Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۱ھ - جون ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

6 - 13
تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر !
تحدید نسل کامعروضی وفقہی پس منظر

موضوع کا تعارف

خاندانی منصوبہ بندی یا خاندان کی فلاح و بہبود کا مطلب یوں بیان کیا جاتا ہے کہ وسائل اور اخراجات کی اس طرح تنظیم کرنا کہ خاندان کے ہر رکن کو اس کے حقوق ملیں تاکہ وہ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے سایہ میں ارتقاء کی منازل طے کرے، گویا کہ خاندانی منصوبہ بندی وسائل اور مصارف کے درمیان توازن قائم کرنے کی سرگرمی کا نام ہے۔ اگر خاندانی منصوبہ بندی کا یہ مفہوم درست ہو تو اسے ملکی سیاست و مصلحت کا حصہ کہا جانا چاہیے، مگر امر واقعہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی یا خاندان کی فلاح و بہبود یا بہبود آبادی کا خوشنما وسیع عنوان ”ضبط ولادت “کے ذیلی عنوان میں جاکر سمٹ جا تا ہے ۔
چنانچہ مذکورہ عناوین کے تحت کوئی بھی پروگرام کسی بھی نیک و بد عنوان سے شروع کیا جائے، اس کا اختتام موانع حمل کی تدابیر و طریق کار پر ہوگا، اور پورا زور اس بات پر نظر آئے گا کہ معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کے لئے آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح میں اس حصے تک کمی لانا ہے کہ وسائل کی قدر آبادی کی شرح سے زیادہ رہے، جس کی واحد صورت یہ ہے کہ آبادی پر مضبوط رکاوٹ باندھی جائے اور والدین کم سے کم بچے پیدا کریں ، اب اس سلسلے میں اہم سوال میاں بیوی کے طبعی جذبات اور ضروریات کا بھی ہے تو اس کے لئے کئی تدابیر اور طریقے متعارف کر وائے جاتے ہیں، یہی دراصل خاندانی منصوبہ بندی کا ہدف ہے ، گویا خاندانی منصوبہ بندی ایسا تکون ہے جو۱:․․ تحدید نسل ( آبادی کا محدود ہونا) ،۲:․․․ضبط ولادت ( بچوں کی پیدائش میں وقف، بندش) ۳:․․․ اور ان دونوں کا بنیادی محرک( فقر و فاقہ ، معاشی بدحالی سے بچنے اور خوشحال ترقی یافتہ زندگی کی خاطر تحدید نسل اور ضبط ولا دت کے فلسفے کو اپنانا اور اجاگر کرنا) نتیجہ کے لحاظ سے خاندانی منصوبہ بندی کا ” بنیادی محرک“ مقدمہ اولیٰ ہے، آبادی کا کنٹرول مقدمہ ثانیہ ہے اور ضبط ولادت ( برتھ کنٹرول) ان دونوں کا لازمہ یا نتیجہ ہے۔
” خاندانی فلاح و بہبود“ کی سرگرمیوں کا محور چونکہ ضبط ولادت ہے ،اس لیے ہماری گفتگو کا محور بھی” ضبط ولا دت“ ہی رہے گا، البتہ منطقی استدلال کے تحت نتیجے سے قبل دونوں مقدموں کا مختصر جائزہ لینا بھی مناسب ہے، تاکہ عقل پرست طبقہ جان سکے کہ ” ضبط ولادت “کا موضوع اسلامی ہے یا نہیں؟
اس موضوع کی خدمت میں اگر اسلام کی روح پائی جاتی ہے تو دینی عناوین کے تحت اس موضوع کی خدمت کرنے والے اہل علم حضرات ، تبلیغ دین کا فرض نبہارہے ہیں ،ان کی کوششیں قابل ستائش ہونی چاہئیں، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر ایک تو ان اہل علم کو اپنے کردار پر نظر ثانی کر نی چاہیے ،دوسرے یہ کہ ان کی علمی کاوشیں اس تاویل و تحریف کے زمرے میں شمار ہو سکتی ہیں جن سے امت مسلمہ کو آگاہ کرنا علماء ربانیین کے فرائض میں شامل ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کا تاریخی و و اقعاتی پس منظر!
فقر و فاقہ ، معاشی بدحالی سے نجات یا بچاوٴ کے لئے اور خوشحال ترقی یافتہ زندگی گزارنے کی خاطر آبادی کو کم کرنے ،غذائی مواد واجناس اور آبادی کی رفتار میں تناسب قائم رکھنے کا نظریہ کب ،کیسے اور کیوں رواج پذیر ہو ا؟ فقہی پہلووٴں سے قبل اس کا جائزہ لیتے ہیں، چنانچہ آج سے تقریبا تین سو سال قبل ۱۷۹۸ء میں ٹامس رابرٹ مالتھس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا، جسے یہ غم دامن گیر تھا کہ جس رفتار سے انگلستان کی آبادی بڑھ رہی ہے، اگر آبادی کی یہی رفتار رہی تو آئندہ کچھ عرصہ میں آبادی کی شرح، غذائی پیداوار کی قدر کے مقابلے میں تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ نظریہ درحقیقت انتہائی نامعقول اور محض وہم تھا، اس لیے مالتھس کے ہم وطن اور ہم عصر دانشوروں نے اسے پذیرائی نہ بخشی ،بلکہ خود مالتھس نے اپنے نظریہ کو قابلِ ترمیم جانتے ہوئے ۱۸۰۳ء کو اپنے تحریری مقالے میں کچھ ترمیمات کیں۔ ۱۸۳۲ء کو اس نظریہ کے لازمہ اور نتیجہ ( مانع حمل) کی معقولیت و اہمیت سمجھانے کے لئے ایک امریکی فلاسفر ” چارلس کنولٹن “نے ایک پمفلٹ لکھ کر مشتہر کرنے کی کو شش کی، جسے اس کے معاشرے نے فحش اور ناشائستہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، بلکہ حکومتی کا رندے ضبط بھی کر لیا کرتے تھے، چنانچہ ۱۸۷۷ء میں اس قسم کے پمفلٹس بیچنے پر مقدمہ بھی چلا یا گیا ، مگر ہر دور میں اس نظریئے کو کہیں نہ کہیں سہارا ملتا رہا ، اسی اثناء میں ۱۸۷۸ء میں اس نظریہ کو ہالینڈ میں ایک کلینک قائم کرنے کی کامیابی حاصل ہوئی، پھر اس طرز کا ایک کلینک ۱۹۲۱ء کو لندن میں قائم ہوا۔
اسی طرح ۱۹۱۹ء میں” مارگریٹ سینگر“ نامی خاتون نے بروکلن ( امریکہ) میں اس نوعیت کا کلینک کھولا تو اسے پولیس نے بند کردیا ، مسز سینگر کو قید کردیا گیا ، مگر وہ دنیا کی سب سے پہلی تنظیم ”برتھ کنٹرول لیگ“ بنانے میں کامیاب ہو گئی، یوں رفتہ رفتہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور پابندیوں کا سلسلہ بھی بتدریج نرم ہوتا گیا اور مانع حمل تدابیر نے مستقل مشغلہ کی حیثیت اختیار کر لی۔ اور بلاخر ۱۹۳۶ء میں موانع حمل تدابیر ہر قسم کی پابندیوں سے مغرب کے ہاں قانوناً و مذہباً آزاد ہو گئیں، بلکہ آگے چل کر اس آزادی کو دسمبر ۱۹۶۷ء میں باقاعدہ بین الاقوامی موضوع کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں زیر بحث لا یا گیا اور ایک اسٹیٹ منٹ پالیسی طے کی گئی، اس موقع پر دنیا کے تقریبا ۱۲۶ ارکان نے شرکت کی، ۳۰ نے برتھ کنٹرول پالیسی پر دستخط کئے، جن میں دیگر چند اسلامی ممالک کے علاوہ پاکستان بھی شامل تھا (مستفاد ،از تفسیر ماجدی، از دریا آبادی ، نظرة الاسلام الی تنظیم النسل ، مدکتور، فقہی مضامین ، ڈاکٹر عبد الواحد صاحب ، فقہی مباحث ، قاسمی، ضبط ولادت۔)
پاکستان میں اس نظریہ کی آبیاری
سوئے اتفاق سے یہ پاکستان کے لئے وہ بد قسمت ایام تھے، جن میں” ادارہ تحقیقات اسلامی “ کے زیر عنوان ملحدین کی ایک جماعت اسلام کا جدید ایڈیشن تیار کرنے کی خدمت انجام دے رہی تھی، چنانچہ اس جماعت نے بھی اس موضوع (برتھ کنٹرول) کی خوب خوب خدمت کی اور مغرب کی نمک حلالی کا بھر پور حق ادا کیا اور اس موضوع پر انہوں نے اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے ایسے شرعی دلائل و حوالے بھی برآمد کر ڈالے ،جن کے ذریعہ اسلامی جمہویہ پاکستان کے دین دار معاشرہ کو مالتھس اور سینگر کا نظریہ عین اسلام باور کرانے میں مدد مل سکے، ” ادارہ تحقیقات اسلامی“ کی الحادی ٹیم یوں تو خود بھی تحریفات اور تاویلات باطلہ میں ماہرانہ اختصاص کی حامل تھی، اسے کسی اور سے تعاون کی قطعاً ضرورت نہ تھی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بالعموم مغرب کا فکری و عملی طوفان جب بھی اسلامی دنیا کی طرف امڈ تا ہے تو وہ” مصر“ سے اسلامی سر ٹیفکیٹ ساتھ لیکر آتا ہے، ” ادارہٴ تحریفات اسلام“ کی خوش قسمتی اور اہل اسلام کی بد قسمتی سے ضبط ولادت کے موضوع پر مصر کے ایک دکتور ۱۹۶۵ء میں اس موضوع کی بہت بڑی خدمت کرکے فارغ ہو چکے تھے ، جنہوں نے اس صیہونی نظریئے کو اس قدر زور دار طریقے سے ”اسلامی نظریہ“ باور کرانے کی کو شش کی کہ ادارہ تحقیقات والوں کی ضرورت بھی بتمام و کمال پوری ہو ئی، انہیں نئے اجتہادات کی زحمت سے مستغنی کردیا ” دکتور سلام مدکور مصری“ نے ضبط ولادت کے نظریئے کو اسلام کے ایک اہم جزء کی حیثیت سے سمجھانے کے لئے جتنی ممکنہ نصوص ہو سکتی تھی ان سے استشراقی اوزاروں کے ساتھ ایسے دلائل گھڑے ہیں کہ بعد والے تمام مجوزین کے لئے اب تک توشہٴ فساد بنا ہوا ہے۔ اپنے فکری پیروکاروں پر دکتور موصوف نے مزید کرم یہ بھی فرما رکھا ہے کہ تحدید نسل، ضبط ولادت اور آبادی پر رکاوٹ کی نفی کرنیو الی نصوص میں زبر دست تاویلیں بھی کردی ہیں
میرے خیال میں جو آدمی ، تحدید نسل کے صیہونی نظریہ کو اسلامی کہنے کے لئے بضد ہو ، دین اسلام میں تحریف کی حدود سے گھبراتا نہ ہو اور دین میں مداہنت اس کے ہاں معمولی چیز ہو وہ دکتور سلام مدکور کے استنبطات اور اس کی تاویلات کو لیکر ضبط ولادت ( تحدید نسل) کے فکر و عمل کو ” اسلامی“ کہہ سکتا ہے۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۱ھ - جون: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: موجودہ حالات اور اختلاف ِ رائے !
Flag Counter