Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ - ستمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

9 - 10
کامیابی وکامرانی کا راستہ !
کامیابی وکامرانی کا راستہ

یہاں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور ارشاد جسے محب طبری نے ”الریاض النضرة“ میں نقل کیا ہے، یاد آتا ہے۔
”لن یصلح آخرہذہ الأمة الا ما صلح بہ أولہا“۔
ترجمہ:…”اس امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی بس اسی چیز سے ہوسکتی ہے جس سے اس کے پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی“۔
ربع صدی سے یہاں سب کچھ آزمایا جاچکا ہے، آیئے اس جدید نظریہ کو بھی آزما لیجئے۔
فلک را سقف بشگافیم وطرحِ نودراندازیم
نبی کریم ا کے فرائض ِ منصبی
قرآن حکیم نے چار مقامات پر حضرت خاتم الانبیاء جناب رسول اللہ ا کے چار منصب بیان فرمائے ہیں:
۱…آیات پڑھ کرسنانا۔
۲…تزکیہ کرنا، یعنی کفر وشرک، بدعملی وبداخلاقی اور امورِ جاہلیت سے ان کو پاک وصاف کرنا۔
۳…کتاب اللہ کے احکام کی تعلیم دینا اور اس کے مضامین کی تشریح کرنا۔
۴…حکمت ودانائی، احکام کے علل وغایات اور شریعت کے اصول ومقاصد کی تعلیم دینا۔
”تزکیہ“ سے مراد عقائد ونظریات اور اعمال واخلاق کی پاکیزگی ہے، قرآن کریم نے تین مقامات پر ”تزکیہ“ کا ”تعلیم“ سے مقدم ذکر فرمایا، جس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بقدر ضرورت تزکیہ، تعلیم سے پہلے ہونا چاہیئے، تعلیم اسی وقت مفید اور بار آور ہوسکتی ہے جبکہ قلوب میں اس کے قبول کرنے کی اہلیت اور جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہو، زمین کو پہلے کاشت کے قابل بنایاجائے پھر تخم ریزی کی جائے، ورنہ وہی کیفیت ہوگی جو عارفِ شیرازی نے فرمائی:
باراں کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ روید ودر شورہ بوم خس
یہ تزکیہ حضرت خاتم الانبیائا کے فیضانِ صحبت اور مکارم اخلاق سے حاصل ہوتا تھا اور اب بھی بقدرِ استعداد اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے ربط وتعلق اور ان کی صحبت اور مجالست سے حاصل ہوسکتا ہے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ تعلیم کتاب وحکمت سے بھی اصل مقصود تزکیہ ہے، یہ نہ ہو تو ساری تعلیم بیکار ہے، اعمال واخلاق کے بغیر نرے علوم ومعارف کی حق تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر نہیں، آدمی ساری دنیا کی کتابیں چاٹ لے، لیکن اگر انسانی اخلاق اور ایمانی اعمال نہیں تو ”پڑھا لکھا جانور“ تو ہوسکتا ہے، مگر ”انسان“ کہلانے کا مستحق نہیں۔
تزکیہ کے بغیر نہ ایمان میں رسوخ کی کیفیت اور یقین واطمینان کی قوت پیدا ہوگی، نہ اخلاق درست ہوسکیں گے نہ اخلاص کی دولت ملے گی، نہ اعمال پر مداومت نصیب ہوگی، نہ ”اندر کا فرعون“ (مکار نفس) ہلاک ہوگا، نہ مخلوق سے لڑائی بند ہوگی۔نفس ماہم کم تراز فرعون نیست۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں: ”تعلمنا الایمان ثم تعلمنا القرآن،، کہ ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر قرآن سیکھا، یہ ایمان کا سیکھنا ہی تزکیہ کہلاتا ہے کہ قلب غیر اللہ کے بتوں سے پاک ہو، اعمال ریا وغیرہ سے پاک ہوں اور نفس کمینے اخلاق سے پاک ہو، معاشرہ امورِ جاہلیت سے پاک ہو، کمائی حرام اور مکروہ ذرائع سے پاک ہو، وغیر ذلک۔
یہی تزکیہ تھا جس کی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی بشارتوں سے نوازا اور انہیں آسمانی وحی کی شہادت اور سند ملی،سورہٴ فتح میں ان کے امتیازی اوصاف ذکر کرتے ہوئے ایک وصف باہمی رحمت وشفقت ذکر کیا گیا ہے، ”رحماء بینہم“ یہ وصف کامل تزکیہ کے بعد ہی حاصل ہوسکتا ہے اور اسی کو نہ سمجھنے کی خرابی ہے کہ صحابہ کرام سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کا پہلا وصف یہی بیان فرمایا،”ابرہم قلباً“ کہ ان کے دل بہت پاک صاف تھے، دوسرا وصف بیان فرمایا: ”واعمقہم علماً“ ان کا علم بڑا گہرا تھا، تیسرا وصف بیان فرمایا: ”اقلہم تکلفا“ ان کی زندگی تکلفات اور تصنع سے پاک تھی۔
حضرات ِ صوفیاء اور اشاعتِ دین
حضرات صوفیاء کرام جن کے ذریعہ دین کی تبلیغ واشاعت سلاطین کی تلوار اور علماء کے قلم سے بھی زیادہ ہوئی ہے، ان کا خاص موضوع یہی ہے کہ نفوس کی تربیت اوراخلاق کا تزکیہ کیا جائے، ان کے یہاں بھی تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جذب ہو پھر سلوک، اسی کا نام ”مجذوب سالک“ رکھتے ہیں، بظاہر یہ طریقہ ”اقرب الی القرآن“ ہوگا۔
البتہ قرآن کریم میں صرف ایک جگہ جہاں آنحضرت ا کے بارے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نقل فرمائی ہے، آنحضرت ا کے ان چار مناصب میں سے تزکیہ کو کتاب وحکمت کی تعلیم کے بعد سب سے آخر میں رکھا ہے، اس سے ایک تو اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کا اول وآخری مقصد تزکیہ ہے، دوسرے اس طرف اشارہ ہے کہ تزکیہ بقدر ضرورت تو تعلیم سے پہلے ہونا چاہیئے، مگر کامل تزکیہ کی نوبت تعلیم کے بعد ہی آسکتی ہے یعنی علم کے بعد عمل ہوگا اور علم ہی ذریعہ بنے گا عمل کا،گویا اس آیت میں تربیت کا دوسرا طریقہ بیان فرمایا ہے جو حضرات صوفیہ  کے یہاں ”سالک مجذوب“ کہلاتا ہے، لوگوں کی استعدادیں مختلف ہوتی ہیں ،کسی کو تعلیم کے بعد بھی تزکیہ کی ضرورت رہتی ہے اور کسی کو تزکیہ کے بعد تعلیم کی حاجت ہوتی ہے، نہ تزکیہ کے مراتب ختم ہوتے ہیں، نہ تعلیم کی انتہا ہے۔
خلاصہ یہ کہ حضرت رسول اللہ ا کا منصب صرف تعلیم اور سمجھانا ہی نہیں تھا، بلکہ اس کی تعمیل کرانا اور قوم کو ایک باعمل امت بنانا بھی تھا، جب تک آنحضرت ا کے دیئے ہوئے نقشہ کے مطابق تعلیم وتربیت پر محنت نہیں ہوتی اور افراد کی اصلاح کے ذریعہ ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں نہیں آتا، سیاسی محنت صحیح طریق پر بار آور نہیں ہوگی اور تمام قومیں شروفساد کی نذر ہوجائیں گی۔
اسلامی سیاست اور موجودہ سیاست
دینی تربیت کے فقدان ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ باوجود یہ کہ تمام زعماء اور سیاسی لیڈر اسلام کی خدمت کا اعلان فرمارہے ہیں اور ملک وملت کی صحیح نمائندگی کا دم بھرتے ہیں، یقینا ان میں سے بعض حضرات مخلص بھی ہوں گے اور وہ ”اسلام“ کے نام کو محض اقتدار طلبی کے لئے استعمال نہیں کرتے ہوں گے، لیکن ان ”اسلامی نمائندوں“ کی اکثریت اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جس ”اسلام“ کا ہم نام لیتے ہیں، اسی ”اسلام“ نے سیاست کے بھی کچھ آداب تجویز کئے ہیں، اور بے ہنگم سیاست بازی پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں، مثلاً موجودہ سیاست کی بنیاد ہی اس بات پر قائم ہے کہ ایک شخص اقتدار طلبی کے لئے کھڑا ہو، اپنی پارٹی بنائے، اپنا پروگرام قوم کے سامنے رکھے اور قوم سے اپیل کرے کہ اس کو ووٹ دے کر کرسی اقتدار پر فائز کیا جائے، اس کے بعد وہ جانے اور قوم کے مسائل۔
اب دیکھئے کہ اسلام ، اقتدار طلبی کے مزاج ہی کی جڑ کاٹ دیتا ہے، اسلام اقتدار کی خواہش کو پسند نہیں کرتا، بلکہ وہ یہ ذمہ داری معاشرہ پر ڈالتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو آگے لائے جو: ”لایریدون علواً فی الارض ولافساداً“ (جو نہیں چاہتے زمین میں اونچا ہونا اور نہ فساد) کے معیار پر پورے اتریں، آنحضرت ا کسی ایسے شخص کو جو عہدہ کی درخواست لے کر آئے، عہدہ نہیں دیتے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اور منتیں کرکر کے حضرات صحابہ  کو عہدے دیئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو عہدہ ٴ قضاء کی پیش کش کی، انہوں نے انکار کیا، امیر المؤمنین نے منت وسماجت کی مگر ان کی معذرت غالب آگئی، حضرت عثمان نے فرمایا:بہت بہت اچھا، مگر کسی اور کو نہ بتانا، ورنہ کوئی بھی اس کے لئے آمادہ نہ ہوگا، ”حضرت تھانوی کے ملفوظات میں ہے، کہ شاہ عبد العزیز کا جامع مسجد دہلی میں وعظ تھا، جس میں ایک انگریز بہادر بھی موجود تھا ،تقریر کے بعد اس نے مسلمانوں سے سوال کیا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے سلطنت کیوں جاتی رہی؟ کسی نے کچھ جواب دیا، کسی نے کچھ، اس نے کہا میں بتاتاہوں کہ اصل وجہ یہ تھی کہ اس منصب کے اہل لوگوں نے اس سے گریز کیا اور نااہل لوگ اوپر آگئے اور یہی نااہل زوالِ سلطنت کا باعث بنی۔
مسلمانوں کی نمائندگی
ہم جانتے ہیں کہ اس زمانہ ٴ قحط الرجال میں جس میں انسانوں کی تو افراط ہے مگر ”آدمی“ بہت کم ہیں، نہ اسلام کا معیاری معاشرہ ہے، نہ معیاری نمائندے مل سکتے ہیں، لیکن کم از کم اتنا تو ہو کہ جو لوگ اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ لے کر اٹھیں ان میں صوم وصلاة کی پابندی، دینی شعائر کا احترام، اسلام کے ضابطہ ٴ حیات پر کامل اذعان اور اسلامی اخلاق واعمال پائے جائیں، وہ قول کے سچے اور بات کے پکے ہوں، انہیں غریب مسلمانوں کے مسائل کی سمجھ بوجھ اور دینی احکام کا شعور ہو، ملت کے تمام افراد کے یکساں ہمدردہوں، وہ اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنیں، گذشتہ بائیس سالہ تجربہ شاہد ہے کہ غیر تربیت یافتہ اور غیر اصلاح شدہ نمائندوں نے اسمبلیوں میں کیا گل کھلائے ہیں، اب پھر اسی قسم کے لوگوں کو آگے لانے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ اس الیکشن اور اس کے بعد وجود میں آنے والی دستور یہ سے جو توقعات وابستہ کی جارہی ہیں، ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو پہلے ہوچکا ہے، یہ دستور سازی کا سارا وقت اکھاڑ پچھاڑ میں کھو دیں گے اور ۱۲۰ دن بعد کہا جائے گا کہ اسلامی دستور پر قوم کے نمائندے متفق نہیں ہوسکے۔ لافعل الله ذلک۔
جن لوگوں کا بارہا تجربہ ہو چکا ہے، دوبارہ ان ہی کا تجربہ کئے چلے جانا اور جن کی ”اسلامیت“ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے ہے ان پر اعتماد کرلینا، اس کا نتیجہ سوائے ندامت کے اور کیا ہوگا،حافظ شیرازی فرماتے ہیں:
ہرچند کازمودم ازوے نبود سودم
من جرّب المجرب حلت بہ الندامة
ترجمہ:…”میں نے ہرچند اسے آزمایا، مگر مجھے اس سے کچھ نفع نہ پہنچا جو شخص تجربہ شدہ کو آزماتا ہے اسے ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا“۔
موجودہ حکومت اور اسلامی آئین
موجودہ حکومت نے اپنی صوابدید کے مطابق یا رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے جو بہت سے اہم اقدامات کئے ہیں اور ان کے بارے میں جو فیصلے مخالف آواز کے باوجود پوری قوت سے نافذ کئے ہیں، ان کے تذکرہ کی ضرورت نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ”اسلامی آئین“ کا مسئلہ اتنا الجھاہوا ہے کہ اسے آئندہ اسمبلی پر ٹال دیا گیا؟ اسمبلی جن حالات وکوائف میں وجود میں آئے گی وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور اس سے جو ناقابل اصلاح بحران پیدا ہوجانے کا قوی امکان ہے وہ بھی مخفی نہیں۔
اس کا احساس ہر عامی کو بھی ہے، کیا اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوگا کہ قوم ہمیشہ کے لئے بے دستور رہے اور اسلامی آئین کی راہ میں ایک ایسی خندق حائل کردی جائے جسے صدیوں تک پاٹنا ممکن نہ ہو، قوم مسلمان ہے، ملک مسلمانوں کا ہے، اسے اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ،یہاں بغیر کسی بحث وتمحیص کے ”اسلامی آئین“ نافذ ہونا چاہیئے، جو خود گو مگو کی حالت میں ہوں گے جو متضاد ذہن لے کر اسمبلی میں جائیں گے اور جن کی ناکامی کی سزا پوری قوم کو خدا جانے کب تک ملتی رہے گی۔
مارشل لاء حکومت کی بے نفسی وبے غرضی اس صورت میں زیادہ نمایاں ہوسکتی ہے کہ وہ اربابِ حل وعقد، علماء وزعماء اور ماہرین ِ قانون کے مشورے سے ایک مسودہ ٴ آئین تیار کرکے اسے منظور کر لیتی، اس کے مطابق انتخابات ہوتے اور آئین ساز اسمبلی کو حق دیا جاتا کہ وہ اسے منظور کرے یا اس میں مناسب ترمیم کرے، یا کم از کم اتناہی کرلیا جاتا کہ ایک آئینی مسودہ اسمبلی میں پیش کردیا جاتا اور اس کے ساتھ یہ تصریح کردی جاتی کہ دستور کی فلاں فلاں دفعات، جن کا تعلق اسلامی قانون کے نفاذ سے ہے، زیر بحث نہیں آئیں گی اور ان کے علاوہ انتظامی نوعیت کی دفعات میں ایوان کو ترمیم کا حق ہوگا، تب بھی امکان تھا کہ اسمبلی ۱۲۰ دن میں اس بھاری بوجھ سے عہدہ برآں ہوسکتی، غالباً یہ پہلا تجربہ ہے کہ اسمبلی کو کسی مسودہ کے بغیر ہی آئین سازی کی زحمت دی جائے اور اس کے لئے چار ماہ کی مدت بھی مقرر کردی جائے۔
جہاں تک اسلامی قانون کے نفاذ کا تعلق ہے وہ امت مسلمہ کی مشترکہ میراث ہے، اس پررائے زنی، بحث وتمحیص اور ووٹنگ یا اختلاف رائے کا کوئی اعتبار نہیں، اسمبلی کا دائرہ عمل انتظامی امور، خارجہ پالیسی، شعبوں کی تقسیم اور ہرشعبے کے اختیارات جیسے مسائل تک محدود رہنا چاہیئے تھا، خلاصہ یہ کہ اسلام میں شریعت کے مسلمہ اصول وقواعد اور احکام ومسائل پر رائے زنی کا حق کسی حکمراں، کسی ادارے اور کسی گروہ کو نہیں دیا گیا۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۱ھ - ستمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: حضرت علی ؓ کی حضور ﷺ سے محبت کابیان
Flag Counter