Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۳۲ھ -ستمبر ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

4 - 16
اسلامی احکام کے بارہ میں چند سوالات کے جواب !
اسلامی احکام کے بارہ میں چند سوالات کے جواب (آخری قسط)

پھر مطلقہ بیوی کے لئے کچھ سامان، لباس، وغیرہ دینے کا حکم فرمایا گیا ہے، جس کی تعبیر عربی زبان میں ”متعہ“سے کی جاتی ہے، اس سے مراد ”متاعِ حیات“ اور اس کی کوئی خاص تشریح نہیں اور یہ پہناوے، اوڑھنے کا لباس اس لئے کہ عورت کو طلاق کے ذریعہ شوہر نے جو ایک وحشت میں مبتلا کردیا ہے، اس کا کچھ ازالہ ہوسکے اور بہرحال شوہر اور بیوی کے خاندانی ربط وتعلق پر کوئی اثر نہ پڑے، ورنہ دیکھا گیا ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ طلاق کے بعد دو طرفہ خاندان منہ دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے اور اسلام اس لاتعلقی کو پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے مربوط ہوکر معاشرتی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ ”طلاقِ بدعت“ یعنی ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کا اقدام، جہاں خود ایک سنگین معاملہ ہے، وہاں مرد کے لئے یہ اقدام گناہ بھی ہے، جس نے اس خطرناک معاملہ کو کھیل سمجھ کر کھیل دیا، دنیا میں بھی ایسا شخص معاشرتی ملامت اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
اس اخلاقی شعور کا فقدان، جس کی بناء پر مرد اپنے اس اختیار کو غلط استعمال کرتا ہے، اسلامی تعلیمات اور احکام کا نقص نہیں، بلکہ اس اخلاقی شعور کے اپنے ضمیر میں اجاگر کرنے کے لئے درست روی اختیار نہ کرنا اور نہ کروانا ایک جرم ہے۔ اسلام نے ان اختیارات کو قانونی حدود مہیا کردی ہیں اور ان حدود کی پاسداری میں کسی طرف اعتراض کی مجال نہیں، لیکن جب ان حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے تو اسلام اگرچہ دنیوی اعتبار سے اس اختیار کو نافذ قرار دیتا ہے، لیکن اخروی سزا کا ضرور مستحق ٹھہراتا ہے ۔
اگر عورت اور مرد کے درمیان پیچیدگیاں بڑھ جائیں اور نباہ کی صورت بظاہر مشکل نظر آتی ہو تو خاندان کے بڑے افراد کے ذریعہ صلح صفائی کی کوشش اس ناہمواری کا اولین نسخہ ہے، جو شریعت نے ہمیں مرحمت فرمایا ہے۔ اگر شوہر ظلم کو روارکھے اور بیوی واقعةً مظلوم ہو تو خلع کی صورت میں مرد کے لئے عورت سے مال یا حق مہر کی رقم لینا اخلاقی طور پر ہرگز مناسب نہیں، لیکن کیا کیجئے کہ غفلت میں شریعت کے یہ عادلانہ احکام پسِ پشت ڈال کر شریعت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔
جہاں تک عدالتی پیچیدگیوں کی بات ہے تو یہ موجودہ عدالت کے دستور کا نقص ہے، نہ کہ شریعت کا۔ علمائے کرام ان عدالتی پیچیدگیوں اور انصاف کی بآسانی رسائی کے لئے کئی مرتبہ گشتی عدالتوں کے لئے حکومت سے درخواست کرچکے ہیں، لیکن یہ درخواست، نقار خانے میں طوطی کی پکار سے زیادہ وقعت حاصل نہ کر سکی۔(۱۸)
۶…(الف) اگر زندگی میں باپ اپنی جائیداد کو اپنے ورثاء میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو چونکہ وراثت کا حکم موت کے بعد لاگو ہوتا ہے، اس لئے زندگی میں یہ تقسیمِ املاک عطیہ، ہبہ اور گفٹ ہے۔اپنی اولاد کے درمیان زندگی میں معاشرتی سلوک کے متعلق اسلامی ہدایت یہ ہے کہ ان میں مکمل برابری کی جائے، اگر کچھ دیا جائے تو برابر برابر دیا جائے، کسی کونقصان پہنچانے کے لئے کم اور کسی کو زیادہ دینا ، شرعی ہدایت کے مطابق جرم ہے۔
