان ہیں کہ بندہ عقل کی بندگی کرتا ہے یااﷲ کی۔ کیونکہ وہ امور عقل کے دائرہ میں نہیں آسکتے وہاں صرف وحی پر ایمان لانا ضروری ہے، ان امور میں مسئلہ تقدیر بھی ہے۔ ایک بار صحابہ کرام مسئلہ تقدیر پر غوروحوض کر رہے تھے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ اسی وجہ سے بہت سی پچھلی امتوں پر عذاب آگیا بس تقدیر پر ایمان لاﺅ۔ اور اﷲ ظالم نہیں کہ کسی کو عمل کا اختیار نہ ہو اور اس کو دوزخ میں ڈال دے اس لیے اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ انسان نہ قادر مطلق ہے نہ مجبور محض ہے یعنی نہ ایسی قدرت دی ہوئی ہے کہ ہر کام کرسکے اور نہ ایسا مجبور ہے جیسے مٹی کا ڈھیلہ مثلاً نہ ایسا قادر ہے کہ خود کو انسان سے جن یا جانور وغیرہ بنادے اور نہ بالکل مجبور ہے کہ کچھ کر ہی نہ سکے بس عمل کا اختیار ہے کہ خیر بھی کرسکتا ہے اور شر بھی اور اسی اختیار پر قیامت کو جزا اور سزا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ انسان قادر ہے یا مجبور؟ فرمایا کہ اپنی ایک ٹانگ زمین سے اٹھا اس نے اٹھالی تو فرمایا کہ اسی کے ساتھ دوسری بھی اٹھالے۔ عرض کیا کہ نہیں اٹھا سکتا فرمایا کہ بس سمجھ لے کہ انسان اتنا قادر اور اتنا مجبور ہے یعنی نہ قادر مطلق ہے نہ مجبور محض ہے۔

اﷲ نے کسی کو کافر پیدا نہیں کیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ ہر انسان دینِ فطرت پر پیدا کیا گیا ہے لیکن اس کے ماں باپ فطرت کے خلاف اس کو کافر بنادیتے ہیں یعنی اپنے اختیار سے کافر ہوتا ہے ورنہ فطرتاً وہ مسلمان پیدا کیا جاتا ہے۔ اور مسلمان کے گھر میں پیدا کیا جانا یا نیکی کرنا اور بدی سے بچنے کی توفیق یہ فضل ہے اور فضل عدل کے خلاف نہیں ہوتا مثلاً آپ نے دو مزدور رکھے اور طے کیا کہ دونوں کو پانچ پانچ سو مزدوری دی جائے گی اور شام کو دونوں مزدوروں کو پانچ پانچ سو ادا کردیئے لیکن ایک مزدور سے آپ زیادہ خوش ہوگئے اور آپ نے اس کو ایک سٹیزن کی گھڑی بھی دے دی کہ یہ انعام ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ انعام عدل کے خلاف ہے۔ یہ فضل ہے، مہربانی ہے جو عدل و انصاف کے خلاف نہیں۔ عدل کے خلاف یہ ہوتا کہ پانچ سو کی جو مزدوری طے تھی آپ وہ کسی مزدور کو نہ دیتے۔ اسی طرح اﷲ نے ہر انسان کو اتنی عقل دے کر پیدا کیا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد وہ زمین و آسمان چاند اور سورج اور دیگر نشانیوں کو دیکھ کر اﷲ کے وجود پر ایمان لے آئے۔ بالغ ہوتے ہی ہر انسان کی عقل اس مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اﷲ کو پہچان سکے اﷲ کے وجود پر ایمان لاسکے چنانچہ کافر کے گھر پیدا ہونے والا بچہ اگر بالغ ہونے سے پہلے مرگیا تو وہ جہنم میں نہیں ڈالا جائے گا کیونکہ ابھی اس کی عقل اس قابل نہیں ہوئی تھی کہ اﷲ کو پہچان سکے لہٰذا کافر کے گھر میں پیدا ہونا عدل ہے اور مسلمان کے گھر پیدا ہونا فضل ہے اور فضل عدل کے خلاف نہیں بس یہ کافی وافی جواب ہے اب مزید عقلی گھوڑے نہ ڈوڑانا یہ ایمانیات کا معاملہ ہے تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے اور اﷲ تعالیٰ ظالم نہیں ہیں کہ کسی کو برائی پر مجبور کریں برائی آدمی اپنے اختیار اور نفس کے شر سے کرتا ہے اور اچھائی بھی اپنے اختیار سے کرتا ہے لیکن اس میں توفیق کی مدد شامل ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تقدیر پر غورو فکر کو منع فرمایا گیا ہے۔ اگر سلامتی چاہتے ہو تو اس معاملہ پر غوروفکر نہ کرو ہماری عقل محدود ہے اور محدود میں ایک حد تک ہی بات آسکتی ہے۔ بس ایمان لاﺅ۔ اور یہ بھی سمجھ لیں کہ توفیق کے معنی مدد کے ہیں جیسے کوئی اندھے کی لاٹھی پکڑ کے پہنچادے۔ اﷲ کی توفیق نہایت اہم ہے جو کبھی بدون مانگے اور کبھی مانگنے سے عطا ہوجاتی ہے۔ چونکہ کافر نے توفیق بھی نہیں مانگی اس لیے محرومی کا مجرم وہ خود ہے۔

