Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

12 - 16
***
شرعی پردہ کیا ہے؟
مفتی عبدالرحمن، کراچی
پردے کے ضروری ہونے کی وجہ
الله تعالیٰ نے زنا اور بد کاری کو حرام فرمایا ہے تو ان کے مقدمات ودواعی کو بھی حرام فرمایا ہے جن میں سے بنیادی چیز بے پردگی اور بدنظری ہے۔ چوں کہ الله تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں نفسانی خواہشات اور جذبات رکھے ہیں، جن پر ہیجان کے وقت قابو پانا مشکل، بلکہ تقریباً ناممکن ہوتا ہے او راس ہیجان کے مضر اثرات اور خرابیوں سے بچانے کے لیے بے پردگی، بدنظری اورمردوں اور عورتوں کے اختلاط ( میل جول) سے روکنا بہت ضروری ہے اور معاشرے میں خرابی جب ہی پیدا ہوتی ہے کہ جب پردے میں ڈھیل اور مردوں وعورتوں کا اختلاط (میل جول) عام ہوتا ہے۔ اس بے حجابی او ربے پردگی کے تباہ کن اثرات انسان کی روحانیت اور اخلاق وکردار کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں، چناں چہ شریعت مقدسہ نے اس تباہی وبربادی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے ایمان والوں کو پردے کے متعلق بہت سے مفید احکامات صادر فرمائے ہیں، جن احکامات سے مقصود یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کو بے پردگی، بدنظری او رگندے خیالات او رپھر ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مہلک ومفسد گناہوں سے بچایا جاسکے۔
انسان میں شہوت ( نفسانی خواہش) ہے اور شہوت اس سے الگ نہیں ہو سکتی۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ بھوکے کتے کے آگے روٹیاں رکھ دی جائیں اور پھر امید رکھی جائے کہ اس کتے کے دل میں ان روٹیوں کا خیال بھی نہ آئے ، اسی وجہ سے شریعت نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا ہے کہ اس کے ذریعے سے مردوں کی آنکھیں، دل اور خیالات پاک رہیں ورنہ کسی عورت کی عصمت محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ ( المصالح العقلیہ للأحکام النقلیہ ص375)
پردے کے تفصیلی احکام سے پہلے ہم محرم اور نامحرم کا فرق سمجھا دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ تاکہ آگے آنے والے مضامین( جن میں محرم اور نامحرم کا تذکرہ با ربار آئے گا) سمجھنے میں آسانی ہو۔
پردے کا اصول
جو رشتہ دار عورت کے لیے محرم ہیں ان سے پردہ نہیں اور جو نامحرم ہیں ان سے پردہ فرض ہے ۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ جس شخص کے ساتھ جس عورت کا نکاح شرعاً کبھی بھی نہ ہو سکتا ہو ، یعنی جو عورت جس شخص پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو ، اس عورت کے لیے وہ شخص محرم ہے اور اس سے پردہ نہیں ہے اور جس شخص سے کبھی بھی نکاح ہو سکتا ہو ، وہ نامحرم ہے اور اس سے پردہ فرض ہے ۔ اب رشتہ داروں میں کون سے محرم ہیں ، جن سے پردہ نہیں اور کون نامحرم ہیں ، جن سے پردہ ہے اس کی ایک مختصر فہرست درج ذیل ہے۔
جن لوگوں سے پردہ ہے
جو لوگ عورت کے لیے نامحرم ہیں او رجن سے پردہ فرض ہے، وہ یہ ہیں:
خالہ زاد، مامو ں زاد ، چچا زاد، پھوپی زاد ( یعنی پھوپھی کے بیٹے)، دیور، جیٹھ، بہنوئی، نندوئی، خالو، پھوپھا، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا خالو، شوہر کا بھتیجا، شوہر کا بھانجا، اس طرح ہر وہ شخص جس سے کسی بھی وقت نکاح کرنا جائز ہو، ان سب سے عورت کے لیے مکمل پردہ کرنا ضروری ہے۔
