Deobandi Books

ماہنامہ الابرار ستمبر 2009

ہ رسالہ

10 - 13
سوانح حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(September 13, 2009)

مرتبہ : سید عشرت جمیل میر

(گذشتہ سے پیوستہ)

تو میں عرض کررہا تھا کہ ہمارے بزرگوں کو مریدوں کی حاجت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حالات سنا سنا کر لوگوں کو مرید کریں لہٰذا شیخ کے حالات سنانے کا مقصد یہ ہے کہ جب شیخ کی عظمت دل میںآئے گی تو نفع بڑھے گا ۔ میں نے تو کئی دفعہ چاہا کہ حضرت والا کے کچھ حالات لکھ دیئے جائیں تاکہ لوگ زندگی میں حضرت والا سے نفع اُٹھالیں مگر حضرت والا مصلحت سے اجازت نہیں عطا فرماتے کہ میری تقاریر و مواعظ و بیانات جو ہےں بس سمجھو لو کہ یہی میری سوانح ہے۔ لوگ بعد میں تو بہت تعریف کرتے ہیں کہ ماشاءاﷲ بہت اونچے درجہ کے بزرگ تھے مگر اُس وقت استفادہ کا موقع نکل جاتا ہے۔ آپ دعا فرما دیجئے کہ جو نافع ہو میرے لیے بھی اور اُمت کے لیے بھی میں وہ لکھ سکوں ۔

حضرت مفتی شفیع صاحب کا جب انتقال ہوا تو حضرت بھی تشریف لے گئے تھے، حضرت نے فرمایا کہ جنازے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، پورا دارالعلوم بھرا ہوا تھا، لاکھوں کا مجمع تھا تو ایک دل جلے نے کہا کہ آہ! جس وقت مفتی اعظم زندہ تھے تو پندرہ بیس آدمی ہوتے تھے اور آج لاکھوں لوگ جمع ہیں، اگر یہ لوگ مفتی صاحب کی زندگی میں آتے تو کیا کچھ پاجاتے۔ اس لیے زندگی میں قدر کرنے کی اﷲ سب کو توفیق دے۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ شیخ کی جیسی قدر کرنی چاہیے تھی مجھ سے ویسی قدر نہ ہوسکی، اﷲ تعالیٰ میرے اس جرمِ عظیم کو معاف فرمادیں، دنیا بھر میں تو یہ مشہور ہور ہا ہے کہ میر صاحب حضرت کے بڑے عاشق ہیں لیکن حقیقت یہ ہے اور میں آپ سے یہ بات بالکل سچ کہہ رہا ہوںکہ حضرت کی محبت کا، عظمت کا اور خدمت کا حق مجھ سے ادا نہیں ہوسکا۔ اﷲ تعالیٰ مجھے معاف فرمادیں اور آئندہ صحیح معنوں میں حضرت کی قدر کی توفیق عطا فرمائیں۔

حضرت والا کے حالا ت دیکھتا ہوں کہ کیسے اپنے شیخ پر فد اہوئے یہاں تک کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب جو بڑے متبع سنت ہیں، کسی کی تعریف میں کبھی مبالغہ نہیں کرتے، اتنا ہی کہتے ہیں جتنا سمجھتے ہیں تو حضرت نے اپنے بھائی سے فرمایا اور انہوں نے حضرت والا سے نقل کیا کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے یوں فرمایا کہ ہم نے جو کتابوں میں پڑھا تھا کہ سات آٹھ سو برس پہلے لوگ کس طرح شیخ پر فدا ہوتے تھے لیکن اس کی کوئی نظیر آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی لیکن ہم نے جس طرح ان کو یعنی حضرت والا کو اپنے شیخ پر فدا ہوتے دیکھا ہے اس سے پتہ چلا کہ پہلے لوگ کس طرح شیخ پر فدا ہوتے تھے۔ یہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کی تعریف ہے، سمجھ لو کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کی تعریف پوری کتاب ہے، کسی کی تعریف میں حضرت کے بہت ہی نپے تلے الفاظ ہوتے ہیں۔

