Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء

ہ رسالہ

1 - 9
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور شراب کی برآمد
اسلامی جمہوریہ پاکستان اور شراب کی برآمد

الحمد لله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
دین اسلام دین فطرت ہے جو انسانیت کو پاکیزگی وپاک بازی، عفت وپاک دامنی، شرم وحیا اور راست گوئی وراست بازی جیسی اعلیٰ صفات سے متصف اور مزین دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں بے شرمی ، بے حیائی، بے عقلی، بدگوئی اور بے راہ روی جیسی مبغوض وملعون عادات اور خسیس ورذیل حرکات سے بچنے کا حکم اور امر کرتا ہے۔
اسی بنا پر اسلام نے ہر اس چیز کے کھانے، پینے اور استعمال کی اجازت دی ہے جو حلال، طیب، پاکیزہ اور صاف ستھری ہو، جس کے استعمال سے صحت، قوت، طاقت، فرحت اور انبساط جیسی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہوں اور کردار واخلاق جیسے عمدہ خصال بنتے اور سنورتے ہوں اور اس کے برعکس ہراس چیز کے برتنے اور استعمال سے منع کیا ہے جس سے صحت ایمانی اور صحت جسمانی کی خرابی، عقل وشعور جیسی نعمت کا زوال اور تہذیب واخلاق جیسے اعلیٰ اوصاف کے بگڑنے یا بدلنے کا اندیشہ اور شائبہ تک پایا جاتا ہو۔
قرآن کریم اور سنت نبویہ کی نصوص قطعیہ اور صحابہ کرام کی تصریحات سے حلال وحرام کی وضاحت ہوچکی ہے، جن کی تفصیلات وتشریحات فقہائے عظام اجتہاد کے ذریعے اور علمائے کرام وعظ وبیان وافتاء کے ذریعے امت مسلمہ کے سامنے پیش کرتے آئے ہیں۔
ایک مسلمان کے لئے جس طرح نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کی فرضیت کا عقیدہ رکھنا، ان کا علم حاصل کرنا اور ان پر عمل کرنا فرض اور ضروری ہے، اسی طرح شراب، جوا، سود، زنا اور چوری کی حرمت کا عقیدہ رکھنا، اس کی حرمت کا علم حاصل کرنا اور اس سے بچنا بھی فرض اور ضروری ہے۔
شراب کے نفع ونقصان، حلال وحرام ہونے کے اوقات، پھر قطعی طور پر ممانعت کا حکم اور حرمت وممانعت کی حکمت کا ذکر قرآن کریم میں تین مقامات پر آیا ہے:
۱:۔”یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ، قُلْ فِیْہِمآ إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمآ أَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا…“ (البقرہ:۲۱)
ترجمہ:۔”تجھ سے پوچھتے ہیں شراب کا اور جوئے کا، کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور فائدے بھی ہیں لوگوں کو اور ان کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدہ سے…“۔
اس آیت میں شراب کی بابت سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ اگرچہ شراب اور قمار میں کچھ فائدہ ہے، لیکن ان کا گناہ اور نقصان ان کے فائدہ سے شدید تر ہے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ شراب پینے سے عقل جاتی رہتی ہے اور یہی عقل ہی انسان کو تمام برائیوں اور افعال شنیعہ سے بچاتی ہے۔
اس آیت کے نزول کے بعد بہت سی محتاط طبیعتوں نے مستقل طور پر شراب نوشی ترک کردی، پھر کسی موقع پر نماز مغرب ہورہی تھی، امام صاحب نے نشہ کی حالت میں سورة الکافرون میں ”لاَأَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ “ کی جگہ “أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ “پڑھا، جس سے معنی میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی، یعنی شرک سے اظہار برأت کی جگہ شرک کا اظہار لازم آیا تو اللہ تعالیٰ نے فوراً یہ آیت نازل فرمائی:
۲:۔”یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَقْرَبُوْا الصَّلٰوةَ وَأَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتَّی تَعْلَمْوْا مَا تَقُوْلُوْنَ …“ (النساء:۴۳)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو، یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو…“۔
