Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۳۲ھ -ستمبر ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

2 - 16
آڈٹ کمپنی میں ملازمت کرنے کا شرعی حکم !
آڈٹ کمپنی میں ملازمت کرنے کا شرعی حکم

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:
میں ایک آڈٹ کمپنی کا ملازم ہوں، تنخواہ مجھے کمپنی سے ملتی ہے، میرا کام یہ ہوتا ہے کہ کمپنی مجھے مختلف اداروں کے آڈٹ (معاملات کی جانچ پڑتال کرکے رپورٹ تیار کرنے ) کے لئے بھیجتی ہے، میں کمپنی کے ملازم ہونے کی حیثیت سے جاتاہوں اور ادارے کے معاملات کی جانچ پڑتال کرتا ہوں اور اس کی رپورٹ تیار کرکے دیتا ہوں۔ جس ادارے میں مجھے کمپنی بھیجتی ہے، اس سے مجھے تنخواہ نہیں ملتی، بلکہ تنخواہ مجھے اس کمپنی سے ملتی ہے جس کا میں ملازم ہوں، ہاں! کمپنی مجھے جہاں بھیجتی ہے، اس ادارے اور کمپنی کے درمیان معاہدہ ہوتا ہے اور فیس طے ہوتی ہے اور کمپنی وہ فیس وصول کرتی ہے۔
نوٹ: میں جس کمپنی کا ملازم ہوں، اس کا اکثر معاہدہ بینک ، انشورنس اور دیگر حرام آمدنی والے اداروں سے ہوتا ہے، اس لئے کمپنی اکثر ملازموں کوحرام آمدنی والے اداروں کے آڈٹ (معاملات کی تفتیش کرکے رپورٹ تیار کرنے) کے لئے بھیجتی ہے، ہماری کمپنی کا معاہدہ 75%فیصد حرام آمدنی والے اداروں سے ہوتا ہے، اس حساب سے میں جس کمپنی کا ملازم ہوں، اس کی اکثر آمدنی حرام مال سے ہوتی ہے، جبکہ تھوڑی بہت آمدنی حلال مال سے ہوتی ہے، میں اسی کمپنی (جس کی اکثر آمدنی حرام ہے) سے تنخواہ لیتا ہوں۔
مفتی صاحب! ہم تو ملازم ہیں، اس لئے کمپنی جب مختلف اداروں سے آڈٹ کا معاہدہ کرلیتی ہے کہ ہم آپ کے ادارے کا آڈٹ کروادیں گے اور کمپنی اور اس ادارے کے درمیان آڈٹ فیس طے ہوجاتی ہے تو کمپنی ہم ملازموں کو آڈٹ کے لئے بھیجتی ہے، ہم ادارے کا آڈٹ کرتے ہیں، مگر وہ ادارہ ہمیں کوئی تنخواہ نہیں دیتا، بلکہ ادارہ کمپنی کو آڈٹ فیس ادا کرتا ہے اور اس فیس میں سے کچھ حصہ کمپنی ہم ملازمین کو دیتی ہے۔ کمپنی کا معاہدہ چونکہ 75%فیصد حرام آمدنی والے اداروں سے ہوتا ہے، تو اب کمپنی کے بعض ملازم وہ ہیں، جن کو کمپنی صرف حرام آمدنی والے اداروں کے آڈٹ کے لئے بھیج دیتی ہے، جبکہ بعض ملازمین وہ ہیں، جن کو کمپنی ہر دوقسم کے اداروں کے آڈٹ کے لئے بھیج دیتی ہے، یہ تو کمپنی کی مرضی ہے، جس ملازم کو جس ادارے کے آڈٹ کے لئے بھیجنا چاہے بھیج دے، اس میں ملازمین کی مرضی اور اختیار کو دخل نہیں ہوتا۔
میں ایک عرصے سے اس کمپنی کا ملازم ہوں، بعض لوگوں کے توجہ دلانے پر آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، تاکہ آپ مجھے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں میری ملازمت کے متعلق حکم شرعی سے آگاہ فرمائیں۔ کمپنی کی مکمل تفصیل میں ماقبل میں لکھ چکا ہوں، اس تفصیل کے بعد چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
۱…میرا کمپنی کے کہنے پر کسی بینک یا حرام آمدنی والے ادارے کا آڈٹ کرنا (معاملات کی جانچ پڑتال کرکے رپورٹ تیار کرنا ) شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
۲…کمپنی کے بھیجنے پر صرف حلال آمدنی والے ادارے کا آڈٹ کرنا جائز ہے یا نہیں؟
۳…جس کمپنی کا میں ملازم ہوں، اس کی مکمل تفصیل ماقبل میں مذکور ہے، کیا مذکورہ کمپنی میں کام کرنا میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ نیز اس کی تنخواہ حلال ہے یا نہیں؟
۴…اگر کمپنی کسی حرام ادارے میں (مثلاً بینک میں) بھیجتی ہے اور وہ ہمیں کھانا وغیرہ دیں تو وہاں کا کھانا حلال ہے یا حرام؟ اگر وہ ہمیں کھانے کے بجائے پیسے دے دیں، تاکہ ہم باہر جاکر کھانا وغیرہ کھالیں تو وہ پیسے اور اس سے خریدا گیا کھانا حلال ہوگا یا حرام؟

سائل:محمد ہاشم

مقیم سولجر بازار، کراچی

الجواب ومنہ الصدق والصواب

۱…کسی بینک یا حرام آمدنی والے ادارے کا آڈٹ کرنا سائل کے لئے شرعاً جائز نہیں، کیونکہ یہ بھی ایک گونہ سودی معاملات کی لکھت پڑھت اور معاونت کے زمرے میں آتا ہے، جوکہ شرعاً ناجائز ہے۔
حدیث شریف میں ارشاد ہے:
”عن جابر قال: لعن رسو ل الله ﷺ اٰکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال: ہم سواء رواہ مسلم“۔ (مشکوٰة المصابیح ،باب الربوا، الفصل الاول، ص:۲۴۴، ط: قدیمی)
”مرقاة المفاتیح“ میں ہے:
”(وکاتبہ وشاہدیہ) قال النووی: فیہ تصریح بتحریم کتابة المترابیین والشہادة علیہما وبتحریم الاعانة علی الباطل الخ“ (ج:۶،ص:۵۹ ط:امدادیہ)
۲…حلال آمدنی والے ادارے کا آڈٹ کرنا جائز ہے اور اس سے ملنے والا معاوضہ بھی جائز ہے، لہذا سائل کے لئے اسی ادارہ کی طرف سے دیئے گئے معاوضہ میں سے اجرت لینا جائز ہوگا اور اگر معاوضہ کمپنی میں خلط ہوجائے تو اکثر حرام ہونے کی بناء پر لینا جائز نہیں ہوگا۔
”بدائع الصنائع“ میں ہے:
”ومنہا ان یکون العمل المستأجر لہ مقدور الاستیفاء من العامل بنفسہ ولایحتاج فیہ الی غیرہ… وعلی ہذا یخرج الاستئجار علی المعاصی، انہ لایصح، لانہ استئجار علی منفعة غیر مقدورة الاستیفاء شرعاً کاستئجار الانسان لللعب واللہو … وکذا کل اجارة وقعت لمظلمة، لانہ استئجار لفعل المعصیة، فلایکون المعقود علیہ مقدور الاستیفاء شرعاً الخ“
(کتاب الاجارة :ج:۲،ص:۱۸۹، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
”وان شئت افردت لجنس ہذہ المسائل شرطاً وخرجتہا علیہ فقلت: ومنہا ان تکون المنفعة مباحة الاستیفاء فان کانت محظورة الاستیفاء لم تجز الاجارة“۔ (کتاب الاجارة، ج:۴، ص:۱۹۰ ،ط:ایچ ایم سعید)
۳…مذکورہ کمپنی جس کے اکثر ذرائع آمدن حلال نہیں ہیں، اس میں ملازمت کرنا سائل کے لئے جائز نہیں ہے، فوری طور پر ایک بے روزگار شخص کی طرح دوسری جائز ملازمت کی تلاش شروع کردیں، جوں ہی دوسری جائز ملازمت مل جائے، مذکورہ کمپنی کی ملازمت سے سبکدوش ہوجائیں اور حرام آمدن سے ملنے والی تنخواہ کے بقدر صدقہ کا اہتمام بھی کریں، نیز توبہ واستغفار بھی کریں۔
”فتاوی عالمگیری “میں ہے:
”اہدی الی رجل شیئا او اضافہ، ان کان غالب مالہ من الحلال، فلابأس الا ان یعلم بانہ حرام، فان کان الغالب ہو الحرام ینبغی ان لایقبل الہدیة ولایاکل الطعام الا ان یخبرہ بانہ حلال ورثتہ او استقرضتہ من رجل، کذا فی الینابیع… اٰکل الربا وکاسب الحرام أہدی الیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام، لایقبل ولایأکل مالم یخبر ان ذلک المال اصلہ حلال ورثہ او استقرضہ“۔ (الباب الثانی فی الہدایا والضیافات، ج:۵، ص:۳۴۲، ط: رشیدیہ)
”احکام القرآن للقرطبی“ میں ہے:
”قلت: قال علماء نا: ان سبیل التوبة مما بیدہ من الاموال الحرام ان کانت من رباً فلیردہا علی من اربیٰ علیہ، ویطلبہ ان لم یکن حاضراً، فان أیس من وجودہ فلیتصدق بذلک عنہ“۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ،البقرة : ۲۷۹، ج:۳،ص:۲۳۸)
۴…بینک یا سودی معاملات والے ادارے کی طرف سے پیش کردہ کھانا کھانا یا ان سے رقم لے کر باہر کھانا کھانا، دونوں ناجائز ہیں۔ جس طرح کھانا جائز نہیں ، کھانے کے بدلے پیسے لے کر استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
”الدر المختار “میں ہے:
”وفی حظر الاشباہ: الحرمة تتعدد مع العلم بہا الخ۔ وفی الشامیة: (قولہ الحرمة تتعدد الخ) نقل الحموی عن سیدی عبد الوہاب الشعرانی انہ قال فی کتابہ المنن:وما نقل عن بعض الحنفیة من ان الحرام لایتعدی ذمتین، سألت عنہ الشہاب بن الشلبی فقال: ہو محمول علی ما اذا لم یعلم بذلک، اما لو رای المکاس مثلاً یأخذ من أحد شیئاً من المکس، ثم یعطیہ آخر، ثم یأخذ من ذلک الآخرآخر فہو حرام “۔
(باب البیع الفاسد، مطلب الحرمة تتعدد، ج:۵، ص:۹۸، ط:سعید)

الجواب صحیح الجواب صحیح الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری محمد داؤد محمد شفیق عارف

کتبہ

محمد اشرف

متخصص

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال:۱۴۳۲ھ -ستمبر: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter