Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رمضان المبارک 1430ھ

ہ رسالہ

7 - 15
***
اپنے بچوں كو اندهى تقليد سے بچائيے
محترم سيد عبدالله ناصح علوان
وه اهم امور جن كا تربيت كرنے والوں كو بهت اهتمام كرنا چاهيے ان ميں سے يه بهى هے كه بچے كو بلاسوچے سمجهے اندهى تقليد اور بغير غور وفكر كے دوسروں كى مشابهت اختيار كرنے سے بچائيں-
اس ليے كه اندهى تقليد روحانى ونفسياتى شكست اور خود پر اعتما د اوربهروسه نه هونے كى دليل هے ، بلكه انسان اپنى ذات وشخصيت كو اپنے پسنديده شخص كى شخصيت ميں ختم اورفنا كر ديتا هے-
اس ليے كه بُرے اخلاق ميں اندهى تقليد، انسان كو يقينى طور سے ڈهيلے پن اور آزادى وبے راه روى كى زندگى تك پهنچا ديتى هے-
اس ليے كه اندهى تقليد ان لوگوں كو جو دوسروں كے طريقوں اور اخلاق كو اپناتے هيں، بهت سے دينى فرائض وواجبات اور معاشرتى ذمه داريوں سے روك ديتى هے اور اقتصادى تعمير اور ثقافتى ميدان ميں بڑهنے سے مانع بن جاتى هے-
اس ليے كه اندهى تقليد اخلاق كے بگاڑنے اور مردانگى ختم كرنے اور مختلف قسم كى بيماريوں كے پيدا كرنے او رعزت وشرافت اور پاك دامنى جيسے فضائل كى بيخ كنى كے اسباب ميں سے هے-
چناں چه جارج بالوشى اپنى كتاب”الثورة الجنسيه“ ميں لكهتے هيں كه 1962ء ميں” كنيڈى“ نے صاف صاف كها :” امريكا كا مستقبل خطرے ميں هے ، اس ليے كه اس كے نوجوان بے راه روى اور جنسى جذبات ميں غرق هيں - وه ان ذمه داريوں سے عهده برآنهيں هو سكتے جو اُن پر ڈالى گئى هيں - هر وه سات نوجوان جو فوج ميں بهرتى هونے آتے هيں ، ان ميں سے چهے بهرتى كے قابل اس ليے نهيں هوتے كه وه جن جنسى كهيلوں ميں مست رهے هيں انهوں نے ان كى نفسياتى وجسمانى صلاحيت كو ختم كر ديا هے-“
اس ليے اسلام نے دوسروں كى مشابهت سے روكا اور اندهى تقليد سے منع كيا هے- چناں چه حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا :”وه شخص هم ميں سے نهيں جس نے دوسروں كے ساته مشابهت اختيار كى، يهود ونصارى كے ساته مشابهت اختيار نه كرو-“ (ترمذى)
نيز ارشاد فرمايا :” جو شخص كسى قوم سے مشابهت اختيار كرتا هے، وه انهى ميں شمار هو گا-“
نيز حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:” الله كى لعنت هو ان مردوں پر جو عورتوں كى مشابهت اختيار كرتے هيں اور ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابهت اختيار كرتى هيں -“ (بخارى)
نيز حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:” تم ميں كوئى شخص هر ايك كے رائے كى پيروى كرنے والا نه بنے اور نه يه كهے كه ميں تو لوگوں كے ساته هوں - اگر لوگ اچها كريں گے تو ميں بهى اچها كروں گا اور اگر لوگ برا كريں گے، تو ميں بهى برا كروں گا، بلكه اپنے آپ كو قابو ميں ركهو- اگر لوگ اچها سلوك كريں تو تم بهى اچها سلوك كرو اور اگر لوگ برائى كريں، تو تم ان كى برا ئى كا بدله اچهائى سے دو -“ (ترمذى)
پس يه احاديث نبويه جن امور سے منع كر رهى هيں، وه سب اس طرف ره نمائى كر رهى هيں كه انسان اپنے كردار ، اخلاق ، عادات اور لباس ميں ان امور كى وجه سے، جو هم نے ابهى ابهى ذكر كيے، دوسروں كى تقليد سے بچے-
ليكن ايسى چيزوں ميں تقليد واتباع كرنا، جو امت اسلاميه كے ليے علمى طور سے مفيد هوں ، مثلاً علم طب وهندسه وفزكس وغيره سے فائده اٹهانا او رايٹم اور جديد جنگى وسائل كے اسرار وغيره معلوم كرنا تو سب كے نزديك بالاتفاق جائز هے، اس ليے كه يه امور الله تعالىٰ كے درج ذيل فرمان مبارك كے تحت داخل هيں-
ترجمه:” اور تيارى كرو ان كى لڑائى كے واسطے جو كچه جمع كر سكو قوت سے -“(انفال:60)
اور اسى طرح درج ذيل حديث كا مضمون بهى اس بات پر دلالت كرتا هے جسے ترمذى وعسكرى نے روايت كيا هے :
ترجمه:” حكمت ودانائى كى بات حكيم كى گم شده چيز هے، وه اسے جهاں بهى پائے، وهى اس كا سب سے زياده حق دار هے“-
اندهى تقليد كے مظاهر
عورتوں كا ايسا لباس زيب تن كركے نكلنا جو عريانى كى طرح هو ، جس ميں جسم كهلا هوا هو- نبى برحق صلى الله عليه وسلم نے بتلايا هے كه ايسى عورتيں نه جنت ميں داخل هوں گى اور نه اس كى خوشبو پاسكيں گى-
موت وغيره مصيبت كے وقت عيسائيوں كى مشابهت ميں سياه لباس پهننا عام حالات اور غصے ميں غير الله كے نام كى قسم كهانا-
غير محرموں مثلاً ديور، چچا زاد بهائيوں وغيره كے سامنے بے پرده چلے جانا-
هپى ازم، بے راه روى كا شعار اور آزادى وبے لگامى كا نشان بن گيا هے تو پهر بهلا كوئى بهى عقل مند يه كهه سكتا هے كه اسلام اپنے نوجوانوں كے ليے يه پسند كرے گا كه وه بے راه روى اور آزادى پسندوں كى تعداد ميں اضافه كريں اور ان كى جماعت كو بڑهائيں- جب كه نبى كريم صلى الله عليه وسلم يوں ارشاد فرمارهے هيں:
ترجمه: ”جو شخص كسى قسم كى تعداد ميں اضافه كرتا هے، وه اسى ميں شمار هوتا هے-“(ابو يعلىٰ)
كيا هپى پن اور كندهوں تك بال بڑهانا عورتوں كے ساته رُسواكن مشابهت نهيں هوتى هے ؟ حالاں كه الله تعالىٰ تو ايسے مَردوں پر لعنت بهيجتے هيں جو عورتوں سے مشابهت اختيار كريں-
اس ليے اے مربى محترم! آپ يه پورى كوشش كريں كه آپ اپنے بچوں كو ان تمام گندے مناظر اور بے حيا، شكل وصورتوں اور چهچهورى عادتوں نفرت دلائيں- نيزآپ پر لازم هے كه ان كو يه باور كراديں كه اندهى تقليد كا مرض ان خطرناك امراض ميں سے هے كه جو عزت وشرافت كو برباد كرنے اور اخلاق كو بگاڑنے كے اسباب ميں سے بڑا سبب هے-
ممكن هے كه آپ كى اس محنت سے آپ كے جگر گوشے صحيح راسته پر چليں اور عقل وشعور سے كام ليں اور كسى قسم كى فتنه انگيزى ان كو صحيح راسته سے نه هٹا سكے اور نه ان پر اپنا داؤ چلا سكے-
بُرے ساتهيوں سے بچانا
برى صحبت بچے كے اخلاقى انحراف وبگاڑ كے بڑے اسباب ميں سے هے، خصوصاً اگر بچه كم سمجه ، بليد ، ضعيف العقيده هو تو بروں كى صحبت سے جلد متاثر هو جاتا هے اور تهوڑے هى وقت ميں ان كى خسيس عادات وصفات ميں رنگ جاتا هے، جس كا نتيجه يه هوتا هے كه جرم اس كى طبيعت او رانحراف اس كى عادت بن جاتا هے، پهر مربّى كے ليے بهت مشكل هوتا هے كه اس كو راه راست پر لائے اور بدبختى كے گڑهے سے اس كو نكالے-