چونکہ اس آیت سے بھی شراب کی ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے، جس کی بنا پر بہت سے حضراتِ صحابہ کرام نے بالکلیہ شراب نوشی ترک کردی اور بہت سوں نے نماز عصر اور نماز مغرب کے بعد شراب پینا اس لئے چھوڑ دیا کہ ان نمازوں کے اوقات قریب قریب ہیں۔
بہرحال قرآن کریم کے اشارات اور قرائن سے یہی معلوم ہوتا تھا کہ عنقریب شراب کی حرمت کا قطعی حکم نازل ہونے والا ہے، اس لئے حضرت عمر  نے ان ہر دو آیات کے نزول کے بعد یہ دعا کی: ”اللّٰہم بیّن لنا فی الخمر بیاناً شافیاً“ اے اللہ! شراب کے بارہ میں فیصلہ کن حکم فرما دیجئے۔
تیسرے مرحلہ پر سورة المائدہ کی یہ آیات نازل ہوئیں:
۳…یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأنْصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ، إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضآءَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ، فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ، وَأَطِیْعُوْا اللهَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا، فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ أَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ “۔ (المائدہ:۹۰،۹۱،۹۲)
ترجمہ:۔”اے ایمان والو! یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے، سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ، شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بیر بذریعہ شراب اور جوئے کے اورروکے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے، سو اب بھی تم باز آؤ گے؟ اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول ا کا اور بچتے رہو، پھر اگر تم پھر جاؤگے تو جان لو کہ ہمارے رسول ا کا ذمہ صرف پہنچادینا ہے کھول کر“۔
محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ مذکورہ بالا آیات کو نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
”دیکھئے ! اس آیت کریمہ میں شراب کی حرمت کس مؤثر انداز سے بیان فرمائی ہے، کسی حرام اور ممنوع چیز کی حرمت کا اعلان اس انداز سے نہیں کیاگیا اور ساتھ ہی ساتھ ممانعت کی علت وحکمت بھی دینی ودنیوی دونوں پہلو سے بیان فرمادی، کسی تشریح وتفسیر کے بغیر صرف ترجمہ سمجھ کر اس آیت کو بار بار پڑھئے اور سوچئے کہ کتنا بلیغ پیرایہٴ بیان اختیار کیا گیا ہے…“۔ (بصائر وعبر، ج:۲، ص:۶۹،۷۰)
حضرت بنوری مزید لکھتے ہیں:
”غور فرمایا جائے کہ حرمت کے اعلان کے لئے کتنا مؤثر وبلیغ طرز اختیار فرمایا گیا ہے، ان حقائق کے بعد کتنا احمقانہ خیال ہے اور کتنا جاہلانہ تصور ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن کریم نے نہ تو صریح حرام کا لفظ استعمال کیا ہے اور نہ ہی ان محرمات کا جہاں ذکر ہے، وہاں بیان کیا ہے۔ اثم، رجس، اجتناب انتہاء، عمل شیطان، سببِ بغض وعداوت، نماز وذکرُ اللہ سے غفلت کا باعث ، وغیرہ ، وغیرہ تعبیرات سے کیا ایک لفظ حرام زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے؟ کیا کسی چیز کی ممانعت کی ایک ہی تعبیر ہو سکتی ہے؟ کل کو ”زنا“ کے بارے میں بھی کہا جائے گا کہ حرام کا لفظ کہاں ہے؟ وہاں تو صرف ”لاَتَقْرَبُوْا الزِّنَا“ کا حکم ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس قسم کے خرافات علمی دلائل کے سامنے کچھ وقعت رکھتے ہیں؟ بعض خِردباختہ اونچے منصب والوں سے میں نے خود سنا ہے کہ جس چیز میں حکومت کا انٹرسٹ ہو یا خارجی سیاست کا تقاضا ہو، اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ إنا لله وإنا إلیہ راجعون“۔(بصائر وعبر ج:۲،ص:۶۹،۷۰)
