Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 18
***
امت محمدیہ کے مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف
مولانا محمد منظور نعمانی
أعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم
﴿إن المسلمین والمسلمٰت والمؤمنین والمؤمنات والقانتین والقٰنتٰت والصٰدقین والصدقٰت والصٰبرین والصٰبرات والخاشعین والخٰشعت والمتصدقین والمتصدقت والصائمین والصائمت والحفظین فروجھم والحٰفظت والذاکرین الله کثیرا والذکرات أعدالله لھم مغفرة وأجرا عظیما﴾․(سورہٴ احزاب آیت:35)
بے شک دین اسلام اختیار کرنے والے مرد اور دین اسلام اختیار کرنے والی عورتیں اور ایمان ویقین والے مرد اور ایمان ویقین والی عورتیں اور ( الله ورسول کی) فرما نبرداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں اور صدق وسچائی والے مرد اور صدق وسچائی والی عورتیں اور صبر وبرداشت کرنے والے مرد اور صبر وبرداشت کرنے والی عورتیں اور انکسار وفروتنی اختیار کرنے والے مرد اور انکسار وفروتنی اختیار کرنے والی عورتیں اور ( راہ خدا میں) صدقہ خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور ( شہوت نفس کے ناجائز تقاضوں سے) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور الله کو زیادہ یاد کرنے اور یاد رکھنے والے مرد اور زیادہ یاد کرنے اور یاد رکھنے والی عورتیں، الله نے ان سب کے واسطے طے کر رکھی اور تیار کر رکھی ہے بخشش اور اجر عظیم۔
تفسیر وتشریح
پچھلے ہفتے سورہٴ احزاب کے چوتھے رکوع کا درس ہوا تھا۔ اس کا خاص روئے سخن حضور صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی طرف تھا، ان کے خاص مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ان کو کچھ خصوصی ہدایتیں فرمائی گئی تھیں، نماز، زکوٰة جیسے اعمال صالحہ کو اہتمام سے ادا کرنے کی اور منکرات ومکروہات سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی گئی تھی ، اگرچہ یہ اوامر ونواہی امت کی سب خواتین کے لیے ہیں ، پچھلے رکوع میں ان احکام کی خاص مخاطب ازواج مطہرات ہی تھیں۔ اب یہ پانچواں رکوع شروع ہوا ہے اس کی پہلی آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے بڑی جامع اور اہم آیت ہے، اس میں وہ سارے اوصاف جمع کر دیے گئے ہیں جو الله کو اپنے بندوں او ربندیوں میں مطلوب ہیں۔ جو بندہ یا جو بندی یہ اوصاف وخصائل جس درجہ اپنے اندر پیدا کر لے وہ اسی درجہ میں مومن کامل اور ”ولی الله“ ہے، یہ آیت گویا ”ولایت الہی“ کا منشورہے۔ اس آیت کا روئے سخن امت محمدیہ کے تمام مردوں اور عورتوں کی طرف ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر صراحت کے سا تھ کرکے گویا یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ سے آئی ہوئی روحانی دولت میں عورتیں مردوں کی برابر کی شریک ہیں اور ان کے لیے ولایت اور قرب الہٰی کے وہ سب دروازے کھلے ہوئے ہیں جو مردوں کے لیے کھلے ہیں۔
بہرحال اس آیت میں امت محمدیہ کے تمام مردوں اور عورتوں کو سنایا جارہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ الله تعالیٰ تمہاری چھوٹی بڑی ساری خطائیں ، سارے گناہ اور ساری لغزشیں معاف فرمادے اور تم سے آخرت میں کوئی باز پرس نہ ہو اور اُس رب کریم کی طرف سے ”اجرعظیم“ تم کو عطا ہو ( جس میں بلاشبہ رضائے مولیٰ اوردیدارِ الہٰی بھی شامل ہے) تو یہ دس اوصاف اپنے اندر پیدا کرلو۔
ایک اسلام۔ جس کا مطلب ہے الله کے حضور میں سرافگندہ ہو جانا، اس کے دین کو قبول کرکے اس کے حکموں پر چلنے کا فیصلہ کر لینا اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا اصول بنا لینا۔ ﴿ان المسلمین والمسلمات﴾ میں اسی وصف کا ذکر ہے۔
دوسرا ایمان: ایمان کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے اُس کے پیغمبر نے جو ایسی باتیں اور ایسی حقیقتیں بتلائیں جن کو ہم بطور خود نہیں جان سکتے ، اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ، اپنی عقلوں سے نہیں سمجھ سکتے (جیسے الله تعالیٰ کی ذات وصفات، قیامت، آخرت، جنت ، دوزخ، فرشتوں کا وجود ، وحی کا آنا ، قرآن شریف کا کلام الله ہونا ، وغیرہ وغیرہ ) تو ایسی ساری باتوں اور حقیقتوں پر ، صرف الله کے پیغمبر کے اعتبار واعتماد پر دل سے ایسا یقین کر لینا اور مان لینا جیسا کہ آنکھوں دیکھی چیزوں پر یقین کرلیا جاتا ہے۔ ﴿المؤمنین والمؤمنات﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔
تیسرا وصف ہے۔ عملی زندگی میں الله تعالیٰ کی کامل فرماں برداری کرنا ﴿والقانتین والقنتت﴾ میں اسی وصف کا ذکر ہے۔
چوتھا وصف ہے سچائی وراستبازی۔ اپنے اقوال میں بھی اوراعمال ومعاملات میں بھی ﴿والصدقین والصٰدقت﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔
پانچواں وصف ہے صبر۔ ”صبر“ کا لفظ ہماری آپ کی زبان میں یعنی اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن ہماری زبان میں اس کے معنی بہت محدود ہیں، جو ہم آپ سب جانتے ہیں، لیکن قرآن پاک کی زبان میں صبر کے معنی بہت وسیع ہیں اور وہ بہت اونچا وصف ہے، یعنی کسی اعلیٰ مقصد کے لیے تکلفیں اٹھانا، مصیبتیں جھیلنا، اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا۔ ﴿والصٰبرین والصٰبرات﴾ کا یہی مطلب ہے۔
چھٹا وصف ہے خشوع۔ اس کے معنی ہیں فروتنی، عاجزی وانکساری، الله تعالیٰ کے حضور میں بھی اور بندوں سے برتاؤ میں بھی، باطن میں بھی اور ظاہر میں بھی، یہ وصف عبدیت او ربندگی کی روح اور جان ہے ﴿والخاشعین والخشعت﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔
ساتواں وصف ہے الله کی راہ میں اپنے مال کی قربانی۔ یعنی اس کی رضا جوئی کے لیے صدقہ وخیرات کرنا، جس سے بخل وکنجوسی کی روحانی بیماری کا علاج بھی ہوتا ہے اور الله کے حاجت مندوں کی مدد بھی ہوتی ہے ﴿والمتصدقین والمتصدقٰت﴾میں اسی وصف کا ذکر ہے۔
آٹھواں وصف ہے روزہ داری۔ یعنی الله کی رضا اور اپنے نفس کے علاج کے لیے او راپنے اندر تقوے کی صفت پیدا کرنے کے لیے روزے رکھنا، فرض بھی او رحسب توفیق نفلی بھی ﴿والصائمین والصٰئمت﴾میں اس وصف کا ذکر ہے۔
نواں وصف ہے عفت وپاک بازی ۔ یعنی شہوت نفس کے غلط اورناجائز تقاضوں سے اپنی حفاظت کرنا۔ ﴿والحفظین فروجھم والحٰفظت﴾ میں اس کا ذکر ہے۔
دسواں اور آخری وصف الله کا ذکر، نہ صرف ذکر، بلکہ ذکر کثیر۔ یعنی الله سے غافل نہ ہونا، اُس کا دھیان رکھنا او رزیادہ سے زیادہ اس کا ذکر کرنا۔ اس میں نماز، قرآن پاک کی تلاوت، الله کی حمد وتسبیح اور دعا واستغفار وغیرہ ذکر الله کی سب شکلیں شامل ہیں ۔ ﴿والذکرین الله کثیراً والذٰکرات﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔
یہ دس صفتیں، جو بندہ اپنے اندر پیدا کرلے وہ بامراد اور کامیاب ہے۔ وہ الله کا اور الله اس کا ہو گیا، ایسے بندوں کو اس آیت میں بشارت سنائی گئی ہے﴿اعد الله لھم مغفرة واجراً عظیما﴾ یعنی الله نے ایسے بندوں کے لیے مغفرت وبخشش اور”اجر عظیم“ کا تحفہ تیار کر رکھا ہے۔ جس”اجر“ کو خود الله تعالیٰ ”عظیم الشان“ فرمائے اس کی عظمت کا کوئی بندہ یہاں تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ایک حدیث قدسی
ایک مشہور حدیث قدسی ہے، یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کا یہ ارشاد اسی کی طرف سے امت کو پہنچایا ”أعددت لعبادی الصالحین مالاعین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر․“ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں راحت ولذت اورمسرت کے وہ سامان اور وہ نعمتیں تیار کرکے رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے او رنہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال ہی آیا ہے ، یعنی جو انسانی خیال وتصور کی پرواز کی حد سے بھی بالاتر ہیں ، بس وہیں پہنچ کر معلوم ہو گا کہ وہ کیا نعمتیں ہیں اور ان میں کیسی لذت اور مسرت کا کیسا سامان ہے ۔ (مشکوٰة، باب صفة الجنة… بحوالہ بخاری ومسلم)
اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ ہم آپ جب اس دنیا میں آنے سے پہلے اپنے ماؤں کے پیٹ میں تھے تو ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہم کسی اور دنیا میں پہنچیں گے او روہاں لذت وراحت کے عجیب وغریب سامان ہوں گے، وہاں زعفرانی، بریانی، فیرنی اور کباب قورمہ جیسی لذیذ غذائیں ہوں گی ، روح افزا جیسے لذیذ مشروب ہوں گے مشکی حنا اور شمامة العنبر او روح گلاب او رکیوڑہ جیسے عطریات ہوں گے۔ سیر وتفریح کے لیے پارک او رچمن ہوں گے ، سواری کے لیے موٹریں ہوں گی، عالیشان محلات ہوں گے ، تو ماں کے پیٹ والی ہماری پہلی دنیا میں ان چیزوں کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، لیکن جب الله کے حکم سے یہاں آئے اور الله نے یہ چیزیں نصیب فرمائیں تو اس کے بعد ہی ان کو جانا، بالکل اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو نعمتیں جنت میں تیار کر رکھی ہیں اُن کا یہاں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے، وہ ہمارے ادراک وخیال کی پرواز سے بھی وراء الوراء ہیں، بس وہاں پہنچ کر ہی ہم اُن سے آشنا ہوں گے۔
آخرت او رجنت میں عطا ہونے والی اُن سب نعمتوں کو اس آیت میں ”اجر عظیم“ فرمایا گیا ہے ، ان نعمتوں کے حاصل کرنے کا راستہ کیا ہے ؟ او ران کی قیمت کیا ہے جو ہم کو ادا کرنی ہے ؟ بس وہی اعمال واوصاف جن کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے ، میں نے عرض کیا تھاکہ الله کے جو بندے جس درجہ میں یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں وہ اسی درجہ میں ”مومن کامل“ اور ” الله کے ولی“ اور یہ آیت ”ولایت الہٰی کا منشور“ ہے۔
تصوف اور صوفیہ
بزرگان دین کی خانقاہوں کا اصل موضوع یہی تھا کہ الله کے طالب بندے وہاں کے خاص ماحول میں رہ کر یہ ایمانی اوصاف اور یہ اخلاق واعمال اپنے اندر پیدا کر لیں اور ان کی ایسی مشق کر لیں کہ یہی ان کی طبیعت ثانیہ ہو جائے، بس یہی تصوف ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔
ان مطلوبہ اوصاف میں آخری او رانتہائی چیز” الله تعالیٰ کا ذکر کثیر“ ہے ، سب سے آخر میں فرمایا گیا ہے﴿والذاکرین الله کثیراً والذاکرات﴾ پھر آگے اسی سورت میں چند ہی آیتوں کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے ﴿یا أیھا الذین اٰمنوا اذکروا الله ذکر اً کثیراً﴾ (اے ایمان والے بندو !الله کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو اور اس کو بہت یاد رکھو)
حضرت عبدالله بن عباس نے انہی آیتوں کی روشنی میں فرمایا ہے کہ ” الله تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو جن عبادتی اعمال کا حکم دیا گیا ہے ، اُن سب کی ایک حد مقرر ہے کہ بس اتنا ضروری ہے اس کے بعد چھٹی۔ نماز روزہ، حج وغیرہ سب کا یہی حال ہے ۔ لیکن ”ذکرالله“ کے لیے ایسی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے، بلکہ حکم ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں اس کو یاد کرو اور یاد رکھو۔ ارشاد فرمایا گیا ہے ﴿فاذکروا الله قیاماً وقعوداً وعلی جنوبکم﴾ ( یعنی الله کا ذکر کرو کھڑے ہونے کی حالت میں اور بیٹھے ہونے کی حالت میں اور جب تم لیٹے ہوئے ہو ) اس کا کھلا مطلب یہی ہے کہ الله تعالیٰ کی یاد تمہارے دل ودماغ میں اس طرح بس جانی چاہیے کہ کسی حال اُس سے غفلت نہ ہو، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امت کے تمام طبقوں میں یہ دولت صرف مشائخ ربانی کاحصہ ہے، جن کو ”صوفیہ“ کہا جاتا ہے۔
ایک حدیث شریف کا مضمون ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ الله کے بندوں میں کون لوگ افضل اورزیادہ بلند مرتبہ ہیں؟آپ نے ارشاد فرمایا”والذاکرین الله کثیراً والذاکرات“یعنی الله کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے بندوں او ربندیوں کا درجہ اور مرتبہ سب سے اعلیٰ وبالا ہے۔ (مشکوٰة باب ذکرالله، بحوالہ احمد وترمذی)
الله تعالیٰ اس دولت کا کچھ نہ کچھ حصہ ہم آپ سب کو نصیب فرمائے اور الله کی رحمت سے یقین کے ساتھ امید ہے کہ ہم آپ میں جو بھی سچے دل سے اس کا طالب ہو گا اور اُس کے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہے گا، ان شاء الله وہ محروم نہ رہے گا۔
﴿سبحانک اللھم وبحمدک، ونشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک ونتوب الیک﴾․

Flag Counter