بُرے اخلاق سے بچانا
وه بداخلاقياں وبيمارياں جن سے اپنے بچوں كو بچانا چاهيے مندرجه ذيل هيں:
جهوٹ بولنے كى عادت، چورى كى عادت، گالى گلوچ كى عادت، آزادى وبے راه روى كى عادت، تمباكو نوشى كى عادت، مشت زنى كى عادت، منشيات ومسكرات كى عادت، زنا واغلام بازى كى عادت-
علمائے تربيت واخلاق كے يهاں يه طے شده بات هے كه مندرجه بالا عادات،بچے كے اخلاقى بگاڑ اور اس كے كردار كے خراب كرنے ميں خطرناك كردار ادا كرتى هيں - اس ليے اگر مربّى حضرات بچوں كى نگرانى او رخير خواهى ميں اپنا صحيح كردار ادا نهيں كريں گے تو بچے لامحاله ضلالت كے گڑهے ميں گر جائيں گے او رتاريك واديوں ميں بهٹكتے رهيں گے- پهر ايسى صورت ميں مصلح ومربّى كے ليے يه مشكل هو گا كه ان كو راه راست پر لاسكے او رحق اوراهل حق سے رابطه پيدا كر سكے-
حرام سے بچانا
متنبه كرنے كے سلسله ميں ايك اهم امر يه بهى هے كه بچوں كو حرام سے بچايا جائے او راس سلسله ميں ان كو خوب متنبه كيا جائے-
علمائے اصول نے حرام كى تعريف يه كى هے كه حرام وه هے جس كے ترك كرنے كا شريعت نے سختى سے حكم ديا هو - اور اس كا ارتكاب كرنے والے كو آخرت يا دنيا كى سزا كا مستحق قرار ديا هو- جيسے كه قتل كرنا، زنا كرنا، شراب پينا، جوا كهيلنا،يتيم كا مال كهانا، كم ناپنا تولنا-
اب هم آپ كے سامنے حرام چيزيں بيان كرتے هيں تاكه آپ كو بچوں كى تعليم وره نمائى ميں آسانى هو-
كهانے پينے ميں حرام چيزيں
مردار جانور، خون، خنزير ( سور) كاگوشت اور وه جانور جس كو غير الله كے نام پر ذبح كيا گيا هو، اور وه جس كو جهٹكا ديا گيا هو اور وه جس كا گلا دبا ديا گيا هو اور وه جس كو بلندى سے گرا كر مارا گيا هو اور وه جسے درندے نے كهايا هو اور وه جو غيرالله كے ليے ذبح كيا گيا هو - يه سب حرام هيں، جيساكه الله تعالىٰ نے ارشاد فرمايا هے :
مردار حرام جانوروں ميں شريعت اسلاميه نے مچهلى اور ٹڈى اورخون سے كليجى اور تلى كو مستثنا كيا هے ، كيوں كه حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا كه همارے ليے دو مردار مچهلى اور ٹڈى اور دو خون كليجى اور تلى حلال كر ديے گئے هيں-
مذكوره بالا چيزيں جن كا تذكره ابهى كيا گيا هے، وه سب عام حالات كے ليے هيں، ليكن مجبورى كى حالت اس سے مختلف هے، اس ليے كه ايسى صورت ميں اس كا كهانا دو شرطوں كے ساته جائز هے:
مزے لينے كے ليے اور شكم پرورى كے ليے نه هو-
ضرورت سے زائد نه كهائے ، جيسا كه الله تعالىٰ كے ارشاد پاك ميں اس كا حكم موجود هے-
اس كى حكمت يه هے كه انسانى زندگى كو بچاياجاسكے او رلوگوں كو مشقت وحرج ميں نه ڈالا جائے، اس ليے كه شريعت مقدسه ميں تنگى نهيں هے-
