Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1430

ہ رسالہ

5 - 14
***
سیرت نبوی ﷺ کا ایک درخشاں باب ۔۔ ہمت و شجاعت
استاذ عبدالرحمن عزام
توحید وآخرت کی دعوت جب اہل قریش کے دین وعقل سے ٹکرائی تو انہوں نے داعی کا مذاق اڑایا اور پھر ایذارسانی اور سرکشی پر اتر آئے، محمد صلی الله علیہ وسلم نے صرف توحید کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ انہوں نے شراب وزنا، جوا اور سود کی حرمت کا بھی اضافہ کیا، جن کے اہل قریش عادی تھے اور انہیں فخر وعیش اور سرمایہ داری کا ذریعہ بنائے ہوئے تھے۔
قریش کا سود تمام قبائل میں پھیلا ہوا تھا اور محمد صلی الله علیہ وسلم اسی شے کو حرام کر رہے تھے جسے وہ زندگی کا مزہ اور اپنی ثروت کا ذریعہ سمجھ رہے تھے تو وہ لوگ اس بات پر کیسے صبر کرسکتے تھے؟ شراب ، زنا اور سود قوم کے دلوں میں کس طرح جاگزیں تھے ، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ برائیاں قریش کا ہتھیار تھیں، جن سے وہ عربوں کو دعوتِ محمد سے نفرت دلاتے تھے۔
محمد صلی الله علیہ وسلم نے صرف توحید وآخرت اور ان کی بعض مرغوب اشیا کی حرمت کی دعوت نہیں دی ، بلکہ ان کے لیے ایک عجیب وغریب شے یعنی مساوات کی دعوت بھی دی اور وہ لوگوں کو کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر کر رہے تھے ، یہ ایسا جرم تھا جس کو قریش کبھی معاف نہیں کرسکتے تھے، قریش نے مساوات کا انکار کرکے اپنے دین میں بھی تحریف کر لی تھی اور عام لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرنے اور وہاں سے لوگوں کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا، حالا ں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ حضرت ابراہیم کی روایتوں اور حج کے فرائض میں سے ہے ، قریش نے عربوں پر یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ اپنے بدوی لباس میں طواف نہ کریں، چناں چہ وہ ننگے طواف کرتے تھے ، قریش جنہوں نے اپنے لیے مختلف امتیازات مخصوص کر لیے تھے وہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی کامل مساوات سے کیسے راضی ہو جاتے ؟ قریش اس دعوت مساوات کو برداشت نہ کرسکے اور غلاموں کو پکڑنے لگے او ران کمزور لوگوں کو ستانے لگے جنہوں نے محمد صلی الله علیہ وسلم کی بات میں انصاف محسوس کیا تھا ، محمد صلی الله علیہ وسلم نے نہ صرف ان کے بتوں کی تردید کی، بلکہ بعث بعد الموت اور حساب سے ڈرایا اور ان کا جاہ وجلال ختم کر دیا، سود اور ان کی شہوتوں کو حرام کر دیا اور انہیں اور غلاموں اور کمزوروں کو برابر کر دیا ، بلکہ مال داروں کے مال میں غلاموں ، فقیروں اور مسافروں کا حق بھی بتایا۔
اس اجمال سے آپ کے سامنے اس معاشرے کی تصویر آگئی ہو گی جس میں محمد صلی الله علیہ وسلم نے توحید اور قوم کے لیے ناپسندیدہ سیاسی ومعاشرتی نظام کی دعوت دی ، قرآن نے اس طرح ان کی نفسیات کا بیان کیا ہے کہ ﴿ وقالوا إن نتبع الھدی معک نتخطف من أرضنا﴾․ ( سورہٴ قصص:57)
” وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی ہدایت کی اتباع کریں گے تو اپنی زمین سے اغوا کر لیے جائیں گے۔“ اگر ان سب باتوں کو آپ سامنے رکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس جدوجہد کے لیے کیسی شجاعت وصبر کی ضرورت تھی، شجاعت وصبر ہی انسانیت کے ستون ہیں، جو اسے زمین پر پہاڑوں کی طرح قائم رکھتے ہیں۔ رہنماؤں اور شہیدوں نے شجاعت کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ تاریخ میں روشنی اور ہدایت کا کام کرتی ہیں، معلم انسانیت محمد صلی الله علیہ وسلم کی شجاعت کا ان کی زندگی بھر امتحان ہوتا رہا،مگر اس میں کمزوری نہیں آئی، یہ شجاعت بچپن سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم جاہلیت واسلام دونوں میں اس سلسلے میں آگے رہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بچپن میں ایک بارلات وعزیٰ کی قسم دلائی گئی تو آپ نے مخاطب کو ڈانٹ دیا کہ ” ان دونوں کے ذریعہ مجھ سے کبھی سوال نہ کرنا کہ وہ والله! مجھے سب سے زیادہ ناپسند ہیں۔ ( سیرت ابن ہشام :182/1)
آپ صلی الله علیہ وسلم ایک بار اپنے دو چچاؤں کے ساتھ یمن کے لیے نکلے، اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم سترہ سال کے تھے، ان لوگوں نے وادی میں ایک سرکش اونٹ کو دیکھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو سدھا دیا۔ (سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرة خیر العباد:139/2)
حرب فجار میں آپ صلی الله علیہ وسلم بیس سال سے بھی کم کے تھے،مگر اپنے چچاؤں کے ساتھ تیر اندازی کر رہے تھے ، اسی طرح ایک بار قافلہ کے سامنے پانی سے بھری ہوئی ایک وادی آگئی اور لوگ خوف زدہ ہونے لگے تو آپ صلی الله علیہ وسلم آگے بڑھے اورلوگوں سے کہا کہ میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ ( سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرة خیر العباد:139/2)
یہ بچپن کی جرات وہمت کی کچھ مثالیں تھیں ، رسالت کے بعد کی بھی بہت ساری مثالیں ہیں جن کی عظمت کے آگے مشاہیر عالم سرنگوں ہو جاتے ہیں۔
حضرت علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب جنگ تیز ہو جاتی اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں تو ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو بچانے کی فکر کرتے، کیوں کہ ان سے زیادہ دشمن سے قریب کوئی نہیں ہوتا تھا۔ (سیراعلام النبلاء:392/2)
ہم یہاں دو واقعات کا ذکر کریں گے جو ہمارے نزدیک کسی سپاہی کی شجاعت کا اعلیٰ نمونہ ہیں : ایک رات اہل مدینہ ایک آواز سن کر گھبرا گئے اور کچھ لوگ اس آواز کی طرف چلے تو انہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم واپس ہوتے ہوئے ملے، جوان سے پہلے اس آواز کی طرف جاچکے تھے ، گھوڑے پر سوار ہو کر اور گردن میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے اور خبر کی تحقیق کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تم لوگ ڈرو نہیں ۔ ( صحیح بخاری، باب حسن الخلق الخ:891/2) جنگ حنین میں آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے اور للکار رہے تھے، جب کہ دوسرے لوگ بھاگ رہے تھے، اس وقت آپ کی زبان پر یہ رجز تھا۔
انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
( میں نبی ہوں اور یہ جھوٹ نہیں ہے ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں)
لوگوں کا بیان ہے کہ اس دن آپصلی الله علیہ وسلم سے زیادہ ثابت قدم اور دشمن سے زیادہ قریب کوئی نہ تھا۔
