Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء

ہ رسالہ

4 - 9
مقیم ِ مکہ کے لئے منیٰ میں قصر نماز
مقیم ِ مکہ کے لئے منیٰ میں قصر نماز

سوال:
حج کے دوران اہلِ مکہ منیٰ میں جاکر نماز ظہر، عصر اور عشاء میں قصر کریں گے یا پوری نماز پڑھیں گے؟
جواب:
اہل مکہ منیٰ میں قصر نہیں کریں گے، بلکہ اتمام کریں گے، یعنی پوری چار رکعت پڑھیں گے۔ یہ مسئلہ رسول اللہ ا کی احادیث مبارکہ اور آثار صحابہ وتابعین سے ثابت ہے،ذیل میں وہ احادیث وآثار ملاحظہ کیجئے۔
حدیث نمبر ۱:
”عن أبی نضرة قال: سأل شاب عمران بن حصین  عن صلاة رسول الله ا فی السفر فقال: إنَّ ہذا الفتی سألنی عن صلاة رسول الله ا فی السفر، فاحفظوہن عنی، ما سافرت مع رسول الله ا سفرا قط إلا صلی رکعتین ، حتی یرجع وشہدت معہ حُنیناً والطائف ، فکان یصلی رکعتین ، ثم حججت معہ واعتمرت فصلی رکعتین ، ثم قال: یا أہل مکة! أتموا الصلاة، فإنا قوم سفر، ثم حججت مع أبی بکر واعتمرت، فصلی رکعتین، ثم قال: یا أہل مکة! أتموا الصلاة فإنا قوم سفر ، ثم حججت مع عمر واعتمرت فصلی رکعتین، ثم قال:یا أہل مکة ! أتموا الصلاة، فإنا قوم سفر“۔(مسند طیالسی، ج:۲،ص:۱۸۹۔ السنن الکبریٰ للبیہقی ج:۳،ص:۱۳۵۔المأثور للشافعی ج:۱،ص:۱۲)
ترجمہ:۔”ابو نضرہ سے روایت ہے کہ ایک نوجوان نے حضرت عمران بن حصین  سے رسول اللہ ا کی سفری نماز کے متعلق سوال کیا۔ حضرت عمران بن حصین نے کہا: اس نوجوان نے مجھ سے رسول اللہ ا کی سفری نماز کے متعلق سوال کیا ہے، میری طرف سے جوا س کا جواب ہے ، اس کو محفوظ کرلو۔ میں نے جب بھی رسول اللہا کے ساتھ سفر کیا ہے تو آپ ا سفر سے واپس آنے تک دو رکعتیں پڑھتے تھے، میں حنین اور طائف میں آپ ا کے ساتھ حاضر تھا، آپ ا دو رکعتیں پڑھتے تھے، پھر میں نے آپ ا کے ساتھ حج وعمرہ کیا، آپ ا نے دورکعتیں پڑھ کر اعلان کیا: اے اہل مکہ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو۔ پھر میں نے حضرت ابوبکر کے ساتھ حج وعمرہ کیا تو حضرت ابوبکر نے بھی دورکعتیں پڑھ کر اعلان کیا: اے اہل مکہ ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو۔ پھر میں نے حضرت عمر  کے ساتھ حج وعمرہ کیا، حضرت عمر  نے بھی دورکعتیں پڑھ کر اعلان کیا: اے اہل مکہ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو“۔
جب رسول اللہ نے حجة الوداع میں دو رکعتیں پڑھا کر اہل مکہ کو حکم دیا کہ ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو، پھر آپ ا کے بعد دو خلفاء راشدین نے بھی اپنی اپنی خلافت میں حج کے موقع پر یہی حکم دیا، تو اس واضح اعلان کے بعد اہل مکہ کے لئے اتمام والا حکم متعین ہوگیا اور ان کے حق میں نماز کا اتمام اصل حکم قرار پایا، لہذا منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں اتمام کے لئے یہی پہلا حکم کافی ہے۔ ہر مقام میں اہل مکہ کے اتمامِ نماز کے لئے نئے اعلان اور نئے حکم کی ضرورت نہیں۔ہاں البتہ! اگر منیٰ میں آنے کے بعد اہلِ مکہ کا حکم بدل جاتا ہے، یعنی اب وہ پہلے اعلان اور پہلے حکم کے مطابق نماز میں اتمام نہیں کریں گے، بلکہ اتمام کو ترک کرکے اس کی جگہ نماز میں قصر کریں گے ، تو پہلے حکم کے ترک اور اس کے متبادل قصر والے حکم پر عمل کرنے کے لئے اتمام والے صریح حکم کی طرح قصر کا صریح حکم ہونا چاہئے کہ اے اہل مکہ! تم منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں قصر کرو۔ اس کے بغیر منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں اہل مکہ کے لئے اتمام والے واضح اور صریح حکم کو چھوڑ کر قصر نماز پڑھنے کا کوئی جواز نہیں، یا کم از کم یہ ثابت کیا جائے کہ حجة الوداع میں یا خلافت صدیقی میں یا خلافت فاروقی میں اہل مکہ اتمام والے حکم کے باوجود منیٰ میں دورکعت کے بعد سلام پھیر دیتے تھے اور اتمام نہیں کرتے تھے اور رسول اللہ ا اور خلفاء راشدین پتہ چل جانے کے باوجود ان کو قصر کرنے سے منع نہیں کرتے تھے، بلکہ اس پر خاموش رہتے، لیکن کسی حدیث میں بھی اہل مکہ کے لئے منیٰ میں قصر کرنے کا نہ صریح حکم ہے اور نہ ہی اہلِ مکہ کے دورکعت پر سلام پھیرنے اور اتمام نہ کرنے پر آگاہ ہوجانے کے باوجود رسول اللہ ا اور خلفاء راشدین کے سکوت کرنے اور خاموش رہنے کا کوئی ثبوت ہے، ایسی صورت میں اہل مکہ کے لئے منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں اسی پہلے حکم پر عمل کرنا ہی ضروری ہے۔
تائید: ۱
الامام، المحدث، سنن ابی داؤد کے شارح ابو سلیمان احمد بن محمد الخطابی (م۳۸۸ھ) منیٰ میں اہلِ مکہ کے لئے قصر ہے یا اتمام؟ اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ولعلَّہ لو سأل رسول الله ا عن صلوتہ لأمرہ بالإتمام وقد یترک رسول الله ا بیان بعض الأمور فی بعض المواطن اقتصاراً علی ما تقدم من البیان السابق خصوصاً فی مثل ہذا الأمر الذی ہو من العلم الظاہر العام وکان عمر بن الخطاب یصلی بہم ، فیقصر فإذا سلم التفت ، فقال أتموا یا أہل مکة! فإنا قوم سفر“ (معالم السنن شرح سنن ابی داؤد، ج:۲،ص:۴۱۴)
یعنی جب رسول اللہ ا کسی مسئلہ کے بارے میں پہلے وضاحت فرما ہوچکے ہوتے تو بعض مواقع میں آپ اس مسئلہ کے متعلق اپنے اسی پہلے بیان پر اکتفاء کرتے اور نئے سرے سے وضاحت نہ فرماتے، خصوصاً ایسا عام مسئلہ جس کو عام مسلمان بھی جانتے ہوں ( تو اس کے لئے دوبارہ وضاحت کی ضرورت ہی کیا ہے؟) اور شاید اگر آپ ا سے کوئی پوچھ لیتا تو آپ اس کو اتمام کا حکم دے بھی دیتے اور حضرت عمر  (منیٰ میں) لوگوں کو نماز پڑھاتے تو سلام کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے: اے اہل مکہ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو۔ (ہم اس اثر کو آگے جاکر پوری سند کے ساتھ نقل کریں گے۔ انشاء اللہ)
