Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

12 - 18
***
اک عرض تمنا ہے سو وہ ہم کرتے رہیں گے
محترم یرید احمد
چار ماہ قبل ان کی خزاں رسیدہ اورستم رسیدہ ”ذات“میرے لیے ناآشنائی کے پردے میں مستوروپوشیدہ تھی۔اس تمام عرصے میں آتش جستجو نے بے چینی اور بے قراری کے ظرف کو سرد نہ ہونے دیا ،گاہے بہ گاہے اخبارفروش کے تھلے پر دھرے اس رسالے پر نظر جاٹکتی جس کا سرورق آفتاب کی حدت اور سورج کی تمازت سے زرد وماند پڑچکا تھا۔اس پر موجود دو تصویریں․․․․․ ایک دوسرے سے جدااوریکسر مختلف ،دنوں اور سالوں کے زمانی فاصلے کو ،چہرے کے تاثرات میں سمیٹتیں،اپنے پس منظر اور پیش منظر کے ”بہاروخزاں“کی دردناک اور المناک کہانی پر خاموش تبصرہ پیش کیے دے رہی تھیں۔
قارئین !”موسم“کے اس تغیر وتبدل کی دردانگیز داستاں کو سمجھنے اور جاننے کے لیے ہمیں 38برس پیچھے کی جانب سفر کرنا ہوگا۔2مارچ 1972ء،ڈاکٹر محمد صدیقی کے متوسط گھرانے میں ایک ننھی سی معصوم کلی کھلی۔ مستقبل کے اندیشوں ،خدشوں اور احوال سے بے خبر اور لاعلم والدین نے اس نوزائیدہ مہمان کا نام ”عافیہ“رکھا ۔جی ہاں!وہی عافیہ جس پر آج عافیت تنگ کردی گئی ہے۔گھریلو ماحول پر مذہبی رنگ غالب تھا ،ذہانت وفطانت سے متصف اس بچی نے حفظ قرآن سے لے کر امریکا کی مشہور ومعروف یونیورسٹیMITسے علم حیاتیات میں ماسٹر ڈگری کے حصول تک اپنی کامیابی کے تسلسل کو برقرار رکھا۔1995ء کے بعد مزید اعلی تعلیم کے لیےBrandies نامی اعلی اور تحقیقی ادارے سے علم الاعصاب(دماغی علوم) میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ،دوران تعلیم ایک پاکستانی ڈاکٹر امجد خان سے شادی کی ،جو بعد میں دونوں کی جدائی پر منتج ہوئی۔ 2002ء میں ملازمت کے سلسلے میں پاکستان آئیں مگر روزگار کی عدم فراہمی کی بنا پر واپس امریکہ چلی گئیں۔اس دوران میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لیے ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا اور 2003ء میں کراچی واپس آگئیں ۔FBIنے اس بنیادپر آپ کانام مشکوک اور مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرکے ذرائع ابلاغ پر تشہیر شروع کردی ۔30مارچ 2003ء کو اپنے تین بچوں ،جن کی عمریں بالترتیب چارسال،دوسال اور ایک ماہ تھی کے ہمراہ روالپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں روانہ ہوئیں ۔ائیرپورٹ پہنچنے سے قبل پاکستانی خفیہ اداروں نے آپ کو بچوں سمیت اغوا کرکے امریکی فوجیوں کے حوالہ کردیا ۔بوقت گرفتاری آپکی عمر تیس برس تھی ۔2008ء تک آپ کی گمشدگی وگرفتاری کی کوئی اطلاع وخبر امریکی وپاکستانی میڈیا پر نہ تھی۔اس اثناء میں بگرام جیل سے رہائی پانے والے برطانوی نژاد ”معظم بیگ“نے اپنی کتاب میں ایک خاتون قیدی کاذکر کیا،جس کی چیخیں روزانہ قیدیوں کا دل دہلا تی تھیں۔7جولائی2008ء کو برطانوی صحافی ریڈلی نے اسلام آبادمیں پریس کانفرنس میں اس ”بے عافیت“عافیہ کے بارے میں خبر دی کہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650پاکستان کی بیٹی ہی ہے ۔ایوان ریڈلی کے دلائل سے مجبورہوکر امریکی حکام نے 5اگست2008ء کو نیویارک عدالت میں عافیہ کی گرفتای کوظاہر کیا ۔ ان پر لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات میں کہا گیا :عافیہ کو 17جولائی 2008ء میں افغان سیکورٹی فورسزز نے گورنر غزنی کے دفتر کے باہر سے ایسے سامان اور دستاویزات کے ساتھ گرفتار کیا جن میں بم بنانے کی ہدایات اور کچھ سیال مادے موجود تھے۔”خیال “کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے بگرام جیل میں امریکی فوجیوں پر گولی چلانے کا الزام بھی عائد کیاگیا۔کراچی پولیس نے اب تک نامعلوم وجوہات کی بناء پر آپ کے اغواء کی ایف آئی آر درج نہیں کی تھی۔بالآخر دسمبر2009ء میں چھ سال کی طویل تاخیر کے بعد نامعلوم اغواء کاروں کے خلاف کارروائی درج کی گئی ۔بدھ 4فروری 2010ء کو بے رحم،ظلم پسند اور متعصب یہودی جیوری نے فرد جرم عائد کرکے اپنے خبث باطن کا اظہارکیا۔
جا ں گسل اور ہولناک مصائب وآلام کا شکار ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ،پس زنداں بھیجنے والادخترفروش،سابق آمرپرویز مشرف آج بھی برطانیہ کی رنگین اور پر مسرت فضاؤں میں مصروف ِعیش ونشاط ہے۔موجودہ حکمران جو ”تبدیلی اور انقلاب“کے عہدوپیمان کرکے مید ان عمل میں اترے تھے،سابقہ پالیسیوں اور اصول سیاست کے تسلسل بدل نہ سکے،لیکن اپنے دعوؤں اور وعدوں کو بہتی گنگا کے بہاؤ میں ڈال کر ضرور منقلب کر ڈالا۔امریکا کے سامنے ارباب بست وکشاد کے اس ناروا،نامناسب اور غیرت وحمیت سے عاری احتجاج نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو شکوہ کناں ہونے پر مجبور کردیا ۔انہوں نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں روتے ہوئے کہا کہ ”ساری جماعتیں میری بہن کے نام پراپنی سیاست چمکارہی ہیں، میری بہن کو بیچ کرپہلے پیسے کمائے گئے، اب اس رقم سے وکیلوں کو فیس دینے کے لیے کچھ پیسہ ہمیں لوٹایا جارہاہے“۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک پاکستان کا وجود اپنی مکمل خودمختاری کی بے قعتی ،اہم قومی امور پر بین الاقوامی برادری کے سامنے ”یس سر“ کہنے کی روش اور دوسروں کے ہاتھوں ٹشوپیپرکے طور پر استعمال ہوتا رہے گا؟
اس حوالہ سے تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو پاکستانی قوم کے احساسات وجذبات اس اسلامی بھائی چارگی ،خیرخواہی اور ہمدردی کے آئینہ دار ہیں ،جو صحرامیں صوت رحیل کی سریلی صداکی مانندنشان ِمنزل کا پتہ دیتی ہیں۔جو اپنی ہم مذہب،ہم وطن اور ہم قوم بہن کی عزت وناموس کی پامالی پر اس درد کو محسوس کرتے ہیں جو ایک مسلمان قوم کا شعار ہیں۔جس پر برطانوی صحافی ایویان ریڈلی نے بھی اہلیان پاکستان کو خراج تحسین کے طور پر سلام پیش کیاہے ۔
اس منظرنامے کے پس منظر میں وہ عمررسیدہ،غم زدہ اور پیکر صبرورضاخاتون لائق صد ستائش ہیں ،جنہوں نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا :”میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ اس بات کی تاکید کی ہے کہ ایمان پر سودا نہ کرنا،ایمان سے بڑی دولت کوئی نہیں ہے،اصول پرستی اور حق پر جاں نثاری کا یہ طرہ امتیاز انہیں اپنے دادا سے وراثت میں ملا ہے ،جن کے سامنے برٹش دور حکومت میں ایک موقع پر قومی حمیت اور اصولوں کے تحفظ کا سوال کھڑا ہوا تو انہوں نے بلادریغ ”اٹارنی جنرل“جیسے منصب ومقام سے دست برداری اختیارکرلی۔آج عافیہ کے کردار اور طرزعمل میں خاندانی صداقت شعاری پوری طرح نمایاں اور عیاں ہے “۔سلام ہے اس پُرعظمت اور پُر ہمت ماں پر! جس کے حوصلے اپنی مظلوم وبے بس بیٹی پر لگائے جانے والے بے بنیاد جرم سے پست نہیں ہوئے۔ کوئی افسوس ،کوئی پچھتاوا،کوئی حسرت کانوں اور آنکھوں نے دیکھااور نہ سنا۔ساتھ ساتھ عصمت صدیقی کی دوسری صاحبزادی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے کردار،محنت اور جاں سوز کاوشوں نے رائے عامہ کی بیداری میں بھرپور اور موثر کردار ادا کیا ،جو کبھی کسی وزیر ومشیر کے روبرو،تو کبھی کسی بار کے وکلاء کے سامنے اور کبھی ٹی وی اسکرین پر تو کبھی اخبارات ورسائل کے اوراق پر پاکستانی قوم کو بیدار کرتی نظر آتی ہیں۔ گزشتہ دنوں خارجی اور داخلی سطح پر ملک کو پیش آمدہ حالات وواقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے بجافرمایا کہ ”ڈاکٹر عافیہ کو رمضان المبارک میں بھوکا رکھاگیا تو آٹے،چینی اور گھی کا بحران سامنے آیا،کالی کوٹھری میں پابند سلاسل کیاگیا تو بجلی کی عدم فراہمی ودستیابی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ،ان کو ختم کرنے کی ناکام سازش کی گئی تو آج خدانخواستہ ملک وقوم دشمن قوتیں مادر وطن کو توڑنے ،مٹانے اور ختم کردینے کی نامراد سازشیں کررہی ہیں“۔
غرض ہمہ گیر اور ہمہ جہت اندا زمیں ”ڈاکٹرعافیہ رہائی“مہم اپنے ارتقا کی جانب گامزن ہے، جس کانتیجہ جلد یا بدیر امریکا اور اس کے گھاٹ سے پا نی پینے والے منافق صفت حکمرانوں ،ابن الوقتوں اور ضمیر وایمان فروشوں کی تباہی وبربادی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔جب تک کے لیے فوزیہ صدیقی کی زبان حال ،زبان مقال کے روپ میں یوں گویاہے ۔ #
اک طرز تغافل ہے سووہ انہیں مبارک 
اک عرض تمنا ہے سو وہ ہم کرتے رہیں گے

Flag Counter