جن لوگوں سے پردہ نہیں ہے
جو لوگ عورت کے لیے محرم ہیں او رجن سے پردہ نہیں ہے وہ یہ ہیں: شوہر، ( لیکن اگر شوہر نے طلاق دے دی تو پھر بیوی کے لیے شوہر نامحرم ہو جائے گا اور شوہر سے پردہ کرنا فرض ہو جائے گا ) باپ، دادا، نانا، چچا، ماموں، سسر، بیٹا، پوتا، نواسہ، شوہر کا بٹیا ( جو شوہر کی کسی دوسری بیوی کا ہو )، داماد ، بھائی ، ماں شریک بھائی، (یعنی جن بھائیوں کی ماں ایک ہی ہو، مگر باپ الگ الگ ہوں) باپ شریک بھائی ، ( جن بھائیوں کا باپ ایک ہی ہو، مگر ماں الگ الگ ہو ، یعنی باپ نے دو شادیاں کی ہوں ) بھتیجا، بھانجا، اس طرح ہر وہ شخص جس سے کسی بھی وقت نکاح کرنا حرام (ناجائز) ہو ، نیز ایسے مدہوش جن کو عورتوں کے بارے میں کچھ علم نہ ہو یا ایسے چھوٹے بچے ( دس سال سے کم )، جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات وصفات اور حرکات وسکنات سے بالکل بے خبر ہوں، ان سے پردہ نہیں ۔
”البتہ جو لڑکا ان امور سے دلچسپی لیتا ہو وہ مراھق یعنی قریب البلوغ ہے اس سے پردہ واجب۔“ (ابن کثیر،6/405، بحوالہ معارف القرآن)
الله تعالیٰ نے سورة النساء کی آیت 23 میں ان عورتوں کی تفصیل بتائی ہے جن سے نکاح حرام ہے، یعنی جو محرم ہیں۔ ( 1) ماں ( دادی اور نانی بھی اس میں داخل ہے) ۔ (2) بیٹی ( پوتی اور نواسی بھی اس میں داخل ہے )۔ (3) بہن۔ (4) پھوپھی۔ (5) خالہ۔ (6) بھتیجی۔ (7) بھانجی۔ (8) رضاعی ماں ( یعنی جس عورت کا دودھ پیا ہو )۔ (9) رضاعی بہن ( یعنی رضاعی ماں کی بیٹی) اس میں دوسرے رضاعی رشتے بھی داخل ہیں، مثلاً رضاعی بھتیجی، بھانجی، پھوپھی، خالہ وغیرہ۔ (10)ساس (11) بیوی کی بیٹی (یعنی جو بیوی کے کسی پہلے شوہر سے ہوئی ہو ) بشرطیکہ بیوی سے صحبت بھی کی ہو ۔ اگر کسی عورت سے نکاح کیا، مگر اس سے صحبت نہیں کی، صحبت سے پہلے وہ مر گئی یا اس کو طلاق دے دی تو اس کی بیٹی حرام نہیں ( یعنی اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے)۔ (12) بہو۔ (13) دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا، یعنی سالی اس وقت تک حرام ہے جب تک اس کی بہن نکاح میں ہو ۔ بیوی کی موت کے بعد اس کی بہن حلال ہے۔ مقصدیہ ہے کہ سالی ہمیشہ کے لیے حرام نہیں، ایک اور قسم بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہے، جس کا بیان اس آیت سے پہلے آیت 22 میں ہے، یعنی باپ کی بیوی ( سوتیلی ماں) ۔کل تیرہ ہو گئیں، ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کبھی بھی نکاح نہیں ہو سکتا۔
اسلام اور عقل دونوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہپردہ صرف ایسی عورت سے نہیں جو ہمیشہ کے لیے حرام ہوا اور کسی صورت میں بھی اس سے نکاح نہ ہو سکتا ہو اور ہر وہ عورت جس سے کسی وقت بھی نکاح کا امکان ( اُمید) ہو۔ اس سے پردہ فرض ہے اور وہ غیر محرم ہے مثلاً سالی ، چچی، تائی ، ممانی، بھابھی وغیرہ ان سیپردہ فرض ہے اور وہ غیر محرم ہیں ۔ اس لیے سمجھ لیں کہ قرآن کریم میں جو تیرہ 13 قسم کی عورتوں کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے اس کے سوا ہر عورت سے نکاح صحیح ہے۔