تائید :۲
حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:
”إن الترمذی روی من حدیث عمران بن حصین أنہ کان یصلی بمکة رکعتین ویقول: یا أہل مکة ! أتموا، فإناقوم سفر وکأنہ ترک إعلامہم بذالک استغناءً بما تقدم بمکة“۔ (فتح الباری، ج:۲،ص:۷۱۷)
ترجمہ:۔”امام ترمذی نے عمران بن حصین  کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ا مکہ میں دو رکعتیں نماز پڑھا کر فرماتے: اے اہل مکہ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو، کیونکہ رسول اللہ ا نے مکہ میں اہلِ مکہ کے لئے اتمام کا اعلان کر دیا تھا، اس لئے منیٰ میں اس اعلان کی ضرورت محسوس نہ کی۔
(نوٹ: ترمذی کے موجودہ پاکستانی نسخوں میں اعلان والا حصہ نہیں ہے، ممکن ہے حافظ ابن حجر عسقلانی کے نسخہ میں یہ زیادتی موجود ہو، تبھی انہوں نے فتح الباری میں اس کو نقل کیا ہے)
تائید:۳
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
”ویمکن أن یتمسک بعموم لفظ روایة الطیالسی ومن طریقہ البیہقی من حدیث عمران بن حصین  ففیہ ، ثم حججت معہ واعتمرت فصلی رکعتین ، فقال: یا أہل مکة ! أتموا الصلوة ، فإنا قوم سفر“۔
(التلخیص الحبیر، ج:۲،ص:۵۴۵)
خلاصہ یہ ہے کہ مسند طیالسی اور سنن بیہقی کی حدیث میں ہے، حضرت عمران بن حصین  فرماتے ہیں کہ میں حج وعمرہ میں رسول اللہ ا کے ساتھ تھا، آپ ا نے دو رکعتیں پڑھا کر فرمایا: اے اہل مکہ! ہم مسافر ہیں، تم نماز پوری کرلو۔ آپ ا نے عام الفاظ کے ساتھ اعلان فرمایا ہے، مناسک حج میں سے کسی ایک جگہ کے ساتھ اس حکم کو مختص نہیں کیا، تو عین ممکن ہے کہ آپ ا کا یہ اعلان مکہ، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ سب مناسک حج کے لئے ہو، لہذا ان سب مقامات میں اہل مکہ اس اعلان کے بموجب پوری نماز پڑھیں گے اور ہر مقام میں نئے اعلان کی ضرورت نہیں۔
تائید:۴
عرب کے نامور محقق علامہ شنقیطی لکھتے ہیں:
”وأما أہل مکة فأصح الأقوال أنہم لایقصرون؛ لأن النبیا أمر أہل مکة بقولہ أتموا الصلوة فإنا قوم سفر وسکت فی المشاعر عن أمرہم بالإتمام لسبق التنبیہ لہم علی ذلک“۔ (شرح زاد المستقنع للشنقیطی، ج:۱۶، ص:۳۹، ج:۵۷، ص:۲۰)
ترجمہ:۔”بہرکیف !اہل مکہ کے بارے میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ وہ (منیٰ اور عرفات میں) قصر نہ کریں، کیونکہ نبی کریم ا نے اہل مکہ کو حکم دیا کہ ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو۔ لیکن دوسرے مقامات حج (منیٰ، عرفات اور مزدلفہ) میں اتمام کے حکم سے اس لئے سکوت کیا اور خاموشی فرمائی کہ آپ اہل مکہ کو پہلے اس پر متنبہ کر چکے تھے ۔
حدیث ۲:
”عن أبی نضرة ان عمران بن حصین  قال: ما سافر رسول الله ا سفرا إلا صلی رکعتین ، حتی یرجع ویقول: یا أہل مکة! قوموا فصلوا رکعتین، فانا سفر“۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج:۳، ص:۱۵۳)
ترجمہ:۔”ابونضرہ سے روایت ہے کہ حضرت عمران بن حصین  نے کہا کہ آپ ا نے جب بھی (مکہ کی جانب) سفر کیا ، اس میں واپس آنے تک آپ ا صرف دورکعتیں پڑھاتے اور یہ اعلان کرتے، اے ہل مکہ! ہم مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو“۔
اس حدیث میں” سفرا“ً نکرہ تحت نفی ہے جو اپنے عموم کی وجہ سے سفرِ حج اور دیگر تمام اسفار مکہ کو شامل ہے، پس اس میں حجة الوداع کے سفر میں بھی یقینا یہ اعلان کیا ہوگا اور یہی اعلان منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں اتمام کرنے کے لئے کافی ہے اور اگر اس اعلان کے بعد منیٰ میں اہل مکہ کے لئے نماز میں قصر کرنے کا نیا حکم ہے اور اس قصر والے نئے حکم کے لئے منیٰ میں نئے اعلان کی کوئی صریح حدیث پیش کی جائے یا پھر یہ ثابت کیا جائے کہ منیٰ میں اہل مکہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے تھے اور رسول اللہ ا اور خلفاء راشدین اہل مکہ کے اس فعل کو جاننے کے باوجود خاموش رہتے تھے، لیکن یہ دونوں باتیں ضعیف سے ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں کی جاسکتیں۔ جب منیٰ میں اہل مکہ کے لئے قصر کا حکم ثابت نہیں ہوسکتا تو اہل مکہ اتمام والے پہلے حکم کے مطابق تمام مقاماتِ حج میں نماز پوری پڑھیں گے۔
فائدہ:
حضرت عمران بن حصین کی مذکورہ بالاحدیث کی سند میں علی بن زید بن جدعان راوی ہے، جس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا گیا ہے، لیکن محدثین حضرات کے قواعد کا لحاظ کیا جائے تو یہ حدیث ضعیف نہیں، بلکہ حدیثِ حسن ہے، بلکہ صحیح اور متواتر ہے۔ محدثین عظام کے وہ اصول وقواعد ملاحظہ کیجئے اور ان کی روشنی میں اس حدیث کا درجہ متعین کیجئے۔
اصل اول:
جس حدیث کی صحت وضعف میں محدثین کا اختلاف ہو، بعض اس حدیث کو صحیح کہتے ہوں اور بعض ضعیف، تو وہ حدیث حسن ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی راوی کے ثقہ وضعیف ہونے میں محدثین کا اختلاف ہو، بعض محدثین اس کو ثقہ قرار دیں اور بعض ضعیف تو وہ راوی حسن الحدیث ہوتا ہے، یعنی اس کی روایت کردہ حدیث محدثین کے نزدیک حدیث حسن کے حکم میں شمار ہوتی ہے، چنانچہ عظیم محدث الامام الحافظ عبد العظیم المنذری لکھتے ہیں:
”اذاکان رواة إسناد الحدیث ثقاةً وفیہم من اختلف فیہ إسنادہ حسن“۔ (مقدمة الترغیب والترہیب ،ج:۱،ص:۳۷)