……………………….

حال: سلام کے بعد عرض یہ ہے کہ میں نے آپ سے عمرہ کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ حج اگر فرض ہے تو کرنا ضروری ہے ورنہ نہیں تو حج تو مجھ پر فرض نہیں ہے میرا ۰۴ یوم آپ کی خدمت میں حاضری کا اصلاح کی نیت سے ارادہ ہے۔ مسجد میں جہاں دو سال پہلے تراویح پڑھائی تھی وہاں انہوں نے دوماہ پہلے کہا تھا کہ ۵۱یوم تراویح پڑھائیے گا میرا آپ کے پاس وقت کے لیے ارادہ ہے جب آپ فرمائیں تراویح کے بعد آجاﺅں یا عید کے بعد اجازت دیں جب آپ کی اجازت ہوگی میں ہر وقت تیار ہوں۔

جواب: اچھا ارادہ ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے چھ ماہ تک پابندی سے اصلاحی مکاتبت کریں۔ ابتداءمیں خانقاہ میں قیام مفید نہیں پہلے محبت و مناسبت پیدا کریں پھر آنا مفید ہوتا ہے۔

حال: تراویح میں آپ نے فرمایا ہے کہ اجرت نہ لیں میں اجرت کے بارے میں نہ کسی سے بات کرتا ہوں پہلے سے نہ میرا ارادہ ہوتا اہے لیکن اگر کوئی دے دیتا ہے تو پھر وہ جتنے بھی پیسے ہوتے ہیں جیسا کہ پچھلے سال ۰۰۵۲ روپے ملے تھے وہ اس مسجد کے امام صاحب اور تین محلہ کے آدمیوں کے سامنے مسجد کے کمرہ میں امام صاحب کو دیئے تاکہ اس محلے میں ایک شخص جو غریب تھا اس کو دے دیں اگر آپ فرمائیں کہ اس طرح ٹھیک ہے تو اس سال بھی اس طرح کروں ورنہ بالکل نہ لوں جیسا آپ فرمائیں گے اسی طرح کروں گاانشاءاﷲ۔

جواب: یہ بھی ٹھیک نہیں، یہ بھی اجرت ہے بالکل نہ لیں صاف انکار کردیں۔

……………………….

حال: بعد از سلام عرض ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی صحبت کی برکت سے بہت کچھ نوازا ہے ہر وقت خوش و خرم آرام و اطمینان والی زندگی نصیب ہوئی ہے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات پر یقین بڑھتا جارہا ہے پہلے میں عبادت کا بہت اہتمام کرتا تھا لیکن اب دل کی نگرانی کا زیادہ اہتمام کرتا ہوں حضرت نے بہشتی زیور میں لکھا ہے (حصہ ساتواں) کہ زیادہ کھانے سے دل غافل ہوتا جاتا ہے لیکن جب کوئی اچھا کھانا ہوتا ہے تو خوب کھاتا ہوں ورنہ عام معمول برابر اور مناسب کھانا کھاتا ہوں کیا یہ کبھی کبھار زیادہ کھانا مضر ہے یا نہیں علاج تجویز فرمائیں۔

