Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

1 - 15
Volume 24
ذوالقعدہ 1429ھ, Volume 24, No. 12
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتا جامعہ فاروقیہ کراچی
غیر مسلموں سے تعلقات کے شرعی حدود
سوال… غیر مسلم پڑوسیوں سے مسلمانوں کے تعلقات کے حدود اور شرعی طریقہ کار کیا ہے ؟
جواب… حضرات علمائے کرام نے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کے چار درجے لکھے ہیں:
1۔ موالات: جس سے مراد دلی دوستی اور قلبی محبت واحترام ہے، یہ صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے ، کسی کافر کے لیے دل میں محبت اور مودت رکھنا او راس کی تعظیم کرنا ناجائز ہے، جن آیتوں میں منع وارد ہوا ہے ، وہاں یہی درجہ مراد ہے۔
2۔ مواسات: اس سے مراد خیر خواہی اور ہمدردی ہے ، انسانی تعلق کے ناطے اس کی اجازت ان غیر مسلموں کے ساتھ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر پیکار نہیں ہیں۔برسرپیکار کافر کے ساتھ ہمدردی جائز نہیں۔
3۔ مدارات: جس کا تقاضا یہ کہ ظاہراً خوش خلقی اور روبرو حسن لقاء اپنایا جائے، یہ تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس سے مقصد ان کی تالیف قلب ہو ، یا ان کے ضرر سے بچنا مقصود ہو ۔
4۔ معاملات: یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائزہیں جب کہ اس میں عام مسلمانوں کا ضرر نہ ہو ، جیسے اہل حرب کو اسلحہ فروخت کرنا وغیرہ ممنوع ہیں۔ اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کا ضرر ہے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ نہ تو ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے انسانی اقدار متزلزل ہوں اور نہ ہی ایسا کلی اختلاط روا رکھا گیا ہے جس سے آپس کا فرق اور تمیز مٹ جائے، محدود دائرے میں تعلقات کی گنجائش ہے ۔
سوال… غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی شریعت مطہرہ میں حدود کیا ہیں؟
جواب… غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ پہلے درجے (دلی محبت ومؤدت) کے علاوہ دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کے معاملات درست ہیں، بشرطیکہ مسلمان کا اس میں دینی نقصان نہ ہو۔ یہ بھی ان کے ساتھ مخلوط معاشرت کی ضرورت کی وجہ سے ہے ورنہ تو دراصل کافر کے ساتھ اس کے کفر کی وجہ سے بغض رکھنا ضروری ہے۔ کما قال الله تعالیٰ:․ (الممتحنہ آیت:40)
سوال… غیر مسلموں کے ساتھ سیر وتفریح کے لیے سفر کرنا کیسا ہے ؟
جواب… غیر مسلموں کے ساتھ تفریحی سفر کی چوں کہ کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، اس لیے اس سے پرہیز کیا جائے۔ تفریحی ماحول میں اور وہ بھی غیر مسلم ممالک میں ایک مسلمان کے لیے شرعی حدود کی پاس داری نہایت دشوار ہو جاتی ہے۔ مزید برآں ان جیسے مواقع میں ان کے ساتھ تشبہ لازم آتا ہے او را س سے استدلال کرکے لوگ دوسری مذہبی رسومات میں بھی شرکت کرنے کو جائز سمجھنے لگیں گے۔
سوال… غیر مسلموں سے ہدایاتحائف کی لین دین کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟
جواب… غیر مسلموں سے ہدایا اور تحائف لینا اگر قلبی مودت واحترام کا باعث بنے یا اس سے ان کی رسومات کفریہ وشرکیہ کی تائید ہو تو ناجائز ہے او راگر صرف خاطر مدارات اور اس کے دل کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے ہو تو جائز ہے ، سیر کبیر میں ہے:
” فبھذا تبین أن للأمیر رأیا فی قبول ذلک لأن فی القبول معنی التألیف وفی الرد إظہار الغلبة والعداوة․ ( سیر کبیر ج1، ص:99)
سوال… غیر مسلموں کی مجالسِ سروروغم میں شرکت کا شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب… غیر مسلموں کی مجالسِ سرور وغم اگر مذہبی نہ ہوں تو ان کا حکم بھی وہی ہے جو ہمدردی وغیرہ کا حکم ہے ۔ اگر مذہبی ہوں تو ان میں شرکت کرنا ان کی عملی تائید ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
سوال… غیر مسلموں کے ساتھ کھانا پینا ضرورت یا بلا ضرورت کیا حکم رکھتا ہے؟
جواب… کھانے پینے میں عادت نہ بنائی جائے ، اگر اتفاقاً موقع آئے تو مباح ہے۔
سوال… کرسمس کے موقعہ پر نصاریٰ کی طرف سے کرسمس کارڈ، ہدیہ لینا اور مسلمانوں کا کارڈ دینا اس کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟
کرسمس کے موقعہ پر نصاریٰ کی طرف سے مٹھائی وغیرہ کا ہدیہ لینا ان کو دینا شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
جواب… اس موقع پر کارڈ لینا ، دینا اور تحائف کا تبادلہ چوں کہ غیر مسلموں کے مذہبی رسومات کا جز ہے اس لیے اس نام سے ہدیہ لینا دینا اور تحائف کا تبادلہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں۔
اسلام میں شرعی لباس کیا ہے 
سوال… اسلام میں شرعی لباس کیا ہے ؟ کیا پتلون پہن سکتے ہیں اور پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں ؟ 
جواب… اسلام نے شرعی لباس کے لیے کوئی خاص اصول مقرر نہیں کیے، البتہ کچھ حدود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کیا جائے وہ حدود درج ذیل ہیں :
مرد کا شلوار، تہ بند اور پائجامہ وغیرہ اتنا نیچے نہ ہو کہ ٹخنے یا ٹخنوں کا کچھ حصہ اس میں چھپ جائے۔ لباس میں کافروں اور فاسقوں کی مشابہت اختیار نہ کی جائے۔ لباس اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ وہ اعضاء ظاہر ہو جائیں جن کا چھپانا واجب ہے۔ مرد زنانہ لباس، عورت مردانہ لباس نہ پہنیں۔ اپنی مالی استطاعت سے زیادہ قیمت کے لباس کا اہتمام نہ کیا جائے۔ مال دار شخص اتنا گھٹیا لباس نہ پہنے کہ دیکھنے والے اسے مفلس سمجھیں۔ فخر ونمائش او رتکلف سے اجتناب کیا جائے۔ لباس صاف ستھرا ہونا چاہیے، مردوں کے لیے سفید لباس پسندیدہ ہے۔ مردوں کے لیے اصلی ریشم کا لباس پہنا حرام ہے۔ خالص سرخ لباس مردوں کے لیے مکروہ ہے۔
پتلون چوں کہ تنگ اور چست ہوتی ہے کرتا یا قمیص نہ ہو گا تو ستر (شرم گاہ) کے بعض حصے نمایاں ہوں گے، نماز میں رکوع، سجدہ کی حالت میں ستر کا صاف نظر آنا ظاہر ہے، تو نماز کے مکروہ ہونے کا سبب بنے گی، لہٰذا اس کا پہننا اور پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
نماز سے روکنے والے استاذ کا حکم
سوال… حضرات مفتیان کرام! ہمارے ٹیویشن سینٹر میں ایک استاذنے سبق کے دوران جب مغرب کی اذان ہونے پر نماز کے لیے ہم کھڑے ہوئے تو بیان کیا کہ تم لوگوں کی نماز کا جواب دہ میں ہوں گا“ اور استاذ نے نماز کے لیے جانے سے منع فرمادیا اور ہم اگر بغیر اجازت لیے نماز پڑھنے جاتے ہیں تو ہمارا سبق رہ جائے گا، تو اس صورت میں ہمارا جانا بغیر اجازت کے صحیح ہو گا؟ استاذ محترم کے اس رویے کے بعد شریعت ان کے بارے میں کیا رائے دیتی ہے؟
جواب… حدیث پاک میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“․ ( فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:12/6486)
ترجمہ: الله تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جاتی۔
حدیث مبارکہ کے مطابق استاذ کی اطاعت جائز نہیں ہے ، نماز کے وقت سب لوگ نماز پڑھنے مسجد جائیں تاکہ کسی کے سبق کا حرج بھی نہ ہو، یا ٹیویشن کے اوقات تبدیل کریں، ورنہ ایسے استاذ کے پاس ٹیویشن پڑھنا چھوڑ دیں جو خود تارکِ نماز ہو او رفرض نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتا ہو۔ استاذ صاحب کا یہ کہنا” تم لوگوں کی نماز کا جواب دہ میں ہوں گا“ انتہائی خطرناک بات ہے اور اس جملے پر توبہ واستغفار کریں اور آئندہ اس قسم کی بات کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے، الله تعالیٰ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین ۔



Flag Counter