Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء

ہ رسالہ

7 - 9
بارگاہِ نبوت سے بدعتی کی تذلیل
بارگاہِ نبوت سے بدعتی کی تذلیل

حافظ ابو القاسم ابن عساکر کتاب التبیین میں شیخ سعد بن علی الاسفرائنی سے نقل کرتے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے زین القراء ، جمال الحرم شیخ ابو الفتح عامر بن نجابن عامر الساری سے مکہ میں سنا، وہ فرماتے تھے کہ میں ۱۴/ شوال ۵۴۵ھ کو بروز اتوار ظہر اور عصر کے مابین مسجد حرام میں داخل ہوا، اعضاء شکنی اور دورانِ سرکی وجہ سے مجھ میں بیٹھنے کی ہمت نہیں تھی، میں کسی ایسی جگہ کا متلاشی تھا جہاں ذرا سالیٹ کر استراحت حاصل کروں، میں نے دیکھا کہ باب عروہ کے پاس رباط رامشتی کے بیت الجماعت کا دروازہ کھلا ہے،چنانچہ وہاں جاکر کعبہ شریف کے سامنے داہنی کروٹ پر لیٹ گیا اور ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیا، بایں خیال کہ نیند کی وجہ سے اعادہٴ وضو کی نوبت نہ آئے، اتنے میں ایک مشہور ومعروف بدعتی وہاں آیا، اس نے اسی دروازے کے سامنے مصلی بچھایا ، جیب سے ایک چھوٹی سی تختی نکالی جو غالباً پتھر کی تھی ، اسے چوم چاٹ کر اپنے آگے رکھا اور حسب معمول ہاتھوں کو چھوڑ کر لمبی نماز شروع کردی ، جب سجدے میں جاتا تو اسی تختی پر سجدہ کرتا، نماز سے فارغ ہوا تو دیر تک اس تختی پر سجدہ ریز رہا، دونوں رخسارے اس پر مسلتا اور گڑگڑا کردعا کرتا رہا، سجدے سے سراٹھایا تو اس تختی کو پھر چوما، آنکھوں پر رکھا، اور دوبارہ چوم کر اسے جیب میں ڈال لیا۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو بڑی کراہت اور وحشت ہوئی، خیال آیا کہ کاش! رسول اللہ ا ہمارے درمیان موجود ہوتے تو ان لوگوں کی بدعت اور ناشائستہ حرکت کی بنا پر اُنہیں بیک بینی ودوگوش یہاں سے نکال دیتے۔
میں اسی سوچ میں نیند کو دفع کرنے کی کوشش کررہا تھا تاکہ وضو نہ ٹوٹ جائے، اچانک مجھ پر اونگھ کا غلبہ ہوا اور بیداری اور نیند کی درمیانی حالت تھی کہ میں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے، جس میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں، ہرایک کے ہاتھ میں ایک مجلد کتاب ہے اور سب لوگ ایک شخص کے گرد حلقہ باندھے ہوئے ہیں، میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیاقصہ ہے؟ اور اس حلقہ کے اندر کون صاحب ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ آنحضرت ا کا دربار عالی لگا ہوا ہے اور یہ سب لوگ اپنے اپنے مذاہب واعتقادات کی کتابیں آنحضرت ا کو سنا کر ان کی تصحیح کرارہے ہیں، اتنے میں اہل حلقہ میں سے ایک شخص آیا ، جس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، مجھے بتایا گیا کہ یہ امام شافعی ہیں، وہ حلقہ کے اندر بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے اور آنحضرت ا کو سلام عرض کیا، مجھے بھی حلقہ کے اندر حاضر ہونے کا موقع مل گیا، دیکھا کہ رسول اللہ ا اپنے جمال وکمال کے ساتھ رونق افروز ہیں، صاف ستھرا سفید وبراق لباس زیب تن ہے، عمامہ، کرتا، اور دیگر کپڑے جو اہل اللہ کا معمول ہیں۔ بہرحال آنحضرت ا نے امام شافعی کے سلام کا جواب دیا اور انہیں خوش آمدید کہا، امام شافعی نے اپنی کتاب سے اپنا عقیدہ ومذہب پڑھ کر سنایا۔ ان کے بعد ایک اور صاحب آئے ، بتایاگیا کہ یہ امام ابوحنیفہ ہیں، ان کے ہاتھ میں بھی کتاب تھی، حاضرہوئے، سلام عرض کیا اور امام شافعی کے پہلو میں بیٹھ گئے اور اپنی کتاب سے اپنا عقیدہ ومذہب پڑھ کر سنایا، ان کے بعد ہر صاحب مذہب آیا، اسے پہلے کے پہلو میں جگہ ملتی ۔یہ سب حضرات فارغ ہوئے تو ایک بدمذہب بدعتی آیا، اس کے ہاتھ میں چند غیر مجلد کراسے (صفحے )تھے، جن میں ان لوگوں کے عقائد درج تھے، وہ حلقہ کے اندر جاکر اپنے عقائد رسول اللہ ا کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا، آنحضرت ا کے رفقاء میں سے ایک شخص نکلا، اس نے بدمذہب کے ہاتھ سے وہ کراسے چھین کر حلقے سے باہر پھینک دیئے اور اسے بصد ذلت ورسوائی باہر دھکیل دیا۔
