Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

7 - 14
شاعرِ رسول سے مدحتِ رسول ا سیکھئے!
شاعرِ رسول سے مدحتِ رسول ا سیکھئے! شاعری کیا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ شاعری کی بنیاد خیالات ہوتے ہیں اور خیالات مشاہدہ سے زیادہ فکر اور شعور سے تعلق رکھتے ہیں، اسی فکر کی بلندی اور شعور کی گہرائی سے جنم لینے والے نئے خیالات کو مخصوص قواعد کے مطابق ہم قافیہ الفاظ کی صورت میں پیش کرنا ہی شاعری ہے۔ (تاریخ الادب العربی،ص:۲۵)
یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جن اشخاص نے جتنے بلند خیالات کو شاعرانہ لباس مہیا کیا، تاریخ نے انہیں شعراء کی صف میں اتنا ہی بلند قد عطا کیا کہ:
میرے اشعار کا رتبہ جہاں میں اعلیٰ ٹھہرا ہے
”نتیجہ فکر“ میرا سمندر سے بھی گہرا ہے
اشعار کا معیار
جس طرح پھلوں کے چھلکے جتنے بھی دیدہ زیب اور جاذبِ نظر ہوں، کھانے والوں کا منظورِ نظر تو ان کا اندرونی مواد ہی ہوتا ہے، اسی طرح کلام جتنے بھی قافیہ بندی کے تقاضے پورے کرلے، سننے والوں کے لئے دلچسپی کا سامان تو اس کے ان مول اور تیکھے خیالات ہی ہوا کرتے ہیں۔
نبی کریم ا نے بھی اشعار کی تعریف ان کے پر حکمت مضامین کی وجہ سے فرمائی اور فرمایا:
”ان من الشعر حکمة“ (صحیح بخاری ،رقم:۵۶۷۹)․․․․”بعض اشعار حکمت بھرے ہوتے ہیں“۔
اس سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن عمر  نبی کریم ا کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ”شعر تو ایک کلام ہے، اگر اس کا مضمون اچھا ہے تو شعر بھی اچھا ہے اور مضمون برا ہے تو شعر بھی برا ہے“۔
(الجامع الصغیر، حرف الشین، الرقم:۴۹۴)
اسی حقیقت کو شاعرِ دربارِ رسول حضرت حسان بن ثابت  ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
ا
نما الشعر لب المرء یعرضہ
علی المجالس ان کیساًوان حمقاً
ترجمہ:۔”شعر آدمی کی فکر کا نتیجہ ہوتے ہیں جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتاہے،سمجھ دار ہو تو اس کی دانش مندی نمایاں ہوتی ہے، اگر بے وقوف ہو تو اس کی نادانی کا پتہ چلتا ہے“۔
ذمہ داری کا احساس
شاعری کو دیگر تمام ادبی صنعتوں میں منفرد مقام حاصل ہے، وجہ یہی ہے کہ اشعار کے مترنم اوزان اور نہایت مشابہ الفاظ سامعین کے دلی جذبات کو اپنے سحر میں ایسے جکڑ لیتے ہیں کہ تلخ حقائق، خشک موضوعات اور واعظانہ نصائح ان کے ذریعے بآسانی دماغ کے لاشعور میں بیٹھتے چلے جاتے ہیں۔ روزمرہ کے مشاہدہ میں اس کی قریب ترین مثال کیپسول سے دی جاسکتی ہے کہ اس کا ظاہری کور (COVER)اندرونی تلخی کو چھپا کر کڑوی دوائی غیر محسوس طریقے سے جسم کے رگ وپے میں پہنچادیتا ہے۔ اشعار کی یہی الفاظ کی جھلملاہٹ، اسلوب کی نیرنگی اور قافیوں کی مشابہت ہی تو ہے جو نوجوانوں کو سن رسیدہ شعراء کے قریب کردیتی ہے۔ اس سے شعر اء کی ذمہ داری میں یقینا اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی اسی خداداد صلاحیت کے ذریعہ قوم کے ان معماروں کا رخ سیدھے راستے اور حقیقی منزل کی طرف موڑتے ہیں یا انہیں الفاظ وزباں کے نشے میں ایسا دھت کردیتے ہیں، جس کا نقشہ قرآن کریم ان الفاظ میں کھینچتاہے:
وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُوْنَ ،أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ،وَأَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ۔“ (الشعراء۲۲۴،۲۲۵،۲۲۶)
ترجمہ:…”رہے شاعر لوگ توان کے پیچھے تو بے راہ لوگ چلتے ہیں ،کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہروادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور یہ کہ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں ہیں“۔
نتیجہٴ فکر
ان تمہیدی گذارشات کا حاصل یہ ہے کہ:
الف: شاعری بلند خیالات کو مخصوص پر کشش صورت میں پیش کرنے کا نام ہے۔
ب: خیالات ونظریات ہی اشعار کا جوہر ہوتے ہیں، اس لئے اسلام میں اشعارکے جائز وناجائز ہونے کا مداران کے مضمون کو بنایاگیا ہے۔
ج: اشعار کی ظاہری مخصوص ساخت، مسحور کن ترنم اور دل کو چھو لینے والی قافیہ بندی ان کے مضامین کی طرف سامعین کے دل ودماغ کو کھینچ لیتی ہیں، اس لئے کسی قوم کی ذہنی تعمیر وتخریب میں شعرأکا کردار اہم ہوتا ہے۔
اردو نعت گو شعرأ کی بے اعتدالیاں
نعت بھی ایک شعری صنف ہے ،اس لئے اس میں بھی درج بالا ترجیحات کا بھر پور اہتمام ہونا چاہئے۔ مزید براں توصیفِ محبوبِ دوجہاں ا کے مضمون پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے جو مقامِ تقدس حاصل ہے، اس کا بھی تقاضاہے کہ اس میں اشعار کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔لیکن جب عصر حاضر کے بعض نعتیہ کلاموں اور خیر القرون کے نعتیہ مجموعوں کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے تو ہردو کے مضامین میں ایک فکری دوری اور شعوری فرق نمایاں نظر آتا ہے۔ مثلاً: الف: عہدِ رسالت کے شعرأ مدحتِ رسول میں اطاعتِ رسول کی دعوت بھی دیا کرتے تھے، جب کہ آج کل کی نعتیہ شاعری عموماً اس زاویئے سے بالکل محروم ہے۔
ب:ماضی کا شاعر حضور پر نور ا کے بلند اخلاق اور عمدہ معمولات کو یوں ترغیبی انداز میں پیش کرتا تھا کہ سامعین ان محاسن سے خود کو مزین کرنے کا عزمِ مصمم لے کر اٹھتے، اس کے برعکس ہمارے عہد کے اکثر شعرأ سرکارِ دوعالم ا کی صفات کو وہ مافوق البشر رخ عطا کرتے ہیں کہ حاضرین کے دل میں عش عش کرنے کے سوا عمل کا کوئی جذبہ ہی نہیں ابھرتا۔
ج:بعض جدید نعتیہ کلاموں میں رحمة للعالمین اکی رحمت کا مظاہرہ کفار سے نرمی اور مداہنت سے قریب رواداری کی صورت میں پیش کیا جاتاہے، جب کہ قدیم نعتوں میں رحمت کا صحیح معنی سطح زمین سے امن دشمن عناصر کا خاتمہ بیان کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اشعار میں خاتم النبییناکو میدانِ جہاد میں مصروفِ قتال بھی دکھایاجاتا تھا۔
د: قاری حیران ہوجاتا ہے کہ ایک طرف تو صحابہ کرام  نعتوں کے ذریعے توحید کا درس دیتے تھے ، رب العزت کی ذات وصفات میں یکتائی اور وحدانیت کے اظہار کو نبی کریم ا کی بعثت کا مقصدِ اصلی قرار دیا کرتے تھے۔ دوسری طرف بعض اردو نعت گو شعرأنبی کریم اکو غائبانہ پکارنے، ہرطرح کی حاجات میں ان سے مدد طلب کرنے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
ر: ادب کا طالب علم قدیم نعتوں میں گناہوں کے دنیوی نقصانات اور اخروی عذابات کے تذکرے سے اپنے اندر توبہ کی پکار سنتا ہے، جب کہ جدید نعتوں میں شفاعتِ رسول کا اسلامی عقیدہ اس مبالغہ آمیز طرز میں پیش ہوتا ہے کہ عوام عشقِ رسول کے چند نعرے لگاکر کامل نجات کا یقین کرلیتے ہیں۔
حضرت حسان کے خصوصی اعزازات
مدحتِ رسول کے حقیقی اسلامی مزاج کو سمجھنے کے لئے شاعر ِرسول حضرت حسان بن ثابت  کے نعتیہ کلام کا گہرا مطالعہ انتہائی ناگزیر ہے۔ یہ وہ صحابی ہیں جنہیں حضور پرنور ا نے خود مسجد نبوی کے منبر پر بٹھاکر یہ دعا دی۔
”اللّٰہم ایدہ بروح القدس“۔ (المعجم الکبیر، باب الحا، الرقم:۳۵۸)․․․․اے اللہ! جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اس کی مدد فرما۔
صرف یہی نہیں بلکہ نبی پاک ا آپ کے اشعار سننے کے بعد تعریفی ودعائیہ کلمات کے ذریعے سندِ قبولیت بھی عطا فرماتے۔مثلاً: جب حضرت حسان نے یہ مشہور شعر کہا:
فان ابی ووالدہ وعرضی
لعرض محمد منکم وقاء
ترجمہ:۔’میرے باپ ، دادا اور میری عزت و ناموس، ناموسِ رسالتِ مآب کی حفاظت پر قربان ہے“۔
تو آپ ا نے ان الفاظ میں دعا دی:”وقاک اللّٰہ یا حسان حر النار“․․․․اے حسان! اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم کی گرمی سے محفوظ رکھے“۔
نبی کریم ا کی ان موقع بموقع تائیدات نے حضرت حسان کے ان نعتیہ اشعار کو مزاجِ شریعت سے موافقت کی سند عطا فرمائی، اسی وجہ سے ہر عہد کے ثناخوانِ رسول کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ کے دیوان کا گہری نظر سے مطالعہ بھی کریں اور آپ کی فکر کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش بھی کریں۔
حضرت حسان کی شاعری کے اجزاء
آپ کے مدحتی اشعار توصیفِ رسول کے ساتھ ساتھ درج ذیل خصوصیات سے بھی مزین ہوتے تھے۔
۱۔درسِ توحید
آقا اکی شان میں کہے گئے حضرت حسان کے درج ذیل اشعار کس خوبصورتی سے پڑھنے والی کی توجہ توحید کی اہمیت اور شرک کی مذمت کی جانب مبذول کراتے ہیں، اندازہ لگایئے کہ جلسہ سیرت کا ایک شاعر شرک کے جالے چند اشعار کے ذریعے کیسے صاف کرسکتا ہے؟!۔
نبی اتانا بعد یأس وفترة
من الرسل والاوثان فی الارض تعبد
وانذرنا نارًا وبشرنا جنة
وعلمنا الاسلام فاللّٰہ نحمد
ترجمہ:۔”جب انسانیت ہدایت سے ناامید ہوچکی تھی، رسولوں کی آمد کا وقفہ طویل ہوگیا تھا، روئے زمین پر بتوں کی پوجا پھیل چکی تھی، اللہ نے آپ ا کو نبی بناکر بھیجا، آپ ا نے ہمیں جہنم سے ڈرایا اور جنت کی خوش خبری سنائی، اور ہمیں اسلام سکھایا، پس ہم اللہ تعالیٰ ہی کا شکرادا کرتے ہیں۔“
وانت الٰہ الخلق ربی وخالقی
بذلک ما عمرت فی الناس اشہد
تعالیت رب الناس عن قول من دعا
سواک الٰہاً انت اعلٰی وامجد
(دیوان حضرت حسان بن ثابت ص:۸۵)
ترجمہ:۔”اے ساری مخلوق کے الٰہ! تو ہی میرا رب اور میرا خالق ہے، جب تک میں زندہ ہوں لوگوں میں اسی بات کا اعلان کرتا رہوں گا۔ اے تمام لوگوں کے پروردگار! تو ان تمام مشرکوں کی باتوں سے پاک ہے جو تیرے علاوہ کسی اور کو اپنا معبود بناتے ہیں، تیری شان اس سے بہت بلند ہے“۔
غزوہٴ خندق کے واقعہ سے توحید کا درس دیتے ہیں اور خوب دیتے ہیں:
واشک الہموم الی الا لٰہ وما تری
من معشر متأَلِّبین غضاب
اموا بغزوہم الرسول والبسوا
اہل القری وبوادی الاعراب
ترجمہ:۔”اے مخاطب! تم تمام غموں اور اس لشکر کی شکایت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرو جو مختلف علاقوں سے آکر ایک جگہ جمع ہوگیا ہے اور غصہ میں بے تاب ہوا جاتا تھا۔ انہوں نے اردگرد کی تمام بستیوں کو رسول کریم ا سے جنگ کرنے کو بھی جمع کرلیا تھا“۔
وغدوا علینا قادرین بایدیہم
ردوا بغیضہم علی الاعقاب
بہبوب معصفة تفرق جمعہم
وجنود ربک سید الارباب
وکفی الالٰہ المؤمنین قتالہم
واثابہم فی الاجر خیر ثواب
(دیوان حضرت حسان بن ثابت ص:۶۶)
ترجمہ:۔”یہ لشکر پوری قوت کے ساتھ ہم پر چڑھ دوڑا تھا ،مگر اللہ تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کے ذریعے ان کو الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور کردیا، اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو لڑے بغیر کامیابی دی اور بہترین ثواب بھی عطا فرمایا“۔
۲۔داعیانہ مزاج کی آبیاری
سرکار دوعالم ا کی مبارک زندگی کے اکثر اوقات انسانوں کو ان کے خالق سے جوڑنے میں صرف ہوتے تھے۔ دن ہو یا رات، سفر وحضر، مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ یہ مبارک محنت ہرطرح سے جاری رہتی ۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت الی اللہ کو قرآن کریم سرور عالم ا اور ان کی اتباع کرنے والوں کا راہ سفر قرار دیتا ہے:
قُلْ ہٰذِہ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّٰہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔“ (یوسف:۱۰۸)
ترجمہ:۔”اے پیغمبر!کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے ، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتاہوں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی“۔
اسی محنت کو جاری رکھنے کے لئے حضرت حسان  اپنے نعتیہ اشعار میں حضورا کی دعوتی زندگی کو نمایاں کرتے تھے، آج کے قصیدہ خواں اگر جلوسوں، محفلوں اور مشاعروں میں فریضہٴ تبلیغ کی اہمیت اجاگر کریں تو گناہوں کے سیلاب کو روکنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ذکرِ رسول میں حضور ا کی اس صفت کو حضرت حسان  تفصیل سے بیان کرتے ہیں، چند اشعار ملاحظہ فرمایئے:
یدل علی الرحمٰن من یقتدی بہ
وینقذ من ہول الخزایا ویرشد
ترجمہ:۔”جو شخص بھی آپ کی اقتداء کرتا ہے، آپ ا اسے اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھاتے ہیں، اسے رسوائی کی مصیبت سے نجات دلواتے اور صحیح راہ نمائی فرماتے ہیں“۔
امام لہم یہدیہم الحق جاہدا
معلم صدق ان یطیعوہ یسعدوا
ترجمہ:۔”آپ لوگوں کے امام ہیں، پوری کوشش کرکے انہیں حق کا راستہ دکھاتے اور سچی بات کی تلقین کرتے ہیں اگر لوگ آپ کی بات مانتے تو کامیاب ہوجاتے“۔
عزیز علیہ ان یحیدوا عن الہدٰی
حریص علی ان یستقیموا ویہتدوا
(دیوان حضرت حسان بن ثابت ص:۹)
ترجمہ:۔”آپ پر نہایت گراں ہوتا تھا کہ لوگ ہدایت کے راستے سے ہٹ جائیں، آپ ا حریص تھے کہ لوگ سیدھے راستے پر جمے رہیں“۔
ایک اور قصیدہ میں آپ ا کی دعوتی لگن کو نمایاں کرتے ہیں:
ثویٰ فی قریش بضع عشرة حجة
یذکر لو یلقی صدیقا موٴاتیا
ویعرض فی اہل المواسم نفسہ
فلم یر من یؤوی ولم یر داعیا
(دیوان حضرت حسان بن ثابت ص:۷۷)
ترجمہ:۔”حضورا قریش کے درمیان دس سال سے زائد عرصہ اس کیفیت میں رہے کہ جو بھی دوست یا ہمدرد ملتا اسے دعوت دیتے، آپ حج کے ایام میں مختلف قبائل کے پاس جاتے اور ان سے اسلام کی حمایت کی بات کرتے، لیکن وہاں انہیں کوئی پناہ دینے والا یا ان کی دعوت کو آگے پہنچانے والا نہ ملا“۔
۳۔شوقِ جہاد
حضرت حسان نے اپنے نعتیہ کلام میں آقا ا کے زمانے میں لڑی گئی جنگوں کے بڑے ایمان افروز نقشے کھینچے ہیں، اس طرح انہوں نے اپنے عہد کی نئی نسل میں شوق جہاد اجاگر کرنے اور وصف شجاعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
آج کے اسلامی شعرأ بھی مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر نئی نسل کے ذہنوں سے تصورِ جہاد سے متعلق شبہات ختم کر سکتے ہیں اور عرصے سے سوئی ہوئی امت میں بیداری کی تڑپ جگا سکتے ہیں۔
حضرت حسان نبی کریم ااور آپ ا کے رفقاء کی جرأت وشجاعت اور بنوقریظہ کی ہزیمت کی یوں یاد دلاتے ہیں:
غداة اتاہم یہوی الیھم
رسول اللّٰہ کالقمر المنیر
لہ خیل مجنبة تعادٰی
بفرسان علیہا کالصقور
ترکناہم وما ظفروا بشئ
دماء ہم علیہم کالعبیر
فہم صرعی تحوم الطیر فیہم
کذاک یدان ذو الفند الفخور
(دیوان حضرت حسان بن ثابت ص:۱۹۰)
ترجمہ:۔”روشن چاند کی طرح چمکتے ہوئے چہرے والے حضرت محمد ا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر چڑھائی کی، آپ ا نے عقاب کی طرح ان پر حملہ کیا اور صحابہ تیز رفتار گھوڑوں کو دوڑا رہے تھے، ہم نے بنوقریظہ کو اس عبرت ناک حالت میں چھوڑا کہ ان کا خون زعفران کی طرح پھیلا ہوا تھا اور انہوں نے ذرہ بھر بھی کامیابی نہیں پائی، ہرسو ان کی لاشیں بکھری تھیں جنہیں پرندے نوچ رہے تھے، ہر متکبر اور سرکش کی یہی سزا ہے“۔
شہدائے بدر کی یاد میں کہی گئی اس دلسوز نظم میں حضرت حسان میدانِ جہاد کی خوفناک فضا میں صحابہ کرام کے جذبہ ٴ وفا کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تذکرت عصراً قد مضی فتہافتت
بنات الحشا وانہل منی المدامع
صبابة وجد ذکر تنی احبة
وقتلٰی مضوا فیہم نفیع ورافع
وفوا یوم بدر للرسول وفوقہم
ضلال المنایا والسیوف اللوامع
(دیوان حضرت حسان بن ثابتص:۱۹۷)
ترجمہ:۔”مجھے ماضی یاد آیا تو میرا دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں، یہ بے چینی میرے ان دوستوں کی یاد میں ہے جو (غزوہٴ بدر میں) شہید ہوگئے، جن میں (میرے قریبی ساتھی) نضیع اور رافع بھی تھے، جب ان پر موت کے سائے منڈلارہے تھے اور چمکتی تلواریں ٹوٹ رہی تھیں، انہوں نے اس وقت بھی رسول کریم ا سے بھر پور وفاداری کی“۔
۴۔اطاعت حبیب اکی ترغیب
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق اور اطاعت لازم وملزوم ہیں کہ مرضئی جاناں کے آگے سر تسلیمِ خم کرنا ہی حقیقی محبت ہے۔قرآن کریم کا انداز تربیت بھی یہی ہے۔ متعدد صحابہ کرام نے عشق رسول میں سرشار ہوکر بارہا یہ سوال کیا کہ حضور! جنت میں آپ کا دیدار کیسے ہوگا؟ آپ کی زیارت سے ہم آنکھوں کو ٹھنڈا کیسے کر سکیں گے؟ کہ جنت میں آپ کے اور ہمارے درجات میں اتنا فرق ہوگا کہ:”وہ کہاں! میں کہاں“تو رب کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:
”وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیْقا۔‘ ‘(النساء۶۹)
ترجمہ:۔”اور جو لوگ اللہ اور رسول ا کی اطاعت کریں تو ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں“۔
ان آیات میں یہ سمجھایاگیا کہ جنت میں حضور ا سے ملاقات کا شرف صرف اطاعت گزاروں کو ملے گا۔ اس لئے ایک سچے عاشق کے لئے ضروری ہے کہ ہر موڑ میں آپ ا کی اتباع کو اپنا وظیفہ بنائے۔
اس اسلامی مزاج کے برعکس آج کی نعتیہ شاعری میں اتباع رسول کی تلقین عموماً نظر نہیں آتی، حالانکہ عہد حاضر کا ثناء خواں عوام کے دلوں میں موجزن حب رسول کا مقدس دریا اطاعت رسول کی طرف موڑ کر مغرب کی اندھی تقلید کے مہلک اثرات سے ملک وقوم کو بچا سکتا ہے۔حضرت حسان اس رخ سے بھی لاجواب اشعار کہہ گئے:
مثل الہلال مبارکاً ذارحمةٍ
سمح الخلیقة طیب الاعواد
واللّٰہ ربی لانفارق امرہ
ماکان عیش یرتجی لمعاد
(دیوان حضرت حسان بن ثابت ص:۱۵۵)
ترجمہ:…”نبی کریم ا تو چاند کی طرح خوبصورت ہیں، بابرکت ہیں اور رحمت والے ہیں، بہترین عادات کے حامل اور عمدہ خوشبو والے ہیں، خدا کی قسم ! جب تک میری جان میں جان ہے، میں آپ کے کسی ایک حکم (اور سنت) کی مخالفت نہیں کروں گا“۔ آپ  نبی کریم ا کی پیروی کی تلقین ا ن اشعار میں بھی کرتے ہیں:
یابکر آمنة المبارک بکرہا
ولدتہ محصنة بسعد الاسعد
نوراً اضاء علی البریة کلہا
من یہد للنور المبارک یہتدی
(دیوان حضرت حسان بن ثابت ص:۱۵۳)
ترجمہ:…”اے آمنہ کے مبارک بیٹے! جسے انہوں نے انتہائی پاکیزگی اور عفت کے ساتھ جنم دیا۔ آپ دنیا کے لئے برکت کا جہاں ثابت ہوئے، آپ ایسا نور تھے جو ساری مخلوق پر چھا گیا او جسے اس مبارک نور کی پیروی نصیب ہوئی وہ ہدایت یافتہ ہوگیا“۔
خلاصہٴ کلام
گذشتہ تین چار دہائیوں سے اردو شعراء کی کثیر تعداد نعت گوئی کی طرف بڑے والہانہ انداز سے متوجہ ہوئی ہے حتی کہ بڑے بڑے نام ور ترقی پسند اور لینن اور اسٹالن کی تعریف میں رطب اللسان رہنے والے نظم گو شعراء بھی نعت کہتے نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بڑی مثبت اور خوش آئند تبدیلی ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ نعت گوئی کے اس مقدس فریضے کی ادائیگی میں شرعی حدود کی بھر پور رعایت کی جائے۔
اردو نعت کے اس روز افزوں ذخیرے میں بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے اکثر کی نشان دہی اس مضمون میں کی گئی ہے، ان بے احتیاطیوں سے بچاؤ کا سب سے مناسب راستہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے نعتیہ اشعار کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور اس سے مزاجِ اسلامی کشید کرکے اردو شاعری کے قالب میں ڈھالاجائے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: جمہوریت اور اسلام کا سیاسی نظام
Flag Counter