اس طرح کی شجاعت جس میں اور بھی مشاہیر عالم ممتاز رہے ہیں اور جس میں رسول صلی الله علیہ وسلم کو بھی بڑا حصہ ملا تھا ، تو وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ان کی مخصوص شجاعت وہ تھی جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی قوم کو ان کی ناپسندیدہ دعوت دی، ان کی شجاعت وہ تھی جب وہ قوم کی ایذا واستہزا پر صبر کر رہے تھے ، ان کی شجاعت کا ظہور اس وقت ہوا ، جب قریش نے چچا ابوطالب اور ان کے ہاشمی متبعین کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حمایت کے سبب ان کے مقاطعے کا معاہدہ کعبہ پر لٹکا دیا اور وہ تین سال سختیاں جھیلتے رہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم برابر نماز پڑھتے رہے اور اعلانیہ قرآن کی تلاوت کرتے رہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی شجاعت اس وقت بھی ظاہر ہوئی جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور بیوی خدیجہ کی وفات چند دنوں کے فرق سے ہوگئی، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے مدد گار وغم خوار تھے، پھر مکہ میں اور آپ صلی الله علیہ وسلم پر حادثات اس طرح گزرتے رہے ،جیسے طوفان پہاڑ کی چوٹی سے گزرتے ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم کی ثابت قدمی اس وقت بھی ثابت ہوئی جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے تن تنہا قبائل کو دعوت دی اور ان کے قول وفعل کی سختی برداشت کی۔
اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے سارے ساتھی یثرب کو ہجرت کر گئے تب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم بیت الله میں اعلانیہ نماز وتلاوت میں مشغول رہے ، یہ ایسے واقعات ہیں جن کی اگر کماحقہ تصویر کشی کی جائے تو ہر قوم وزمانہ کے ابطال ومشاہیر انہیں شجاعت کی مثالیں بنالیں۔
وہ طبعی واخلاقی شجاعت جو تمسخر سے کمزور نہ ہو اور کسی وعدہ ووعید سے متاثر نہ ہو، اس نے خُلق محمدی کو سہارادیا اور وہ تاریخ انسانی میں بے نظیر ثابت ہوئی ، آپ ذرا غور کریں کہ قریش نے ان پر تمسخر واستہزا کے ہتھیار سے حملہ کیا، جو لوگوں کی ہمت وعزیمت کے لیے سب سے مہلک ہتھیار ہوتا ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوہ صفا سے جب قریش کو آواز دی اور انہوں نے عذاب الہٰی کی وعید سنی تو وہ سب آپ صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑ کر واپس ہو گئے اور ابولہب بول پڑا کہ ( معاذ الله) خدا غارت کرے کیا ہمیں آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے اس لیے بلایا تھا؟
وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ ﴿لا تسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون﴾․( سورہ حم سجدہ:26)
یہ قرآن مت سنو اور اس میں لغوباتیں ملا دو، تاکہ تم غالب رہو۔“
وہ جانتے تھے کہ استہزا کا ہتھیار ظلم وجور سے بھی زیادہ کارگر ہوتا ہے ، اس لیے وہ اس سے برابر کام لیتے رہے، چناں چہ جب قرآن مجید نے انہیں ڈرانے کے لیے شجرز قوم کا ذکر کیا تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور ان میں سے ایک مذاق کرتے ہوئے بولا کہ اے اہل قریش ! تم جانتے ہو کہ محمد( صلی الله علیہ وسلم) جس زقوم سے تمہیں ڈراتے ہیں وہ یثرب کی عجوہ کھجور ہے، جو بالائی میں تر ہو ، والله! وہہمیں اگر ملے تو ہم اسے مزے لے کر کھائیں۔ (سیرت ابن ہشام:362/1)