زندگی میں تقسیمِ املاک کا اصول یہ ہے کہ اس میں بیٹا اور بیٹی کے حصے میں کوئی کمی زیادتی نہیں ہوگی، دونوں کو برابر برابر دینا واجب ہوگا، بلکہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو نقصان پہنچانے کی نیت کے بغیر کسی بیٹے یا بیٹی کی خانگی مجبوریوں کے پیش نظر یا اس کی دینی فضیلت کی بنا پر یا اس کے خدمت گذار ہونے کی وجہ سے زیادہ دیا جائے تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔ (۱۹) البتہ زندگی میں عطیہ کردہ املاک کے متعلق یہ ضروری ہے کہ اس مال واسباب سے اپنا مکمل مالکانہ تصرف ختم کردے اور اس طور پر مکمل اختیار دیدے کہ وہ جس طرح اس مال کو چاہے، جائز مصارف میں استعمال کرے۔ صرف نام کردینے سے کسی کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، صرف نام کردینا قانونی اعتبار سے اگرچہ ملکیت کا سبب قرار دیا گیا ہے، لیکن شرعی اعتبار سے صرف نام کردینے کے بجائے مکمل مالکانہ تصرف دے کر ہی اس چیز کو اس کے بیٹے اور بیٹی کی ملکیت شمار کیا جائے گا۔
ب…عورتوں کو وراثت سے محروم کردینا، یہ شرعی جرم ہے اور اس کی سزا دنیا وآخرت دونوں میں ملے گی ۔ حدیث شریف میں میراث کی تقسیم کو اس قدر ضروری قرار دیاگیا ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے والے کو جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے اور اخلاقی وجذباتی طور پرمیراث کی شرعی تقسیم پر زور دیا گیا ہے۔ (۲۰) میراث کے معاشی اور اقتصادی کیا فوائد ہیں اور اس کی شرعی تقسیم سے کس قدر خوشحالی حاصل ہو سکتی ہے ؟ علماء معیشت اور ماہرین اقتصادیات کی نظروں سے ہرگز پوشیدہ نہیں، لہذا میراث کی تقسیم میں کوتاہی کرنا صرف افراد واشخاص کی حق تلفی نہیں ہوگی، بلکہ ایک گھناؤنا معاشرتی جرم ہوگا، جس کی پاداش میں ریاست کی اسلامی معاشی پالیسی پر بڑا اثر پڑسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء کرام تحریر وتقریر کے ذریعہ اور جہاں بااختیار ہوں، وہاں عملی طور پر اس رسم بد کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں اور ریاست سے اپنے اختیارات بروئے کارلاکر اس رسم ِبد کو بدلنے کی درخواست پیش کرتے رہے ہیں۔
”وٹہ سٹہ“ کی شادی میں اگر دونوں طرف مہر پورے طور پر ادا کیا جائے تو جائز ہے۔(۲۱)تاہم چونکہ ایسی شادیاں اکثر جھگڑے اور فساد کی وجہ سے نادرستی کا شکار رہتی ہیں، اس لئے اس طرح کی شادی سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہئے ۔ قرآن سے شادی ہرگز نہیں، ایسے افراد اسلام کے ساتھ مذاق کررہے ہیں، ان کو سخت تعزیری سزا دے کر اس جرم کا سدِّباب کیا جانا چاہئے۔
۷…(الف) سوال میں پیش کردہ رائج الوقت تمام صورتیں اسلامی تعلیمات اور احکام کے منافی ہیں، اگر عورت یا مرد بدکاری کا فعل کرتے ہیں اور اس پر کوئی اقدام کیا جانا چاہئے تو یہ ریاستی ذمہ داری ہے، افراد کو اس ذمہ داری میں بے جا مداخلت کا حق نہیں۔ اسلامی حکومت کو چاہئے کہ ”حدود اللہ“ کے نفاذ میں کسی طرح کی نرمی سے باز رہے ۔(۲۲) جس خداوند نے یہ حدود اتاری ہیں، وہی ان کی حکمتوں سے باخبر ہے، ایک مسلمان کو ان ”حدود“ کے واقعہ کے موافق ہونے میں عقلی گھوڑے دوڑانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔
ب…اس کے متعلق تفصیلی بحث سوال نمبر۱ کے تحت گزرچکی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ مرد کو اگرعورت کے مارنے کا کچھ اختیار دیا گیا ہے تو اس کی شرائط اور حدود بھی مقرر ہیں اور ”مارنا“ اصلاحی پروگرام میں سب سے آخری اقدام ہے، پھر چہرہ پر مارنا منع ہے اور جسم کے دیگر نازک حصوں پر مارنا بھی منع ہے اور مارنا اس قدر ہونا چاہئے کہ اس مار سے جسم پر کوئی نشان نہ پڑنے پائے ۔(۲۳) اگر کوئی اپنی حیوانی مار یا کسی بھی قسم کے غیر انسانی رویہ کو اسلام کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ مستحق لعنت وملامت، بلکہ قابل سزا وتعزیر ہے۔
۸…اسلام عدل وانصاف کا علمبردار ہے اور دنیا کے ہرگوشہ میں عدل وانصاف کی حکمرانی اور برتری کا خواستگار ہے، ظلم اور زیادتی کے خلاف (اسلامی احکام چاہے معاشرتی ہوں، معاشی ہوں، سماجی ہوں یا ثقافتی ہوں) اتنے مضبوط بند باندھتا ہے کہ ظلم کسی صورت انسانیت میں راہ نہ پاسکے، لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب اسلام کے نام لیوا اس کے احکام کو صحیح صورت میں نافذ بھی کردیں۔ جاگیردارانہ نظام، سرداری نظام، استعماری نظام میں اصولی وفروعی مظالم کی روک تھام کے لئے قوانین طے کردیئے جائیں تو وہی اسلامی نظامِ عدل قائم ہوجائے گا۔ ظلم پر مبنی جن قوانین کو ان نظامہائے مروّجہ میں جگہ دی گئی ہے، اس نے ساری انسانیت کو جس میں غریب کے ساتھ ساتھ امراء واغنیاء کا طبقہ بھی ہے، کرب اور پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے۔ اگرچہ امراء کا طبقہ ظاہر بین نگاہوں میں ترقی پذیر اور آسودہ حال ہے، لیکن معاشرتی ناہمواری کا بلاواسطہ وہ بھی شکار ہیں، ایسی صورت میں ان خودساختہ ناانصافی پر مبنی قوانین میں ریاستی طور پر تبدیلی ناگزیر ہے، ورنہ ساری انسانیت اس ناپاک رو میں بہہ جائے گی۔