حضرت پھولپوری اپنا سب مال جو کچھ ہدیہ وغیرہ آتا تھا وہ حضرت والا کے پاس رکھتے تھے تو ایک حاسد نے حضرت پھولپوری رحمة اﷲ علیہ سے حضرت والا کی شکایت کی کہ حضرت یہ تو ابھی نئے آئے ہیں اور ان کی عمر بھی اٹھارہ سال ہے آپ ان کو اتنی بڑی بڑی رقم دے دیتے ہیں تو حضرت شیخ پھولپوری ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ تم کس کی بات کررہے ہو؟ وہ صاحبِ نسبت ہیں، ان کے لیے ایک پیسہ اور ایک کروڑ روپیہ برابر ہے۔ جاﺅ توبہ کرو ورنہ سوءخاتمہ کا اندیشہ ہے۔ دیکھو یہ ہوتی ہے شیخ کی نظر! حضرت پھولپوری نے تو اس وقت حضرت کی غربت کی حالت دیکھی تھی جس وقت کہ حضرت شیخ کی خدمت کررہے تھے، سرمیں تیل ڈال رہے تھے اور چولہا جھونک رہے تھے، حضرت والا نے اپنے شیخ کی خدمت میں اپنے کو اتنا مٹایا ہوا تھا کہ لوگ حضرت والا کو عالم بھی نہیں سمجھتے تھے، حضرت بنوری رحمة اﷲ علیہ نے فرمایا کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ حضرت کے عام سے خادم ہیں، میں تو ان کو عالم بھی نہیں سمجھتا تھا مگر جب حضرت والا نے معارفِ مثنوی لکھی تو حضرت مولانا یوسف بنوری رحمة اﷲ علیہ نے فرمایا کہ معارفِ مثنوی دیکھ کر مجھ کو ان سے اس قدر عقیدت ہوئی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک عالم نے فرمایا کہ معارفِ مثنوی میں جتنی تقاریظ ہیں سب سے بہتر تقریظ حضرت بنوری رحمة اﷲ علیہ کی ہے۔ اور ایک بار حضرت والا کا فارسی کلام دیکھ کر فرمایا لافرق بینک وبین مولانا روم یعنی آپ کے اور مولانا رومی کے کلام میں کوئی فرق نہیں۔

تو حضرت شیخ پھولپوری نے حضرت والا کے لیے فرمایا کہ ایک کروڑ روپیہ اور ایک پیسہ ان کی نظر میں برابر ہے۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے حضرت کو دیکھ رہے ہیں کہ ایک کروڑ روپیہ حضرت کی نظر میں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے، نہ یہاں کوئی چندہ ہوتا ہے اور نہ کوئی ہدیہ لیا جاتا ہے اور وہاں بھی دیکھتا ہوں کہ مدرسہ میں کیامعاملہ ہوتا ہے، حالانکہ مہتمم کو اجازت ہے کہ وہ مدرسہ کی عمارت میں رہ بھی سکتا ہے، وہاں سے تنخواہ بھی لے سکتا ہے، مولانا مظہر صاحب حضرت کے بیٹے خدمت کر ہی رہے ہیں، ان کو بھی تنخواہ مل سکتی ہے کیونکہ جائز ہے لیکن نہ مولانا تنخواہ لیتے ہیں نہ حضرت والا لیتے ہیں بلکہ مدرسہ کا جو خرچہ ہوتا ہے مثلاً بجلی وغیرہ کا بل وہ سب اپنے پاس سے مدرسے میں جمع کرتے ہیں۔

حضرت والا نے مجھ سے فرمایا تھا کہ مدرسہ میں پانچ سو روپیہ جمع کر دیا کرو۔ حضرت والا جو ٹیلفون وغیرہ استعمال کرتے ہیں اس کا جتنا بل آتا ہے اس سے کہیں زیادہ مدرسہ کو دے دیتے ہیں اور حضرت والا مولانا مظہرصاحب کو بھی منع فرماتے ہیں کہ مدرسے کی گاڑی اپنے ذاتی استعمال میں نہ لاو، مدرسے کا کوئی مہمان آئے تو اسے لے جاو لیکن ذاتی استعمال میں نہ لاوحالانکہ یہ جائز ہے، مفتی تقی عثمانی صاحب نے جائز کا فتویٰ دیا ہے۔