مشکوٰة میں حدیث ہے:
”
عن أبی سعید الخدری قال: کان عندنا خمر لیتیم، فلما نزلت المائدة سألت رسول الله ا وقلت: انہ لیتیم، فقال: أہریقوہ، رواہ الترمذی“۔ (مشکوٰة:۳۱۸)
ترجمہ:۔”حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہمارے پاس ایک یتیم کی شراب رکھی ہوئی تھی، میں نے اس کے بارہ میں آپ ا سے دریافت کیا (آپ ا نے اس شراب کو ضائع کرنے کا حکم دیا) میں نے عرض کیا کہ وہ تو ایک یتیم کی ملکیت ہے؟ آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ: اس کو بہادو“۔
مشکوٰة کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ سورة المائدة کی ان آیات میں شراب کی حرمت پر سات دلائل دیئے گئے ہیں:
۱…قرآن کریم نے شراب کو ”رجس“ کہا ہے اور” رجس“ کا معنی نجاست اور گندگی آتا ہے، اورہر آدمی جانتا ہے کہ ہرنجاست وگندگی شریعت مطہرہ اور عقل سلیم کے نزدیک حرام ہے۔
۲…اللہ تعالیٰ نے شراب کو ”عَمَلُ الشَّیْطَانِ“ فرمایا ہے اور شیطان کا ہرعمل حرام ہے۔
۳…قرآن کریم کا حکم ہے ”فَاجْتَنِبُوْہُ“ اور اللہ تعالیٰ جس چیز سے بچنے کا حکم فرمائیں تو وہ حرام ہوتی ہے۔
۴… اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ“ جس چیز کے اجتناب سے فلاح اور کامیابی متعلق ہو، اس کا کرنا حرام ہے۔
۵…قرآن کریم کہتا ہے: ”إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالبَغْضآءَ فِیْ الْخَمْرِ والْمَیْسِرِ“ اور جو چیز مسلمانوں میں بغض اور عداوت کا سبب بنے تو وہ حرام ہوتی ہے۔
۶…قرآن کریم کا بیان ہے: ”وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ“ اور جس چیز کے ذریعے شیطان مسلمانوں کو اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے، وہ چیز حرام ہوتی ہے۔
۷…اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ“ یہ ”اِنْتَہُوْا“ امر کے معنی میں ہے، یعنی رک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس چیز سے رکنے کا فرمادیں تو پھر اس چیز کا کرنا حرام ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ”فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ“ سنتے ہی فرمانے لگے: ”انتہینا،انتہینا“ یعنی ہم باز آئے، ہم باز آہیں
اب رہا یہ سوال کہ شراب کو حرام اور ممنوع یکبارگی قرار کیوں نہ دیا گیا، تدریجاً اس کی حرمت کیوں نازل ہوئی؟ علامہ شبیر احمد عثمانی تفسیر عثمانی میں اس کا جواب یوں دیتے ہیں:
”چونکہ عرب میں شراب کا رواج انتہاء کو پہنچ چکا تھا اور اس کا دفعةً چھڑادینا مخاطبین کے لحاظ سے سہل نہ تھا، اس لئے نہایت حکیمانہ تدریج سے اولاً قلوب میں اس کی نفرت بٹھائی گئی اور آہستہ آہستہ حکمِ تحریم سے مانوس کیا گیا، چنانچہ حضرت عمر نے اس دوسری آیت کو سن کر پھر وہی لفظ کہے: ”اللّٰہمّ بیِّن لنا بیاناً شافیاً “آخر کار سورة المائدة کی یہ آیات جو ہمارے سامنے ہیں :”یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا“ سے ”فَہَلْ أَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ“ تک نازل کی گئی، جس میں صاف صاف بت پرستی کی طرح اس گندی چیز سے اجتناب کرنے کی ہدایت تھی“۔
قرآن کریم کی ان آیات کے علاوہ آنحضرت ا کے ارشادات مبارکہ میں شراب نوشی، اس کی خرید وفروخت اور اس کے پینے پلانے کو ایسا سنگین جرم قرار دیا ہے کہ جنہیں پڑھ کر ایک سلیم الطبع اور سلیم الفطرت مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت ا نے ارشاد فرمایا:
۱:۔”عن جابر… قال:کل مسکر حرام،إنَّ علٰی الله عہداً لمن یشرب المسکر أن یسقیہ من طینة الخبال،قالوا:یا رسول الله! وما طینة الخبال؟ قال عرق أہل النار أو عصارة أہل النار، رواہ مسلم“۔ (مشکوٰة ص:۳۱۷)
