Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۱ھ - اکتوبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

8 - 9
ایک ساتھ تین طلاق دینے کا حکم
ایک ساتھ تین طلاق دینے کا حکم!

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:
میں نے اپنی بیوی کو ۱۲/مارچ ۲۰۰۹ء کو تین طلاقیں دیں اور کچھ دن بعد عدالت سے بھی طلاق کے کاغذات لئے، جس پر میری طرف سے تحریری طلاق درج تھی، طلاق کے بعد میری بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی، انہوں نے گھر سے نکالا تو وہ نانی ، نانا کے ہاں گئی، اس کے نانا نے لڑکی کو اور مجھے محمدی مسجد لے گئے، جہاں سے انہوں فتویٰ دیا کہ یہ طلاق رجعی ہے اورہمارا دوبارہ تجدید نکاح کرایا۔ اب کیا ہمارا یہ نکاح تھا یا نہیں؟
مستفتی راحیل الدین مکان نمبر ۱۳۴۵ گولیمار نمبر۲ کراچی۔
الجواب بعون الوہاب
واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان“ (بقرہ:۲۳۹)
اور اگلی آیت میں ہے:
”فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ…“ (بقرہ:۲۳۰)
یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے۔
چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں:
”ترجم البخاری علی ہذہ الایة باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان، وہذا اشارة الی ان ہذہ التعدید انما ہو فسخة لہم فمن ضیق علی نفسہ لزمہ قال علمائنا: واتفق ائمة الفتویٰ علی لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمة واحدة وہو قول جمہور السلف… المشہور عن الحجاج بن ارطاة وجمہور السلف والائمة انہ لازم واقع ثلاثاً ولافرق بین ان یوقع ثلاثًا مجتمعة فی کلمة او متفرقة فی کلمات…“ (الجامع لاحکام القرآن ج:۳/۱۲۹)
اسی طرح احکام القرآن للجصاص میں ہے:
”قال ابوبکر: قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان الایة: یدل علی وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیاً عنہا…“ (ج:۱/۴۶۷)
اسی طرح حدیث میں ہے:
”عن عائشة ان رجلًا طلق امراتہ ثلاثاً فتزوجت فطلق فسئل النبیا اتحل للاول قال لاحتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الاول…“ (بخاری شریف ج:۲/۷۹۱)
ترجمہ:…”حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیدیں پھر اس نے دوسرے سے نکاح کرلیا، اس نے صحبت کئے بغیر طلاق دیدی، آپ علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ پہلے خاوند کے لئے یہ عورت حلال ہوئی؟ آپ علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا:” جب تک دوسرا شوہر صحبت نہ کرلے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی“۔
اس حدیث میں ”طلق امراتہ ثلاثًا“ کا جملہ اس کا مقتضی ہے کہ تین طلاق اکھٹی اور دفعة دی گئیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے تین طلاقیں اکٹھی واقع ہوجانے پر استدلال ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں:
”وہی بایقاع الثلاث اعم من ان تکون مجمعةً او متفرقةً“
(فتح الباری ج:۹/۳۶۲ ط ادارة بحوث العلمیة)
حدیث میں ہے:
”عن مجاہد قال کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال انہ طلق امراتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظنت انہ رآدہا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقة ثم یقول: یا ابن عباس یا ابن عباس وان الله تعالیٰ قال ومن یتق الله یجعل لہ مخرجاً، وانک لم تتق الله فلااجد لک مخرجاً، عصیت ربک وبانت منک امراتک“۔ (سنن ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)
