کرایک اِدھرکو کھسک جاتا … دوسرا اُدھر کھسک جاتا … کوئی کان سے کھینچ رہا ہے… کوئی بالوںسے … اور آپ ص اُس گورنر کو سمجھا رہے ہیں … بچوں کی طرف توجہ ہی نہیں… بچوں کو کھیل کی جگہ مل گئی… جو گورنرتھے کافی دیر سے بچوں کے کھیل کودیکھ کر صبر کیئے ہوئے تھے …آخر بول پڑے… اے ! امیر المؤمنین …یہ بچے کیا کررہے ہیں؟ میرے قریب تو میرے اپنے بچے تک نہیں آتے … اوریہ دوسروں کے بچے ہیں …کوئی آپ ص پر چڑھ رہے ہیں … کوئی اتر رہے ہیں… کان سے کھینچ رہے ہیں … فرمایا…افسوس!آپ اتنے سنگ دل ہیں …مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی …کہ آپ جیسے کو گورنر بنا دیا… اسی وقت اس کو معزول کیا… اور فرمایا …جائو اپنے گھر بیٹھ جائو…۔
دوستو! …امیر المؤمنین صکو دیکھئے؟ آج ہماری شان ختم نہیں ہورہی جو اپنی شان کو بنا کر رکھتے ہیں تو وہ رحمن کے بندے نہیں ہیں۔
واقعہ نمبر١٥: حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ اور عظمتِ استاذ: حضرت شیخ الہند کا جب انتقال ہوا تو حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کی اہلیہ سے کہا کہ امی جان جوتیاں مرحمت فرما دیجئے… ا ن کو جوتیاں پکڑا دیں گئیں… تو انھیں الٹاکر کے سر پر رکھ کر دیر تک روتے رہے…اور کہتے رہے… میں نے اپنے استاد کا حق ادا نہیں کیا … شایدمیرا یہ عمل اس کا کفارہ ہو جائے۔
واقعہ نمبر ١٦: حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ اور کتاب کے سرِ ورق کا قصہ: مالٹا کی جیل میں حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھے… سردی کے دن آئے… پانی گرم کرنے کا کوئی انتظام نہیں …آپ لوٹا پانی سے بھر کر …پوری رات پیٹ کے ساتھ پکڑ کر اس پر جھکے رہتے …پیٹ کی حرارت کی وجہ سے اس میں کچھ گرمائش آجاتی… صبح وہ پانی اپنے استاذکی خدمت میں پیش کر تے… وہاں جیل میں رہتے ہوئے انھوں نے