ترجمہ:۔”حضرت جابر سے روایت ہے، آنحضرت ا نے ارشاد فرمایا کہ : ہر نشہ آور مشروب حرام ہے اور اللہ تعالیٰ نے عہد کررکھا ہے کہ شراب پینے والوں کو دوزخیوں کے زخموں کی گندگی پلائی جائے گی، صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ”طینة الخبال“ کیا چیز ہے؟ فرمایا کہ: دوزخیوں کاپسینہ یا دوزخیوں کا پیپ“۔
۲:۔”عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ا : من شرب الخمر لم یقبل الله لہ صلوة اربعین صباحاً، فان تاب تاب الله علیہ، فان عاد ، لم یقبل الله لہ صلوة اربعین صباحاً، فان تاب تاب الله علیہ، فان عاد فی الرابعة ، لم یقبل الله لہ صلوة اربعین صباحاً، فان تاب لم یتب الله علیہ وسقاہ من نہر الخبال۔ رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجة والدارمی“۔
(مشکوٰة ص:۳۱۷)
ترجمہ:۔”جو شخص ایک بار شراب پئے اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں فرمائیں گے، اگر وہ توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی، دوبارہ شراب پئے تو پھر چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی اور توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیں گے، سہ با ر شراب پئے تو پھر اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی اور توبہ کرلے تو توبہ قبول ہوگی اور اگر چوتھی بار شراب نوشی کا مرتکب ہو تو پھر اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہوگی اور اب اگر توبہ بھی کرنا چاہے تو اندیشہ ہے کہ اس کی توفیق نہ ہو، بلکہ اسی جرم پر اس کا خاتمہ ہو، اور اللہ تعالیٰ اسے ”نہرِ خبال“ سے (جس سے دوزخیوں کی پیپ بہتی ہے) پلائیں گے“۔
۳:۔ عن النبی ا قال: لایدخل الجنة عاقٌّ ولاقمَّار ولامنَّان ولامدمن خمر۔ رواہ الدارمی“۔ (مشکوٰة ص:۳۱۸)<./div> ترجمہ:۔”چار شخصوں کا داخلہ جنت میں ممنوع ہے، والدین کا نافرمان، جوئے باز، صدقہ کرکے جتلانے والا اور شرابی“۔
۴:۔”عن ابی امامة قال: قال النبی ا : إنَّ الله تعالیٰ بعثنی رحمةً للعالمین وہدًی للعالمین، وأمرنی ربی بمحق المعازف والمزامیر والأوثان والصلب وأمر الجاہلیة وحلف ربی عز وجل بعزتی ولایشرب عبد من عبیدی جرعة من خمر إلا سقیتہ من الصدید مثلہا ویترکہا من مخافتی إلا سقیتہ من حیاض القدس۔ رواہ أحمد“ ۔(مشکوٰة ص:۳۱۸)
ترجمہ:۔”اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمةٌ للعالمین اور جہانوں کا ہادی بناکر بھیجا ہے اور مجھے میرے رب نے گانے بجانے کے سامان، بتوں اور صلیبوں کے توڑنے اور امور جاہلیت کے مٹانے کا حکم فرمایا ہے اور میرے رب عز وجل نے قسم کھائی ہے کہ مجھے اپنی عزت کی قسم! میرے بندوں میں سے جو بندہ شراب کا ایک گھونٹ پئے گا، میں اسی قدر اس کو پیپ پلاؤں گا اور جو بندہ اس کو میرے خوف سے چھوڑ دے گا، میں اسے بارگاہ قدس کے حوضوں کا آب طہور پلاؤں گا“۔
۵:۔”عن ابن عمر أن رسول الله ا قال: ثلٰثة قد حرم الله علیہم الجنة، مدمن الخمر والعاق والدیوث الذی یقر فی اہلہ الخبث۔ رواہ أحمد والنسائی“۔ (مشکوٰة ص:۳۱۸)
ترجمہ:۔”اللہ تعالیٰ نے تین شخصوں پر جنت حرام کردی ہے، شراب خور، والدین کا نافرمان اور وہ دیوث، جو اپنے گھر میں گندگی کو برداشت کرتا ہے“۔
۶:۔”عن دیلم الحمیری قال: قلت لرسول الله ا : یا رسول الله! إنا بارض باردة ونعالج فیہا عملاً شدیداً وإنا نتخذ شراباً من ہذا القَمح نتقوی بہ علی أعمالنا وعلی برد بلادنا، قال: ہل یسکر؟ قلت: نعم! قال: فاجتنبوہ ، قلت: إنَّ الناس غیر تارکیہ ، قال: إن لم یترکوہ قاتلوہم۔ رواہ أبوداؤد“ (مشکوٰة ص:۳۱۸)
ترجمہ:۔”ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ سرد علاقے کے باشندے ہیں اور محنت بھی بہت کرتے ہیں، سردی اور مشقت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم گیہوں سے ایک مشروب تیار کرکے استعمال کیا کرتے ہیں، فرمایا: کیا وہ نشہ آور ہوتا ہے؟ عرض کیا، جی ہاں! نشہ تو اس میں ہوتا ہے، فرمایا: تو پھر ا س سے اجتناب لازم ہے، عرض کیا: لوگ تو اس کو ترک نہیں کریں گے، فرمایا: اگر وہ لوگ اس کو نہیں چھوڑتے تو ان سے جنگ کرو“۔
۷:۔”عن وائل الحضرمی ان طارق بن سوید سأل النبی ا عن الخمر ، فنہاہ، فقال: إنما أصنعہا للدواء! فقال: إنہ لیس بدواء ولکنہ داء۔ رواہ مسلم“۔ (مشکوٰة ص:۲۶۷)
ترجمہ:۔”حضرت طارق بن سوید نے آنحضرت ا سے شراب کشید کرنے کی بات کی تو آپ ا نے منع فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ: میں صرف علاج معالجہ اور دوا دار و کے لئے کشید کرنا چاہتا ہوں، آپ ا نے فرمایا: وہ دوا نہیں، وہ تو بیماری ہے“۔
۸:۔”عن ابن عمر قال: قال رسول الله ا : لعن الله الخمر وشاربہا وساقیہا ومبتاعہا وبائعہا وعاصرہا ومعتصرہا وحاملہا والمحمولة إلیہ۔ رواہ ابو داؤد واللفظ لہ وابن ماجة، وزاد: وآکل ثمنہا۔ (الترغیب والترہیب ج:۳،ص:۱۷۴)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب، اس کے پینے والے، اس کے پلانے والے، اس کے خریدنے والے، اس کے بیچنے والے، اس کے کشید کرنے والے،اس کے کشید کرانے والے، اس کے اٹھانے والے اور جس کی طرف لے جائی جائے (ان سب) پر لعنت کی ہے اورایک روایت میں ہے کہ: اس کی قیمت کھانے والے پر بھی لعنت کی ہے“۔
۹:۔”عن ابن عباس  عن النبی ا قال: لعن الله الیہود ثلاثا، إن الله حرم علیہم الشحوم فباعوہا، فاکلو أثمانہا، إن الله اذا حرم علی قوم أکل شیئ حرم علیہم ثمنہ۔ رواہ ابوداؤد“۔ (الترغیب والترہیب،ج:۳،ص:۱۷۴)
ترجمہ:۔”حضرت ابن عباس  سے روایت ہے کہ آپ ا نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر تین بار لعنت فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام کیا تو انہوں نے اس کو بیچ کر ان کی قیمتوں کو کھانا شروع کردیا، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام کرتے ہیں تو اس کی قیمت کو بھی حرام کرتے ہیں “۔
۱۰:۔”عن المغیرة بن شعبة  قال: قال رسول الله ا : من باع الخمر فلیشقص الخنازیر۔ رواہ ابوداؤد “۔ (الترغیب والترہیب،ج:۳،ص:۱۷۴)
ترجمہ:۔”حضرت مغیرہ بن شعبہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہا نے فرمایا: جو شراب بیچے تو اسے چاہئے کہ وہ خنزیر کے ٹکڑے کرکے بھی اسے بیچے (اور اس کی قیمت کھایا کرے) اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے“۔
خلاصہ یہ کہ شرابی جنت میں داخلے سے محروم ہے، شرابیوں کو دوزخیوں کے زخموں کی گندگی پلائی جائے گی، شرابی کی نماز قبول نہیں، شراب نوشی ترک نہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کا حکم ہے، شراب بیماریوں کے بڑھانے کا سبب ہے ، شراب پینا، پلانا، بیچنا، خریدنا، بنانا، بنوانا، لانا، منگوانا یہ سب کام موجبِ لعنت او رحرام ہیں۔ اسی طرح ایک مسلمان کے حق میں جب شراب حرام ہے تو اسے بیچ کر اس کی قیمت، نفع، ٹیکس یا زر مبادلہ حاصل کرنا بھی حرام ہے اور یہ کہ شراب بیچنے والا اور خنزیر بیچنے والا دونوں حکم میں برابر ہیں، کیونکہ دونوں چیزیں مسلمان کے حق میں حرام اور نجس العین ہیں۔
یہ ساری تفصیل لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ روزنامہ نوائے وقت کراچی میں یہ خبر چھپی ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے جمعہ کے روز ایک حکم نامے کے ذریعے پاکستان سے شراب برآمد کرنے کی پابندی اٹھالی ہے اور وزارتِ تجارت نے ایکسپورٹ آرڈر میں ترمیم کا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ اس خبر کی تفصیل ملاحظہ ہو:
”کراچی(سالک مجید/وقائع نگار) پاکستان سے اب شراب بھارت کو برآمد کی جا سکے گی، کیونکہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے جمعہ کے روز ایک حکم نامے کے ذریعے پاکستان سے شراب برآمد کرنے کی پابندی اٹھالی ہے اور وزارتِ تجارت نے ایکسپورٹ آرڈر میں ترمیم کا ایس آر او جاری کردیا ہے، مذکورہ ایس آر او کے اجراء پر پاکستان شراب تیار کرنے والی لائسنس یافتہ کمپنیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، اب بھارت سمیت تمام غیر مسلم ملکوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے شراب ایکسپورٹ کی جاسکے گی، البتہ او آئی سی کے رکن ۵۷ اسلامی ملکوں کو شراب پاکستان سے برآمد نہیں کی جاسکے گی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق پاکستان میں تیار کی جانے والی شراب کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں کافی ڈیمانڈ موجود ہے اور لائسنس یافتہ شراب ساز کمپنیاں کافی عرصے سے شراب ایکسپورٹ کرنے کی کوششیں کررہی تھیں، لیکن مختلف ادوار میں حکومتی سطح پر اجازت نہیں مل رہی تھی، پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومتوں نے بھی اس کی اجازت نہیں دی تھی ۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں اس پر پابندی برقرار رکھی گئی تھی، جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اس پر پابندی برقرار رہی، لیکن پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے شراب ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے، بظاہر اسے قیمتی زر مبادلہ کے حصول کا ذریعہ بتایاجارہا ہے۔ موجودہ وزیرِ تجارت مخدوم امین فہیم کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور ان پر بھارت نوازی کا الزام لگایاجارہا ہے، اب ان کی وزارتِ تجارت نے شراب پاکستان سے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے، جس کے ذریعے شراب بھارت کو بھی ایکسپورٹ کی جاسکے گی“۔
(روز نامہ نوائے وقت، کراچی ۳۱ /دسمبر ۲۰۱۱ء)
اسلام تجارت، محنت، مزدوری اور حصول رزق سے کبھی منع نہیں کرتا، بلکہ اس کی ترغیب وتحریض کے علاوہ اس کے فضائل بھی بیان کرتا ہے۔ اسلام کسب حلال کی محنت اور جستجوکو ایک بہترین عمل اور فریضہ قرار دیتا ہے، ہاں ! اسلام حلال اور حرام کے درمیان حد فاصل ضرور قائم کرتا ہے۔ لیکن بے دین اور لامذہب مادہ پرست اقوام او رافراد کا یہ فلسفہ اور اصول بن چکا ہے کہ مال ودولت آنا چاہئے، خواہ اس کا حصول جس طرح ممکن ہو۔ ان کے نزدیک جائز وناجائز ، حلال وحرام، صحیح وغلط کی کوئی حدود وقیود نہیں۔ شراب ، جوا، قمار، سود، زنا، لاٹری، سٹہ بازی، جسم فروشی غرضیکہ ہروہ چیز اور طریقہ ان کے نزدیک ٹھیک اور قابل عمل ہے، جس سے حصول زر وابستہ ہو۔افسوس کہ مسلم ملک کا حکمران طبقہ بھی قرآن کریم اور سنت نبویہ کی اتباع اور پیروی کے بجائے ان بے دین، لامذہب اور مادہ پرست عوام کی نقالی کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دے رہا ہے۔
آج کے حکمران اپنے فیصلے، پالیسیاں اور تجارتی لین دین اسلامی قانون کے بجائے لادینی قانون کے مطابق بنا رہے ہیں، ان کی اقتصادیات کی گاڑی یہودی سرمایہ کاروں کی بچھائی ہوئی لائن پر چل رہی ہے ۔
قرآن کریم اور آنحضرت ا کے ان صریح ارشادات کے بعد تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی مسلمان اس ام الخبائث کے قریب بھی جاسکتا ہے، لیکن کس قدر لائق شرم ہے یہ بات کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اب دوسرے ممالک کو شراب برآمد کی جائے گی۔ إنا لله وإنا إلیہ راجعون۔
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلٰی آلہ وصحبہ اجمعین۔
اشاعت ۲۰١۲ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۳ھ - فروری۲۰١۲ء, جلد 75, شمارہ 
Flag Counter