چناں چہ محرمات کی تفصیل بیان فرمانے کہ بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿واحل لکم ماوراء ذلکم﴾․ ( سورة النساء آیت:24)، ان محرمات کے علاوہ باقی سب عورتیں حلال ہیں( یعنی غیر محرم ہیں) ،اس لیے ان پر پردہ فرض ہے۔
محرم مردوں کے سامنے جسم کا کتنا حصہ کھولا جاسکتا ہے؟
مذکورہ بالا ان افراد میں سے شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے پورے جسم کو شہوت اور بغیر شہوت دونوں طرح دیکھ سکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں ۔ شوہر کے علاوہ دیگر محارم کے سامنے مثلاً باپ، بھائی، بیٹا، بھتیجا وغیرہ جتنے بھی محارم ہیں سب کے سامنے چہرہ، سر، بال، گردن ، بازو اور گھٹنے سے نیچے کا حصہ کھو لا جاسکتا ہے، مثلاً فرش دھوتے وقت پائنچے اوپر چڑھا لینایا آٹا گوندھتے وقت آستین ( کف) اوپر کر لینا وغیرہ ۔ اور محرم رشتہ دار بھی عورت کے مذکورہ بالا حصوں کو بغیر شہوت کے دیکھ اور چھو سکتے ہیں او راگر فتنہ کا خطرہ ہو تو محرم کے سامنے بھی ان اعضا کو کھولنا جائز نہیں ۔ اگر کوئی محرم ایسا بے حیا ہو کہ اس کو عزت اور ناموس کی پروانہ ہو ۔ وہ نامحرم کے حکم میں ہے اور اس سے پردہ ہی کرنا چاہیے۔
اور جن اعضا کو محرم کے سامنے کھولنا جائز ہے اسی حد تک دیگر عورتوں کے سامنے کھولنا بھی جائز ہے ، یعنی عورت کے لیے عورت کے سامنے گھٹنے سے نیچے کا حصہ اور سینے سے اوپر کا حصہ ، سر، چہرہ، بازو اور ہاتھ وغیرہ کھولنا جائز ہے ( یعنی اگر ظاہر ہوجائیں تو جائز ہے )، مگر عورت کے سامنے بھی پیٹ ، پیٹھ ، کا کھولنا جائز نہیں۔
ناف سے لے کر گھٹنوں کے ختم تک کے حصے کو کسی بھی مرد کو کسی مرد کے سامنے کھولنا (ظاہر کرنا) جائز نہیں، اسی طرح کس بھی مرد کو کسی مرد کے ناف سے لے کر گھٹنوں کے ختم تک کے حصے کو دیکھنا جائز نہیں۔ ماخوذ از:(ہدایہ ج4، ص:106)
مسئلہ: ” جتنی جگہ میں نظر کا پردہ ہے اتنی جگہ کو چھونا بھی درست نہیں ہے، چاہے کپڑے کے اندر ہاتھ ڈال کر ہی کیوں نہ ہو ۔“
جو عورت بڑی بوڑھی ایسی ہو جائے کہ نہ اس کی طرف کسی کو رغبت ہو نہ وہ نکاح کے قابل ہو تو اس کے لیے پردہ کے احکام میں یہ سہولت دی گئی کہ غیر محرم بھی اس کے حق میں مثل محارم ( محرم کے حکم میں ) ہو جاتے ہیں، مگر ایسی بڑی بوڑھی عورت کے لیے بھی ایک قید تو یہ ہے کہ جو اعضا محرم کے سامنے کھولے جائیں ، یہ عورت غیر محرم کے سامنے بھی کھول سکتی ہے ۔ بشرطیکہ بن سنور کر زینت کرکے نہ بیٹھے، البتہ اگر وہ غیر محرموں کے سامنے آنے سے بالکل ہی بچیں تویہ ان کے لیے بہتر ہے۔
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایسی بوڑھی عورتوں کو اجازت ہے کہ وہ برقع اور چادر اتار دیا کریں، صرف دو پٹے اور کرتے پاجامے میں رہیں۔ (ماخوذ از کتاب: عورت کے لباس اور پردہ کے شرعی احکام ، از مفتی کمال الدین احمد راشدی)
پردہ کرنے کے فائدے اور نہ کرنے کے نقصانات
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو شخص دل کی چاہت کے باوجود اپنی نظر پھیر لے ( جس کو دیکھنا جائزنہیں اسے نہ دیکھے ) تو الله تعالیٰ اس کے بدلے اس کو ایسا پختہ ایمان دیں گے جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (ابن کثیر)