اسى طرح شراب اور دوسرى منشيات (نشه آور)، ومخدرات كا استعمال حرام هے - تاهم بعض دواؤں ميں ان كى حفاظت كے ليے جو ايك مخصوص مقدار ميں الكحل وغيره ملايا جاتا هے تو وه مندرجه شروط كے ساته جائز هے:
اگر اس دوا كااستعمال نه كيا جائے تو اسكى وجه سے صحت پر خطرناك صورت پيش آنے كا خطره هو-
اس كے علاوه كوئى اور حلال اورجائز دوا موجود نه هو -
اس دوا كو كوئى ماهر، تجربه كار، دين دار مسلمان معالج تجويز كرے-
اس قسم كى آسانى اور سهولت پيدا كرنے كى وجه يه هے كه اسلا م كے بنيادى احكامات مشقت كے دور كرنے اور فائده ومنفعت پهنچانے پر مبنى هيں جس كى بنياد الله تعالىٰ كا درج ذيل ارشاد مبارك هے:
” پهر بهى جو شخص (بهوك سے بهت هى ) بيتاب هو جائے بشرطيكه نه تو طالب لذت هو اور نه ( قدر حاجت سے) تجاوز كرنے والا هو تو اس شخص پر كچه گناه نهيں هوتا-“ (البقرة:173)
لباس وپوشاك ميں حرام چيزيں
اسلام كے بنيادى اصولوں ميں سے يه بهى هے كه مسلمان مناسب شكل وصورت ميں لوگوں كے سامنے آئے-چناں چه الله تعالىٰ نے ارشاد فرمايا:
ترجمه:” اے آدم كى اولاد! هم نے تمهارے ليے لباس پيدا كيا، جو كه تمهارے پرده دار بدن كو بهى چهپاتا هے اور موجب زينت بهى هے-“ (الاعراف:26)
نيز ارشاد فرمايا:
ترجمه:” اے اولاد آدم! تم مسجد كى هر حاضرى كے وقت اپنے لباس پهن ليا كرو-“ ( الاعرف:31)
ليكن يه بهى ياد رهے كه ان مباح زيب وزينت ميں اعتدال وميانه روى كے دامن كو نه چهوڑا جائے ، كيوں كه الله تعالىٰ كا ارشاد هے:
ترجمه:”( اور طاعات ماليه ميں ان كا يه طريقه هے كه ) وه جب خرچ كرنے لگتے هيں تو نه فضول خرچى كرتے هيں اور نه تنگى كرتے هيں اور ان كا خرچ كرنا اس ( افراط وتفريط) كے درميان اعتدال پر هوتا هے-“ (الفرقان:67)
حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا :” كهاؤ، پيو، پهنو اور صدقه كرو بغير كسى اسراف اور تكبر كے-“ (بخارى)
اسلام نے مسلمانوں كو نظافت اور صفائى ستهرائى پر ابهارا هے- چناں چه حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:” نظافت ( صفائى) اختيار كرو اس ليے كه اسلام صاف ستهرا دين هے -“ ( ابن حبان)
نيز اسلام نے جمعه وعيدين ميں نظافت وآراستگى پر ابهارا اور آماده كيا هے بلكه حضور صلى الله عليه وسلم نے ايك مال دار صحابى سے ارشاد فرمايا : ”جب الله نے تمهيں مال ديا هے تو الله تعالىٰ كى نعمت كا اثر تم پر ظاهر هونا چاهيے-“
نيز اسلام نے سر اور ڈاڑهى كے بالوں كى اصلاح كا حكم ديا هے - اسلام نے محض يه چيزيں مباح وجائز قرار دينے پر اكتفا نهيں فرمايا، بلكه ان كو اختيار كرنے كا انسان سے مطالبه كيا هے او رجن لوگوں نے ان كو حرام كيا هے ان پر نكير فرمايا هے - چناں چه الله تعالىٰ ارشاد فرماتے هيں:
ترجمه:” آپ فرما ديجيے كه الله كے پيدا كيے هوئے كپڑوں كو جن كواس نے اپنے بندوں كے ليے بنايا هے او ركهانے پينے كى حلال وطيب چيزوں كو كس نے حرام قرار ديا هے-“ (الاعراف:32)
بعض چيزوں كے استعمال سے ممانعت