ترجمہ:…”جب حدیث کے راوی ثقہ ہوں، لیکن ان میں ایسا راوی بھی ہو جو محدثین کے درمیان مختلف فیہ ہے ، تو اس حدیث کی سند حسن ہوتی ہے“۔
پھر امام منذری نے کتاب میں حروف تہجی کے اعتبار سے مختلف راویوں کے نام اور ان کے بارے محدثین کے جرح اور تعدیل کے اقوال نقل کئے ہیں۔ محمد بن اسحاق کے بارے دونوں طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:” فہو ممن اختلف فیہ وہو حسن الحدیث “ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق کے ثقہ اور ضعیف ہونے میں محدثین کا اختلاف ہے، اس لئے وہ حسن الحدیث ہے“۔
اسی طرح تہذیب التہذیب، ج:۵، ص:۲۶۰ میں حافظ ابن حجر عسقلانی عبد اللہ بن صالح کاتب اللیث کے متعلق لکھتے ہیں :”قال ابن القطان ہو صدوق ولم یثبت علیہ ما یسقط لہ حدیثہ إلا أنہ مختلف فیہ ، فحدیثہ حسن“۔…”یحی بن سعید قطان نے فرمایا کہ عبد اللہ بن صالح صدوق ہے اور ان پر کوئی ایسی چیز ثابت نہیں جو ان کی حدیث کو ساقط کردے، لیکن یہ مختلف فیہ راوی ہے، اس لئے ان کی حدیث حسن ہے“۔
علی بن زید بن جدعان کو بھی انہوں نے الترغیب کے ج:۴،ص:۵۷۵ پر مختلف فیہ رواة کی فہرست میں لکھا ہے، لہذا علی بن زید بن جدعان ضعیف محض نہیں، بلکہ متکلم فیہ اور مختلف فیہ راوی ہے، ان کی ثقاہت کے متعلق محدثین کے چند اقوال ملاحظہ کیجئے:
۱…ابوسلمہ موسیٰ بن اسماعیل کہتے ہیں: میں نے حماد بن سلمہ کو کہا کہ وہیب کا خیال ہے کہ علی بن زید حدیث کا حافظ نہیں ہے۔ حماد نے جواب دیا کہ وہیب کو تو علی بن زید کی مجلس میں جانے کی ہمت ہی نہیں، وہ یہ بات کیسے کہتا ہے؟علی بن زید کی مجلس میں تو بڑے بڑے اشراف لوگ آتے ہیں ۔ (الجرح والتعدیل، ج:۶، ص:۱۸۶۔ میزان الاعتدال، ج:۳،ص:۱۲۷۔ تہذیب الکمال، ج:۲۰ص:۴۴۱)
۲…”وکان عبد الرحمن بن مہدی یحدث عن الثوری وابن عیینة وحماد بن سلمة وحماد بن زید عنہ (ایضاً)“۔
ترجمہ۔”عبد الرحمن بن مہدی علی بن زید سے بواسطہ سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ ، حماد بن سلمہ، حماد بن زید احادیث بیان کرتے تھے“۔
۳…امام ذہبی علی بن زید کے بارے میں لکھتے ہیں:” الامام العالم الکبیر… وکان من أوعیة العلم“…” علی بن زید بڑے عالم اور امام ہیں اور علم حدیث کے حفاظ میں سے ہیں“۔ (سیر اعلام النبلاء، ج:۵، ص:۲۰۶) ”احد علماء التابعین“۔” علماء تابعین میں ایک ہیں “ (میزان الاعتدال، ج:۳،ص:۱۲۷)” الحافظ ،یعنی حافظ الحدیث ہیں“ (لسان المیزان لابن الحجر، ج:۷،ص:۳۱۱)
۴…منصور بن ذاذان کہتے ہیں:” لما مات الحسن البصری قلنا لعلی بن زید اجلس مجلسہ “(سیر اعلام النبلاء ج:۵، ص:۲۰۷۔ میزان الاعتدال، ج:۳،ص:۱۲۷۔ تہذیب الکمال ج:۲۰ص:۴۴۳)…”جب حسن بصری کی وفات ہوگئی تو ہم نے علی بن زید سے گذارش کی کہ آپ ان کے جانشین بن جائیں“۔
۵…”عن یحی قال: ہو أحب إلی من ابن عقیل ومن عاصم بن عبید الله“۔ (میزان الاعتدال، ج:۳،ص:۱۲۸)۔…” یحی کہتے ہیں کہ وہ میرے نزدیک ابن عقیل اور عاصم بن عبید اللہ سے زیادہ پسندیدہ ہے“۔
۶…ابوحاتم فرماتے ہیں:” یکتب حدیثہ ہو أحب إلی من یزید بن أبی زیاد “ (ایضا)۔” اس کی حدیث لکھی جائے گی اور وہ میرے نزدیک یزید بن ابی زیاد سے زیادہ پسندیدہ ہے“۔
۷…”وقال یعقوب بن شیبة: ثقة صالح الحدیث“۔(تہذیب التہذیب، ج:۷،ص:۲۸۳)․․․” یعقوب بن شیبہ نے کہا علی بن زید ثقہ ہیں اور علم حدیث میں بھی مقبول اور ٹھیک ہیں“ ۔
۸…ابراہیم بن عبد اللہ بن جنید کہتے ہیں: میرے سامنے ایک آدمی نے یحی بن معین کو کہا: علی بن زید کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔”قال: ما اختلط علی بن زید قط ثم قال یحی: حماد بن سلمہ أروی عن علی بن زید “۔(تہذیب الکمال ،ج:۲۰، ص:۴۴۰)…” یحی بن معین نے کہا: علی بن زید کا حافظہ ہرگز متغیر نہیں ہوا ، پھر یحی بن معین نے کہا علی بن زید سے حماد بن سلمہ سب سے زیادہ احادیث نقل کرتے ہیں “۔(مطلب یہ ہے کہ اگر وہ متغیر الحافظہ ہوتے تو حماد بن سلمہ جیسے عظیم محدث ان سے اس قدر حدیثیں نقل نہ کرتے)
۹…”قال الترمذی صدوق “۔(سیر اعلام النبلاء ،ج:۵،ص:۲۰۶، میزان الاعتدال، ج:۳،ص:۱۲۹۔ تہذیب الکمال،ج:۲،ص:۴۳۹۔ تہذیب التہذیب ج:۷،ص:۲۸۳) ترجمہ:…”امام ترمذی کہتے ہیں: علی بن زید صدوق ہے“۔
سنن ترمذی میں علی بن زید کی چند حدیثوں کا مرتبہ ملاحظہ کیجئے:
۱ سنن ترمذی ج:۱،ص:۳۰ باب ماجاء إذا التقی الختانان حدیث حسن صحیح
۲ …ج:۱،ص:۱۲۳
باب ماجاء فی التقصیر فی السفر حدیث صحیح
۳ …ج:۱،ص:۲۱۷ باب ماجاء یحرم من الرضاع حدیث حسن صحیح
۴ …ج:۲،ص:۵۹ باب ماجاء فی طول العمر للمؤمن حدیث حسن صحیح
۵ …ج:۲،ص:۹۶ باب الأخذ بالسنة واجتناب البدعة حدیث حسن غریب
۶ …ج:۲،ص:۹۹ باب ماجاء فی التسلیم إذا دخل بیتہ حدیث حسن صحیح غریب
۷ …ج:۲،ص:۱۲۸ (التفسیر) من سورة البقرة حدیث حسن غریب
۸ …ج:۲،ص:۱۴۳ من سورة یونس حدیث حسن
۹ …ج:۲،ص:۲۲۸ فضل الأنصار وقریش حدیث حسن صحیح
۱۰ …ج:۱،ص:۱۳۰ باب ماذکر فی الالتفات فی الصلاة حدیث حسن غریب
۱۱ …ج:۱،ص:۱۵۹ باب ماجاء فی فضل الصوم حدیث حسن غریب
۱۲ …ج:۲،ص:۴۱ باب ماجاء فی رفع الامانة حدیث حسن صحیح
۱۳ …ج:۲،ص:۵۰ باب ماجاء فی ذکر ابن صیاد حدیث حسن غریب
۱۴ …ج:۲،ص:۵۱ باب ماجاء فی النہی عن سب الریاح حدیث حسن غریب
۱۵ …ج:۲،ص:۱۴۶ من سورة بنی إسرائیل حدیث حسن
۱۶ …ج:۲،ص:۱۴۷ ……… حدیث حسن ۱۷ …ج:۲،ص:۱۵۴ من سورة النمل حدیث حسن
۱۸ …ج:۲،ص:۱۵۶ من سورة الأحزاب حدیث حسن غریب
۱۹ …ج:۲،ص:۱۸۴ باب ما یقول إذا أکل طعاما حدیث حسن
اصل دوم:
جب کوئی محدث اپنے اوپر ثقہ حضرات سے روایت کرنے کا التزام کرلے تو اس کا کسی راوی سے روایت کرنا اس راوی کی توثیق ہوتی ہے، جیساکہ جن محدثین نے اپنی کتب حدیث میں اس بات کا التزام کیا ہے کہ وہ ان کتب میں وہی حدیث درج کریں گے جو صحیح ہوگی ، تو ان کتب میں کسی حدیث کا موجود ہونا اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل سمجھی جاتی ہے، اسی طرح جن محدثین نے ثقہ رواة سے حدیث بیان کرنے کا التزام کیا تو ان کا کسی راوی سے حدیث نقل کرنا اس راوی کی توثیق سمجھی جائے گی، اس اصل کے مطابق علی بن زید کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے ان سے روایت کرنے والے محدثین اور ائمہ حدیث کے چند نام ملاحظہ کیجئے:
۱…امیر المؤمنین فی الحدیث شعبہ،۲…سفیان بن عیینہ، ۳…سفیان ثوری،۴…حماد بن سلمہ، ۵…عبد الوارث، ۶…حماد بن زید، ۷…اسماعیل بن علیہ،۸…شریک،۹…قتادة، ۱۰…زائدہ، ۱۱…زہیر بن مرزوق،۱۲…سفیان بن حسین، ۱۳…ہمام بن یحی،۱۴…مبارک بن فضالة، ۱۵…ابن عون، ۱۶…عبد بن سعید، ۱۷…جعفر بن سلیمان، ۱۸…ہشیم، ۱۹…معتمر بن سلیمان۔ (سیر اعلام النبلاء، ج:۵،ص:۲۰۷۔ تہذیب التہذیب، ج:۷،ص:۲۸۳) ان ائمہ حدیث میں سے حضرت شعبہ اور حضرت سفیان بن عیینہ کا التزام ہے کہ وہ صرف اور صرف ثقات سے روایت نقل کرتے ہیں۔ (مقدمة اعلاء السنن، ص:۱۳۲،۱۳۳) پس ان کا علی بن زید سے روایت کرنا ان کی طرف سے علی بن زید کی توثیق ہے۔
اصل سوم:
اگر کسی ضعیف السند حدیث کی اثرِ صحابی سے توثیق ہوجائے تو وہ حدیث درجہٴ حسن میں شمار ہوتی ہے، حضرت عمران بن حصین کی زیر بحث حدیث کی حضرت عمر کے اثر سے تائید ہوتی ہے، لہذا یہ حدیث کم از کم درجہٴ حسن میں ضرورہے۔ اعلاء السنن ج:۱۰،ص:۴۱۰ میں ہے: ”والمرفوع الضعیف إذا تَأَیَّدَ بقول صحابی بسند صحیح تقویٰ“ ۔ترجمہ:…”اور مرفوع ضعیف حدیث کی جب صحابی کے صحیح السند قول کے ساتھ تائید ہوجائے ،تو وہ حدیث قوی ہوجاتی ہے“۔
اصل چہارم:
جو حدیث سنداً ضعیف ہو، لیکن وہ محدثین اور مجتہدین کے ہاں قولاً یاعملاً مقبول ہو تو وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے اور اگر اس حدیث پر اجماع عملی ہو، یعنی سب صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور سب محدثین ومجتہدینکا اس پر عمل ہو تو ایسی حدیث صحیح اور متواتر بن جاتی ہے اور عملی اجماع اور عملی تواتر جیسی مضبوط دلیل کے بعد وہ حدیث اپنے ثبوت میں سند جیسی کمزور دلیل کی اور رواةِ سند کی تحقیق کی محتاج نہیں رہتی ، یہی وجہ ہے کہ ہدایہ، بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہ میں جو احادیث نقل کی گئی ہیں، وہ چونکہ عملاً متواتر ہیں، اس لئے ان فقہاء کرام نے ان حدیثوں کے ساتھ سند تحریر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: ”کل حدیث أجمع السلف علی قبولہ…فلاحاجة عن البحث من عدالة رواتہ“ (عقد الجید، ص:۵۲)…”ہر وہ حدیث جس کی قبولیت پر سلف کا اجماع ہو تو اس حدیث کے راویوں کی عدالت جانچنے کی کوئی ضرورت نہیں“۔
علامہ سخاوی فرماتے ہیں: ”إذا تلقت الأمة الضعیف بالقبول یعمل بہ الصحیح حتی أنہ ینزل منزلة التواتر“ (فتح المغیث، ص:۱۲۰) …”جب ضعیف حدیث کو امت میں شرفِ قبولیت حاصل ہوجائے تو اس پر صحیح حدیث کی طرح عمل کیا جائے گا، بلکہ وہ ضعیف حدیث، حدیث متواتر کے درجہ میں آجاتی ہے“۔
نواب صدیق حسن خان:”الا ماغلب علی ریحہ اولونہ او طعمہ“ کے بارے میں لکھتے ہیں :”وقد اتفق أہل الحدیث علی ضعف ہذہ الزیادة، لکنہ قد وقع الإجماع علی مضمومنہا“ ۔(الروضة الندیة، ص:۵)…” اور محدثین کا اس زیادتی کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے، لیکن اس کے مضمون پر اجماع ہے (اس لئے حجت ہے)“۔
امام ترمذی سنن ترمذی میں بعض حدیثوں کا ضعف بیان کرکے آگے لکھ دیتے ہیں :”والعمل علیہ عند أہل العلم“ یہ اس لئے کہ کسی راوی کی وجہ سے جو سند میں ضعف پیدا ہوتا ہے، اہل علم کے عمل کی وجہ سے وہ ضعف دور ہوجاتا ہے۔
سنن ترمذی کے چند مقام بطور نمونہ ملاحظہ فرمایئے:
۱…ص:۱۶ ،باب أن الأذنین من الرأس…ہذا حدیث لیس إسنادہ بذاک القائم والعمل علی ہذا عند أکثر أہل العلم من أصحاب النبی ا ومن بعدہم“۔
۲…ص:۱۳، باب فیمن یستیقظ ویری بللا ولایذکر احتلاما… ضعّفہ یحی بن سعید من قبل حفظہ فی الحدیث وہو قول غیرواحد من أہل العلم من أصحاب النبی ا والتابعین“۔
۳…ص:۴۸، باب فی الجمع بین الصلاتین… وہو حنش بن قیس وہو ضعیف عند أہل الحدیث ضعفہ أحمد وغیرہ والعمل علی ہذا عند أہل العلم“۔
۴…ص:۸۳، باب الإمام ینہض فی الرکعتین ناسیا… جابر الجعفی قد ضعّفہ بعض أہل العلم، ترکہ یحی بن سعید وعبد الرحمن بن مہدی وغیرہما والعمل علی ہذا عند أہل العلم“۔
اس مذکورہ بالا اصولِ محدثین کی روشنی میں حضرت عمران بن حصین کی حدیث کو دیکھا جائے تو اس حدیث میں جو اہل مکہ کے لئے مذکور ہے کہ جب مکہ میں مسافر امام نماز پڑھائے تو وہ دورکعت پر سلام پھیرنے کے بعد اعلان کرے: ”یا اہل مکة ! أتموا صلاتکم فإنا قوم سفر“ …”اے اہل مکہ! تم اپنی نماز پوری کرلو، ہم مسافر لوگ ہیں“۔ اس پر پوری امت کا اجماع ہے، حتی کہ منیٰ میں اہل مکہ کے لئے قصر کے قائلین حضرات بھی اس اجماع میں شامل ہیں۔ اتنے مضبوط اجماع کے بعد حضرت عمران کی زیرِ بحث حدیث محدثین کے اس اصول کے مطابق صحیح اور متواتر بن جاتی ہے، پس اس حدیث کو وہی ضعیف کہے گا ، جو محدثین کے مذکورہ بالا اصولوں سے جاہل یا غافل ہوگا۔
حدیث نمبر:
۳
