Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ - ستمبر ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

6 - 10
امریکی یہودی لابی کا آزادی اظہار کے منہ پر طمانچہ !
امریکی یہودی لابی کا آزادی اظہار کے منہ پر طمانچہ

ماضی میں جب بھی میں امریکی صدور کی پریس کانفرنس دیکھتا تھا تو اکثر ایک بوڑھی عورت کی شخصیت مجھے اپنی جانب متوجہ کرتی تھی جو اگلی صفوں میں بیٹھی ہوتی تھی اور اس کے جھریوں بھرے چہرے پر بھر پور اعتماد دکھائی دیتا تھا۔ پریس کانفرنس میں امریکی صدر سب سے پہلے اس خاتونکو سوال کرنے کا موقع دیتے اور اس کے پوچھے گئے چبھتے ہوئے سوالات کا برا نہیں مانتے تھے اور بڑی خندہ پیشانی سے اس کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے۔ اس بوڑھی عورت کا چہرہ میرے لئے اتنا سناشا ہوگیا کہ ٹیلیوژن پر دکھائی جانے والی امریکی صدر کی پریس کانفرنس میں اس عورت کو تلاش کرتا تھا میرے دل میں اکثر اس بوڑھی خاتون کے متعلق تجسس پیدا ہوتا اور اس کے متعلق تفصیلات جاننے کی خواہش پیدا ہوتی، لیکن اپنی گوناگوں مصروفیات کی بناء پر میں اس کے متعلق تفصیلات حاصل نہ کرسکا۔ گزشتہ دنوں یہ بوڑھی خاتون دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی جب اس کے اسرائیل کے خلاف ایک تیز وتند بیان دینے پر اسے امریکہ میں یہودی لابی کی سخت تنقید اور مخالفت کا نشانہ بننا پڑا اور اپنے خلاف شدید پروپیگنڈہ کے باعث اسے ملازمت سے استعفی دینا پڑا۔ ۸۹ سالہ خاتون کا نام ”تھامس ہیلن“ تھا جو پیشے کے اعتبار سے جرنلسٹ تھی جس نے صحافت کا آغاز ۱۹۴۳ء میں کیا۔
تھامس ہیلن نے وائٹ ہاؤس کی نامہ نگار کی حیثیت سے ۵۷ سال وائٹ ہاؤس میں خدمات سرانجام دیں۔ ان کا شمار امریکہ کی نہایت تجربہ کار، محنتی اور نمایاں جرنلسٹ میں ہوتا تھا اور ان کا درجہ صحافیوں کے ڈین کی طرح تھا۔ ان کی نگاہوں نے امریکی وائٹ ہاؤس کے کئی نشیب وفراز دیکھے۔ وہ کئی”کہی ان کہی داستانوں“ کی چشم دید گواہ تھڈں۔ انہوں نے صدر جان ایف کینیڈی کے دور سے وائٹ ہاؤس میں ایک طویل عرصے تک یونائینڈ پریس انٹرنیشنل کے اہم رکن کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ہیلن نے امریکہ کے مختلف صدور کے ساتھ دنیا بھر کا سفر کیا جن میں صدر نکسن، فورڈ، جمی کارٹر، رونالڈ ریگن، جار/ بش اور کلنٹن نمایاں ہیں۔ ۱۹۷۲ء میں صدر نکسن کے چین کے خفیہ دورے کے موقع پر وہ واحد جرنلسٹ تھیں جو صدر کے ہمراہ تھیں اس لحاظ سے وہ اہم رازوں کی امین بھی ہیں انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران کئی کتابیں بھڈ تصنیف کیں ان کے شاندار کیریئر، وسیع تجربے اور علم کی وجہ سے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے صدر اوبامہ سے بڑے دوٹوک الفاظ میں افغانستان میں جاری جنگ کے دوران مارے جانے والے امریکی فوجیوں کے بارے میں سخت سوالات کئے تھے۔
تھامس ہیلن کا ۵۷ سالہ طویل اور شاندار کیریئر اس وقت اچانک ختم ہوگیا جب ۲۷ مئی ۲۰۱۰ء کو ”یہودی وراثت“ کے یوم پر ایک یہودی صحافی نے ان سے اسرائیل کے بارے ان کی رائے جاننا چاہی ۔ تھامس ہیلن نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”یادر کھیں ان لوگوں (اسرائیلی یہودیوں) نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے، یہ ان کی اپنیی سرزمین نہیں ہے، اسرائیلیوں کو فلسطین سے نکل جانا چاہئے، انہیں پولینڈ، جرمنی، امریکہ یا کہیں اور جانا چاہئے“۔ ہیلن کے یہ الفاظ امریکی یہودی لابی اور اسرائیل پر ایٹم بم بن کر گرے۔ آزادی اظہار رائے کے چمپئن ہیلن کے خلاف غلیظ اور گھٹیا الفاظ استعمال کرنے لگے۔ ان کے خلاف انٹرنیٹ پر درجنوں ویب سائٹس اور بلوگ پر شدید تنقیدی اور طعن وتشنیع پر مبنی کلمات شائع کئے گئے۔ ہیلن کو ”بوڑھی بدصورت عورت“ اور ”پاگل خبطی“ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ ایک یہودی نے لکھا کہ ”اس بوڑھی کو جو سٹھیا گئی ہے بہت پہلے ریٹائر ہوجانا چاہئے تھا“۔یہودیوں کے شدید دباؤ کے نتیجے میں ہیلن نے استعفی دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے کیریئر کو نہیں بچاسکی۔
تھلمس ہیلن کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ لوگوں کے ذہنوں سے ابھی محو نہیں ہوا تھا کہ گزشتہ دنوں اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ امریکہ میں پیش آیا۔ اوکتافیا نصر چند روز قبل تک امریکہ کے سب سے بڑے ٹیلیویژن نیٹ ورک سی این این سے ۲۰ سال سے وابستہ تھیں، بیروت میں پیدا ہونے والی اوکتافیا کا چہرہ ناظرین کے لئے کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ وہ اس قدر باصلاحیت تھیں کہ خود سی این این کی مینجمنٹ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی تھی ان کی ملازمت چینل سے اس وجہ سے ختم کردی گئی کہ انہوں نے سوشل ویب سائٹ ٹیوٹر پر اپنے ذاتی بلاگ میں ۴ جولائی ۲۰۱۰ء کو انتقال کر جانے والے حزب اللہ کے قائد محمد حسین فضل اللہ کی وفات پر ان کی تعزیت میں چند کلمات میں یہ تحریر کیا کہ ”انہیں انتقال کی خبر سن کر صدمہ پہنچا ہے، وہ حزب اللہ کے عظیم رہنماؤں میں سے ایک تھے اور میں ان کا بہت احترام کرتی تھی“۔ اوکتافیا نصر کا بیان ان کی جانب سے کسی سیاسی خیال کا اظہار نہیں، بلکہ محض تعزیت کا اظہار تھا۔ ان کے لکھے گئے صرف اس جملے سے سی این این میں موجود یہودی لابی سیخ پا ہوگئی اور اوکتافیا نصر کو اس قدر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سی این این نے ان سے کوئی وضاحت طلب کئے بغیر ان کو عہدے سے برطرف کردیا اور کہا کہ وہ سی این این کے معیار پر پوری نہیں اترتیں“۔
تھامس ہیلن کی جبری ریٹائرمنٹ اور اوکتایفیا نصر کی برطرفی امریکی معاشرے کے تضاد اور دو غلی پالیسی کو ظاہر کرتی ہے مغرب میں آزادی اظہار رائے کا مطلب ان کے خیالات ، نظریات، تہذیب وثقافت سے متفق ہونا ہے۔ وہ چاہے آزادی اظہار کے رائے کے نام پر انبیائے کرام کی توہین کریں انہیں کچھ نہ کہا جائے لیکن اگر ان کے نظریات کے خلاف کسی نے اظہار کردیا تو پھر اس کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔ مسلمان جب حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس کے خلاف شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں فیس بک پر کارٹون مقابلوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو امریکہ اور مغربی ممالک اسے ”آزادی اظہار رائے“ پر حملہ قرار دیتے ہیں، لیکن جب دوسری جانب اسی معاشرے میں کبھی اسرائیل یا یہودیوں پر ذراسی بھی تنقید ہوتی ہے تو یہ لوگ بھڑک اٹھتے ہیں اور یہ تنقید انہیں برداشت نہیں ہوتی۔
حال ہی میں پیش آنے والے یہ دوواقعات ثابت کرتے ہیں امریکہ کس قدر روشن خیال ، وسیع النظر اور وسیع القلب ہے اور اس میں تحمل اور برداشت کا مادہ کس قدر ہے۔ تھامس ہیلن اور اوکتافیانصر یہ اگر خود اپنے کیریئر سے ریٹائرہوجاتیں تو شاید دینا بھر میں انہیں اس قدر مقبولیت اور پذیرائی نہ ملتی ۔ آج یہ خواتین تاریخ کا ایک حصہ ب چکی ہیں اور انہیں نے اپنا نام تاریخ میں درج کرالیا ہے۔ آنے والی امریکی نسلوں سے دنیا بھر کے لوگ یہ سوال ضرور کریں گے کہ جب امریکہ میں رائے کے اظہار کی مکمل آزادی تھی تو پھر ان دو نامور خاتون صحافیوں کو ان کے حق سے محروم کیوں کیا گیا۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رمضان المبارک:۱۴۳۱ھ - ستمبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 9

    پچھلا مضمون: رمضان اور ذخیرہ اندوزی !
Flag Counter