Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

1 - 16
***
شوال المکرم 1430ھ, Volume 25, No. 10
فطری ضرورت
مولانا عبید اللہ خالد
جوں جوں انسان عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور اور قیامت کے قریب ہوتا جارہا ہے، توں توں اس کے کردار، اخلاق، اطوار سب میں زوال نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ مذہب سے دوری اور بیزاری دنیاکے تمام خطوں میں حد سے بڑھ چکی ہے۔ مذہب تو خیر انسانی کردار کی سب سے بڑی کسوٹی ہے، عام اخلاقی، معاشرتی اور سماجی اقدار سے بھی اب انسانی معاشرے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ مغرب کا معاشرہ کہ جہاں پہلے ہی سے اخلاقی اورروحانی اقدار تقریباً پائے مال تھیں، ان کی تو بات ہی کیا، اب مشرقی معاشرے بھی اس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ یہ کہنے دیجیے کہ خود مسلم معاشرہ بھی اپنی اصل مذہبی اقدار کو بڑی حد تک کھوچکا ہے یا کھورہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں گزشتہ دو تین نسلوں کے مقابلے میں دین کا شعوربڑھاہے، اور عالمی سطح پر بھی اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے اور ان پر غور وخوض کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مجموعی طور پر ہم جس معاشرتی، معاشی اور بالخصوص اخلاقی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، وہ معاشرے کے بالخصوص باشعور اور ہوش مند طبقات کے لیے انتہائی فکر و تشویش کا باعث ہے۔ اسی زوالِ ملت کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی بہترین اور وسیع ترین آسائشوں کے باوجود دل کو اطمینان ہے، نہ جان و مال کو تحفظ ہے۔
مذہب سے دوری جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں،انسان کی مجبوری نہیں، انسان کا انتخاب ہے۔ یہ انتخاب اس نے دنیا میں سکون، اطمینان اور ترقی کے لیے کیا تھا۔ لیکن ایسا حقیقتاً ہوا نہیں۔ چیزوں کی چمک دمک، بازاروں کی رونق اور ظاہری کشش انسان کی ترقی نہیں ہے۔ یہ تو اشیا کی ترقی ہے۔ انسان کی ترقی تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر موجود فطرت کی آواز پر توجہ دے․․ مگر فطرت کی آواز کو تج کراس نے موسیقی اور دھمال کی غیر فطری آوازوں پر توجہ مرکوز کردی۔ انسان کی ترقی یہ تھی کہ انسان الله کے قریب ہوتا، وہ اپنے اندر اعلیٰ مذہبی، سماجی اور اخلاقی اقدار پیدا کرتا۔ وہ خود اپنا نوالہ بھی دوسروں کو کھلانے والا بنتا۔ امیر اور غریب کا، زبان اور نسل کا، رنگ اور خطے کا فرق نہ رہتا۔ امیر آدمی غریب کی مدد کرتا۔ وہ اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دیتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا تو نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس ہے۔ انسان زوال کا شکار ہے۔ انسان نے اپنے اندر موجود فطرت کی آواز کو نہیں سنا۔ اس نے الله کی دعوت پر لبیک نہیں کہا۔ وہ مذہبی، معاشرتی، اور اخلاقی اقدارسے عاری ہے۔ ہاں، حیوانی خصلتوں سے اٹا پڑا ہے۔ اب وہ اپنا نوالہ دوسروں کو نہیں کھلاتا، دوسروں کے منھ کا نوالہ بھی چھیننے کے در پے ہے۔ امیر، غریب کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے تو کالے گورے، زبان اور نسل کی تفریق نے خود مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا ہے۔ انسان دوسروں کی ضرورتوں پر اپنی ضرورتوں کو کیا قربان کرتا، اپنی خواہشوں کی خاطر دوسروں کا گلا کاٹنے پر مصر ہے۔ 
فطرت کی طرف واپسی کی ضرورت انسان کو آج جتنی ہے، اس قدر شاید گزشتہ ہزار برس میں نہ پڑی ہوگی۔ اور اس فطری ضرورت کو صرف اسلام ہی پورا کرسکتا ہے، دنیا کا کوئی مذہب یا طریقہ انسانی ضرورت پوری کرنے سے قطعاً قاصر ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اسلام محض ہمارے لباس اور ہماری گفتارہی میں نہ ہو، ہمارے افعال اور ہمارے کردار سے بھی اس کی ضو فشانی ہورہی ہو۔

Flag Counter