مَردوں پر سوناا وريشم كا حرام هونا
حضرت سيدنا على كرم الله وجهه فرماتے هيں كه نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے ريشم كا ايك ٹكڑا اپنے داهنے هاته ميں ليا اور سونے كو بائيں هاته ميں، اور ارشاد فرمايا:” يه دونوں چيزيں ميرى امت كے مردوں پر حرام هيں اور ان كى عورتوں كے ليے حلال هيں ، هاں اگر كوئى اور كپڑا نه هو تو اس سے شرم گاه چهپانا جائز هے-“ ( ابوداؤد)
مردوں كے ليے چاندى كى انگوٹهى پهننا جائز هے، جس كى مقدار ميں حنفيه كا مسلك يه هے كه ساڑهے چارماشه سے كم هو اور اچهايه هے كه اس كو بائيں هاته كى چهوٹى انگلى ( چهنگليا) ميں پهنے-
مگر افسوس كه اس امر ميں جائز ناجائز كا خيال نهيں كيا جاتا بلكه بعض لوگ تو دو دو انگوٹهى پهنتے هيں اور بعض سونے كى انگوٹهى پهنتے هيں جو بالكل حرام هے-
عورت اورمرد كے ليے ايك دوسرے كى مشابهت حرام هے
حضرت عبدالله بن عباس سے روايت هے كه حضور صلى الله عليه وسلم نے ايسے مردوں پر لعنت بهيجى هے جو عورتوں سے مشابهت اختيار كرتے هيں-
نيز ايك موقع پر حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:” وه عورتيں هم ميں سے نهيں، جو مردوں كے ساته مشابهت اختيار كريں اور نه وه مرد، جو عورتوں كے ساته مشابهت اختيار كريں -“ (امام احمد)
همارے نوجوان مردوں اور عورتوں ميں ايك دوسرے سے مشابهت اور اندهى تقليد كا مرض بهت عام هو گيا هے، اس ليے تربيت كرنے والے حضرات كوچاهيے كه اس مرض كا بهت عمده اسلوب سے علاج كريں-
ريا كارى اور تكبر كے ليے كپڑا پهننے كى حرمت
حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا: جو شخص ريا كارى كے ليے لباس پهنے گا، الله تعالىٰ قيامت كے دن اس كو ذلت ورسوائى كا لباس پهنائيں گے- (امام احمد، ابوداؤد، نسائى)
ريا كارى كے كپڑوں سے مراديه هے كه انسان قيمتى اور شان دار لباس بڑائى كے اظهار اور فخر ومباهات كے ليے پهنے- تو ظاهر هے يه دكهاو ا،تكبر واكڑ پيدا كرتا هے اور الله تعالىٰ متكبر شخص كو پسند نهيں فرماتے-
چناں چه حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا : جو شخص تكبر كى وجه سے لباس كو گهسيٹ كر چلتا هے، الله تعالىٰ قيامت كے روز اس كى طرف نظر رحمت نهيں فرمائيں گے- (بخارى ومسلم)
اس ليے مسلمانوں كو چاهے كه اپنے لباس پوشاك ، كهانے پينے اورگهر كے ساز وسامان ميں اعتدال اور ميانه روى اختيار كريں، تاكه كبروبڑائى كا تسلط اور اترانے كے جذبه كا غلبه نه هو-
الله كى خلقت كو بدلنا حرام هے
حضور صلى الله عليه وسلم نے گودنے والى اور گدوانے والى اور دانتوں كو باريك كرنے والى اور دانتوں كو باريك كرانے والى پر لعنت بهيجى هے- (مسلم)اس ليے كه اس ميں انسان كو عذاب دينا اور الله كى خلقت ميں تغيير وتبديل هوتى هے او رالله كے فيصله وتقدير پر عدم رضا كا اظهار هوتا هے- قرآن كريم نے اس تغيير وتبديل كو شيطانى اثر قرار ديا هے جس كے ذريعه وه اپنے پيروكاروں كو گمراه كرتا هے-