جواب: زیادہ کھانے سے مراد یہ ہے کہ ایک دو لقمہ کی جگہ بھی معدہ میں نہ چھوڑنا۔ حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں قلت طعام اور قلت منام یہ دو مجاہدے ختم ہوگئے ہیں کیونکہ بوجہ ضعف اب لوگوں کی صحت اس کی متحمل نہیں لہٰذا خوب کھاﺅ بس ایک دو لقمے کی جگہ معدہ میں چھوڑ دو۔ البتہ ہر وقت عمدہ کھانے کی فکر میں نہ رہو۔

حال: اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ زیادہ کلام نہیں کرتا مگر جب دوچار آدمیوں میں بیٹھتا ہوں تو پھر زیادہ بولتا ہوں اگر یہ مضر ہو تو علاج تجویز فرمائیں۔

جواب: گناہ کی بات بالکل نہ بولو مباح بات اعتدال سے اور دین کی بات خوب کریں۔

……………………….

حال: حضرت سب سے اہم بات آپ سے عرض کرنی تھی وہ یہ کہ الحمدﷲ میں حافظ قرآن ہوں اور بعد حفظِ قرآن کے میری ہی نیت تھی کہ میں قرآن شریف پڑھاﺅں گی اﷲ کی رضا کے لیے اور یہ میرے لیے بعد میں صدقہ جاریہ ہوگا اور نجات کا سبب ہوگا تو اسی لیے حضرت میں نے گھر میں مدرسہ کھولا حفظ و ناظرہ کا اور الحمدﷲ بہت سی بچیاں اور عورتیں اور کم عمر بچے آتے ہیں ساتھ ساتھ تعلیم بھی کرتی ہوں جس سے الحمدﷲ مجھ کو بہت ہی زیادہ فائدہ ہوتا ہے تو اس میں میں یہ ہدیہ فی بچہ سو روپے لیتی ہوں صرف اس وجہ سے کہ میں بھی پابند رہوں اور بچے بھی پابند رہیں کیونکہ پیسے نہ لینے سے کوئی آرہا ہے کوئی نہیں آرہا ہے یعنی چھٹیاں بہت کرتے تھے بچے اور بچیاں غیر شرعی لباس میں آرہی ہیں ماں باپ کا جب دل چاہ رہا ہے بھیج رہے ہیں اور کچھ بڑوں کے مشورے بھی شامل تھے اور خود جب میں مدرسہ میں شعبہ حفظ میں پڑھاتی تھی تو وہاں فی بچہ چاہے وہ ناظرہ کا ہو ۵۲۳ روپے فیس تھی اور وہاں کئی ایسے مستحق تھے جو کہ نہ دے سکتے تھے تو ان کا کھانا پینا لباس سب مدرسے والے ماشاءاﷲ کرتے تھے تو حضرت یہ سب باتیں ہیں جواز کی لیکن مجھ کو ڈر لگتا ہے کہ میرا پیسے لے کر پڑھانا دنیا کے لیے نہ ہوجائے۔کیونکہ جو بچے پیسے دیتے ہیں اس سے میں اپنی اور اپنے بچوں کی کچھ ضرورتیں بھی پوری کرتی ہوں۔

جواب: جواز میں تو کوئی کلام نہیں لیکن اگر ضرورت نہیں اور بغیر اس کے بھی کام چل سکتا ہے اور فیس لینا مصلحتاً ضروری ہے تو اپنے اور اپنے بچوں پر صرف نہ کریں بلکہ صدقہ کردیں کہ اس میں اخلاص زیادہ ہے البتہ ضرورت ہو تو مضائقہ نہیں۔

حال: اگرچہ حضرت اخلاص بہت ہوتا ہے پڑھانے میں وہ اس طرح کہ میرے ہاں کام کرنے والی ماسی ہے وہ پیسے نہیںدیتی تو اس کو میں وہی وقت اتنا ہی توجہ دیتی ہوں جو اوروں کو دیتی ہوں بلکہ اس کے ساتھ محنت بہت ہے کہ اسکی زبان بنگلہ ہے تجوید و تلفظ صحیح نہیں ادا کرپاتی۔

جواب: اپنے اخلاص پر ایسا اعتماد جائز نہیں۔ اہل اخلاص کی علامت یہ ہے کہ عمل کرکے وہ ڈرتے رہتے ہیں کہ معلوم نہیں قبول ہے یا نہیں لہٰذا عمل کرکے اپنے اخلاص پر بھروسہ نہ کرو اﷲ کی رحمت سے فریاد کرو کہ میرا یہ عمل قبولیت کے قابل نہیں اپنے کرم سے قبول معاف فرمالیجئے اور کہو ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔

……………………….

حال: حضرت والا پتا نہیں اس طرح کہنا مناسب ہے یا نہیں مگر حضرت اقدس مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا اﷲ تعالیٰ سے تعلق کمزور ہوگیا ہے۔

جواب: ہرگز کمزور نہیں ہوا۔ اپنی رائے کے بجائے شیخ کی رائے پر اعتماد کریں یہ راستہ خود رائی کا نہیں ہے۔

حال: حضرت اقدس میرا دل چاہتا ہے کہ میرا اﷲ میاں سے بہت بہت قوی تعلق ہوجائے۔ مجھے ان سے بہت محبت ہوجائے کہ شمار ممکن نہ ہو۔ حضرت مجھے لگتا ہے جیسے یہ صرف میری خواہش ہے میں شاید اس کے حصول کے لیے کوشش نہیں کرتی۔

جواب: یہ خواہش بذات خود مبارک ہے، علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں

محبت تو اے دل بڑی چیز ہے

یہ کیا کم ہے جو اس کی حسرت ملے

اﷲ تعالیٰ نیک آرزو کو پورا کرتے ہیں۔

حال: حضرت والا آپ نے میری استانی کے لیے فرمایا تھا کہ اہل تشیع سے تعلق بالکل ختم کرلو۔ حضرت والا میں نے مکمل ارادہ کرلیا تھا کہ کوئی تعلق، کوئی فون ان کو نہیں کروں گی۔ مگر حضرت والا ان کا خود فون آگیا۔ حضرت والا جانے میری ساری ہمت کہاں چلی گئی تھی کہ میں نہیں منع کرسکی کہ میں نے بات نہیں کرنی۔

جواب: دل سے محبت اور دوستی نہ رکھو، بات کرنا منع نہیں ہے، فون آجائے تو جواب دینے میں مضائقہ نہیں۔

حال: حضرت والا اب اس سلسلے میں چند اشکال ہیں، حضرت ان کا حل سمجھ نہیں آرہا۔

(۱) حضرت والا شاید میں اپنے اندر اس بات کی ہمت نہیں پاتی کہ میں ان کو کہہ سکوں کہ میں آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی۔

جواب: یہ کہنے کی ضرورت نہیں، دین بداخلاقی نہیں سکھاتا بس دل سے محبت نہ رکھو نہ دوستوں کا سا میل جول رکھو۔

حال: (۲) دوسرا مسئلہ حضرت والا یہ ہے کہ میرے پاس ان کی تحریر شدہ نظمیں بہت تعداد میں ہیں حضرت والا ان کا کیا کروں؟ واپس کروں یا جلادوں۔

جواب: جلادیں، اہل باطل کے الفاظ میں بھی گمراہی کے اثرات ہوتے ہیں۔

حال: (۳) حضرت والا اگر کبھی اسکول جانا ہوا تو پھر کیا رویہ رکھوں؟

جواب: شریعت کا اصول یاد رکھیں معاملات جائز موالات حرام یعنی ان سے دنیاوی امور مثلاً تجارتی لین دین کئے جاسکتے ہیں لیکن دل سے محبت کا تعلق رکھنا، دوستی رکھنا جائز نہیں۔

……………………….