صحیح مسلم میں حضرت جریر بن عبدالله بجلی رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا: اگر بلا ارادہ (بغیر ارادے کے ) اچانک کسی غیر محرم عورت پر نظر پڑ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اپنی نظر اس طرف سے پھیر لو۔ ( ابن کثیر)
حضرت علی کرم الله وجہہ کی حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ پہلی نظر تو معاف ہے ۔ دوسری گناہ ہے ۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پہلی نظر جو بغیر ارادہ کے اچانک پڑ جائے وہ غیر اختیار ی ہونے کی وجہ سے معاف ہے۔ ورنہ بالقصد (ارادہ سے ) پہلی نظر بھی معاف نہیں۔ (ترمذی)
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ اے ابن آدم! پہلی بار دیکھنا ( غیر ارادی) تیرے لیے معاف ہے، لیکن دوبارہ دیکھنے سے بچتا رہ، ورنہ وہ تیرے لیے ہلاکت کا موجب بنے گا۔ (ماخوذاز: جوانی کو ضائع کرنے کے نقصانات، از :ارسلان بن اختر میمن)
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله علیہ نے بدنظری کی بیماری اور نظر کو غلط استعمال کرنے کی بیماری ، نامحرموں پر لذت ( نفسانی خواہش ) کی نظر سے دیکھنے کی بیماری کی شدت اور خطرناکی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یہ شر ایسا ہے کہ اپنے اثر سے تمام طاعات (عبادات) کے انوار کو تاریک کر دیتا ہے ۔“ (انفاس عیسیٰ ص:143)
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب بدنظری او راس کا علاج نامی رسالہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جس دن کوئی شخص بد نظری کے گناہ میں مبتلا ہو گا اس دن اس کی طاعات (عبادا ت، نیکیوں وغیرہ) میں نور نہیں ہو گا او راس طاعت کے دنیوی فائدے اس کو حاصل نہیں ہوں گے ۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ” جو بد نظری کرے اس پر بھی الله تعالیٰ کی لعنت ہو اور جو بد نظری کے لیے اپنے کو پیش کرے، اپنا حُسن دوسروں کو دکھائے اس پر بھی الله کی لعنت ہو۔ ( مشکوٰة ص:270)
(اولیاء کی بد دعا سے ڈرنے والے سید الانبیا صلی الله علیہ وسلم کی بد دعا سے ڈریں۔)
اگر بد نظری معمولی جرم ہوتا تو سرور عالم صلی الله علیہ وسلم رحمة للعالمین ہو کر ایسی بد دعا نہ فرماتے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا بد دعا دینا دلیل ہے کہ یہ فعل انتہائی مبغوض ہے اور لعنت کے معنی ہیں: ” الله تعالیٰ کی رحمت سے دوری۔“
امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں لعنت کے معنی لکھے ہیں ” البعد عن الرحمة“ پس جو شخص الله تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو گیا وہ نفس امارہ کے شر سے نہیں بچ سکتا، کیوں کہ نفس کے شر سے وہی بچ سکتا ہے جو الله تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں ہو۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”بدنظری آنکھ کا زنا ہے۔“ (رواہ البخاری ومسلم)
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے : ” بروز قیامت ہر آنکھ روئے گی، مگر ( سوائے اس کے ) جو بد نظری سے بچی ہو اور جو الله عزوجل کی راہ میں جاگی اور جس سے الله تعالیٰ کے خوف سے مکھی کے سر کے برابر آنسو نکلا۔“ (رواہ الاصبہانی بحوالہ الترغیب والترہیب)
ایک شخص چلتے چلتے کسی عورت کو دیکھ رہا تھا ، سامنے دیوار سے ٹکر لگی، ناک ٹوٹ گئی، اس نے کہا : الله کی قسم ! میں اس وقت تک خون نہیں دھوؤں گا جب تک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنا یہ قصہ نہیں بتا لیتا ، چناں چہ اس نے حاضر خدمت ہو کر اپنا قصہ بتایا تو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیرے گناہ کی سزا ہے۔ ( درمنثور، روح المعانی)
جس طرح مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نامحرم عورتوں کو دیکھنے سے پرہیز کریں ، اسی طرح عورتوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ نامحرم مردوں کو دیکھنے سے پرہیز کریں۔ (ماخذہ، حدیث عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا وام سلمہ رضی الله عنہارواھما ترمذی، ابوداؤد)
اس بارے میں اہم وضاحت یہ ہے کہ جب عورت کو یقین ہو کہ اگر میں اجنبی شخص کو دیکھوں تو شہوت ( نفسانی خواہش) نہیں آئے گی تو اس صورت میں دیکھنا جائز ہے، لیکن اگر شہوت آنے کا یقین ہو ، یا خطرہ ہو یا شک بھی ہو تو ان صورتوں میں دیکھنا جائز نہیں۔ (معارف القرآن ج6 ص400)
حضرت مولانا حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم کے شیخ اول حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمة الله علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہرے بھرے درخت کے پاس آگ جلا دو تو اس کے تروتازہ پتے مرجھا جاتے ہیں اور دوبارہ بہت مشکل سے ہرے بھرے ہوتے ہیں ، سال بھر کھاد، پانی دو تب کہیں جاکر دوبارہ زندگی آتی ہے، اسی طرح ذکر وعبادت اور الله والوں کی صحبت سے دل میں جوانوار پیدا ہوئے۔ اگر ایک بد نظری کر لی تو باطن کا ستیاناس ہو جاتا ہے، دل میں ایمانی حلاوت اور ذکر الله کے انوار بحال ہونے میں بہت وقت لگتا ہے ۔ بدنگاہی کی ظلمت بہت مشکل سے دور ہوتی ہے، بہت توبہ واستغفار، گریہ وزاری او رباربار حفاظت نظر کے اہتمام کے بعد کہیں دوبارہ دل کو حیات ایمانی ملتی ہے ۔ ( بحوالہ: بدنظری وعشق مجازی کی تباہ کاریاں او راس کا علاج از مولانا حکیم اختر صاحب)
علامہ ابن کثیر رحمة الله علیہ نے لکھا ہے کہ بہت سے اسلاف امت کسی امرد لڑکے ( جس کی ڈاڑھی ابھی نہ آئی ہو) کی طرف دیکھتے رہنے سے بھی بڑی سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے اور بہت سے علما نے اس کو حرام قرار دیا ہے ( غالباً یہ اس صورت میں ہے جب کہ بری نیت اور نفس کی خواہش کے ساتھ نظرکی جائے۔ والله اعلم)
( معارف القرآن ج2)
مفتی رشید احمد صاحب رحمة الله علیہ کی مشہور زمانہ کتاب ” شرعی پردہ“ کے صفحہ”24“ میں لکھا ہے ” میں بتا تا رہتا ہوں کہ جب انسان باہر نکلتا ہے تو اگر کسی ناجائز چیز دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اس نے الله تعالیٰ کے خوف سے نظر نیچی کر لی تو یہ اتنا بڑا مقام ہے اور اس سے انسان الله تعالیٰ کے اتنے قریب ہوتا ہے کہ ہزاروں سال کے نوافل سے یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا، جب ایک گناہ چھوڑنے پر او رگناہ کے تقاضے ( چاہت) کے وقت اس سے بچ جانے پر اتنا بڑا مقام حاصل ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرنے کی فکر ہونی چاہیے ۔
امام ابونعیم اصفہانی نے حلیة الاولیاء میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین سے فرمایا: بتاؤ! عورت کے لیے سب سے بہتر کون سی چیز ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب نہ سوجھا۔ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ وہاں سے اٹھ کر حضرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے پاس گئے۔ ان سے اسی سوال کا ذکر کیا۔ حضرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے فرمایا: آپ لوگوں نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ وہ اجنبی مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ان کو کوئی دیکھے ۔حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ نے واپس آکر یہ جواب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے نقل کیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : یہ جواب تمہیں کس نے بتایا ، عرض کیا فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے ۔ فرمایا: فاطمہ! آخر میرے جگر کا ٹکڑا ہے نا۔ (حلیة الاولیاء ج2 ص:41,40)۔
حافظ شمس الدین ذہبی رحمة الله علیہ نے اپنی مشہور کتاب ” الکبائر“ میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی الله تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھر تشریف لے گئے ۔ حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا نبی صلی الله علیہ وسلم پر گریہ طاری ہے ۔ جب میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھی تو عرض کیا : یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم کو کس چیز نے رلایا ہے اور کس بناپر آپ صلی الله علیہ وسلم اتنا رو رہے ہیں ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:” میں نے شب معراج میں اپنی امت کی عورتوں کو جہنم کے اندر قسم قسم کے عذابوں میں مبتلا دیکھا ور ان کو جو عذاب ہو رہا تھا وہ اتنا شدید اور ہو لناک تھا کہ اس عذاب کے تصور سے مجھ رونا آرہا تھا۔“ اس کے بعد حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ میں نے جہنم کے اندر عورتوں کو کس کس طرح کے عذاب میں مبتلا دیکھا۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اپنے بالوں کے ذریعے جہنم کے اندر لٹکی ہوئی ہے اور اس کادماغ ہنڈیا کی طرح پک رہا ہے۔
(ایک تو جہنم کے اندر ہو نا بذات خو دکتنا ہولناک عذاب ہے ۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے، آمین او رپھر بالوں کے بل لٹکانا، یہ انتہائی تکلیف دہ سزا ہے اور پھر دماغ کا پکنا۔ یہ تیسری سزا ہے) پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دوسری، تیسری ، چوتھی ، پانچویں اور چھٹی عورت کا حال بتلایا کہ ان کو کس کس طرح جہنم میں کن کن گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتے دیکھا (تفصیل کے لیے مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب کا مختصر رسالہ ”چھ گناہ گار عورتیں“۔ دیکھیں)۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی الله عنہا نے عرض کیا کہ ابا جان! ان عورتوں پر یہ عذاب ان کے کون سے اعمال کی وجہ سے ہو رہا تھا؟ ان کے کون سے اعمال تھے جن کی وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اس ہو لناک اور درد ناک عذاب میں مبتلا دیکھا ؟ اس کے جواب میں حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس عورت کو میں نے سر کے بالوں کے ذریعے جہنم میں لٹکا ہوا دیکھا او رجس کا دماغ ہنڈیا کی طرح پک رہا تھا اس کو یہ عذاب گھر سے باہر ننگے سرجانے کی وجہ سے ہورہا تھا، وہ عورت نامحرم مردوں سے اپنے سر کے بال نہیں چھپاتی تھی۔
جو عورت بن سنور کر، میک اپ کرکے اس خواہش کے ساتھ باہر نکلتی ہے کہ نامحرم مرد ہمیں دیکھیں اور ہم انہیں دیکھیں۔ او رنامحرم مردوں کے دل میں بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسی عورتوں کو دیکھیں ۔ لہٰذا وہ عورت مردوں کی بدنگاہی وبدنظری کا ذریعہ بنتی ہے۔ لہٰذا جتنے مرد بھی اس عورت کو دیکھ کر بدنظری کے گناہ میں مبتلا ہوں گے ان سب کے گناہوں کے برابر اس عورت کو گناہ ہو گا۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اپنی نگاہوں کو جھکائے رکھو اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہارے چہروں کو بے رونق کر دیا جائے گا۔ (طبرانی)
نظر کی حفاظت نہ کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اپنی بیوی، چاہے وہ کتنی بھی خوب صورت ہو، نگاہ سے گر جاتی ہے۔ اس لیے کہ شیطان کا یہ بہت بڑا دھوکا ہے کہ وہ دوسروں کی عورتوں کو مرد کی نگاہ میں بہت خوب صورت دکھلاتا ہے اور اپنی بیوی کو بد صورت دکھلاتا ہے، تاکہ میاں بیوی میں جھگڑے ہوں۔ مثل مشہور کہ” گھر کی مرغی… دال برابر“ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اپنی نگاہ چشمی… ونگاہ قلبی… دونوں کی سختی سے حفاظت کرے کہ دل میں کسی نامحرم عورت یا کسی حسین لڑکے اور مرد کا تصور کرکے لذت حاصل نہ کرے۔
جو عورتیں محرم ہوں ان سے بوقت احتمال شہوت نگاہ کا پھیرنا واجب ہے، یعنی اگر کسی وقت محرم عورت کے دیکھنے میں بھی شہوت نفسانیہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو مرد پر واجب ہے کہ اس وقت محرم کو بھی نہ دیکھے اور نظر کی حفاظت کرے۔
حفاظت نظر پر مولانا شاہ حکیم محمد احتر صاحب دامت برکاتہم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
پاگل کی طرح پھرتے ہیں عُشاقِ مجازی
بے چین ہیں دن دات یہ بدنام زمانہ
رہنا ہے اگر چین سے سُن لو یہ مری بات
آنکھوں کو حسینوں کی نظر سے نہ ملانا
اختر کی یہ اک بات نصیحت کی سنو تم
ان مردہ حسینوں سے کبھی دل نہ لگانا
خیالی پردہ
# جس طرح بُری نیت سے ( نامحرم کی دیکھنا، اس کی آواز کو سننا اور اس سے بات کرنا حرام ہے) تو اسی طرح اس کا خیال دل میں جمانا اور اس خیال سے لذت لینا بھی حرام ہے۔ اس کو دل کا زنا کہا جاتا ہے ۔ البتہ اگر بُری نیت نہ ہو تو غیر محرم سے ضروری بات کرنے اور سننے کی گنجائش ہے۔
# اپنی بیوی سے صحبت ( مباشرت) کے وقت یہ سوچنا کہ فلاں عورت کے ساتھ مباشرت کر رہا ہوں، یہ سوچ اپنی بیوی سے جائز مباشرت کو بھی ناجائز بنا دیتی ہے ،کیوں کہ ایسا شخص اجنبیہ (نامحرم) کے ساتھ جسم سے نہیں تو خیال سے زنا کر رہا ہے۔ (جاری ہے)

Flag Counter