ایک دفعہ کوئی گاڑی نہیں تھی تو مدرسے کی گاڑی میں ائیر پورٹ جانا پڑا، زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس روپے پاکستانی خرچ ہوئے لیکن حضرت والا نے مولانا مظہر صاحب سے فرمایا کہ مدرسہ میں سو روپیہ جمع کردینا، مولانا مظہر صاحب مولانا شاہ ابرار الحق رحمة اﷲ علیہ کے خلیفہ ہیں، بہت متقی اور اﷲ والے ہیں لیکن حضرت والا کو پھر بھی اطمینان نہیں ہوا، اور فرمایا کہ کیا بھروسہ ہے کہ گھر تک پہنچ سکوں یا نہیں اور ائیر پورٹ پر ہی سو روپیہ اپنے پاس سے دیئے اور لفافے پر لکھوا دیا کہ یہ مدرسے کی رقم ہے اور مولانا مظہر صاحب سے فرمایا کہ جاتے ہی جمع کردینا۔

ایک مرتبہ حضرت والا نے کچھ روپیہ مجھے دیئے اور فرمایا کہ یہ عطیات کی رقم میں جمع کردینا، میںنے وہ روپے لفافے میں رکھے اور لفافے پر عطیات لکھ کر جیب میں رکھ لیا مگر رقم مدرسہ میں جمع کرنا بھول گیا، رات کو حضرت والا بستر سے اٹھ کر باہر خانقاہ میں تشریف لائے اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ عطیات کی رقم جمع کردی؟ میںنے کہا حضرت ابھی تو نہیں کی صبح جمع کردوں گاتو حضرت والا ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ تمہیں یقین ہے کہ صبح اُٹھ سکو گے یا میں اُٹھ سکوں گا؟ مجھے تو رات بھر نیند نہیں آئے گی، تم وہ رقم جمع کرکے مجھے فوراً اطلاع کرو کہ وہ رقم جمع کردی۔

یہاں افریقہ بھی جب حضرت والا پہلی مرتبہ تشریف لائے تو ایک صاحب نے کہا کہ حضرت فلاں صاحب رئیس آدمی ہیں، میں ان سے کہہ دیتا ہوں، آپ کا جو مدرسہ بن رہا ہے اس میں تعاون کردیں گے، وہ میرے دوست ہیں اور حضرت سے محبت بھی رکھتے ہیں۔ ان صاحب کی یہ بات سن کر خود میرے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ اس شخص کے کہنے میں تو کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا کیونکہ یہ اُس کا دوست ہے اور دوست تو دوست سے کہہ سکتا ہے مگر حضرت نے فرمایا کہ تمہیں اس کی اجازت نہیں ہے، ایسا ہر گز نہیں کرنا اس لیے کہ ان کو معلوم ہے کہ میں کبھی کبھی تمہارے یہاں آکر ٹھہرتا ہوں اور تم مجھ سے عقیدت بھی رکھتے ہونتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ تمہارے کہنے کو وہ میرا کہنا ہی سمجھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ مولانا خود تو نہیں کہہ رہے ہیں مگر اپنے ایجنٹ چھوڑ دیئے ہیں پھر فرمایا کہ میں دین کو فروخت کر کے دنیا نہیں کما سکتا اگرچہ یہ بھی دین ہی کا کام ہے لیکن اگر ان کے دل میں ذرا سی بدگمانی پیدا ہوگئی تو میری بات کا اثر ختم ہوجائے گا۔ میں دین کی قیمت پر کوئی چیز قبول نہیں کرسکتا۔

نواب قیصر صاحب ریاست باغ پت کے نواب تھے، کراچی میں ان کا بہت بڑا کاروبار ہے، اب بھی وہ نواب ہی کہلاتے ہیں، بہت اﷲ والے آدمی ہیں، حضرت مولانا فقیر محمد صاحب جو حضرت تھانوی رحمة اﷲ علیہ کے خلیفہ تھے ان کے خلیفہ بھی ہیں، بہت مٹے ہوئے ہیں۔ اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کے حکم سے حضرت والا نے گلشن اقبال میں خانقاہ کی تعمیر کے لیے جب زمین خریدی تو اس وقت عمارت بنانے کے لیے کچھ پیسہ نہیں تھا، زمین بھی حضرت نے اپنا مکان بیچ کر خریدی اور آج جو خانقاہ ہے وہ حضرت والا کے ذاتی پیسے کی ہے، اپنے ذاتی مال کو حضرت والا نے اﷲ کے لیے وقف کردیا۔ جب خانقاہ تعمیر ہورہی تھی تو ایک مرتبہ نواب قیصر صاحب تشریف لائے، انہوں نے پوچھا کہ حضرت ابھی تک خانقاہ نہیں بنی، کیا وجہ ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ جتنی تعمیر اب تک ہوئی ہے یہ بھی ٹھیکہ دار نے اپنے طور پر بنادی ہے، اس کا ابھی آٹھ لاکھ روپیہ قرض ہے۔ تو نواب صاحب نے فرمایا کہ حضرت آٹھ لاکھ کیا چیز ہے، دبئی کے شیخ میرے دوست ہیں، ان کا بنگلہ میرے بنگلہ کے ساتھ ہے، آٹھ لاکھ روپیہ دینا تو ان کے لیے کوئی بات ہی نہیں، اگر حضرت فرمائیں تو میں ان سے بات کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ اگلے دن نواب صاحب تشریف لائے اور کہا کہ حضرت شیخ دبئی آٹھ لاکھ روپیہ دینے کے لیے راضی ہوگیا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے آپ وصول کرلیجئے۔ نواب صاحب نے فرمایا کہ حضرت آٹھ لاکھ روپے وصول کرکے رجسٹر میں دستخط کرنے کے لیے آپ کو ان کے بنگلہ تک جانا پڑے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا،میں اپنے بزرگوں کے طریقے کو نہیں چھوڑ سکتا، اگر میں نے خود جاکر یہ رقم وصول کرلی تو خانقاہ تو بن جائے گی مگر خانقاہ کی روح نکل جائے گی اور اس کی تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کہ اس خانقاہ کا بانی ایک بادشاہ کے دروازے پر گیا تھا اور میں بِئسَ الفَقِیرُ عَلٰی بَابِ الاَمِیرِ ہوجاوں گا۔ نواب قیصر صاحب حضرت والا کی یہ بات سن کر اتنے متاثر ہوئے کہ آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ حضرت آپ تو ہمارے بزرگوں کی یادگار ہیں اور کہا کہ اگر میں کسی اور کو اشارہ کردوں تو ایک کیا دس آدمی میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوجائیں گے اور وہاں جا کے رقم وصول کرلیں گے لیکن آپ نے انکار فرما دیا اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ میںنے حضرت شیخ پھولپوری کی جوتیاں اٹھائی ہیں، یہ انہی کا کمال ہے، ان کی نگاہ کا اثر ہے ورنہ میں بھی جاسکتا ہوں مجھے بھی رقم کی ضرورت ہے لیکن عظمتِ دین اور عزت نفس کے خلاف میں کوئی کام نہیں کرسکتا

نہ لالچ دے سکیں ہرگز تجھے سکّوں کی جھنکاریں

ترے دستِ توکل میں تھیں استغناءکی تلواریں

جلالِ قیصری بخشا جمالِ خانقاہی کو

سکھائے فقر کے آداب تو نے بادشاہی کو

پھر حضرت والا نے یہ بات حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کو لکھی کہ نواب صاحب نے مجھے ایسی پیش کش کی تھی اس پر میںنے یہ جواب دیا تو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے جواب میں لکھا کہ مبارک ہو! تعمیرِ فقیری تعمیرِ شاہی سے افضل ہے۔ چنانچہ الحمد ﷲ کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی، سب لوگ حیرت میں تھے ، خود ہمیں بھی حیرت تھی کہ سب کچھ کیسے ہوگیا، نہ حضرت کے یہاں کسی چندے کی پیش کش ہوئی، نہ مسجد میں کہا گیا، نہ کسی سے اس کا اعلان کیا گیا لیکن خود بخود سارا انتظام ہوگیا۔

اسی طرح جب مسجد بنی تو لوگ یہ سمجھے کہ کسی بادشاہ نے بنوا ئی ہے کیونکہ سنگِ مرمر کی مسجد ہے۔ حالانکہ مسجد بنانے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے اور مسجد کی زمین خالی پڑی تھی۔ پھر کے ڈی اے سے یہ آرڈر آگیا کہ اگر چھ مہینے تک آپ نے مسجد نہ بنائی تو ہم یہ زمین واپس لے لیں گے اور آپ کا پیسہ واپس کردیں گے تو حضرت نے فرمایا کہ اس وقت تو یہاں ٹین کاچھپر وغیرہ ڈال کر کچھ عمارت بنوا دیتے ہیں مگر بعد میں اس مسجد میں سنگِ مرمر لگواوں گا کیونکہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کو پینٹ کی بو جو یہاں خوشبو سمجھی جاتی ہے ناگوار ہوتی ہے، حضرت شیخ سمجھتے ہیں کہ یہ بدبو میں شامل ہے لہٰذا میں شیخ کے دل کو مکدر نہیں کرسکتا، میں یہاں سنگِ مرمر لگواوں گا۔ اُس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسجد واقعی سنگِ مرمر سے بنے گی، آج وہی مسجد سنگ مرمر سے بنی ہوئی ہے اور کیسے بنی؟ جب ابتداءہوئی تو ایک صاحب جو حضرت سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد صاحب کلرک تھے، انہوںنے مسجد کی تعمیر کے لیے زندگی بھر تھوڑا تھوڑا بچا کر کچھ پیسہ جمع کررکھا تھا ۔ جب حضرت مسجد کا چھپر ڈلوانے کی بات کر رہے تھے تو وہ صاحب بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا بنوا رہے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ مسجد بنوا رہا ہوں، انہوںنے تنہائی میں کہا کہ حضرت میرے والد صاحب نے پچیس ہزار روپے کی رقم اپنی کمائی میں سے جوڑ جوڑ کر جمع کی ہے اور وہ چاہتے تھے کہ کسی معتمد ادارہ میں مسجد کی تعمیر میں یہ رقم لگاوں اور اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوگی کہ یہ رقم اس مسجد کی تعمیر میں لگے۔ تو مسجد کی تعمیر کی ابتداءپچیس ہزار روپے کی اس رقم سے ہوئی۔

پھر ایک مرتبہ ایک عورت حضرت پیرانی صاحبہ کے پاس ایک لفافے میں کچھ رقم لائی، اس وقت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب بھی آئے ہوئے تھے، حضرت والا نے مصروفیت کی وجہ سے وہ لفافہ اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا، یہ سمجھ کر کہ تھوڑی سی رقم ہوگی پھر جب رات کو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب تشریف لے گئے اس وقت حضرت نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں ایک لاکھ روپیہ تھا۔ بہرحال اس مسجد کی تعمیر میں گیارہ لاکھ روپیہ لگا۔

پھر جب مدرسہ بن رہا تھا تو اس کا تخمینہ پندرہ لاکھ روپے تھا تو حضرت کے ایک خلیفہ آئے اور کہا کہ حضرت میرے ایک دوست لکھ پتی آدمی ہیں، ان کے عزیز کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ ان کے ایصالِ ثواب کے لیے پندرہ لاکھ روپے کہیں لگانا چاہتے ہیں لیکن ان کی ایک عجیب شرط ہے جس سے دل کھٹکتا ہے۔ حضرت نے پوچھا کہ کیا شرط ہے؟ کہا کہ حضرت وہ یہ کہتے ہیں کہ جب عمارت بن جائے تو اس پر یہ تختی لگا دیں کہ برائے ایصالِ ثواب فلاں ابن فلاں تو حضرت نے فرمایا کہ اس سے یہ پوچھنا کہ اگر یہ تختی نہیں لگے گی تو کیا اس کا ثواب نہیں پہنچے گا؟ معلوم ہوا کہ یہ جو تم تختی لگانے کے لیے کہہ رہے ہواس میںرِیا شامل ہے، تم دِکھاوا کرنا چاہتے ہو، اگر میں نے رِیا کی یہ رقم قبول کر لی تو خطرہ ہے کہ میرا یہ سارا ادارہ ہی نامقبول ہوجائے، یہاں ایک تختی لگ چکی ہے کہ بیاد گار حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمةاﷲ علیہ اب اس کے بعد یہاں کوئی تختی نہیں لگے گی چنانچہ وہ پندرہ لاکھ روپیہ نہیں ملا لیکن غیب سے ایسا انتظام ہوا کہ ایسی بہترین عمارت بنی جو آپ نے دیکھی بھی ہے۔ یہ تو حضرت والا کے وہ حالات ہیں جو مالیات سے متعلق ہیں، اب وقت نہیں رہا ورنہ بچپن کے بھی کچھ حالات سنانے کو دل چاہ رہا ہے، پھر کسی وقت ان شاءاﷲ تعالیٰ ۔

اﷲ تعالیٰ عمل کی اور اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو دعا حضرت فرماتے ہیں کہ اے اﷲ ہماری زندگی کی ہر سانس آپ پر فدا ہو اور ایک لمحہ بھی آپ کے قہر و ناراضگی میں نہ گذرے، زندگی کا جو شعبہ آپ کی مرضی کے خلاف ہو اسے آپ اپنی مرضی کے مطابق بنا دیں اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمادیں او ر ہمارے حضرت والا کو یا اﷲ ایک سوبیس سال کی عمر مع صحت و عافیت عطا فرمادیں، خدمتِ دین کی عظیم الشان نعمت بھی عطا فرمائیں، حضرت سے اور حضرت کے خلفاءسے اﷲ تعالیٰ دین کے اتنے بڑے بڑے کام لے لیں کہ قیامت تک ان کے نشان باقی رہیں اور وہ مٹ نہ سکیں۔ اے اﷲحضرت والا کا فیض قیامت تک جاری ہو اور صدقہ جاریہ ہواور اپنے فضل سے ہم سب کو اس میں شریک فرما لیںاور اے اﷲ! ہم سب کی اصلاح فرما دیں اور ہم سب کو اپنا ایسا خاص تعلق بدون استحقاق محض اپنے کرم سے نصیب فرما دیں جو اولیاءصدیقین کو آپ عطا فرماتے ہیں حضرت والا کے صدقے میں اور ہمارے بزرگانِ دین کے صدقے میں قبول فرمالیں اور زندگی کا جو شعبہ آپ کی مرضی کے خلاف ہے اﷲ اس کو اپنی مرضی کے مطابق بنا دیں، ہمارا دل ایسا بنا دیں جیسا سونے کا ترازو ہوتا ہے کہ ایک ذرّہ بھی اگر سونے کے ترازو میں آجائے تو وہ ہل جاتی ہے، اے اﷲ ایسا ہی ہمارا دل بنا دے کہ جو بات ایک ذرّہ برابر آپ کی مرضی کے خلاف ہو تو ہم کانپ جائیں اور ہمیں اس وقت تک چین نہ آئے جب تک آپ کو راضی نہ کرلیں۔

وَ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلٰی خَیرِ خَلقِہ محمدٍ وَّ اٰلِہ وَصَحبِہ اجمعین

بِرَحمَتِکَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِینَ
Flag Counter