ترجمه:”اور ان كو سكهلاؤں گا كه بدليں الله كى بنائى هوئى صورتيں-“ (النساء:119)
خوب صورتى كے ليے جو عمل جراحى كيے جاتے هيں ان سے وه آپريشن وغيره مستثناهيں جو اس ليے كيے جاتے هيں كه اس كے ذريعه انسان كو درد والم سے بچايا جاسكے- مثلاً زائد انگلى يا غدود وغيره كاٹنا يا جن كے كاٹنے كا شريعت نے حكم ديا هے - مثلاً بالوں كا كاٹنا ،ناخنوں كا تراشنا، موئے زير ناف وبغل كو كاٹنا، تاكه لوگوں سے مشقت دور هو اور صفائى ستهرائى حاصل هو -
ڈاڑهى مونڈنے كى حرمت
حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:” مونچهيں كاٹو اور ڈاڑهى بڑهاؤ- اورآتش پرستوں كى مخالفت كرو-“ ( مسلم)
نيز حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا :” ڈاڑهى بڑهاؤ، مونچهيں كترواؤ اور يهود ونصارىٰ كے ساته مشابهت اختيار نه كرو-“ ( امام احمد)
اس كے علاوه اور حديثوں ميں ڈاڑهى بڑهانے كے سلسله ميں نهايت تاكيدى كلمات وارد هوئے هيں ، جن كى بنا پر چاروں ائمه كے نزديك ڈاڑهى كا بڑهانا واجب اور اس كا منڈانا حرام هے-
هاں اگر ڈاڑهى ايك مشت سے زائد هو جائے تو حضرات حنفيه كے نزديك اس زائد ڈاڑهى كا كترنا مسنون هے- (ماخوذ از شامى ج5 ص359 كتاب الحظر واالاباحة)
جيسا كه حكيم الامت حضرت مولانا اشرف على تهانوى نورالله مرقده” الطرائف والظرائف“ ميں تحرير فرماتے هيں:
يعنى مفاتيح وغرائب ميں اس حديث كے آخر ميں يه لفظ بهى هے كه حضور صلى الله عليه وسلم اپنى ڈاڑهى مبارك سے طولاً وعرضا كترتے تهے جب كه قبضه (مشت) كے مقدار سے زائد هو جاتى- (الطرائف والظرائف)
نيز بخارى شريف ميں هے :
ترجمه:” حضرت ابن عمر رضى الله عنهما جب حج يا عمره سے فارغ هوتے تهے تو اپنى ڈاڑهى كو مٹهى سے پكڑ ليتے تهے اور جو حصه ( اس مٹهى سے) زائد هوتا تها اس كو كاٹ ديتے تهے- (بخارى شريف ج2 ص875 كتاب اللباس)
حضرت ابو هريره رضى الله عنه بهى مقدار قبضه سے زائد كاٹ ديتے تهے -( حاشيه بخارى شريف ج2 ص875)
اس سے ثابت هوا كه ڈاڑهى كى مقدار مسنونه ايك مشت هے - لهٰذا اس سے كم كرنا اور خشخشى ڈاڑهى ركهنا ازروئے شرع جائز نهيں هے - ( فتاوى رحيميه ج6ص243)
لهٰذا ان احاديث نبويه اور فقهى نصوص سے يه بات كهل كر سامنے آگئى كه ڈاڑهى كا مونڈنا حرام هے- الله تعالىٰ همارے نوجوان كو سيدها راسته دكهائے- آمين
سونے چاندى كے برتنوں كا حرام هونا
رسول اكرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا: جو شخص چاندى سونے كے برتن ميں كهاتا پيتا هے وه اپنے پيٹ ميں جهنم كى آگ انڈيلتا هے-
امام بخارى حضرت حذيفه  سے روايت كرتے هيں كه هميں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے سونے چاندى كے برتنوں ميں كهانے پينے سے منع فرمايا هے اور هميں ريشم اور ريشمى كپڑے پهننے اور اس پر بيٹهنے سے منع فرمايا هے اور يه فرمايا كه وه دنيا ميں كافروں كے ليے هے اور همارے ليے آخرت ميں هے-
