Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1430

ہ رسالہ

10 - 14
***
یہ آپ کی ذمے داری ہے
زیادہ عرصہ نہیں گزرا، پاکستان میں بڑی بڑی دکانوں اور خوب صورت شوروموں کا جال بچھنا جس تیزی سے شروع ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ متمول گھرانوں کے افراد اپنے محلے کی دکانوں کو چھوڑ کر یہاں خریداری کرنے آتے ہیں تو ان کے سامنے شاپنگ کے علاوہ تفریح کا عنصر بھی ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسی جگہوں سے خریداری کو فخر سے بیان کیا جاتا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ سپر مارکیٹوں کی یہ چکاچوند اور شاپنگ کے ساتھ ساتھ تفریح کا یہ انداز ہماری معاشی اور معاشرتی ترقی کی دلیل نہیں ہے۔ یہ تمام نظارے دراصل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) نے پاکستان کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے، اور ہم بہ حیثیت پاکستانی اس شکنجے میں پھنسنے کو بہ خوشی ترجیح دے رہے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام نے انیسویں صدی سے لے کر آج تک جس انداز میں دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہے، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کی رنگینی دیکھنے میں تو بڑی دل گیر ہوتی ہے، حقیقت میں دل فریب ہوتی ہے۔ نتیجتاً دیانت، امانت اور سچ کی جگہ جھوٹ، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ”آرٹ“ بن چکے ہیں۔
اس کی نظر میں غریب ملکوں کے افلاس زدہ چہرے اور بھوک سے بلکتے بچوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ خوانچہ فروش اور گلی محلے کے دکان دار جن کا کل اثاثہ یہ خوانچہ یا دکان ہے، کسی طرح اس سے بھی محروم ہوجائے۔ ظاہر ہے، جب ایک آدمی کو تمام چیزیں ایک چھت تلے انتہائی اچھے ماحول میں دست یاب ہوں گی تو وہ کیوں کر ایک چھوٹی سی دکان پر جانے کو اور انتظار کرنے کو ترجیح دے گا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ روزانہ کی دیہاڑی کمانے والے اور چند ہزار کی دکان چلانے والے لوگ ارب پتی بزنس مین کا مقابلہ کیوں کر کرسکتے ہیں؟
پاکستان میں بڑی حد تک الحمدللہ، ایک شخص کماتا ہے اور پورا کنبہ بیٹھ کر کھاتا ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں ہر مرد اور عورت کو اپنی زندگی کی ضروریات حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ شومئی قسمت کہ اب پاکستان میں بھی خاص طور پر بڑے شہروں میں یہ رواج عام ہوچلا ہے کہ مرد اور خواتین دونوں ہی کمانے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ابتدا میں نام نہاد ترقی کے دل دادہ لوگوں نے بہ خوشی اس اسٹائل کو قبول کیا، لیکن اب آہستہ آہستہ یہ کلچر ہماری مجبوری بنتا جارہا ہے۔
تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ تلخ مگر حقیقت ہے کہ اس مجبوری کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ ہمارے ہاں قناعت کو طاقِ نسیاں پر رکھنے کے بعد پُرتعیش اور مسرفانہ زندگی کو عزت اور فخر کا نشان سمجھاجاتا ہے۔ اور تعیش و اسراف دونوں سرمایہ داری نظام کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا، قرض کومصیبت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور قرض لینے والے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ مگر اب بینکوں کے قرضے اور وہ بھی شدید سودی پابندیوں کے ساتھ لینے کو اسٹیٹس کی علامت قراردیا جاتا ہے۔
غور کیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہماری زندگی میں کتنی ہی ایسی چیزیں شامل ہوگئی ہیں جن کی ضرورت نہ کبھی ہمیں محسوس ہوئی، نہ آج ان کی ضرورت ہے۔ ٹی وی، فریج، موبائل،صوفا، ڈائننگ سیٹ، اے سی اور کئی ایسی چیزیں ہماری زندگی میں شامل ہیں جن کی ہمیں ضرورت نہیں مگر وہ محض ہمارے کلچر کا حصہ بن کر ہمارے حواس پر چھاگئی ہیں۔ یہ کلچر اس روح کے بالکل خلاف ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں میں پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ افسوس، جائز ناجائز اور حلال حرام کی بحث میں پڑے بغیر ہم اس راحت و آرام کو اس دنیا ہی میں حاصل کرلینا چاہتے ہیں جو ہمارے لیے جنت میں رکھّا گیا ہے۔ دنیا اور آخرت کا معاملہ ایک حقیقت ہے، لیکن سرمایہ داری نظام نے ہمارے ذہنوں میں جو سوچ پروان چڑھائی ہے وہ ہمیں آخرت سے بے نیاز کرتی ہے۔ ڈر اس بات کا لگتا ہے کہ اگر آج ہم مسلمانوں میں کسی قدر آخرت والی سوچ کی رمق باقی ہے تو خدا نہ خواستہ آنے والی ہماری نسلوں میں وہ رمق بھی باقی نہ رہے۔
ہم نظام کو اگر نہیں بدل سکتے تو کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ سرمایہ داری کلچر نے جو فضا ذہنی اور عملی سطح پر تشکیل دے دی ہے، اس کے اثرات سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہاں تک ممکن ہو، محفوظ رکھنے کی تدبیر کریں۔ آپ اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، یہ آپ کی ذمے داری ہے۔ اللہ سے دعا کیجیے اور اس ذمے داری کو پورا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیے۔

Flag Counter