Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 16
***
مولانا سعید احمد جلال پوری .... حیات وخدمات
مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی
مولانا سعید احمد جلال پوری جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقہ جلال پور پیروالا کے مضافاتی قصبے نوراجہ بھٹہ میں 1965ء میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والدمحترم جام شوق محمد  قدوة السالکین، ولی کامل، حضرت اقدس سیدنا، مولانا محمد عبدالله بہلوی نورالله مرقدہ کے مریدین ومسترشدین حضرت حافظ محمد موسیٰ نقش بندی کے خلفا میں سے تھے، بچپن سے ہی الله کا ذکر رگ وریشہ میں جاری و ساری تھا۔
ابتدائی تعلیم
گھر کے قریب مولانا عطاء الرحمن او رمولانا غلام فرید سے حاصل کی ۔ جامعہ انواریہ طاہر والی، امام العصر، علامہ انور شاہ کشمیری کے شاگرد رشید حضرت مولانا حبیب الله گمانوی اور ان کے زیر سایہ منطق کے بہت بڑے عالم مولانا محمد منظور نعمانی سے جامعہ انواریہ طاہر والی سے علوم عقلیہ ونقلیہ کی تعلیم حاصل کی۔
ظاہر پیر میں جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا منظور احمد نعمانی مدظلہ سے کچھ عرصہ پڑھتے رہے ۔1974ء کی تحریک ختم نبوت کا سال ظاہر پیر ضلع رحیم یار خان میں گزار ا،1976ء میں جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں شیخ الاسلام، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ، مفتی اعظم پاکستان، مفتی ولی حسن ٹونکی  ، مولانا سید مصباح الله شاہ ، مولانا محمد ادریس میرٹھی  ، مولانا فضل محمد سواتی  جیسی نابغہ روز گار شخصیات سے کسب فیض کیا۔1977ء میں علوم اسلامیہ کی آخری ڈگری دورہٴ حدیث شریف کی سند جامعہ بنوری ٹاؤن سے حاصل کی ۔ کراچی بورڈ سے میٹرک اور ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
کراچی میں آکر شہید ختم نبوت حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔ حضرت کے مرید ومعاون کی حیثیت سے حضرت والا کے ساتھ رہ کر ان کے رنگ میں رنگ گئے ۔ حضرت لدھیانوی جامعہ بنوری ٹاؤن سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر جامع مسجد باب رحمت منتقل ہو گئے تو مولانا جلال پوری نے بھی اپنے شیخ کے ساتھ دفتر میں ڈیرے ڈال دیے۔ حضرت لدھیانوی شہید کے بعد یکے بعد دیگرے مولانا مفتی نظام الدین شامزی، مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید کر دیے گئے تو مولانا جلال پوری مجلس کراچی کے امیر اور دفتر کے انچارج بنا دیے گئے۔
موصوف اپنے شیخ کی طرح بیک وقت تقریر وتحریر کے دھنی تھے، اس طرح محسوس ہوتا تھا کہ شیخ کی نسبت ان کی طرف منتقل ہو گئی ہے ۔ صرف شیخ لدھیانوی کی نسبت کا انتقال ہی نہیں ہوا، بلکہ مفتی جمیل خان کے تمام شعبہ جات بھی ان کی طرف منتقل ہو گئے، آپ بیک وقت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی شوریٰ کے رکن ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے امیر ، ماہنامہ بینات کراچی کے ایڈیٹر، اقرأ روضة الاطفال ٹرسٹ کے زعیم، کئی ایک دینی اداروں کے سرپرست بنا دیے گئے ، کراچی شہر کی کئی ایک مساجد میں ان کے اصلاحی درس ہونے لگے ، ٹیلی فون کے ذریعہ او ربالمشافہ درجنوں لوگ اپنے دینی مسائل کا حل ان سے پوچھتے اور وہ لوگوں کے ٹیڑھے میڑھے سوالوں کے جوابات خندہ پیشانی سے دیتے۔ حضرت لدھیانوی شہید نے جو جو کام شروع کیے ہوئے تھے، سب کام اپنی نگرانی میں لے لیے، حضرت کا شعبہ تصنیف وتالیف ، آپ کے مسائل او ران کا حل جو دس جلدوں میں شائع ہوئی کی تخریج شروع کی ، حضرت لدھیانوی کے اصلاحی خطبات کی ترتیب وتدوین اور تخریج، حضرت کے قائم کردہ مکتبہ لدھیانوی کی نگرانی و سرپرستی، روزنامہ جنگ کراچی کے اسلامی صفحہ اقرأ میں ” آپ کے مسائل او ران کاحل“ کے عنوان سے کالم نگاری، نئے نئے فتنوں کا توڑاو ر رد،، ہفت روزہ ختم نبوت کا اداریہ ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا لٹریچر مرتب فرماتے، کمپوزنگ کرواکر طباعت کی نگرانی فرماتے، مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید  کے قائم کردہ حج گروپ کی نگرانی وسرپرستی اور ہر سال سفر حج کی سعادت ، اقرأ روضة الاطفال ٹرسٹ کے نظام کی نگرانی وسرپرستی۔
زید حامد کا فتنہ اور اس کا تعاقب
گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں یوسف علی نامی ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا، کراچی میں ابوبکر محمد علی کے گھر کے ایک کمرہ کو غار حرا قرار دیا اور لاہور کی مسجد بیت الرضا میں جمعة المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
”یہ اجتماع بہت مبارک ہے کہ آج کم از کم یہاں اس محفل میں 100 صحابہ موجود ہیں اور ان میں دو کا تعارف بحیثیت صحابی کرایا۔ ان میں ایک کا نام زید زمان تھا ( جو آج کل زید حامد کے نام سے مختلف تعلیمی اداروں اور مختلف ٹی وی چینلز پر لیکچر دیتا ہے ) اسے کذاب نے بلا کر بحیثیت صحابی کے متعارف کرایا او رکہا کہ ہم نے انہیں حقیقت عطا کر دی ہے ۔“
جلال پوری صاحب خود لکھتے ہیں:
اس پروگرام کی ویڈیو اور آڈیو تیار ہوئی، جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت لاہور کے دفتر میں راقم الحروف کے پاس پہنچی۔ راقم الحروف نے ویڈیو دیکھی اورآڈیو سنی اور مختلف مسالک کے علمائے کرام سے مشاورت ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی قیادت کی ہدایت پر ایس ایس پی لاہور کو مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی ، موصوف نے قانونی رائے طلب کرنے کے لیے لیگل ڈی ایس پی کو مارک کی ، ڈی ایس پی نے قانونی رائے دی کہ درج ذیل دفعات کے تحت اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے ۔ چناں چہ دفعہ نمبر295 اے سی، دفعہ نمبر298 اے، دفعہ505۔ ایف، دفعہ نمبر420,508,406 پی، پی، سی اور حدود آرڈی نینس نمبرVII مجریہ،1979ء کی زنا سے متعلق دفعہ نمبر10 کے تحت تھانہ ملت پارک لاہور میں ایف آئی آر نمبر70/97 مورخہ29 مارچ1997ء کو درج ہوئی۔ جج نے کیس کی مکمل سماعت کے بعد سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ نیز سیشن جج صاحب نے لکھا:
”2 ۔ملزم کو مجرم قرار دے کر سزائے موت اور پانچ ہزار روپے کے جرمانہ کی سزا دی جاتی ہے ، عدام ادائیگی جرمانہ کی صورت میں مزید چھے ماہ قید ہو گی، اسے گردن میں پھندا ڈال کر اس وقت تک لٹکایا جائے، جب تک وہ مرنہ جائے ، یہ سزا لاہور ہائی کورٹ کی توثیق کے تابع ہے، نیز کورٹ نے مختلف دفعات کے تحت دیگر سزائیں سنائیں، یہ فیصلہ5 اگست2000ء کو سنایا گیا۔“
اس تمام کیس کی سماعت کے دوران زید زمان عرف زید حامد عدالت میں کذاب کے ساتھ پیش ہوتا رہا، فیصلہ کے بعد اس کی رہائی کے لیے سرگرداں رہا، جیل میں ایک نوجوان نے اس کا قصہ تمام کر دیا اور اسے اسلام آباد میں مسلمانوں کے سب سے بڑے قبرستانH-8 میں دفن کر دیا گیا، علمائے کرام کے احتجاج پر اس کی لاش کو مسلمانوں کے قبرستان سے نکالا گیا اور اس کو غالباً عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا تو زید حامد پس منظر میں چلا گیا۔ ابھی چند ماہ سے اس نے پر پرزے نکالنے شروع کیے تو مولانا جلال پوری نے اسے آڑے ہاتھوں لیا او راس کے خلاف ” راہبر کے روپ میں راہزن“ نامی پمفلٹ لکھا اور اسے کتابی شکل میں شائع کر دیا، جس کی تقسیم کے بعد زید حامد کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی اور مولانا کو مسیج اور دھمکی آمیز فون آنے لگے۔
زید حامد گروپ کی طرف سے دھمکی آمیزفون
مولانا جلال پوری کے احتساب پر زید حامد اور اس کے پیروکار تڑپ اٹھے تو زید حامد کے فون نمبر0321-5181388 او راس کے قریبی ساتھ ڈاکٹر حماد یا عمار کے فون نمبر0321-5001378 سے دھمکی آمیز فون آنے لگے۔ مولانا جلال پوری و ران کے قریبی ساتھی مفتی فخر الزمان نے اس کا تذکرہ اپنے ساتھیوں سے بھی کیا، آخری بار انہوں نے مولانا کو مباہلے کا چیلنج بھی دیا۔ ڈاکٹر نے دھمکی آمیز لہجہ میں کہا:
” میں اٹک سے بول رہا ہوں، آپ زید حامد کو تنگ کرنا چھوڑ دیں یا ان کے ساتھ مباہلہ کریں اور وہ جھوٹا نکلا تو ہم اس کو گولی مار دیں گے او راگر آپ جھوٹے نکلے تو آپ کو سر پر گولی مار دیں گے۔“
اسی طرح مختلف اوقات میں انہیں دھمکیاں ملتی رہیں، لیکن اس مرد قلندر نے اپنا کام نہ چھوڑا، وہ سمجھتے تھے کہ ہماری موت ہماری زندگی کی محافظ ؟ قبل از وقت دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نہیں مارسکتی۔
11 مارچ کو بندہ پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین کے تبلیغی پروگرام سے فارغ ہو کر گوجرانوالہ آرہا تھا تو مولانا جلال پوری کا آخری فون آیا، مولانا نے فرمایا کہ بھائی زید حامد مناظرے اور مباہلے کے چیلنج دے رہا ہے ۔ اسے قبول کرنا چاہیے یا بے لگام چھوڑ دینا چاہیے ؟ بندہ نے عرض کیا ضرور قبول کرنا چاہیے تو مولانا نے ایک عبارت پڑھ کر سنائی کہ اشتہار کی صورت میں روزنامہ اسلام میں چھپوا دیں۔ بندہ نے کہا ضرور۔ تو درج ذیل اشتہار روزنامہ اسلام14 مارچ2010ء کی تاریخ میں شائع ہوا۔
زید حامد کو کھلا چیلنج
یوسف کذاب مدعی نبوت تھا، لاہور کی سیشن عدالت نے اس کی اپنی کیسٹوں، تحریروں اور گواہوں کی شہادت پر اس کو سزائے موت سنائی اور وہ جیل میں قتل ہو گیا۔
زید حامد چوں کہ اس کا خلیفہ او رصحابی ہے ، اس لیے وہ یوسف کذاب کو مظلوم اور سچا مسلمان مانتا ہے ، ہم کہتے ہیں جس طرح یوسف کذاب جھوٹا تھا، اسی طرح زید حامد بھی اس کے عقائد ونظریات کا حامل ہونے کی بنا پر جھوٹا ہے۔ مگر زید حامد اب تک اس کا انکار کرتا آیا ہے، ہم نے ڈیڑھ سال پہلے بھی اس کو چیلنج دیا تھا، آج پھر اس کو دہراتے ہیں کہ وہ جہاں چاہے ہم اس کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں ، اگر اس نے ان عقائد سے توبہ نہ کی تو ہم اس کے خلاف بھی اسی طرح قانونی کارروائی کریں گے جس طرح یوسف کذاب کے خلاف کی تھی ، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس سے بچیں۔
مولانا الله وسایا مولانا محمد اکرم طوفانی
مولانا سعید احمد جلال پوری مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنماؤں نے انہیں وجوہات کی بنا پر زید حامد اور اس کے ساتھی حماد یا عمار کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی ہے او رتمام ثبوت فراہم کر دے ہیں ، اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مولانا کے نام زد قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے ان کے خلاف کارروائی کرے۔
مولانا جلال پوری سے میری یہ آخری ٹیلی فونک ملاقات تھی، اسی شب گوجرانوالہ کے علاقہ گرجاکھ کی فاروقیہ مسجد میں ختم نبوت کانفرنس تھی کہ اس دوران بندہ کو کسی ساتھی نے مولانا کی شہادت کی خبر دی۔ انا لله وانا الیہ راجعون۔
مولانا سے ذاتی وجماعتی تعلق
مولانا سے جماعتی تعلق تو تھا ہی کہ مولانا مجلس کراچی کے امیر او ر مرکزی شوریٰ کے رکن تھے۔ ہم علاقہ ہونے کی وجہ سے مولانا بہت شفقت فرماتے، مولانا جلال پوری جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کی شوریٰ کے رکن تھے ، جب بھی تشریف لاتے تو بندہ کے مدرسہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے ضرور مشرف فرماتے، چناں چہ آج سے چھ سال قبل جامعہ فاروقیہ، شجاع آباد تشریف لائے تو بندہ نے چائے کی دعوت دی ، مولانا نے قبول فرمائی او رجلال پور جاتے ہوئے چند منٹ مدرسہ تعلیم القرآن صدیقیہ صدیق آباد بستی مٹھو میں ٹھہرے، بندہ نے عرض کی کہ مدرسہ اور مسجد کا سنگ بنیاد آپ کے شیخ حضرت لدھیانوی نے رکھا اور فرمایا کہ مفتی محمد جمیل خان کو مل لیں، وہ کوئی انتظام کر دیں گے ، وہ انتظام نہ کر سکیکہ شہید ہو گئے دیکھیے! اگر آپ نے انتظام نہ فرمایا تو شہادت کے لیے تیار رہیں ۔ مولانا نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ شہادت بھی قبول ہے، بلکہ سعادت ہے ، لیکن مسجد کا انتظام ہو جائے گا تو مولانا نے دو لاکھ روپے بھجوا دیے، الحمدلله! مسجد کی چھت بھی پڑ گئی اور برآمدہ بھی چھت تک پہنچ گیا، پھر ایک مرتبہ وہاں سے گزر رہے تھے تو مسجد کے اندر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ برآمدہ کی چھت کیوں نہیں ڈلوائی؟ بندہ نے کہا کہ آپ کی نظر کرم کی منتظر ہے ، ہنس کر فرمانے لگے کہ جس طرح الله پاک کو منظور ہو گا۔ بہرحال وقتاً فوقتاً فون کرکے خیر وعافیت معلوم فرماتے او رکوئی کام ہوتا تو اس کا بھی فرما دیتے ، کبھی کبھی بندہ بھی خیروعافیت معلوم کر لیتا۔
تصنیف وتالیف
مولانا جلال پوری نے قومی اخبارات، رسائل وجرائد میں فِرق باطلہ کے خلاف بے شمار مضامین لکھے، نیز ان کے قلم سے کئی ضخیم کتابیں بھی معرض وجود میں آئیں۔
اصلاحی تعلق
آپ نے اپنا اصلاحی تعلق مرشد العلماء حضرت اقدس مولانا محمد عبدالله بہلوی سے قائم کیا۔ حضرت کی وفات کے بعد آپ کراچی آگئے اور حضرت لدھیانوی سے تعلق جوڑا اور حضرت نے انہیں خلافت سے سر فراز فرمایا، امام اہلسنت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے بھی خلافت عطا فرمائی۔ آخر میں آپ نے قائد تحریک ختم نبوت حضرت اقدس مولانا خان محمد مدظلہ کے دست حق پرست پر تجدید بیعت فرمائی۔ غرضیکہ مولانا جلال پوری کی دلآویز یادیں مدتوں تازہ رہیں گی #
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہم عہد کرتے ہیں ان کے مشن کو ان شاء الله العزیز زندہ وتابندہ رکھیں گے او رتحریر وتقریر کے ذریعے باطل کا تعاقب او رحق کا دفاع کرتے رہیں گے۔ الله پاک اس عہد پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین

Flag Counter