Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان،شوال ۱۴۳۲ھ -ستمبر ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

1 - 16
کراچی میں قیامِ امن اور ہماری ذمہ داری !
کراچی میں قیامِ امن اور ہماری ذمہ داری

الحمد لله وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی
کراچی شہر جو ایک زمانہ میں امن اور روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، جس شہر میں امیر، غریب، آجر، اجیر، محنت کش، مزدور اور مختلف رنگ ونسل، زبان اور کلچر کے لوگ پیار ومحبت، بھائی چارگی اور چین وسکون کے ساتھ رہتے تھے، جو شہر پورے ملک سے آنے والے محنت کشوں، مزدوروں اور روزی کے متلاشی لوگوں کو روزگار اور سائبان فراہم کرتا تھا، جو شہر پاکستان کامالی دار الحکومت، قومی معیشت کی شہ رگ اور منی پاکستان کہلاتا تھا، جس شہر کے باسیوں کی مہمان نوازی، دین دوستی، امن پسندی اور الفت ومحبت مثالی تھی، جس شہر کے مکین دینی اداروں کے بہی خواہ، سرپرست اور مخلص معاونین کہلاتے تھے، جن میں لسانی، عصبی، گروہی، مذہبی اور مسلکی تفریق کوئی معنی اور حیثیت نہیں رکھتی تھی، افسوس کہ دین وملت کے بدخواہوں کو اس شہر کا یہ مثالی پیار ومحبت، الفت ویگانگت، تشخص واختصاص، امن وامان اور اتحاد واتفاق پسندنہ آیا، اور اہالیان کراچی کو حقوق کے تحفظ کے نام پر علاقائی، نسلی، لسانی، مذہبی ، مسلکی اور گروہی خانوں میں تقسیم کردیا۔ آج عروس البلاد اور غریب پرور شہر لہولہان اور میدان کارزار کا منظر پیش کررہا ہے، اس کے باسی آتشی اسلحہ کی آگ اور خون میں جلائے اور نہلائے جارہے ہیں، اس کے کئی علاقوں اور محلوں میں آہوں، سسکیوں اور چیخوں کی آہ وفغاں کی صدائیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں، ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اور لاشیں اٹھ رہی ہیں۔قاتلوں اور دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بننے والوں میں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، مقیم، مسافر، دہشت گرد اور پرامن شہری بلاتفریق سب شامل ہیں۔ مسجد، مدرسہ، خانقاہ، دکان اور گھر میں کسی کو کوئی تحفظ نہیں، جو قاتل اور دہشت گرد جہاں چاہتا ہے اور جس کوچاہتا ہے، اسے وہیں ڈھیر کردیتا ہے۔ اس شہر میں لسانی، سیاسی، علاقائی، مذہبی اور گروہی بنیادوں پر قتل عام آئے دن کا معمول بنادیا گیا ہے۔ ایک ایک دن میں دھائیوں کی تعداد میں لاشیں گرائی جاتی ہیں اوراس پر مزید ظلم اور ستم یہ کہ ہمارا میڈیابجائے اس کے کہ وہ اس آگ پر پانی ڈالنے کا کام کرے، الٹا وہ جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے، مقتولوں کی تصاویر اور قومیت کی وضاحت کے ساتھ ان کو پیش کرکے ان کے لواحقین کے جذبات کو مزید برانگیخت کررہاہے۔ ادھر حکمران مفاہمت اور سیاسی مصلحتوں کی آغوش میں محو استراحت ہیں۔ ملک میں انتظامی ادارے بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے کے لئے تو موجود ہیں، لیکن اپنی اصل ذمہ داری اور فرض منصبی ادا کرنے میں ہچکچاہٹ اور کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ عوام سے نوٹ اور ووٹ مانگنے کے لئے سیاسی جماعتیں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں، لیکن اس ظلم ، بربریت اور کشت وخون کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے اور ختم کرنے کے بجائے وہ بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قتل وقتال اور ظلم وفساد ایک سوچی سمجھی اسکیم اور طے شدہ منصوبے کے تحت ہورہا ہے، جس کی تکمیل اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک نیٹ ورک قائم ہے اور مخفی قوتیں ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔ اس بارہ میں روزنامہ جنگ کراچی میں شائع شدہ ایک کالم بنام ”اس عذاب سے نجات کیسے پائیں“ کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے، جس سے ان حالات کے اسباب وعوامل کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔جناب حامد میر صاحب لکھتے ہیں:
”یہ ایک حیران کن اور تشویش ناک ایس ایم ایس پیغام تھا۔ حیران کن اس لئے کہ یہ پیغام مجھے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رہنما کی طرف سے عین اس وقت موصول ہوا، جب میں قصبہ کالونی کراچی کے مختلف علاقوں میں جلے ہوئے مکانات اور گولیوں سے چھلنی مارکیٹ دیکھ رہا تھا۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ق) کے اہم رہنماؤں کی موجودگی میں سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کو سندھی زبان میں کہا کہ میری سیاست کو مانتے ہو کہ نہیں؟ کس طرح میں نے کراچی کے پختونوں کو مہاجروں سے الجھا رکھا ہے۔ قصبہ کالونی کے غریب پختون اور مہاجر مجھے اپنی بربادی کی داستان سنا رہے تھے اور میں اے این پی کے رہنما کی طرف سے بھیجے گئے ایس ایم ایس پیغام میں الجھا ہوا تھا، جس کا ذکر برادر سلیم صافی نے بھی ۱۲/جولائی کو اپنے کالم میں کیا تھا۔ میں اس تشویش کا شکار تھا کہ اگر یہ پیغام درست ہے تو پھر میرے وطن کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، اس وطن کے ارباب اختیار ہم سب کی تباہی کے لئے کافی ہیں۔ ۱۲/جولائی کی شب کراچی میں ایم کیو ایم کی قیادت نے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ ملاقات کے دوران ان سے یہ پوچھاکہ کیا یہ واقعی درست ہے کہ صدر زرداری نے آپ کی موجودگی میں ایک سندھی وزیر سے سندھی زبان میں کہا کہ انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ کراچی میں پختونوں کو مہاجروں سے الجھا رکھا ہے؟ سوال سن کر چوہدری شجاعت حسین ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک گئے، پھر بات کو گھماتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں کہنے لگے کہ میں خود تو اس موقع پر موجود نہ تھا، لیکن میں نے بھی کچھ ایسی باتیں ضرور سنی ہیں۔“ (روز نامہ جنگ کراچی، ۱۴ جولائی ۲۰۱۱ء)
وفاقی وزیر داخلہ جناب رحمان ملک کا چشم کشا بیان بھی پڑھ لیجئے:
”اسلام آباد (جنگ نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ کراچی میں استعمال ہونے والا اور پکڑا جانے والا اسلحہ اسرائیل سے آرہا ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ ٹارگٹ کلرز بھی باہر سے آرہے ہیں، ایم کیو ایم کے ساتھ تناؤ وقتی ہے،آئندہ چند روز میں معاملات طے پاجائیں گے اور عوام جلد خوشخبری سنیں گے۔“ (روز نامہ جنگ کراچی ۱۸/جولائی ۲۰۱۱ء)
سوال یہ ہے کہ یہ اسلحہ لانے والے کون اور چلانے والے کون لوگ ہیں؟ ان کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں کونسی ہیں؟ ان کے عزائم ومقاصد کیا ہیں؟اور یہ کہ اس گمبھیر صورت حال کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ ملک وقوم پر اس کے کیا اثرات وثمرات مرتب ہوں گے؟ ارباب اقتدار، فوج اور سول سروس کے ذمہ داروں، علمائے کرام اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر اس سلسلے میں کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ اور اس کے لئے مذکورہ افراد، اداروں اور جماعتوں نے کیا کردار ادا کیا ہے؟۔
ہمارے خیال میں اگر اس صورت حال کا فوری طور پر تدارک نہ کیا گیا، متفقہ اور متحدہ آواز نہ اٹھائی گئی اور کوئی مضبوط اور ٹھوس لائحہ عمل نہ اپنایا گیا تو کراچی ہی نہیں، بلکہ پورا ملک بے امنی اور دہشتگردی کی لپیٹ میں آجائے گا۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے جمعیت علمائے اسلام کراچی کے زعماء اور راہنماؤں کو کہ انہوں نے ان حالات کی سنگینی کو محسوس کیا اور تمام مذہبی جماعتوں اوردینی اداروں کے ذمہ داران پر مشتمل ”کراچی میں قیام امن اور دینی قوتوں کا کردار“ کے نام سے ایک امن کانفرنس بلائی، جس میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، جامعہ دارالعلوم کراچی، وفاق المدارس العربیہ پاکستان، تنظیم المدارس العربیہ پاکستان، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مرکزی جمعیت علمائے پاکستان، جماعة الدعوة، جمعیت اتحاد العلماء، نظام مصطفی پارٹی، انجمن نوجوان اسلام، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور شیعہ علماء کونسل کے نمائندے شریک ہوئے۔اس امن کانفرنس کی مزید تفصیل روز نامہ امت کی اس خبر میں ملاحظہ ہو:
”کراچی (اسٹاف رپورٹر)سیکولر اور عام سیاسی جماعتیں کراچی میں امن وامان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہیں، اب دینی جماعتوں اور مذہبی قیادت کو شہر میں امن کے لئے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ”کراچی امن کمیٹی“ کا قیام شہر میں امن کے لئے مثالی قدم ثابت ہوگا۔کراچی کی بدامنی پاکستان کی بدامنی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جمعیت علمائے اسلام (ف) کے تحت اتوار کو کراچی پریس کلب میں ہونے والی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختلف مذہبی جماعتوں اور اداروں کے رہنماؤں نے کیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کی صدارت جمعیت علمائے اسلام سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر ڈاکٹر خالد محمودسومرو نے کی، جب کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قاری محمد عثمان، قاری شیر افضل، مولانا عبد الکریم عابد، اسلم غوری، جماعت اسلامی کے اسد اللہ بھٹو، محمد حسین محنتی، جمعیت علمائے پاکستان کے صدیق راٹھور، مسقیم نورانی، مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا اشرف گورمانی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا محمد اعجاز مصطفی، جماعة الدعوة کے حافظ کلیم اللہ، جمعیت تحاد العلماء کے مولانا عبد الرؤف، نظام مصطفی پارٹی کے الحاج محمد رفیع، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مولانا سعیدعبد الرزاق اسکندر، انجمن نوجوانان اسلام کے محمد شاہد، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے قاری خلیل الرحمن، دارالعلوم کراچی کے مولانا راحت علی ہاشمی، شیعہ علماء کونسل کے آغا مصطفی مہدی، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے محمد رفیق، تنظیم المدارس العربیہ کے مولانا غلام محمد سیالوی ودیگر نے شرکت کی۔ شرکاء نے کراچی میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی سنگین صورت حال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا امن ملک کو غیر مستحکم کرنے کے لئے تباہ کیا جارہا ہے۔ یہ ایک عالمی سازش کا حصہ ہے۔ آج کراچی میں ہر شخص خوفزدہ ہے۔ بدامنی کی وجہ سے کاروبار تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حکمران اور شہر کی دعویدار جماعتیں اپنے ذاتی مفادات میں مصروف ہیں۔ جے یو آئی کراچی کے امیر قاری محمد عثمان نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ شہر میں امن وامان کی مخدوش صورت حال کے باعث اب امن کے لئے علماء، مشائخ اور دینی قوتوں کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کراچی امن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ کام شروع کیا گیا ہے۔ امن کمیٹی متحارب گروپوں سے مذاکرات کرے گی۔ مقررین نے جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے امن کانفرنس کے انعقاد کو سراہا اور کہا کہ جمعیت کا یہ فیصلہ بروقت اور انتہائی احسن ہے۔ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بعض شرکاء نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی یا اس جیسے کسی پلیٹ فارم کے قیام تک ”کراچی امن کمیٹی“ شہر میں امن وامان کے قیام کے لئے ہر اول دستے کا کردار اداکرے گی۔ علماء نے کہا کہ حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، ہم دینی قوتوں کے تعاون سے شہر میں امن قائم اور اخوت وبھائی چارے کے قیام کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے“۔ (روز نامہ امت کراچی ۲۵/جولائی ۲۰۱۱ء)
جمعیت علمائے اسلام کراچی کے زیر اہتمام ۲۴/ جولائی ۲۰۱۱ء کو کراچی پریس کلب میں منعقد ہونے والی دینی جماعتوں، دینی مدارس کی تنظیمات اور مقتدر علمائے کرام کی امن کانفرنس میں جاری کیا گیا مشترکہ اعلامیہ درج ذیل ہے:
”کراچی میں امن وامان کی صورت حال ظاہر وباہر ہے، شہر کا ہر باسی رنجیدہ ودل گرفتہ ہے۔ چند روزہ امن وسکون کے بعد پھر وہی موج خون سربلند ہوتی خاک وخون کا نیا باب رقم کرتی گزر جاتی ہے۔ بہی خواہانِ ملت قومی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں کہ امن وامان کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
حادثہ یہ ہے کہ شہری انتظامیہ سے لے کر صوبائی اور مرکزی حکومت اور اس میں شامل عناصر اس صورت حال کے خاتمے اور مستقبل میں پائیدار امن کے لئے سنجیدہ نہیں۔ محض وقت گزاری کی روش پر گامزن مقتدر قوتیں شہر کاا لمیہ بن چکی ہیں ۔ ہرایک خونی حادثہ اور ناپسندیدہ واقعہ کے بعد رسمی بیانات اور معمول کی کارروائی سے اپنے وجود کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ کراچی کی دینی جماعتیں اور دینی اداروں کے نمائندگانِ شہر میں ماضی میں برپا کئے گئے قتل وغارت گری کے واقعات کی روشنی میں محسوس کرتے ہیں کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں ہی ان تمام واقعات کی ذمہ دار ہیں، اس لئے اس کا مداوا ان کے بس کی بات نہیں۔ اعلامیہ میں اس امر پر بھی اتفاق کیا گیا کہ دینی قوتیں اور مراکز دینیہ عامة المسلمین کی رہنمائی اور اخوت اسلامی کے قیام کے لئے ایسے مشترکہ اقدامات کریں گے، جن سے شہر میں قیام امن کے لئے مدد مل سکے، جس میں امن مارچ، متحارب گروپ سے مشترکہ وفود کی ملاقاتیں وغیرہ شامل ہیں۔
حالات کا جبر تقاضا کرتا ہے کہ دینی قوتوں کو شہر میں قیام امن کے لئے اپنا تاریخی کردارادا کرنا ہوگا۔ پاکستان میں دینی وسیاسی نمائندہ جماعت ”جمعیت علمائے اسلام“ اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے شہر میں تمام قابل قدر دینی جماعتوں ، سیاسی راہنماؤں اور دینی اداروں کی محترم شخصیات کے خصوصی تعاون سے کراچی میں قیام امن کی اہم ذمہ داری کے لئے اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ الحمد للہ! تمام قابل قدر دینی جماعتوں اور اداروں نے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ ہم ان کے شکر گزار ہوتے ہوئے ان کی مشاورت وہدایت کے مطابق اعلان کرتے ہیں کہ ہم شہر میں قیام امن کے لئے محلے اور گلی تک لوگوں سے رابطہ کرکے امن قائم کریں گے۔ اس کے لئے تمام دینی اداروں اور مقتدر علماء کرام پر مشتمل مجلس مشاورت تجویز کی جاتی ہے، جبکہ تمام دینی جماعتوں اور دینی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ”کراچی امن کمیٹی“ قائم کی جاتی ہے۔
آج دینی جماعتوں، دینی اداروں اور محترم شخصیات کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر پاکستان کے چاروں مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ نے اعتدال کی راہ اختیار کی اور اتحاد کا ثبوت دیا تو پاکستان میں نفاذ اسلام کے اعلیٰ مقصد کے حصول سمیت یہاں پر موجود تمام فتنے اپنی موت آپ مرجائیں گے اور ان چاروں مکاتب فکر کے باہمی اتحاد سے فرقہ پرست، انتہاء پسندوں کو معاشرے میں بے اثر اور کسی حد تک ان کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے اور آئندہ کسی کو بھی امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی جرأت وجسارت نہ ہوگی۔
اسی طرح لسانیت کے ساتھ فرقہ واریت پر قابو پاکر پورے ملک اور کراچی میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ شہر کی دینی قوتوں کی قابل محترم قیادت کے تعاون سے ہم اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ فورم کسی سیاسی جماعت یا ادارے کے مقابل نہیں، بلکہ قیام امن کے ایک نکاتی ایجنڈا پر شہر کی تمام دینی جماعتوں اور قابل قدر اشخاص سے تعاون کا طلب گار ہے“۔
اس امن کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرار دادیں حسبِ ذیل ہیں:
”۱… کراچی میں آئے روز معصوم شہریوں کے قتل عام پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت اور اتحادی جماعتوں کو خونریزی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اب تک حکومت نے قیام امن اور قتل وغارت گری کے ذمہ دار عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے ہیں، بلکہ یہ سب حکومتی اتحاد میں شامل حال اور ماضی کی جماعتوں کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ ان جماعتوں نے بھتہ خوری اور قبضہ کے لئے شہر کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ شہریوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے اور جہاں ان کا سامنا ہوتا ہے پھر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ۹۹ فیصد بے گناہ اور معصوم شہری نشانہ بنتے ہیں۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ کراچی جو امن، محبت، بھائی چارے اور اخوت کا شہر تھا، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور حکمران اتحاد کے آپس میں جھگڑوں نے اسے مقتل گاہ بنادیا ہے، روشنیوں کے شہر پر اب اندھیروں کا راج ہے۔
قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت فوری طور پر شہریوں کی جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے حالیہ خون ریزی میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرستوں کو گرفتار کرکے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے، بصورت دیگر دینی جماعتیں عوام کو سڑکوں پر لانے پر مجبور ہوں گی۔
۲…حالیہ خونریز واقعات میں ہلاک وزخمی ہونے والے سینکڑوں معصوم شہریوں اور ان کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر جاں بحق اور زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد کے لواحقین ، جلائی گئی گاڑیوں اور تباہ شدہ املاک کے مالکان کو معقول معاوضہ دیا جائے اور زخمیوں کے علاج کو یقینی بناتے ہوئے آئندہ اس قسم کے تباہ کن حالات پر کنٹرول کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کئے جائیں۔
۳…شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے کے لئے بلاتفریق اور بے رحمانہ کارروائی عمل میں لاتے ہوئے شہر میں ناجائز اسلحہ ڈپؤوں کو سرکاری تحویل میں لے کر کراچی کو اسلحہ سے پاک کیا جائے۔ قرار داد میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ خود حکومتی اتحاد کے پاس جو اسلحہ ہے، وہ شاید فوج کے پاس ہو۔ حکومت اگر شہر میں امن کے لئے مخلص ہے تو پھر مصلحتوں کی چادر ہٹا کر قانون اور انصاف کی بالادستی قائم کرنی ہوگی۔
۴…کراچی میں پھیلائی جانے والی فحاشی وعریانی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کے ملی اور اسلامی تشخص کا احترام کرتے ہوئے فحاشی کے اڈوں کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ قوم اسے مزید برداشت نہیں کرے گی۔
۵…کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ اور گزشتہ تین ماہ سے K.E.S.Cکے ملازمین اور انتظامیہ کی جاری لڑائی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ شہریوں کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلاتے ہوئے K.E.S.C کے ملازمین کے جائز مطالبات کو فوری منظور کرکے ہزاروں خاندانوں کو فاقہ سے بچایاجائے۔
۶… کراچی کو جرائم پیشہ عناصر، لینڈ مافیا، بھتہ مافیا، قبضہ مافیا، ڈرگ مافیا سے پاک کیاجائے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی دینی ، مذہبی یا سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو، نیز ایسے عناصر سے تمام محب وطن جماعتیں برأت کا اظہار کریں۔
۷…احترام رمضان آرڈی نینس پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے عناصر کے خلاف فوری کارروائی کی جائے“۔
ہماری درخواست ہے کہ علمائے کرام خصوصاً مساجد کے خطباء اور ائمہ حضرات اپنے خطبات میں دینی اخوت، بھائی چارہ اور اکرام مسلم کے مضامین اور عنوانات پر بیان کریں۔ اسی طرح قتل مسلم کی وعیدات ان کوسنائیں اور بتائیں، تاکہ آپس میں اعتماد کی فضا بحال ہو۔ مزید یہ کہ مذہبی جماعتوں کے افراد متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں، ان کی تکالیف کو رفع کرنے کی کوششیں کریں اور انہیں یقین دلائیں کہ ہم آپ کے دکھ اور درد میں برابر کے شریک ہیں، انشاء اللہ! اس سے انہیں تسلی بھی ہوگی اورباہم اعتماد کی فضابھی بحال ہوگی۔
خلاصہ یہ کہ اس وقت پاکستان دشمن قوتیں، پاکستان کو کمزور، بدحالی اور افتراق وانتشار میں مبتلا کرنے اور اہالیانِ پاکستان کو اختلاف وانتزاع میں مبتلا کرنے کی جس رَوِش پر گامزن ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگرحکومت، سیاسی ومذہبی جماعتوں، انتظامیہ اور علمائے امت نے اپنے اپنے دائرہٴ کار میں اس طوفان اور یلغار کے سامنے معقول ومضبوط بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو معاذ اللہ! وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان کو متحد ومتفق رکھنا ایک خواب بن جائے گا۔ ولافعل الله ذلک۔
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , رمضان،شوال:۱۴۳۲ھ -ستمبر: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 
Flag Counter