Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1431ھ

ہ رسالہ

1 - 18
***
رجب المرجب 1431ھ, Volume 26, No. 7
عروج و زوال کا نظام
مولانا عبید اللہ خالد
دُنیا میں شاید ہی کوئی قوم ایسی گزری ہو جس نے عروج اور زوال نہ دیکھا ہو۔ یہ فطری قانون ہے کہ ایک قوم اگر زوال پذیر ہے اور وہ جہد مسلسل کرتی ہے توعروج حاصل کرلیتی ہے۔ یا کوئی قوم اپنے عروج پرگھمنڈ کرتی ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اسے زوال اور ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ عروج و زوال پوری انسانی تاریخ میں جاری رہا اور آج بھی شدومد کے ساتھ جاری ہے۔تاہم اس قانون کا تعلق اسلام کے ساتھ نہیں ہے۔ اسلام ہمیشہ سے انسانی عروج کا ذریعہ رہا ہے اور قیامت تک رہے گا۔ یہ بات اس لیے کہنی پڑرہی ہے کہ بعض کم فہم لوگ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو اسلام کے عروج و زوال سے جوڑ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، مسلمان کا ماضی اگر سیاسی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے تاب ناک تھا تو اسلام عروج پر تھا۔ اور آج مسلمان سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر بدحالی کا شکار ہیں تو یہ اسلام کے زوال اور اس کی ناکامی کی علامت ہے۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو اگرچہ اسلام دشمن قوتوں نے پھیلائی ہے، لیکن اسلام پسند طبقہ بھی بعض اوقات اس رَو میں بہہ کرا س قسم کی باتیں کرجاتا ہے کہ کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام تو ایک ضابطہٴ حیات اور سسٹم ہے، جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سنوارنے اور موت کے بعد کی ابدی کامیابی دینے کی حکمت عملی فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف مسلمان ان افراد کا مجموعہ ہیں جو اسلام کو دین حق مانتے اور اسے دُنیا و آخرت کی کامیابی و فلاح کے لیے واحد اور موثر نظام تسلیم کرتے ہیں۔ پھر اس نظام میں بعض چیزیں مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں (موت سے پہلی کی زندگی) اور بعض چیزیں اخروی زندگی (موت کے بعد کی زندگی) سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس بنا پر جو قوم بھی اس نظام پر یقین رکھے گی اور عمل کرے گی، عروج حاصل کرے گی، یعنی کامیاب ہوگی، اور جو قوم اس پریقین نہیں رکھے گی اور عمل نہیں کرے گی، زوال پذیر ہوجائے گی۔ اور اس عروج و زوال کا تعلق موت سے پہلے اور موت کے بعد کی دونوں زندگیوں سے ہے۔
تاہم اسلام کسی قوم کا یا کسی ایک نسل کا مذہب نہیں ۔ اسلام کی دعوت ہر جیتے جاگتے انسان کے لیے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نسل و قومیت کے پرستاروں اور اپنی قوم کو دوسری قوموں سے برتر سمجھنے والوں کے برخلاف اس حقیقت کا اعلان فرمایا کہ اس دنیا میں کامیابی اور کامرانی کسی ایک قوم کی میراث نہیں اور نہ جسم و دماغ، عقل و ادراک، فہم و فراست، شرافت و نجابت اور جواں مردی اور شجاعت کے فطری عطیے کسی نسل کے ساتھ مخصوص ہیں۔ نیز خدا کی بخشش اور مغفرت بھی کسی خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ معاملہ اس دنیا کا ہو یا آنے والی دنیا کا، ہر شے ایک ضابطے اور قانون کی پابند ہے۔
آج مسلمان جس زوال پذیر کیفیت سے گزر رہے ہیں، اس کے اسباب میں ایک غلط فہمی یہ بھی شامل رہی ہے کہ گزشتہ چند نسلوں میں یہ زعم پیدا ہوگیا کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں، اس لیے ہم خدا کے مقرب ہیں اور دنیا کی وجاہت ہمارا ہی مقدر ہے۔ یہ وہی غلط فہمی ہے جو یہود و نصاریٰ میں پیدا ہوئی اور پھر وہ خدا کے عتاب کا شکار ہوئے۔ مسلمانوں میں اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے اسلام کو عملاً اپنی زندگی سے خارج کردیا۔ اور پھر آج ہم اسی غلط فہمی کی بہ دولت ناکامی اور ندامت کا منھ دیکھ رہے ہیں۔
اسلام وہی ہے جو آج سے چودہ سو برس پہلے تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس دور کے مسلمانوں نے اسلام کو صرف زبان ہی سے تسلیم نہیں کیا تھا، صدقِ دل سے اس پر عمل بھی کیا تھا۔ آج ہم زبان سے بھی تسلیم کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اور عمل سے تو بالکل بے نیاز ہیں ہی۔ تو پھر اللہ کا نظام اپنے اثرات کیوں کر پیدا کرے گا؟

Flag Counter