او رجب قرآن نے جہنم اور اسکے انیس پہرے داروں کا ذکر کیا تو ابوجہل نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے قریش سے کہا کہ محمد( صلی الله علیہ وسلم) کہتے ہیں کہ ہم جہنم کے ایک آدمی سے عاجز ہو جائیں گے، وہ انیس ہیں، مگر تم تو ان سے کہیں زیادہ ہو تو کیا تمہارے سو آدمی جہنم کے ایک آدمی سے عاجز ہو جائیں گے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ: ﴿وماجعلنا اصحاب النار إلا ملائکة وماجعلنا عدتھم إلا فتنة للذین کفروا﴾․ (سورہٴ مدثر:31)
”ہم نے جہنم کے پہرہ دار ملائکہ بنائے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد کو کافروں کی لیے فتنہ بنایا ہے۔“
جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کسی مجلس میں بیٹھتے تو ان کے پیچھے نضر بن حارث بھی بیٹھ جاتا تھا ( جوحیرہ سے ایرانیوں اور رستم واسفندیار کے قصے سن کر آیا تھا) اور قریش سے کہنے لگتا تھا کہ والله! میرے پاس محمد( صلی الله علیہ وسلم )سے زیادہ دلچسپ قصے ہیں، تم انہیں مجھ سے سنو، میں تمہیں ان کے ساتھ قرآن کا بدل بھی پیش کروں گا، پھر وہ انہیں رستم واسفندیار اور شاہانِ فارس کے قصے سناتا تھا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم ور ان کے پیروں کاروں سے مذاق کی ایک اور تصویر ملاحظہ ہو، حضرت خباب بن الارت کمزور صحابہ میں تھے اور تلواریں بناتے تھے، وہ مکہ کے ایک بڑے آدمی عاص بن وائل سے اپنا محنتانہ مانگنے گئے تو وہ ان سے کہنے لگا کہ جناب ! تمہارے ساتھی محمد (صلی الله علیہ وسلم) یہ کہتے ہیں کہ جنت میں اہل جنت جو چاہیں گے ملے گا۔“ تو خباب نے اس کی تصدیق کی ، اس پر وہ کہنے لگا کہ تب قیامت کا انتظار کرو، جب میں وہاں آؤں گا تو تمہارا حق دے دوں گا ، کیوں کہ والله! تم اور تمہارے ساتھی الله کے یہاں مجھ سے زیادہ عزیز ونصیبہ ور ہوں گے۔
ولید بن مغیرہ مکہ کا اور ابو عروہ بن مسعود ثقفی طائف کا سردار تھا، وہ دونوں قرآن کا مذاق کرتے ہوئے کہتے تھے کہ﴿لولا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم﴾․ (سورہٴ زخرف:31)
”یہ قرآن ان دونوں فریقوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل ہوا؟“ یہ کہہ کر وہ شانِ محمدی گھٹانے کی کوشش کرتے تھے ، دعوت سے اس مذاق نے ان میں غفلت پیدا کی، مگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صبر وثبات میں اضافہ کیا، اس تمسخر وایذا پر صدیاں گزر گئیں مگر شجاعت نبویہ کی اس پر برتری برقرار ہے اور دشمنوں پر اب بھی رعب طاری کر دیتی ہے۔
جب ہنسی مذاق اور ایذا رسانی کے سارے اسلحے ذات گرامی کے آگے بیکار ہو گئے تو مشرکین نے قتل کی سازش کی، جس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوشیدہ طور سے ہجرت کی اور غارثور میں اپنے رفیق ابوبکر صدیق کو تسلی دی کہ ﴿ لاتحزن إن الله معنا﴾․ ( سورہٴ توبہ:40)
”گھبراؤ نہیں، الله ہمارے ساتھ ہے۔“
ہجرت کے بعد کشمکش کا دور شروع ہوا، جس میں اسلحہ کا استعمال بھی ہوا اور ذات نبوی کے قائدانہ وشجاعانہ پہلو کا بھی ظہور ہوا اور ان کے صبر ورضا کے ساتھ ان کا غیظ وغضب بھی ظاہر ہوا، ان کے مقابلے میں مشاہیر عالم کے قصے پرانے ہو گئے، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے، جس میں آپ صبر وشجاعت کی آیات پڑھ سکتے ہیں، جن میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک اعلی مثال نظر آتے ہیں۔

Flag Counter