ترجمہ:…”مجاہد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں (کیا حکم ہے) حضرت ابن عباس  نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش ہوگئے (مجاہد کہتے ہیں) مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید ابن عباس اس کی بیوی کو واپس لوٹانے والے ہیں پھر ابن عباس نے فرمایا: کہ تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان پر حماقت سوار ہوتی ہے، پھر میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے یا ابن عباس یا ابن عباس جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے راستہ نکالتا ہے اور تو اللہ تعالیٰ سے ڈر انہیں (اور بیک وقت تین طلاقیں دیدی) اس لئے قرآن کے مطابق تمہارے لئے کوئی راستہ نہیں پاتا تونے خدا کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی ہے اور تم سے جدا ہوگئی ہے“۔
اور ابوداؤد  اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”روی ہذا الحدیث حمید الاعرج وغیرہ عن مجاہد عن ابن عباس… کلہم قالوا فی الطلاق الثلاث انہ اجاز ہا قال وبانت منک…“ (ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)
یعنی ان حضرات نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے یہ تمام رواة متفقہ طور پر نقل فرمارہے ہیں کہ ابن عباس نے تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا اور فتویٰ دیا کہ عورت جدا ہوگئی۔اسی طرح نسائی شریف کی حدیث میں ہے:
”عن محمود بن لبید قال اخبر رسول الله ا عن رجل طلق امراتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ثم قال ایلعب بکتاب الله وانا بین اظہر کم حتی قال رجل وقال یا رسول الله الا اقتلہ“۔ (ج:۲/۹۹ ط قدیمی)
ترجمہ:…”محمود بن لبید سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاة و السلام کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دیدیں ہیں۔ آپ علیہ السلام نے غضبناک ہوکر تقیریر فرمائی کہ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، آنحضرت اکا یہ غصہ دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اسے قتل نہ کردوں“۔
حدیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں مجتمعاً واقع ہوجاتی ہیں۔ اگر واقع نہ ہوتیں تو آنحضرت ا غضبناک نہ ہوتے اور فرمادیتے کہ کوئی حرج نہیں رجوع کرلو۔
اسی طرح مؤطا امام مالک میں ہے:
”عن مالک بلغہ ان رجلاً قال لابن عباس انی طلقت امرأتی مأة تطلیقة ما ذاتری علی؟ فقال لہ ابن عباس طلقت منک بثلاث وسبع وتسعون اتخذت بہا آیات اللہ ہزوا“ (ص:۵۱۰)
ترجمہ:…”ایک شخص نے ابن عباس سے کہا میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں ہیں، اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تین طلاقوں سے تو عورت تجھ سے جدا ہوگئی اور بقیہ ستانوے طلاقوں سے تونے اللہ کی آیات کا تمسخر کیا ہے“۔
اور طحاوی شریف میں ہے:
”عن مالک بن حارث قال رجل الی ابن عباس فقال ان عمی طلق امراتہ ثلاثاً فقال: ان عمک عصی الله فاثمہ الله واطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجا فقلت کیف تری فی رجل یحلہا لہ فقال من یخادع الله یخادعہ…“ (باب الرجل یطلق امراتہ ثلاثا معا ج:۲/۳۴)
ترجمہ:…”مالک بن حارث فرماتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور کہا میرے چچا اپنی عورت کو دفعةً تین طلاقیں دے بیٹھے ہیں۔حضرت ابن عباس نے فرمایا: تیرے چچا نے خدا کی نافرمانی کی اور شیطان کی اطاعت کی اور آپ نے اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں نکالی۔مالک بن حارث فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا :آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو اس عورت کو اس شوہر کے لئے حلال کرے؟ آپ نے فرمایا: جو اللہ سے چالبازی کرے گا اللہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے گا“۔
اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
”عن انس قال کان عمر اذا اتی برجل قد طلق امراتہ ثلاثاً فی مجلس او جعہ ضرباً وفرق بینہما…“ (ج:۵/۱۱) وفیہ ایضا عن معمر عن الزہری فی رجل طلق امراتہ ثلاثاً جمیعاً قال ان من فعل فقد عصی ربہ وبانت منہ امراتہ“ (ج:۵/۱۱)