۹…انسانی حقوق کی ہمہ گیریت کے متعلق خطبہٴ حجة الوداع میں نبی اکرم ا کی طرف سے پیش کردہ ایک جامع جملہ ہی کافی ہے اوروہ یہ ہے کہ: کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سب برابر ہیں۔ فضیلت تقویٰ سے ہے اور تقویٰ کا فیصلہ آخرت میں ہوگا، لہذا دنیا میں جس طرح عربی کے حقوق کی پاسداری اسلام کا محکم حکم ہے، اسی طرح عجمی کے حقوق کی پاسداری بھی اسلام کا محکم حکم ہے۔ جس طرح مرد کے حقوق بجا لائے جائیں گے ،اسی طرح عورت کے حقوق میں کوتاہی جرم شمار ہوگا۔ عورتوں پر کچھ فرائض لاگو ہیں، وہی مردوں کے حقوق ہیں اور مردوں پر کچھ ذمہ داریاں ہیں، وہی عورتوں کے حقوق ہیں۔ ”صنفی نا انصافی“ جاہلیت کا مرض تھا، جس کو اسلام نے عورتوں کے حقوق بیان کرکے ختم فرمایا تھا۔
جاہلیت سے اپنی جہالت کی بناء پر غیر معمولی طور پر متاثر افراد نے وہی روش اختیار کر رکھی ہے کہ لڑکیوں کو لڑکوں پر ترجیح دی جاتی ہے، بیٹی کی پیدائش پر غم کیا جاتا ہے۔ یہ بعینہ جاہلیت کے امراض ہیں، جنہیں ختم کیا جانا اسلام کا عظیم ترین مقصد ہے۔ علماء کرام اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں اورادا کررہے ہیں؟ اس کا جواب سوال نمبر ۶ کی شق نمبر (ب) میں گزرچکا ہے، وہیں ملاحظہ کرلیا جائے۔
۱۰…سوال میں مذکور تمام قوانین کی مکمل طور پر تنقیدی تفصیل خود ایک مقالہ چاہتی ہے، جس کے لئے ابھی نہ اتنا وقت میسر ہے، نہ ہی سر دست ان تمام قوانین کی کتب دستیاب ہو سکتی ہیں، تاہم جن مشہور خلاف شریعت قوانین کے متعلق تنقیدی نظر پیش کرکے اہل علم اپنی کاوشیں صرف کرچکے ہیں، ان میں تعدد ازواج کا مسئلہ، طلاق کے مسائل، یکطرفہ عدالتی خلع کی حیثیت، یتیم پوتے کی میراث اور حدود ترمیمی بل سرفہرست ہیں، ان کے متعلق بارہا حکومت اور عدلیہ سے درخواست کی جاچکی ہے کہ ان پر نظرثانی کریں اور انہیں خالص اسلامی احکامات کے مطابق کرنے کی کوشش کریں، جس میں احساس کمتری، مغرب زدہ طبقے سے مرعوبیت یا کسی علمی وشرعی کوتاہی کی گنجائش نہ رکھی جائے اور خالص اسلامی نظریات اور قابل اعتماد فقہی لٹریچر سے مدد لے کر ان کو قرآن وسنت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے اور جن ظاہری مفاسد کی وجہ سے اسلامی احکام میں رد وبدل کو راہ دی جارہی ہے، بجائے اسلامی احکام میں کسی ترمیم کے ان بنیادی مفاسد کے سدباب کی کوشش کی جائے۔ (۲۴)
۱۱…”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ایک خالص اسلامی نظریات کا حامل ملک ہے اور اپنے دستور میں اقتدار ِ اعلیٰ کو خدا کے لئے مختص قرار دیتا ہے۔ حدیث میں منقول ہے کہ مخلوق کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی ہرگز جائز نہیں، چنانچہ اگرUNO کے معاہدات میں کوئی شق اسلامی تعلیمات کے مخالف ہو تو ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت کا تقاضا ہے کہ اس سے ببانگِ دہل دستبرداری کا اعلان کرکے ایسی تمام شرائط سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے مکمل طور پر براء ت اختیار کرلی جائے۔ اس بنیادی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر مغرب زدہ ذہنیت عورتوں کو آزادی دینے کے خوشنما نام سے اسلامی معاشرہ کو بھی فحاش اور بدکار بنانے پر مصر ہواور CEDAWمعاہدے میں اسلام کے خلاف احکام کا پرچار کرے یا منوائے تو ان معاہدات کو تسلیم نہ کرنا اور اس کے متعلق چارہ جوئی کرنا اسلامی ممالک کا فرض ہے۔واللہ اعلم