حال: عرض یہ ہے کہ بندہ بہت پریشان ہے کہ جب میں شروع شروع میں بیعت ہوا تھا تو آپ کی محبت بہت زیادہ تھی اور اکثر میں پندرہ دن یا ہفتہ بعد آپ کی مجلس میں آتا اور آپ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا اور محبت سے دیکھتا رہتا مگر کچھ دن ہوئے کہ بندہ اپنے استاذ محترم حضرت مولانا ……..سے ملنے گیا وہاں جاکر میں نے حضرت سے ملاقات کی تو عجیب حالت ہوئی اس وقت تو دل میں یہ خیال تھا کہ میں اپنے شیخ کہ علاوہ کسی اور سے تعلق نہیں رکھ سکتا مگر جب کراچی پہنچا تو روز بروز حضرت کا خیال بڑھ رہا ہے حالانکہ میں بیعت سے پہلے استخارہ کرچکا ہوں اور اس میں بھی ہمارے پیارے شیخ صاحب مجھے نظر آتے ہیں کہ میں ان کے سامنے کھڑا ہوں اور حضرت میری جانب تشریف لاتے ہیں مجھے اپنے شعر سناتے ہوئے مجھے گلے لگاتے ہیں میرے ماتھے کو چومتے ہیں پھر میں حضرت کو دس روپے دیتا ہوں حضرت سات قبول فرمالیتے ہیں اور تین مجھے واپس دے دیتے ہیں اس مبارک خواب کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں کہاں جاﺅں کس سے کہوں کہ مجھے فیض ربانی کہاں سے ملے گا چونکہ میں بیعت سے پہلے سلسلہ قادریہ کے اوارد ووظائف پڑھتا تھا اس کی وجہ سے شاید میرے دل میں ان کی محبت بڑھ گئی لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مرشدی و مولائی بھی تو سلسلہ قادریہ میں بیعت فرماتے ہیں۔اور پھر تو حضرت سے زیادہ محبت ہونی چاہیے تھی مگر سمجھ نہیں آتا کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے یا دل کا اضطراب حضرت جی اس کا کچھ علاج لکھ دیجئے۔

جواب: یہ محبت کی خامی ہے اس لیے بزرگان دین نے فرمایا کہ ایک دروازہ پکڑو اور مضبوطی سے پکڑو یہ راستہ ہرجائی پن کا نہیں ہے کہ آج اس کے پاس کل اس کے پاس۔ استخارہ کرلیں جہاں دل گواہی دے اور جہاں مناسبت زیادہ ہو اس سے ہی تعلق کریں اور پھر اسی کے ہو کے رہ جائیں۔

……………………….

حال: بندہ حضرت والا سے بیعت ہونا چاہتا ے کیا اصلاح بیعت پر موقوف ہے اور اصلاح سے کیا مراد ہے۔

جواب: بیعت کا مقصد نفس کی اصلاح ہے لیکن اصلاح بیعت پر موقوف نہیں، بغیر بیعت کے بھی اصلاح ہوسکتی ہے۔ اصلاح فرض ہے اور بیعت سنت ہے البتہ بیعت برکت کی چیز ضرور ہے۔ اصلاح کے لیے اصلاحی مکاتبت کی جاتی ہے اور اصلاح کا حاصل یہ ہے کہ اخلاق رذیلہ جاتے رہیں اخلاق حمیدہ پیدا ہوجائیں اﷲ سے غفلت جاتی رہے اور اﷲ کی طرف توجہ پیدا ہوجائے یعنی ہر سانس یہ خیال رہے کہ کوئی بات اور عمل اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہ ہو، جس روحانی مرض میں ابتلا ہو اس کا علاج معلوم کرکے عمل کریں اور اطلاع حال کرتے رہیں۔

……………………….

حال: حضرت اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی دے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے اور آپ کے ساتھ ہم گناہ گاروں کا تعلق اور زیادہ ہو۔ حضرت ایک دفعہ آپ کے بیان میں سن رہا تھا کہ ایک چڑیا ہوتی ہے جو اپنے انڈوں کو چھوڑ کر جاتی ہے اور اپنی سوچ کی توجہ سے اپنے انڈوں کو سیتی ہے۔ حضرت میں بھی آپ کی توجہ کا طلبگار ہوں۔ حضرت میرے اور میرے گھروالوں پر اپنی توجہ ڈالیں امید کرتا ہوں اﷲ پاک ہم پر رحم فرمائیں گے۔ (آمین)

جواب: توجہ کرنا مسنون نہیں ہے دعا کرتا ہوں جو مسنون ہے اور ایک سنت ہزار توجہ سے افضل ہے۔

حال: حضرت میری عمر ۵۲سال ہے لیکن ابھی تک میرے اندر یکسوئی نہیں آئی ہے۔

جواب: یکسوئی مطلوب نہیں عمل مطلوب ہے عمل کئے جائیے یکسوئی ہو یا نہ ہو۔
Flag Counter