ترجمہ:…”حضرت انس  فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق کے پاس ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہوتیں تو آپ اس کو سزا دیتے ہیں اور دونوں میں تفریق کردیتے ہیں۔تو قرآنی آیات وتفاسیر واحادیث سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دقعةً تین طلاقیں دینے سے تین ہی شمار ہوتی ہیں۔“
لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے چونکہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں تو اس سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لئے رجوع کرنا جائز نہیں اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ اس سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
باقی غیر مقلدین کا منسلکہ فتویٰ از روئے قرآن وحدیث اور جمہور صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور چاروں ائمہ کے متفقہ مسلک کے خلاف ہے، جیساکہ اوپر لکھا گیا ہے اور جس حدیث کو بطور استدلال پیش کیا ہے، اس حدیث سے تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کا استدلال کرنا تمام فقہاء کے نزدیک باطل ہے۔مذکورہ حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس کی ہے اس حدیث سے استدلال کرنا اس لئے درست نہیں ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے اور اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت غیر مدخولہ کے متعلق ہے، عام نہیں ہے۔واضح رہے کہ عورتیں دو قسم کی ہیں:
۱…غیر مدخولہ (جس کے ساتھ ہمبستری نہ ہوئی ہو)
۲…مدخولہ (جس کے ساتھ صحبت ہوچکی ہو) غیر مدخولہ عورت کو اگر الگ الگ لفظوں میں اس طرح طلاق دی جائے۔ ”تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے“تو پہلے ہی لفظ سے وہ بائنہ ہوجاتی ہے یعنی نکاح سے نکل جاتی ہے اور ایسی عورت پر عدت بھی لازم نہیں ہوتی، جب یہ عورت پہلے ہی لفظ سے بائنہ ہوگی اور اس پر عدت بھی نہیں تو اس کے بعد وہ طلاق کا محل نہ رہی، اس بناء پر دوسری اور تیسری طلاق لغو ہوتی ہے، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر تین طلاقیں دی جائیں تو ایک شمار ہوتی ہیں۔ حضور اکرم ا حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر کے ابتدائی سالوں میں غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا یہی طریقہ تھا۔ مگر بعد میں لوگوں نے جلد بازی شروع کردی اور ایسی غیر مدخولہ کو ایک ساتھ ایک لفظ میں تین طلاق دینے لگے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اب تین طلاق ہی ہوں گی۔ کہ (انت طالق ثلاثا) کہہ کر طلاق دی ہے اور یہ لفظ نکاح قائم ہونے کی حالت میں بولا ہے۔ (ابوداؤد شریف ج:۱/۳۰۶)
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم ا اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے ابتدائی زمانہ میں جب ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہا جاتا تو عموماً لوگوں کی دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی، استیناف کی نیت نہیں ہوتی تھی اور اس زمانہ میں لوگوں میں دین اور تقویٰ اور خوف آخرت اور خوف خدا غالب تھا دنیا کی خاطر دروغ بیانی کا خطرہ تک دل میں نہ آتا تھا۔ آخرت میں جوابدہی اور آخرت کے عذاب کا اتنا استحضار رہتا کہ مجرم بذات خود حاضر ہوکر اپنے جرم کا اقرار کرتا اور اپنے اوپر شرعی حد جاری کرنے کی درخواست کرتا، اس بناء پر ان کی بات پر اعتماد کرکے ایک طلاق کا حکم کیا جاتا، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں مگر جیسے جیسے عہد نبوی سے بعد ہوتا گیا اور بکثرت عجمی لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے، ان میں تقویٰ وخوف آخرت کا معیار کم ہونے لگا اور پہلے جیسی سچائی، امانت داری اور دیانت داری نہ رہی، دنیا اور عورت کی خاطر دروغ بیانی ہونے لگی، جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے۔
حضرت عمر کے پاس عراق سے ایک سرکاری خط آیا کہ یہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو یہ جملہ کہا ہے ”حبلک علی غاربک“ (تیری رسی تیری گردن پر ہے) حضرت عمر بن خطاب نے اپنے عامل کو لکھا کہ ”ان مرہ ان یوافینی بمکة فی الموسم“ اس کو کہو کہ حج کے زمانہ میں مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے۔ حضرت عمر حج کے زمانہ میں کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اس آدمی (عراقی) نے آپ سے ملاقات کی اور سلام کیا، حضرت عمر نے فرمایا: تم کون ہو، اس نے کہا: میں وہی ہوں جس کو آپ نے حج کے زمانہ میں طلب کیا تھا، حضرت عمر نے فرمایا: تجھے رب کعبہ کی قسم سچ بتا ”حبلک علی غاربک“ سے تیری کیا نیت تھی، اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اگر اس مبارک جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ قسم لی ہوتی تو میں صحیح نہ بتاتا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس جملے سے فراق کا یعنی عورت کو اپنے نکاح سے الگ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: عورت تیرے ارادے کے مطابق تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔
(موطأ امام مالک ص:۵۱۱ ماجاء فی الخلیة والبریة واشباء ذلک بحوالہ فتاویٰ رحیمہ ۴/۳۴۳)
یہ عراقی ایک عورت کے لئے جھوٹی قسم کھانے کے لئے اور دروغ بیانی کے لئے تیار تھا مگر کعبة اللہ اور حرم شریف کی عظمت وتقدس کا خیال رکھتے ہوئے کذب بیانی سے احتراز کیا۔
حضرت عمر نے عوام کی جب یہ حالت دیکھی، نیز آپ کی نظر اس حدیث پر تھی:
”اکرموا اصحابی فانہم خیارکم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم یظہر الکذب حتی ان الرجل یحلف ولایستحلف ویشہد ولایستشہد…الخ“۔ (مشکوٰة المصابیح، باب مناقب الصحابة ج:۳/۵۵۴ ط سعید)
یعنی عہد نبوت سے جیسے جیسے دوری ہوتی چلی جائے گئی، دینداری کم ہوتی رہے گی اور کذب ظاہر ہو گا۔ حضرت عمر نے موجودہ اور آئندہ حالات کو پیش نظر رکھ کر صحابہ سے مشورہ کیا کہ جب ابھی یہ حالت ہے تو آئندہ کیا حالت ہوگی اور لوگ عورت کو الگ کردینے کی نیت سے تین طلاق دیں گے اور پھر غلط بیانی کرکے کہیں گے کہ ہم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی۔ آپ نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لئے فیصلہ کیا کہ لوگوں نے ایسی چیز میں جلد بازی شروع کردی جس میں انہیں دیر کرنی چایئے تھی، اب جو شخص تین مرتبہ طلاق دے گا، ہم اسے تین ہی قرار دیں گے۔ صحابہ کرام نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا اور کسی ایک نے بھی حضرت عمر کی مخالفت نہ کی، چنانچہ طحاوی شریف میں ہے:
”فخاطب عمربذلک الناس جمیعا وفیہم اصحاب رسول اللہ ا ورضی اللہ عنہم الذین قد علموا ما تقدم من ذلک فی زمن رسول اللہ ا فلم ینکرہ علیہ منہم ولم یدفعہ دافع…“ (ج:۲/۳۴)
محقق علامہ ابن ہمام رحمة اللہ فرماتے ہیں:
”ولم ینقل عن احد منہم انہ خالف عمر  حین امضی الثلاث وہی یکفی فی الاجماع…“ (حاشیہ ابوداؤد ج:۱/۳۰۶)
یعنی کسی ایک صحابی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ جب حضرت عمر نے صحابہ کی موجودگی میں تین طلاق کا فیصلہ کیا، ان میں سے کسی ایک نے بھی… حضرت عمر کے خلاف کیا ہو اور اس قدر بات اجماع کے لئے کافی ہے۔امام نووی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق، انت طالق، انت طالق، ولم ینو تاکیداً ولااستینافاً یحکم بوقوع طلقة لقلة ارادتہم الاستنیاف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادة التاکید فلما کان فی زمن عمر وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغة وغلب منہم ارادة الاستیناف بہا حملت الاطلاق علی الثلاث عملاً بالغالب السابق الی الفہم…“ (نووی شرح مسلم ج:۱/۴۷۸ ط قدیمی)
یعنی حدیث حضرت ابن عباس کی بالکل صحیح تاویل اور اس کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی انت طالق، انت طالق، انت طالق کہہ کر طلاق دیتا تو عموماً اس زمانہ میں دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی تھی، استیناف کی نیت نہ ہوتی تھی، جب حضرت عمر کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کی دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم کیا جاتا۔
یہ ہے حدیث حضرت ابن عباس کا مطلب محدثین کی نظر میں اور یہی تشریح اور مقصد صحیح ہے۔ جو مطلب غیر مقلدین بیان کرتے ہیں، وہ صحیح نہیں۔ اس لئے کہ راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس نے خود تین طلاقوں کے نفاذ کا فتویٰ دیا ہے، جیساکہ مذکور ہوچکا ہے۔
علامہ ابن قیم نے بھی باوجود اس تشدد وتصلب کے جوان کو اس مسئلہ میں تھا، حضرت ابن عباس کے اس فتویٰ ”ایک مجلس میں تین طلاقیں تین ہیں اور اس کے بعد رجعت جائز نہیں“ سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس فتویٰ کے ثابت ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔ چنانچہ اغاثة اللفہان میں فرماتے ہیں:
”فقد صح بلاشک ابن مسعود وعلی ابن عباس الالزام بالثلاث ان اوقعہا جملة“۔ (ص:۱۷۹)
اورچونکہ یہ مسئلہ حلال وحرام کے متعلق ہے، اگر واقعی تین کو ایک سمجھا جاتا تو اس کے راوی صرف حضرت ابن عباس ہی کیوں ہیں، ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے اس کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے، جبکہ ان سے بڑے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق اس کے برخلاف فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ صحابہ کرام کے سامنے کی بات ہے اور ایک صحابی نے بھی اس حکم کے خلاف نہیں کیا جس سے اس مسئلہ پر ان کا اجماع معلوم ہوتا ہے۔الغرض تین طلاقیں شرعاً واقع ہوچکی ہیں، بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہے، گمراہ لوگوں سے فتویٰ لے کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کرنا بدترین گناہ ہے، لہذا دونوں میں علیحدگی ضروری ہے، بصورت دیگر اگرایک ساتھ رہے تو حرام کے اندر مبتلا ہوں گے چنانچہ حدیث میں ہے:
”من اعلام الساعة… وان یکثروا اولاد الزنا قیل لابن مسعود وہم مسلمون ! قال نعم: یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة طلقہا فیقیم علی فراشہا منہما زانیان ما اقاما“۔ (الخصائص الکبری للسیوطی ج:۲/۲۷۰ ط حقانیہ)
ترجمہ:…اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ زنا کی اولاد کی کثرت ہوجائے گی، پوچھا گیا حضرت ابن مسعود سے کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ فرمایا: ہاں! وہ مسلمان ہوں گے، ایک زمانہ آئے گا لوگوں پر کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا، لیکن پھر بھی اس کے ساتھ اس کے بستر پر رہے گا جب تک دونوں اس طرح رہیں گے زنا کار ہوں گے“۔
”قال:یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة ثم یجہدہا طلاقہا ثم یقیم علی فرجہا فہما زانیان ما اقاما…“
(المعجم الاوسط للطبرانی ج:۵/۴۴۲)
ترجمہ:…فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے گا پھر طلاق دینے سے انکار کرے گا پھر اس سے ہم بستری کرتا رہے گا پس جب تک وہ دونوں اس طرح رہیں گے زناکار ہوں گے“۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، سائل نے بغیر حلالہ شرعی جو دوبارہ نکاح کرکے ایک عرصہ ساتھ گذاراہے، دونوں حرام کاری میں مبتلا رہے، فی الفور علیحدگی کے بعد دونوں پر توبہ و استغفار لازم ہے۔
کتبہ
عبد اللہ منیر
متخصص فقہ اسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہ
محمد عبد المجید دین پوری
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۱ھ - اکتوبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: دین اسلام اور راہ اعتدال
Flag Counter