الجواب صحیح الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد شفیق عارف شعیب عالم

کتبہ

محمد بلال بربری

متخصص فقہ اسلامی

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
مراجع ومأخذ

۱۸-جواہر الفقہ ۲/۴۸، رسالہ عائلی قوانین پر مختصر تبصرہ، مفتی محمد شفیع دیوبندی ،ط: دارالعلوم، کراچی
۱۹-فتاوی عالمگیری، کتاب الہبة، باب الہبة للصغیر، ۴/۳۹۱ ط:رشیدیہ
۲۰-مشکوٰة شریف، حدیث نمبر ۳۰۷۸ کتاب الفرائض والوصایا، الفصل الثالث ۳/۱۱۹۳،ط:دار ابن حزم ۱۴۲۴ھ=۲۰۰۳ء
۲۱-فتح الملہم شرح صحیح مسلم، ۶/۳۶۹،ط:دارالقلم، دمشق ۱۴۲۸ھ=۲۰۰۶ء
۲۲-احکام القرآن للجصاص ،۳/۳۳۸ تحت قولہ تعالیٰ: ولا تأخذکم بہما رأفة فی دین اللہ ، ط:دارالکتب العلمیة ۱۴۱۵ھ=۱۹۹۴ء
۲۳-حوالہٴ سابق، ۲/۲۳۸ تحت قولہ : فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن ط:دارالکتب العلمیة
۲۴-مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: رسالہ عائلی قوانین پر مختصر تبصرہ، مولفہ: مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی ۔ رسالہ عائلی قوانین شریعت کی روشنی میں، مؤلفہ: مفتی ولی حسن ٹونکی، رسالہ حدود ترمیمی بل ۲۰۰۶ء کیا ہے، مؤلفہ: مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال:۱۴۳۲ھ -ستمبر: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter