حقوق الرجال (شوہر کے حقوق) |
ہم نوٹ : |
میں میں چھٹیوں میں اپنے گاؤں گیا ہوا تھا۔ جب واپس آیا تو میں اُس کے گھر گیا، دروازہ کھٹکھٹایا ، اُس کی ماں نکلی، میں نے کہا کہ میرا کلاس فیلو، میرا دوست کہاں ہے؟ اُس نے کہا کہ وہ تو قبرستان میں لیٹا ہوا ہے۔ تو زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ حرم شریف میں مدرسہ صولتیہ ہے، اس کے مہتمم کے سگے بھائی پینتالیس سال کی عمر تھی، چائے پی رہے تھے، کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں تھی، کبھی ہارٹ اٹیک نہیں ہوا تھا، بالکل صحت مند تھے، چائے پیتے پیتے ایک گھونٹ پیا، چائے کی پیالی ہاتھ سے گرگئی اور انتقال ہوگیا۔ اس لیے ہر وقت اپنی موت کو سامنے رکھو، اسی لیے ہمارے بزرگ ہمیشہ ہماری ہدایت کے لیے ایک شعر پڑھا کرتے تھے ؎نہ جانے بلالے پیا کس گھڑی تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی زندگی کو کب اور کس پر فدا کریں؟ نہ جانے اللہ تعالیٰ کس وقت بلالے، کسی کی گارنٹی نہیں ہے کہ ہم لوگ اتنے دن تک جئیں گے، لہٰذا یہ سوچنا کہ جب بڈھے ہوجائیں گے یا جب بڈھی ہوجاؤں گی، تو ہم خوب حج اور عبادات کریں گے، لیکن میری ماؤں ، بہنو اور بیٹیو! جب آپ گوشت منگواتی ہیں تو کیا کہتی ہیں کہ بڈھے بکرے کا گوشت لانا؟ یا کہتی ہیں کہ جوان بکرے کا لانا؟ میری بات کو ذرا غورسے سننا، بتاؤ! زندگی کا کون سا حصہ بہتر ہے، جوانی یا بڑھاپا؟ زندگی کا کون سا زمانہ اچھا ہوتا ہے؟ جوانی کا۔تو اللہ اور رسول کو کون سا تحفہ دینا چاہتی ہو، جوانی کا یا بڑھاپے کا؟ شرم آنی چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے کہ اللہ اور رسول کے لیے کیا سوچا ہوا ہے کہ جب بڈھے ہوجائیں گے، آنکھوں پر گیارہ نمبر کا چشمہ لگے گا، کمر جھک جائے گی، کوئی نانی اماں بن جائے گی، کوئی نانا ابّا بن جائے گا ، اس وقت بڑھاپے میں خدا کو یاد کرنے کا سوچا ہوا ہے۔ بڑی ناشکری کی بات ہے۔ خدا نے ہم کوآپ کو جو جوانی دی ہے اُسے اللہ پر فدا کرو، شکلوں پر مت جاؤ، بت پرستی سے توبہ کرو، یہ فانی چیز یں ہیں۔ آپ نے دیکھا جو لڑکی سولہ سال کی ہے کبھی نانی بن جائے گی، گیارہ نمبر کا چشمہ لگے گا، منہ میں دانت نہیں رہیں گے، جھکی جھکی چلے گی، ایسے ہی لڑکوں کا