اس كى حكمت يه هے كه مسلمانوں كے گهرانے كو مذموم عيش وعشرت كے اسباب اور مبغوض بڑائى او رتكبر كے مظاهرے سے پاك ركها جائے-
تصويروں اور مورتيوں كى حرمت
حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا كه قيامت كے روز سب سے سخت عذاب تصوير بنانے والوں كو هو گا- (بخارى ، مسلم)
نيز حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا كه جو لوگ يه تصويريں بناتے هيں ان كو قيامت كے دن عذاب دياجائے گا اور ان سے كها جائے گا كه جو تم نے بنايا هے اس كو زنده كركے دكهاؤ - ( بخارى، مسلم)
نير حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:” فرشتے اس گهرميں داخل نهيں هوتے جس ميں كتا يا تصوير هو -“ ( بخارى، مسلم)
يه احاديث مجموعى حيثيت سے نهايت وضاحت كے ساته اس بات پر دلالت كرتى هيں كه تصاوير ، مورتياں حرام هيں- خواه وه مجسمے كى شكل ميں هوں يا نه هوں اور خواه وه فوٹو گرافى كے ذريعه هوں يا بغير اس كے او رخواه ان كو تحقير وتذليل كے طور پر بنايا گيا هو يا اعزاز وكرام كے ليے، اس ليے كه اس ميں الله تعالىٰ كى صفت خلق كا مقابله هے-
هاں تصاوير ممنوعه سے درختوں او ران چيزوں كى تصويريں مستثناهيں جن ميں جان نه هو ، اس ليے كه حضرت ابن عباس نے ايك مصور كو جب تصوير بنانے كى وعيد سنائى تو وه گهبراگئے تو فرماياكه تمهيں كيا هوگيا هے - اگر تم تصويريں بنانا هى چاهتے هو تو پهر درختوں اور ايسى چيزوں كى تصاوير بناؤ جو غير جاندار هيں-
رهيں كيمرے وغيره كى تصاويراورفوٹو تويه قطعى وصريح نصوص وادله كى وجه سے بالكل ناجائز هيں- مگر يه كه مجبورى يا ضرورت هو - جيسے شناختى كارڈ يا پا سپورٹ يا مشكوك لوگوں اور مجرموں كى تصوير كشى - ياكسى وضاحت وغيره كے ليے تصوير كو وسيله بناياجائے تو يه اس عمومى قاعده كے تحت داخل هے جس ميں يه بتايا هے كه”الضرورات تبيح المحظورات“ يعنى ضرورت ممنوع چيزوں كو مباح كر ديتى هے-
هاں اس جانب بهى اشاره ضرورى هے كه بهت سے وه گهرانے جو اسلام كے دعوے دار هيں، ان كے گهروں ميں بڑى بڑى تصويريں اس دليل كے تحت آويزاں هيں كه يه باپ دادا يا خاندان كى يادگار هيں اور اس كو مورتيوں سے مزين كركے گهر ميں ادهر ادهر ركها جاتا هے- اسى طرح ايسے قالين ديواروں پر لگائے جاتے هيں جن پر تصويريں بنى هوتى هيں- يه سب زمانه جاهليت كے كام هيں بلكه اس بت پرستى كے آثار هيں جس كى اسلام نے بيخ كنى كى هے-
اس ليے والدين اورمربيوں كو چاهيے كه وه اپنے گهروں كو ان ناجائز وحرام چيزوں سے صاف ستهرا ركهيں تاكه الله تعالىٰ كى رضا حاصل هو او ران لوگوں ميں شامل هوں جن كو الله تعالىٰ نے درج ذيل آيت ميں بيان فرمايا هے :
ترجمه:” اور جو شخص الله اور رسول كا كهنا مان لے گا تو ايسے اشخاص بهى ان حضرات كے ساته هوں گے جن پر الله تعالىٰ نے انعام فرمايا يعنى انبيا اور صديقين اور شهداء اور صلحاء اور يه حضرات بهت اچهے رفيق هيں-“

Flag Counter