Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

11 - 15
***
حدیث نبوی بھی وحی الہٰی کا حصہ ہے
مولانا عبد الله البرنی 
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ دوقسم کی تھی۔ ایک تو قرآنی آیات جن کو ”کلام الله“ کہا جاتا ہے، اس وحی کے الفاظ او رمعنی دونوں الله تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور وہ قرآن مجید میں اس طرح محفوظ کر دی گئیں کہ آج تک ان کا ایک نقطہ وشوشہ بھی نہ بدلا جاسکا اور نہ آئندہ کوئی بد ل سکتا ہے۔ اس وحی کو اہل علم کی اصطلاح میں ” وحی متلو“ کہتے ہیں، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ دوسری قسم وحی کی وہ ہے جو قرآن مجید کا جز تو نہیں ہے لیکن اس کے ذریعہ بھی الله تعالیٰ نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو بہت سے احکام عطا فرمائے ہیں ، اس کو ” وحی غیر متلو“ کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی یہ وحی صحیح احادیث کی شکل میں محفوظ ہے اور اس میں عموماً ایسا ہوا ہے کہ مضامین آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے نازل کیے گئے، لیکن ان مضامین کی تعبیر کے لیے الفاظ کا انتخاب آپ نے خود فرمایا ہے۔ (الاتقان ج1 ص:45)
مولانا محمد تقی عثمانی صاحب اپنی تصنیف” علوم القرآن“ میں فرماتے ہیں : ” خود قرآن کریم کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی الہٰی صرف قرآن کریم میں منحصر نہیں ہے، بلکہ آیات قرآنی کے علاوہ بھی بہت سی باتیں آپ کو بذریعہ وحی بتائی گئیں۔ اس بات کی تائید میں چند قرآنی دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
․ (البقرة:143)
” اور جس قبلہ کی طرف آپ صلی الله علیہ وسلم پہلے ( رخ کرتے) تھے، اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا، تاکہ یہ جان لیں کہ کون رسول صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے۔“
تقریباًہر مسلمان جانتا ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں ایک عرصہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، اس کے بعد جب دوبارہ بیت الله کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم صرف اس لیے دیا تھا، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ کون اس حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کون انکار، یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس آیت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کو الله تعالیٰ نے اپنی جانب منسوب فرمایا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم بھی ہم نے ہی دیا تھا، اب قرآن کریم کو الحمد سے لے کر والناس تک پڑھ جائیے، اس میں کہیں یہ حکم نہیں ملے گا کہ ” بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو“ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم الله تعالیٰ نے کسی ایسی وحی کے ذریعہ دیا تھا جو قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں اور اسی کا نام ” وحی غیر متلو“ ہے 
․
”پس جب اس ( عورت) نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور الله نے اس کو آپ پر ظاہر کر دیا…۔“
اس آیت کی تشریح مختصراً یہ ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ نے ایک بات آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے چھپانی چاہی تھی، الله تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ صلی الله علیہ وسلم کو وہ بات بتلا دی، اس پر انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم کو کس نے بتائی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات مجھے علیم وخبیر یعنی الله تعالیٰ نے بتلا دی تھی، اس آیت میں تصریح ہے کہ وہ پوشیدہ بات الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتلائی تھی، حالاں کہ پورے قرآن کریم میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اطلاع آپ کو وحی غیر متلو کے ذریعہ دی گئی تھی اور بھی متعدد آیات سے وحی غیر متلو کا ثبوت ملتا ہے، یہاں اختصار کے پیش نظر صرف انہی دو آیتوں پر اکتفا کیا جاتا ہے ، اگر تحقیق حق مقصود ہو تو یہ دو آیتیں بھی اس بات کا ناقابل انکار ثبوت مہیا کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وحی غیر متلو بھی وحی کی ایک قسم ہے اور وہ بھی وحی متلو کی طرح یقینی اور واجب الاتباع ہے ۔ (علوم القرآن ص:42-41)
دور حاضر میں جہاں او ربہت سے فتنوں نے سر اٹھایا ہے وہاں ایک عظیم فتنہ ” انکار حدیث“ بھی ہے۔ منکرین حدیث کا کہنا ہے کہ صرف قرآن مجید کے ذریعہ ہم اسلامی احکام، فرائض وواجبات اور تمام تفصیلات معلوم کرسکتے ہیں، حدیث نبوی کو نہ تو وہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں نہ ہی اس کو واجب الاتباع مانتے ہیں۔ ان گمراہوں کا یہ نظریہ اس قدر واضح البطلان ہے کہ اس کی تفویت اور بے ثبوتی معمولی سا علم رکھنے والے مسلمان سے بھی مخفی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سے سادہ لوح اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں قرآن مجید میں جابجا نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ذرا بتاؤ تو سہی کہ نماز کا طریقہ کار اور رکعتوں کی تعداد، نماز میں پڑھی جانے والی چیزیں کس آیت اور کس سورت میں مذکور ہیں؟ ان باتوں کا علم صرف احادیث صحیحہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح زکوٰة کا نصاب اور مقدار قرآن مجید میں بیان نہیں کی گئی ہے۔ اس کا پتہ احادیث صحیحہ سے چل سکتا ہے، لہٰذا گمراہی پھیلانے سے باز آجاؤ۔

Flag Counter