”إن عمر بن الخطاب لما قدم مکة صلی بہم رکعتین، ثم انصرف، فقال: یا أہل مکة ! أتموا صلاتکم فإنا قوم سفر، ثم صلی عمر بمنیٰ رکعتین“۔ (معرفة السنن والآثار للبیہقی، ج:۴،ص:۲۷۸)
ترجمہ:۔”حضرت عمر بن الخطاب جب مکہ میں آئے تو لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اے اہل مکہ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو“۔
حدیث نمبر :۴
”مالک عن ابن شہاب عن سعید بن المسیب ان عمر بن الخطاب لما قدم مکة صلی بہم رکعتین، ثم انصرف، فقال: یا أہل مکة! أتموا صلاتکم، فإنا قوم سفر، ثم صلی عمر رکعتین بمنیٰ“ ۔(مؤطا امام مالک، ص:۴۲۹)
ترجمہ:۔”امام مالک  زہری سے وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب مکہ میں آئے تو لوگوں کو دورکعتیں پڑھائیں اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اے اہل مکہ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو، پھر حضرت عمر نے منیٰ میں دورکعتیں پڑھائیں۔
حدیث نمبر۵:
”مالک بن زید بن أسلم عن أبیہ أنَّ عمر بن الخطاب صلی للناس بمکة رکعتین، فلما انصرف قال: یا أہل مکة ! أتموا صلاتکم، فإنا قوم سفر، ثم صلی عمر رکعتین بمنیٰ“۔(مؤطا إمام مالک، ص:۴۲۹ ۔شرح السنة للامام البغوی ج:۴، ص:۱۸۳، ج:۷،ص:۱۵۵۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، ج:۳،ص:۱۵۷)
ترجمہ:۔”امام مالک زید بن اسلم سے وہ اپنے باپ اسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے مکہ میں لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:اے اہل مکہ! ہم لوگ مسافر ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو، پھر حضرت عمر نے منیٰ میں دورکعتیں پڑھائیں۔
حضرت عمر نے جب مقامات حج میں سے ایک مقام میں اہل مکہ کے لئے اتمام کا اعلان کردیا تو باقی مقاماتِ حج ،یعنی منیٰ وغیرہ کے لئے یہی اعلان کافی ہے، ہر جگہ نئے اعلان کی ضرورت نہیں اور اگر اہل مکہ کے لئے اتمام صلوة کے اس اعلان کے بعد منیٰ جاکر ان کا حکم بدل جاتا ہے، یعنی اتمام کی بجائے انہوں نے نماز میں قصر کرنی ہے، تو یہ تب ہوسکتا ہے جب درج ذیل تین چیزوں میں سے ایک چیز کی حدیث میں صراحت موجود ہو:
۱…اہل مکہ کے لئے اتمام کے اعلان کے ساتھ منیٰ میں اہل مکہ کے لئے قصر کرنے کا اعلان کیا ہو۔
۲…یا حضرت عمر نے منیٰ میں جاکر اہل مکہ کے لئے قصر کا اعلان کیا ہو۔
۳…یا اہل مکہ نے دورکعت کے بعد سلام پھیردیا ہو اور حضرت عمر اُن کے اس عمل کو جاننے کے باوجود اس پر خاموش رہے۔
لیکن یہ تین امور کسی ضعیف ترین حدیث سے بھی ثابت نہیں اور جب یہ ثابت نہیں تو منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں اہل مکہ کے لئے وہی حکم ہوگا جس کا ان کے لئے پہلے اعلان کیا گیا ہے۔
تائید نمبر:۱
امام شافعی نے حضرت عمر کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا:
”وقد یکون إن قال لہم بمکة فقنع بالقول الاول عن القول الاٰخر لأنہ لما أعلمہم أن فرضہ غیر فرضہم وان علیہم الإتمام ولہ التقصیر، کان ذلک عندہم مجزیا فی الموطنین جمیعا۔ ولعلہ أن یکون قد قالہ ولم یحفظ عنہ“۔ (معرفة السنن والآثار للبیہقی، ج:۲،ص:۲۷۹)
ترجمہ:۔”عین ممکن ہے کہ حضرت عمر نے جو مکہ میں اعلان کیا تواسی پر قناعت کرنے کی وجہ سے دوبارہ اعلان کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی، کیونکہ جب ان کو حضرت عمر نے بتادیا کہ ان کے فرض اور حضرت عمر کے فرض میں فرق ہے، ان پر اتمام لازم ہے اور حضرت عمر کے لئے نماز میں قصر کرنے کا حکم ہے، تو یہی اعلان ان کے لئے دونوں جگہوں میں کافی ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید حضرت عمر نے منیٰ میں اتمام کا اعلان کیا ہو، لیکن راوی کو بیان کرتے وقت یاد نہ رہا ہو“۔
تائید نمبر:۲
صحیح البخاری کے شارح ابن بطال قائلینِ اتمام کا استدلال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”قالوا:وفی قول عمر بن الخطاب لأہل مکة : أتموا صلاتکم ما أغنی أن یقول ذلک بمنیٰ“ (شرح صحیح البخاری لابن بطال، ج:۳،ص:۶۹)
ترجمہ:۔”حضرت عمر بن خطاب کا اہل مکہ کے لئے اتمام صلوة کا اعلان دوبارہ منیٰ میں اتمام کے اعلان کرنے سے مستغنی کردیتا ہے“۔
رہا امام مالک کا یہ فرمانا کہ منیٰ میں اہل مکہ کے لئے اتمام کا اعلان ہمیں نہیں پہنچا ،اس کے متعلق چند گزارشات عرض خدمت ہیں:
۱…اگرامام مالک کو اس کا صریح اعلان نہیں پہنچا تو یہ عدم علم ہے اور عدم علم، علم بالعدم کی دلیل نہیں ہوتا، اگر ایک چیز کے موجود ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز موجود ہی نہیں، بعض دفعہ ایک چیز موجود ہوتی ہے، لیکن اس کا علم نہیں ہوتا۔
اہل مکہ کے لئے منیٰ میں قصر کے قائلین یہ مانتے ہیں کہ اہلِ منیٰ ،منیٰ میں ، اہلِ عرفات، عرفات میں، اہلِ مزدلفہ، مزدلفہ میں اتمام کریں گے، تو کیا اس کا اعلان منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں سرور کائنات ا اور خلفاء راشدین نے کیا ہے؟ اگر بغیر اعلان کے ان لوگوں کے لئے آپ حضرات اتمام کے قائل ہیں، تو اہل مکہ کے لئے اتمام کا اعلانِ عام مکہ میں ہوچکا ہے، لہذا رسول اللہ ا اور خلفاء راشدین کے اس اعلانِ عام اور حکمِ عام کے بعد اہل مکہ کے لئے مقاماتِ حج میں اتمام تسلیم کرلینا چاہئے۔ اور اگر آپ اسی پر بضد ہیں اور مصر ہیں کہ منیٰ میں اہل مکہ کے لئے اتمام کی صریح دلیل پیش کریں تو وہ بھی ملاحظہ کیجئے:
حدیث نمبر :۶