جب میں نے دیکھا کہ سب لوگ فارغ ہوچکے ہیں، اور اب کوئی شخص دربار عالی میں اپنی کتابِ عقائد پیش نہیں کررہا ، تو میں ذرا آگے بڑھا، میرے ہاتھ میں ایک مجلد کتاب تھی، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کتاب میں میرا اور اہل سنت کا عقیدہ درج ہے، آپ ا ارشاد فرمائیں تو پیش کروں؟ رسول اللہ ا نے فرمایا : یہ کون سی کتاب ہے؟ عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ (امام) غزالی کی تصنیف ”قواعد العقائد“ ہے۔ فرمایا :پڑھو! میں نے مؤدب بیٹھ کر پڑھنا شروع کیا۔
”بسم الله الرحمن الرحیم“
”کتاب قواعد العقائد وفیہ أربعة فصول، الفصل الأول فی ترجمة عقیدة أہل السنة فی کلمتی الشہادة التی ہی أحد مبانی الإسلام، فنقول وبالله التوفیق : الحمد لله المبدی المعید الفعال لما یرید“
ترجمہ:۔”کتاب ”قواعد العقائد“ اس میں چار فصلیں ہیں: پہلی فصل کلمہٴ شہادت” لا إلہ إلا الله محمدٌ رسولُ الله “سے متعلق عقیدہ اہل سنت کے بیان میں، جو اسلام کی ایک بنیاد ہے، چنانچہ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہتے ہیں : تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس نے پہلی بار پیدا کیا اور جو دوبارہ پیدا کرے گا، جس کی یہ شان ہے کہ جو چاہے کر ڈالے“۔
خطبہ اور عقیدہٴ غزالی کو پڑھتے ہوئے جب میں امام غزالی کی اس عبارت پر پہنچا:
”معنی الکلمة الثانیة وہی الشہادة للرسول ا وأنہ بعث النبی الأمی القرشی محمداً ا برسالتہ إلی کافة العرب والعجم والجن والإنس فنسخ بشریعتہ الشرائع إلا ما قررہ منہا وفضلہ علی سائر الأنبیاء وجعلہ سید البشر، ومنع کمال الإیمان بشہادة التوحید وہو قول” لا إلہ إلا الله “ مالم تقترن بہا شہادة الرسول وہو قولک” محمد رسول الله “وألزم الخلق تصد یقہ فی جمیع ما أخبرعنہ من أمور الدنیا والآخرة الخ“۔
ترجمہ:۔”اور دوسرے جملہ یعنی” محمد رسول اللّٰہ “کے معنی ہیں رسول اللہ ا کی رسالت ونبوت کی شہادت دینا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قبیلہ قریش کے نبی امی حضرت محمدا کو تمام عرب وعجم اور جن وانس کی جانب رسول بناکر بھیجا، ان کی شریعت سے تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا ،بجز ان مسائل کے جو آپ ا نے برقرار رکھے اور تمام انبیاء علیہم السلام پر آپ ا کو فضیلت دی اور آپ ا کو سید البشر کے مرتبہ پر فائز کیا اور یہ قرار دیا کہ جب تک کوئی شخص ”لا الہ إلا اللّٰہ “کے ساتھ” محمد رسول اللّٰہ “کی شہادت نہ دے ، تب تک اس کا” لا إلہ إلا اللّٰہ “کہنا بھی کالعدم ہے اور آنحضرت ا نے دنیا وآخرت کے جن امور کی خبر دی ، ان کی تصدیق کو تمام مخلوق پر لازم کیا الخ“۔
تو آنحضرت ا کا چہرہ انور چمکنے لگا، میری جانب نظر التفات ہوئی اور ارشاد فرمایا : ”غزالی کہاں ہیں؟“ امام غزالی گویا آنحضرت ا کے سامنے کھڑے تھے ، فوراً آگے بڑھے، اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں، یہ کہہ کر سلام کیا، آپ ا نے سلام کا جواب مرحمت فرمایا اور ان کی طرف دست مبارک بڑھایا، امام غزالی آپ ا سے برکت حاصل کرنے کے لئے دست مبارک کو چومتے اور اپنے رخساروں پر مَلتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ آنحضرت ا نے کسی پر ایسی مسرت وابہتاج کا اظہار نہیں فرمایا ، جس قدر کہ میرے ”قواعد العقائد“ پڑھنے پر خوش ہوئے، بعد ازاں میری آنکھ کھل گئی اور ان احوال ومشاہدات اور کرامات کے اثر سے میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ فللّٰہ الحمد والمنة۔
(اتحاف ، ج:۱، ص:۱۶،۱۷)
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: سماع موتیٰ کا عقیدہ
Flag Counter