”أخبرنامحمد قال: أخبرنا سوید بن إبراہیم الہذلی عن قتادة بن دعامة السدوسی أن عمر بن الخطاب  صلی بمکة رکعتین ثم قال: یا أہل مکة! إنا سفر فأتموا ، ثم صلی بمنیٰ رکعتین، ثم صلی بعرفة رکعتین، ثم قال: یا أہل مکة! إنا سفر فأتموا“۔ (کتاب الحجة للامام محمد، ج:۲،ص:۴۶۹)
ترجمہ:۔”امام محمد، سوید بن ابراہیم ہذلی، قتادہ بن دعامہ کی سند روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب نے مکہ میں دورکعتیں پڑھا کر اعلان کیا :اے اہل مکہ! ہم مسافر لوگ ہیں ،تم اپنی نماز پوری کرلو، پھر حضرت عمر بن الخطاب نے منیٰ اور عرفہ میں بھی دورکعتیں پڑھا کر اعلان کیا: اے اہل مکہ! ہم مسافر لوگ ہیں، تم اپنی نماز پوری کرلو۔
حضرت عمر کے اس اثر میں صراحت ہے کہ اہل مکہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں پوری نماز پڑھیں گے، حضرت عمر نے منیٰ اور عرفات میں اہل مکہ کے لئے یہی اعلان کیا تھا۔
فائدہ:
اگرچہ یہ اثر مرسل ہے، کیونکہ قتادہ تابعی کی حضرت عمر سے لقاء ثابت نہیں، تاہم یہ حجت ہے، کیونکہ شرح صحیح مسلم کے مقدمہ کے اندر امام نووی مرسل کی بحث میں لکھتے ہیں:
”ومذہب مالک وابی حنیفة واحمد وأکثر الفقہاء أنہ یحتج بہ ومذہب الشافعی أنہ اذا انضم إلی المرسل ما یعتضدہ احتج بہ بأن یروی أیضاً مسنداً أو مرسلا من جہة أخری أو یعمل بہ بعض الصحابة أو أکثر العلماء“ (مقدمہ شرح مسلم، ص:۱۷)
ترجمہ:۔”امام ابو حنیفہ، امام مالک ،امام احمدبن حنبل اور اکثر فقہاء کے نزدیک مرسل حجت ہے اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ مرسل تب حجت ہوگی جب چار چیزوں میں سے ایک کے ساتھ وہ قوی ہوجائے:۱…یا حدیث مرفوع متصل کے ساتھ اس کی تائید ہوجائے۔ ۲…یا دوسری مرسل روایت کے ساتھ اس کی تائید ہوجائے۔ ۳…یا اس مرسل پر بعض صحابہ کا عمل ہو۔ ۴…یا اکثر علماء کا اس پر عمل ہو“۔
اگر قتادہ کی اس مرسل روایت کو اس مذکورہ بالا معیار پر پرکھا جائے تو وہ یقینا حجت ہے، کیونکہ امام حنیفہ ، امام مالک، امام احمد کے نزدیک مرسل حجت ہوتی ہے اور امام شافعی کے نزدیک مرسل روایت کی حجیت کے لئے کچھ شرائط ہیں، لیکن ان شرائط کے مطابق بھی یہ حجت ہے، کیونکہ صحابہ کرام میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر اور تابعین میں سے مجاہد، عطاء بن ابی رباح، زہری، ابن جریج، سفیان ثوری منیٰ میں اتمام کرتے تھے۔ (ان کے آثار آگے آرہے ہیں)
شرح السنة للامام بغوی ج:۴،ص:۱۸۳ میں ہے: ”وأکثر أہل العلم علی أنَّ أہل مکة لاقصر لہم بمنیٰ“․․․․”اکثر اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ اہل مکہ منیٰ میں قصر نہ کریں“۔
اور ائمہ اربعہ میں سے امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا مذہب بھی یہی ہے۔ لیجئے! امام شافعی کی شرائط کے مطابق اس اثر پر بعض صحابہ کا عمل ہے اور اکثر علماء کاعمل بھی اسی پر ہے، اس لئے یہ اثر بلاشبہ حجت ہے۔ اور یہ بھی قاعدہ ہے کہ مرسل روایت، متصل روایت کے لئے تفسیر بن سکتی ہے۔ علامہ سیوطی تدریب، ج:۲، ص:۲۲۵ النوع التاسع والثلاثون میں لکھتے ہیں: ”قال شیخ الإسلام والمرسل یفسر المتصل“۔…”شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ مرسل روایت متصل کے لئے تفسیر بن سکتی ہے“۔
حضرت عمران بن حصین کی مرفوع حدیث میں اور حضرت عمر فاروق کی موقوف حدیث میں جو اہل مکہ کے لئے اعلان کیا گیا: ”یا أہل مکة ! أتموا الصلوة فإنا قوم سفر“۔ یہ اعلان اور یہ حکم منیٰ کو شامل ہے یا نہیں؟ ایک فریق کہتا ہے کہ یہ حکم عام ہے منیٰ، بلکہ عرفات اور مزدلفہ کو بھی شامل ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ یہ حکم خاص ہے، منیٰ کو شامل نہیں، بلکہ منیٰ میں اتمام کی بجائے قصرِ صلاة کا حکم ہے۔ حضرت عمر کے اس صریح اور واضح اثر کی دلیل وقرینہ سے حدیث عمران بن حصین میں پہلا احتمال متعین ہوجاتا ہے، جبکہ فریق ثانی کے پاس منیٰ میں حکم کی اس تبدیلی پر اور پہلے اعلان کے خصوص اورمنیٰ کو شامل نہ ہونے پر کوئی بھی کمزور سے کمزور، صریح اور واضح دلیل نہیں ہے، لہذا یہ اعلان عام ہے جو منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کو بھی شامل ہے، اس لئے اہلِ مکہ ان مقامات میں اتمام کریں گے۔
ہم نے منیٰ میں اہلِ مکہ کے لئے اتمام کی صریح دلیل پیش کردی ہے، لیکن قصر کے قائلین پر لازم ہے کہ:
۱…وہ اہلِ منیٰ کے لئے منیٰ میں اور اہل عرفات کے لئے عرفات میں اور اہل مزدلفہ کے لئے مزدلفہ میں اتمام کے صریح اعلان والی حدیث پیش کریں۔
۲… اہلِ مکہ کے لئے منیٰ میں قصر کے صریح اعلان والی حدیث دکھائیں۔
۳… اہلِ مکہ رسول اللہا اور خلفاء راشدین کے ساتھ دو رکعتوں پر سلام پھیر دیتے تھے اور رسول اللہ ا اور خلفاء راشدین اہل مکہ کے اس عمل کو جاننے کے باوجود خاموش رہتے۔
۴…یا آپ ا نے اہل مکہ کو اتمام کے وقت فرمایا ہو کہ مکہ میں اتمام کیا کرو اور منیٰ میں قصر کیا کرو۔
حدیث نمبر۷:
”قال الشافعی أخبرنا مالک عن نافع عن ابن عمر أنہ کان یصلی وراء الإمام بمنیٰ أربعا فإذا صلی لنفسہ صلی رکعتین“۔ (معرفة السنن والآثار للبیہقی، ج:۴،ص:۲۶۰۔ مؤطا امام مالک، ص:۱۳۳)
ترجمہ:۔”امام شافعی، امام مالک، نافع کی سند سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر منیٰ میں جب امام کے پیچھے نماز پڑھتے تو چار رکعت پڑھتے اور جب اکیلے پڑھتے تو دورکعت پڑھتے“۔
امام شافعی نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا: ”وہذا یدل علی ان الامام اذا کان من أہل مکة صلی بمنیٰ اربعا“۔ ․․․ترجمہ:…”یہ حدیث اس بات پر دلال کرتی ہے کہ منیٰ میں جب امام اہل مکہ سے ہو تو وہ چار رکعت پڑھائے گا۔ (معرفة السنن والآثار، ج:۴،ص:۲۶۱) اس سے بھی ثابت ہوا کہ اہلِ مکہ منیٰ میں چار رکعت پڑھیں گے، اسی طرح جب امام اہل مکہ سے ہوگا تو سب مقتدی بھی چار رکعت پڑھیں گے۔
حدیث نمبر :۸
”عن ابن جریج عن عطاء قال: سألت ابن عباس فقلت: أقصر الصلاة إلی عرفة أو إلی منی قال: لا“ (مصنف عبد الرزاق، ج:۲،ص:۵۲۴)
ترجمہ:۔”ابن جریج سے رایت ہے کہ عطاء بن ابی رباح نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے پوچھا میں عرفہ یا منیٰ تک جاؤں تو قصر کروں؟ حضرت عبد اللہ بن عباس نے جواب دیا قصر نہ کرو“۔
حدیث نمبر:۹
”عن عمرو بن دینار عن عطاء قال: سألت ابن عباس أقصر الصلاة إلی عرفة؟ قال: لا،قلت إلی منی؟ قال: لا“ (ایضاً…ج:۲،ص:۵۲۴)
ترجمہ:۔”عمرو بن دینارسے روایت ہے ، عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں ، میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے پوچھاکیا میں عرفہ جاؤں تو قصر کروں؟ حضرت ابن عباس نے نفی میں جواب دیا۔ میں نے کہا اگر میں منی تک جاؤں؟ فرمایا قصر نہ کرو“۔
حدیث :۱۰
”عن یحیٰ بن أبی کثیر قال: سأل رجل ابن عباس، فقال: أقصر الصلاة إلی منیٰ؟ قال: لا، قال: فإلی عرفة؟ قال:لا‘ ‘(ایضاً…ج:۲،ص:۵۲۴)
ترجمہ:۔”یحی بن ابی کثیر راوی ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے پوچھا: کیا میں منیٰ تک جاؤں تو نماز میں قصر کرسکتا ہوں؟ فرمایا نہیں۔ اس نے کہا کہ میں عرفہ تک جاؤں تو قصر کرسکتا ہوں؟ فرمایا نہیں“۔
حدیث: ۱۱
”عن عثمان بن الأسود عن عطاء ومجاہد قالا:لیس علی أہل مکة قصر فی الحج“ (تحفة الاخیار، ج:۲،ص:۳۹۴، مصنف ابن ابی شیبة، ج:۲،ص:۳۳۹)
ترجمہ:۔”حضرت عثمان بن اسود سے روایت ہے کہ عطاء اور مجاہد فرماتے ہیں، حج میں اہل مکہ پر قصر نہیں ہے“۔
حدیث :۱۲
”عن عبید الله بن عمر قال: کان عطاء والزہری یقولان: یتمّون“۔
(مصنف ابن ابی شیبة، ج:۴، ص:۲۹۲)
ترجمہ:۔”عبید اللہ بن عمرفرماتے ہیں کہ عطاء اور زہری فرماتے ہیں: لوگ (منیٰ میں) اتمام کریں“۔
حدیث :۱۳
”عن عبد الله بن الزبیر قال: سمعت الولید بن مسلم یقول:کان محمد بن ابراہیم والی مکة کتب إلیہ أن یصلی بالناس الموسم فسأل سفیان الثوری ومالک بن أنس عن الصلاة بمنیٰ وعرفات فأمرہ مالک أن یقصر وأمرہ سفیان الثوری أن یتم ، فأخذ بقول مالک وترک قول سفیان، قال الولید: فحضرت سفیان الثوری وابن جریج یصلیان معہ ، فأما ابن جریج فقام ، فبنی علی صلاتہ فأتمہا أربعاً وأما سفیان الثوری فقام فأعاد الصلاة فصلی أربعاً“ (معرفة السنن والآثار للبیہقی، ج:۴،ص:۲۷۹)
ترجمہ:۔”عبد اللہ بن زبیر حمیدی کہتے ہیں: میں نے ولید بن مسلم سے سنا ، انہوں نے فرمایا کہ محمد بن ابراہیم امیر مکہ نے ولید بن مسلم کو حکم دیا کہ وہ موسم حج میں لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ ولید بن مسلم نے سفیان ثوری اور مالک بن انس سے پوچھا کہ وہ منیٰ اور عرفات میں نماز کیسے پڑھائیں؟ امام مالک نے اس کوقصر کا حکم دیا اور سفیان ثوری نے اتمام کا حکم دیا، ولید بن مسلم نے امام مالک کے قول پر عمل کیا اور سفیان کے قول کو چھوڑ دیا۔ ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری اور ابن جریج کو دیکھا کہ وہ اس کے ساتھ نماز دورکعت پڑھتے ہیں، دو رکعت پڑھ کر ابن جریج کھڑے ہوگئے، انہوں نے دورکعت مزید پڑھ کر چار رکعتیں پوری کیں اور سفیان ثوری نے کھڑے ہوکر پوری نماز کو دہرایا اور چار رکعت نماز پڑھی“۔
فائدہ:
”…ابن جریج  اور سفیان ثوری صغار تابعین میں سے ہیں اور وہ منیٰ اور عرفات میں اتمام صلاة کے قائل اور فاعل تھے۔ ابن جریج، مجاہد اور عطاء تینوں تابعی اور مکی ہیں، ان کا فتویٰ اہل مکہ کے بارے میں اتمام کا ہے اور اہل مکہ کے عمل کو علماء اہل مکہ زیادہ بہتر جانتے ہیں، ان میں سے عطاء بن ابی رباح نے دو سو صحابہ سے ملاقات کی ہے، اہل مکہ کے یہ سب سے بڑے مفتی ہیں، انہوں نے ستر سے زائد حج کئے ہیں۔ امام محمد بن علی باقر المدنی، ابو حازم سلمہ بن دینار المدنی، خصیف الحضرمی، قتادہ البصری ان سب نے عطاء کے بارے میں کہا ہے: ”أعلم الناس بمناسک الحج“ کہ لوگوں میں احکامِ حج کو سب سے زیادہ جاننے والے عطاء بن ابی رباح ہیں“۔ (تہذیب االأسماء، ج:۱،ص:۴۶۸۔ تہذیب الکمال، ج:۲۰،ص:۷۷۔ تہذیب التہذیب، ج:۷،ص:۲۰۰،۲۰۱۔ تاریخ دمشق ج:۴۰،ص:۳۸۳،۳۸۴)
فتاویٰ امام احمد بن حنبل:
۱:․․․․”قال: سألت ابی ہل یصلی الرجل بصلاة الإمام بعرفة والإمام من أہل مکة؟ فقال: ینبغی لہ أن یتم الصلاة“
(مسائل احمد بن حنبل روایة ابنہ عبد الله، ج:۱، ص:۲۳۰)
ترجمہ:۔”امام احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے پوچھا: جب عرفہ میں امام اہل مکہ میں سے ہو تو کیا مقتدی امام کی طرح (چار رکعت) نماز پڑھے؟ امام احمد بن حنبل نے جواب دیا: اس کو مناسب یہی ہے کہ وہ پوری نماز پڑھے“۔
فائدہ:
اس فتوے سے دو مسئلے معلوم ہوئے، ایک یہ کہ اہلِ مکہ عرفات میں پوری نماز پڑھیں گے، جب عرفہ میں اہلِ مکہ کے لئے پوری نماز پڑھنے کا حکم ہے تو منی اور مزدلفہ میں تو بطریق اولیٰ پوری نماز پڑھیں گے۔ دوسرا یہ کہ جب منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ میں مکی امام اتمام کرے گا تو مقتدی اہل مکہ ہوں یا غیر اہل مکہ سب اتمام کریں گے۔
۲…”فان أمر علی الموسم رجل من أہل مکة أو ہو مقیم بہا فمن صلی خلفہ من أہل مکة بمنی أو بعرفات فقصر الأمیر المکی الذی من أہل مکة ، فإن أہل مکة یعیدون صلاتہم ویتمون“۔ (ایضاً ص:۲۳۱)
ترجمہ:۔” عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں، میرے باپ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: اگر حج کے موسم میں اہل مکہ سے کسی آدمی کو امیر بنایا گیا یا اس آدمی کو جو باہر سے آکر مکہ میں مقیم ہوگیا، اس مکی امام نے منی یا عرفات میں نماز پڑھائی اور نماز میں قصر کی توجو مقتدی اہلِ مکہ ہیں، وہ نماز کو لوٹائیں اور پوری نماز پڑھیں“۔
فائدہ:
اس فتوے سے معلوم ہوا کہ اگر اہل مکہ منی اور عرفات میں قصر کریں گے تو ان کی نماز جائز نہ ہوگی، وہ نماز دوبارہ پڑھیں اور پوری نماز پڑھیں۔
۳…”قال أبی : وإذا کان رجل مقیم بمکة عشراً أو أکثر ، فخرج یحج، فإن کان یرید أہلہ بالعراق أو بالمدینة قصر الصلاة بمنی وعرفة فإن أراد الرجعة بمکة لیقیم بہا أتم بعرفة وبمنی“۔ (ایضا ص:۲۳۱)
ترجمہ:۔”عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے باپ نے کہا :جب کوئی باہر کا آدمی مکہ میں دس یا دس سے زیادہ دن مقیم ہوجائے، پھر وہ حج کے لئے نکلے تو اگر مکہ سے نکلتے وقت اس کا ارادہ اپنے گھر کا ہے جو عراق یا مدینہ میں ہے (مثلاً) تو وہ منی اور عرفہ میں قصر کرے گا اور اگر اس کا ارادہ ہے لوٹنے کے بعد مکہ میں اقامت کرنے کا تو وہ منی اور عرفہ میں پوری نماز پڑھے گا“۔
۴…”قیل لأبی عبد الله فرجل أقام بمکة ثم خرج إلی الحج، قال إن کان لایرید أن یقیم بمکة إذا رجع صلی، ثم رکعتین وذکر فعل ابن عمر، قال:لأن خروجہ إلی منی وعرفة ابتداء سفر فان عزم علی أن یرجع فیقیم بمکة أتم بمنی وعرفة“۔ (المغنی، ج:۱،ص:۱۰۴)
ترجمہ:…”ابو عبد اللہ یعنی امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ باہر سے آیا ہوا ایک آدمی مکہ میں مقیم ہوا ،پھر وہ حج کے لئے نکلا تو وہ منی ، عرفہ میں قصر کرے گا یا اتمام؟ حضرت امام احمد نے جواب دیا کہ اگر حج کے بعد اس کا مکہ میں اقامت کرنے کا ارادہ نہ ہو تو وہ منی وعرفہ میں دو رکعتیں پڑھے گا اور امام احمد نے دلیل کے طور پر حضرت ابن عمر کے فعل کا ذکر کیا۔ نیز اس لئے بھی قصر کرے گا کہ اس کا منی وعرفہ کی طرف نکلنا اپنے واپسی کے سفر کی ابتداء ہے اور حج سے لوٹنے کے بعد مکہ میں اقامت کا ارادہ ہو تو وہ منی اور عرفہ میں پوری نماز پڑھے گا۔
فتویٰ الشیخ الشنقیطی:
شیخ شنقیطی کی تحقیق یہ ہے کہ مکہ، منیٰ، عرفات اورمزدلفہ کی عمارات تقریباً متصل ہیں، حتی کہ یہ مقامات اہل مکہ کا مسکن بن چکے ہیں، اس لئے احتیاط اس میں ہے کہ عرفہ اور مزدلفہ میں جمع بین الصلوتین پر عمل کیا جائے، نسکِ حج ہونے کی وجہ سے اور اتصال عمارات کی وجہ سے نماز میں اتمام کیا جائے، تاکہ اختلاف سے نکل جائیں۔ شیخ فرماتے ہیں:
”فالمشلکة الآن اتصل البناء فاصبحت الأرض سکنا لأہل مکة ولذلک أری أن یحتاط وأن یخرج من خلاف العلماء وإن جمع تجمع للنسک فی یوم عرفة وتجمع للنسک ایضا لیلة مزدلفة لو رود السنة بہا فإذا جمعت للنسک فلاحرج، لکن إتمام الصلوة یعتبر خروجا من الخلاف“۔ (شرح زاد المستنقع، ج:۷،ص:۲۰)
ترجمہ:…”اب مشکل یہ ہے کہ عمارات اتنی متصل ہوچکی ہیں کہ اہل مکہ کے لئے یہ زمین مسکن بن چکی ہے، اس لئے میری رائے یہ ہے کہ احتیاط کی راہ اختیار کی جائے اور علماء کے اختلاف سے نکلا جائے اور عرفہ ومزدلفہ میں دو نمازوں کو نسک حج کے طور پر جمع کیا جائے، کیونکہ عرفہ اور مزدلفہ میں جمع بین الصلوتین سنت سے ثابت ہے اور نسکِ حج کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح اتمام صلوة کو اپنا کر اختلاف سے نکلا جائے۔
فتویٰ محمد بن صالح العثیمین:
الشیخ عثیمین منی کے متعلق لکھتے ہیں: ”لأن البیوت اتصلت بہا وصارت کأنہا حی من أحیاء مکة ، فالأحوط لاہل مکة بمنی أن یتکوا الصلوة“ …”مکہ اور منی کی عمارات اس طرح متصل ہوچکی ہیں کہ گویا منی مکہ کا ایک محلہ ہے، پس اہلِ مکہ کے لئے زیادہ احتیاط اس میں ہے کہ وہ منی میں نماز پوری پڑھیں (جلسات الحج، ج:۱،ص:۱۸)
حدیث حارثہ بن وہب:
قال (حارثة بن وہب): صلیت مع رسول الله ا بمنی والناس أکثر ما کانوا ، فصلی بنار رکعتین فی حجة الوداع“ (سنن ابی داؤد، ج:۱،ص:۲۷۰)
ترجمہ:َ”حارثہ بن وہب کہتے ہیں: میں نے رسول اللہا کے ساتھ منی میں نماز پڑھی اور پہلے جتنے لوگ ہوتے تھے، اب ان سے زیادہ تھے، پس آپ ا نے حجة الوداع میں دورکعتیں پڑھائیں“۔
مالکیہ کہتے ہیں حارثہ بن وہب مکہ میں مقیم تھے، اس کے باوجود انہوں نے رسول اللہ ا کے پیچھے دو رکعتیں پڑھی ہیں، یعنی قصر کی ہے، معلوم ہوا کہ اہل مکہ منی میں قصر کریں گے۔
اس کا اولاً جواب یہ ہے کہ اس حدیث سے مذکورہ دعوی پر استدلال تین امور پر موقوف ہے:
۱…حارثہ بن وہب دورکعت حجة الوداع کے موقع پر مکہ میں مقیم تھے۔
۲…حارثہ بن وہب نے دورکعت پر سلام پھیر دیا تھا۔
۳…حارثہ بن وہب کے مقیم ہونے کا اور دورکعت پر سلام پھیرنے کا رسول اللہ ا کو علم ہوگیا تھا ، اس کے باوجود آپ ا نے سکوت کیا، لیکن ان تین امور میں سے کسی ایک بات کی بھی کسی حدیث میں صراحت نہیں دکھائی جاسکتی۔
ثانیاً:جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں امام کے دو رکعت پڑھانے کا ذکر ہے، لیکن مقتدیوں اہلِ مکہ اور غیر اہل مکہ (جن میں اہل منی بھی شامل ہیں) نے کتنی رکعات پڑھی ہیں؟ اس کا کوئی ذکر نہیں، جبکہ یہ حدیث دلیل تب بن سکتی ہے کہ اس میں مقتدیوں کی رکعات کی تعداد صراحتاً مذکور ہو۔
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: معاشرے کی اصلاح کا آغاز کہاں سے ہو؟
Flag Counter