Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۱ھ - جون ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

12 - 13
جنت کا راہی مولانا سعید احمد جلالپوری شہید :سیرت و کردار
جنت کا راہی مولانا سعید احمد جلالپوری شہید :سیرت و کردار

میرے والد محترم حضرت مولانا رشید احمد رحمة اللہ علیہ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فارغ التحصیل اور محدث العصرسید محمدیوسف بنوری نوّراللہ مرقدہ کے ابتدائی شاگرد اور بے حد عقیدت مند تھے،بچپن سے ہی ہر ماہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے ترجمان ماہنامہ ”بینات“ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کے پاس دیکھنے کو ملتا۔ انہیں ہر ماہ ”بینات“ کا شدت سے انتظار رہتا۔ جونہی ”بینات“ موصول ہوتا حضرت والد صاحب اس کا مطالعہ شروع فرما دیتے۔ اگر کہیں دیہات، گاؤں کا تبلیغی سفر ہوتا تو ”بینات“ تھیلے میں ڈال لیتے، یوں جب تک مضامین مکمل نہ ہوتے ،بینات ان کے ساتھ رہتا۔ بچپن سے ہی ”بینات“ سے ہی اُنس کی یہی وجہ تھی۔ والد صاحب کی اتباع میں زمانہٴ طالب علمی میں اور فراغت کے بعد ”بینات“ کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ بینات کے مطالعہ میں کبھی کبھی ”مولانا سعید احمد جلالپوری“ نامی ایک ہستی کا مضمون بھی نظر سے گزرتا، بس یہی مولانا سعید احمد جلالپوری شہید رحمہ اللہ سے پہلی شناسائی تھی۔
حضرت والد محترم کا پہلا بیعت و اصلاح کا تعلق قطب الارشاد حضرت مولانا محمدعبداللہ بہلوی رحمہ اللہ سے، بعدہ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ سے اور ان کی وفات حسرت آیات کے بعد حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید رحمة اللہ علیہ سے قائم ہوا، اور اس کے ساتھ حضرت مولانا محمدادریس انصاری رحمہ اللہ سے بھی کسب ِفیض فرماتے رہے۔ حضرت والد صاحب حضرت لدھیانوی شہید کی خدمت میں تشریف لے جاتے۔ واپس آ کر حالات ِسفر میں حضرت شہید کے رفیقِ خاص حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید کا بھی مدحیہ انداز میں تذکرہ فرماتے۔ یہ مولانا جلال پوری شہید رحمہ اللہ سے دوسری شناسائی تھی۔ ان دنوں ناکارہ کے دونوں گردے فیل ہو گئے۔ حضرت والد صاحب رحمة اللہ علیہ اور مولانا جلال پوری شہید رحمہ اللہ احقر کے بارے میں سخت فکر مند رہتے۔ دونوں حضرات نے تادمِ زیست میری صحت اور تندرستی کیلئے ڈھیروں دعائیں فرمائیں اور مختلف ممکنہ تدابیر اختیار کیں۔
حضرت والد محترم رحمة اللہ علیہ کے وصال کے بعد اُن سے رابطہ قوی سے قوی تر ہوتا گیا۔ ان کی شفقتیں اور عنایتیں موسلادھار بارش کی طرح برسنے لگیں۔ کراچی حاضری کے موقع پر احقر نے انہیں جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کی سرپرستی اورمجلسِ شوریٰ کی رکنیت قبول کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے ازراہِ شفقت فوراً میری اس درخواست کو قبول فرما لیا۔ چنانچہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۰ء اپنی شہادت تک پوری ذمہ داری سے اس فرض کو نبھایا اور ہر موقع پرہماری سرپرستی فرمائی اور ان دس سالوں میں ہر سال کراچی سے طویل و اور دور دراز کا سفرطے کرکے مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شریک ہوتے ۔ ان دس سالوں میں حضرت شہید سے بیسیوں ملاقاتیں ہوئیں، ان کے ہمراہ دسیوں اسفار ہوئے، متعدد شب و روز ان کے ساتھ گزرے، گویا احقر نے انہیں نہایت ہی قریب سے دیکھا، پَرکھا اور جانچا، یقینا ان کی خلوت ،جلوت سے اور جلوت، خلوت سے منفرد نہ تھی۔ وہ زبان کے سچے، عمل کے پکے، کردار کے دھنی، زبان و قلم کے بادشاہ، علمی وثوق، تواضع وانکساری، خدمت ِخلق، انابت الی اللہ اور اصابت رائے رکھنے والے ہمہ جہت انسان تھے۔ وہ بہترین مدرس، فکر انگیز خطیب وواعظ، بلا کا زورِ قلم رکھنے والے ادیب و صحافی، لوگوں کے دلوں کی دنیا بدل دینے والے شیخ و مُرشد، کفر و الحاد و زندقہ اور فتنوں سے لڑنے والے بے تیغ سپاہی اور مجاہد، اپنے اکابر ، اساتذہ اور مشائخ کے گرویدہ، عوام الناس بالخصوص دینی طبقہ کے دکھ درد پر تڑپ جانے والے سماجی کارکن، صلہ رحمی کے پیکر، ملک و ملت کے عظیم ہمدرد، مدبر اسکالر، قرآن و سنت کے حامل، فقہ کے ماہر، عبادت گزار، شب بیدار، ذاکر ، صابر ، شاکر، عاشقِ رسول، دیوانہٴ اصحاب و اہلِ بیت ِرسول ا اور ولایت کے منصب پر فائز نابغہٴ روزگار ہستی تھے۔ گیارہ سالہ طویل رفاقت میں احقر نے جو کچھ ان کی ذات میں دیکھا اور پایا بلامبالغہ اسے زیب ِقرطاس کیا جاتا ہے:
حسنِ اخلاق
حسنِ اخلاق دین کا عظیم شعبہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقِ عالیہ کے خوگر تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجسمہٴ اخلاق بنایا تھا ، ارشادِ خداوندی ہے:
انک لعلٰی خلقٍ عظیم۔ (القلم: )
”اور یقیناً تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پرہو“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
خیارکم احسنکم اخلاقًا… (الحدیث)
”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔“
اور ایک موقع پر فر مایا:
بعثت لاتمّم مکارم الاخلاق… (الحدیث)
”میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں“۔
حضرت جلالپوری شہید رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ اخلاق کی دولت ِبے بہا سے سرفراز فرمایا تھا۔ ان سے ملاقات کرنے والے اجنبی بھی جب ان سے ملتے تو محسوس کرتے کہ شاید مولانا ان سے پہلے متعارف ہیں۔ مصروفِ عمل لوگ عوامی ملاقاتوں، مصافحوں سے مجتنب رہتے ہیں، ایسے حضرات کو خلافِ خواہش اگر کبھی لوگوں کا سامنا ہو جائے تو عموماً ان کے چہروں پر خندہ پیشانی کی بجائے تلخی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، مصافحہ بھی بمشکل خلافِ سنت ایک ہاتھ بلکہ کبھی نصف ہاتھ اور انگلیوں سے کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی کے مدعیٰ کو سن کر اس کو پورا کرنا، مشورہ دینا تو ان کے نفیس مزاج کے ہی خلاف ہوتا ہے، اس لیے لوگ ان سے اور وہ عوام الناس سے دور رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حلقہٴ احباب مخصوص اور خواص کا ہوتا ہے، عوام کی ان تک رسائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے۔
حضرت جلالپوری شہید مصروف تر ہونے کے باوجود عوام و خواص میں یکساں مقبول، ہر ایک سے میل جول رکھنے اور ہر ایک کے دکھ سکھ میں ساجھی رہنے کے عادی تھے۔ اوقات ِ ملاقات میں ان سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ ان کے دفتر میں نہ کوئی دربان ہوتا اور نہ ہی ان کا کوئی سیکرٹری، جو بھی ان سے ملنے آتا بلا تردّد چلا آتا۔ حضرت سبھی سے خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ دونوں ہاتھوں سے گرم جوشی سے مصافحہ فرماتے، مخصوص انداز میں ”خیریت سے ہیں؟“ کا محبت بھراجملہ تکلم فرماتے اور مدعا پوچھتے۔ اگر مسئلہ کا حل بس میں ہوتا تو فوراً حل فرما دیتے۔ مشورہ طلب امر میں نہایت ہی مدبرانہ اور مصیب مشورہ سے نوازتے، اگر کسی جاننے والے کے بس میں مسئلہ کا حل ہوتا تو اسے خط تحریر فرماتے یا فون فرما دیتے۔ ناصحانہ انداز میں اصلاح بھی فرماتے رہتے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا بھی خاص ملکہ عطا فرمایا تھا، آپ نے ہمیشہ اپنے خاندان، قبیلہ کی سرپرستی فرمائی۔ اپنے خاندان کے بچوں اور بچیوں کو زیورِ علم سے آراستہ فرمایا، آپ کی برکت سے آپ کے خاندان کے ۲۱/افراد حافظ، قاری، عالم، مفتی ، حافظات و عالمات بنے۔ یہ تعداد آپ کے بیٹے و بیٹیاں، بھتیجے اور بھتیجوں اور قریبی عزیزوں اور عزیزات کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں مہمان نوازی کا بھی خوب سلیقہ عطا فرمایا تھا، ہر آنے والے کی اس کی حیثیت اور رتبہ کے مطابق مہمان نوازی فرماتے۔ ان کا دسترخوان نہایت ہی وسیع تھا۔ اہلِ علم و فضل اور اہلِ تقویٰ کے لئے تو اہتمام سے اپنے گھر پُرتکلف کھانا تیار کرواتے اور اپنے مختصر سے گھر میں نہایت ہی شاندار دسترخوان سجا کر انواع و اقسام کے کھانوں سے ضیافت فرما کر خوشی اور گرم جوشی کا اظہار فرماتے۔ ان کی شفقتیں اپنوں، پرایوں سبھی کے ساتھ ہوا کرتی تھیں۔ ہر ایک انہیں اپنا سمجھتا اور ہر ایک کی ان کے بارے میں یہی رائے ہوتی کہ حضرت سب سے زیادہ مجھ سے شفقت فرماتے ہیں۔
علمی تعمق
حضرت مولانا سعید احمد جلالپوری شہید رحمہ اللہ محض سطحی یا رسمی عالم نہ تھے، بلکہ ثقہ اور راسخ فی العلم عالمِ ربانی تھے، آپ کی علمی صلاحیتیں آپ کی تقریر و تحریر سے عیاں ہیں۔ آپ مطالعہ کے خوگر تھے،آپ کے دفتر اور ذاتی کتب خانہ میں ہزاروں کتابوں کا ذخیرہ آپ کے سامنے رہتا۔آپ کے مطالعہ کا دائرہ بھی محدود نہیں بلکہ غیر محدود تھا۔ تفسیر، حدیث، فقہ اسلامی، تقابلِ ادیان، تصوف، منطق و فلسفہ، علم بیان، علم عروض و قوافی، علمِ ادب، بین الاقوامی حالات، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، معاشیات، قومی جرائد و رسائل سمیت بہت سے موضوعات ان کے زیر مطالعہ رہتے اور انہیں ان سب موضوعات پر مہارتِ تامہ حاصل تھی۔
انٹرنیٹ پر چلنے والے ویب سائٹس مفید بھی ہیں اور غیر مفید بھی، بعض ویب سائٹس اسلام اور دین کے نام پر ضلالت و گمراہی پھیلا رہی ہیں اور لوگ ان کا شکار ہو کر ارتداد و الحاد کی کھائیوں میں جا گرتے ہیں، حضرت شہید اس سلسلہ میں بے حدفکر مند رہتے، انہوں نے اپنے متعلقین کی ایک جماعت کو ایسی سائٹس کی نگرانی اور بروقت اطلاع دینے پر مامور کیا ہوا تھا۔ حضرت شہید ایسی سائٹس کے مواد کا مطالعہ کر کے ان کا بھرپور علمی تعاقب فرماتے۔ ان کے علمی ذوق کا اندازہ ان کے مضامین سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایک حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط اور احادیث کی عصر حاضر پر تطبیق، ان کے مضامین اور تصانیف کی خصوصیت تھی۔
وہ اپنے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی طرح فقاہت کی دولت سے مالا مال تھے۔ روزنامہ جنگ کے اسلامی صفحہ اقراء کے مقبول عام سلسلہ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کے ذریعے امت کو ان کے شیخ اور پھر ان کے علمی و فقہی کمالات ہنوز بھی پہنچ رہے ہیں۔ اپنی حیات مستعار کے آخر میں انہوں نے ”بینات“ کے ادارتی صفحہ پر مسئلہ ”غدیر خم“ میں امام غزالی رحمہ اللہ کی جانب منسوب ایک عبارت جس سے رفض کا مسلک ثابت ہوتا ہے اور یہ عبارت امام غزالی کی طرف منسوب ایک رسالہ ”سر العالمین“ میں مذکور ہے، پر تفصیلی و وقیع علمی مقالہ ذکر فرمایا جو اہلِ علم و اہلِ تحقیق کے لئے بلاشبہ خاصے کی چیز ہے۔ اس مقالہ سے متعلق حضرت شہید رحمہ اللہ نے راقم الحروف کو اپنی شہادت سے ایک ماہ قبل شجاع آباد تشریف آوری پر ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنے سوال نامہ میں یہ تحقیق بھیجی اور اس شیعی موقف کو امام غزالی کی کتاب اور ان کی جانب منسوب کیا گیا تھا، جس پر مجھے کافی کتب کھنگالنا پڑیں، بالآخر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب ”تحفہ اثنا عشریہ“ کے باب”مکائد شیعہ“ میں مجھے یہ بات دریافت ہوئی کہ روافض اپنے نظریات کے شیوع کے لئے بعض کتب اپنی جانب سے تحریر کر کے اہل سنت کے اکابر کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں، اور اس کی مثالوں میں انہوں نے امام غزالی کی طرف منسوب مذکورہ رسالہ کا بھی حوالہ دیا۔ لہٰذا انہوں نے اپنے اس مقالہ میں ثابت فرمایا کہ غدیر خم میں خلافت ِعلی (بلافصل) سے متعلق امام غزالی رحمہ اللہ کی جانب منسوب تحقیق بالکل غلط اور امام غزالی کی طرف اس تحقیق کی نسبت امام غزالی رحمہ اللہ پر بہتانِ عظیم ہے۔ اس طرح کی ڈھیروں علمی جواہر وہ اپنی تقریر و تحریر میں بکھیرتے رہتے تھے۔
زہد و تقویٰ
اللہ تعالیٰ کو وہی علم قبول و پسند ہوتا ہے جو برائے عمل ہو، بلاشبہ علم بلا عمل وبال اور عمل بلاعلم ضلال اور علم و عمل کا اجتماع کمال ہوتا ہے۔ حضرت جلال پوری شہید رحمہ اللہ جبلِ علم ہونے کے ساتھ اعمالِ صالحہ اور اتباعِ سنت کے خوگر تھے۔ عبادات، معاملات، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں وہ تقویٰ کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ اپنے شیخ حضرت لدھیانوی شہید نوّراللہ مرقدہ کی زیر تربیت رہ کر انہوں نے جو معمولات سیکھے تھے تادمِ زیست ان پر مضبوطی سے کاربند رہے۔
باجماعت نماز کا اہتمام، نوافل (اشراق، اوابین وغیرہ) کی پابندی، شب بیداری، تلاوتِ قرآن کریم، التزامِ ذکراللہ، ادعیہ مسنونہ، مناجاتِ مقبول کی سلسلہ وار منزلوں کی تلاوت، ذریعة الوصول سے ماثور درود شریف کا ورد ،ان کے سفر و حضر کی زندگی کا جزوِ لاینفک تھا۔ احقر کو حضرت شہید کے ساتھ متعدد اسفار کی سعادت حاصل ہوئی، ان طویل و عریض اسفار میں رات کو سخت تھکان کے ساتھ نصف شب یا اس کے بعد بھی آرام کا موقع ملا، لیکن آخر شب میں شب بیداری اور نمازِ تہجد کا معمول، جماعتِ فجر، بعد فجر تلاوتِ قرآن کریم، اذکار و اوراد کا معمول ان سے ترک ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ اپنے اسفار میں اپنے مختصر سے سامان میں قرآن مجید ، مناجاتِ مقبول اور مضمون نویسی کے لئے قلم و کاغذ ضرور ساتھ رکھتے۔ انہیں فارغ اوقات میں ایئرپورٹ کا لاؤنج ہو یا کسی کا مہمان خانہ،اورادو اذکار یا علمی مضامین کی تالیف و تصنیف یا علمی مذاکرہ کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب مطہر کو ایسا صاف و شفاف آئینہ بنایا تھا کہ اس آئینہ شفاف پر حسد و بغض کا کوئی داغ و دھبہ نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے حاسدین کے ساتھ درگزر اور دعاگوئی کا معاملہ فرماتے۔ غیبت و چغلی سے کوسوں دور اور مشکوک و مشتبہ معاملات سے ہمیشہ محترز رہتے۔ اپنی مجلس میں بھی غیبت گوئی سے منع فرما دیتے۔
ان کے زہد کا یہ عالم تھا کہ زندگی بھر نہ کوئی جائیداد بنائی اور نہ ہی بینک بیلنس، دوسروں کی ضروریات کا مستقل بیڑا اُٹھانے والے یہ زاہد و پارسا بزرگ جب اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو بقول ان کے برادرِ اکبر حضرت مولانا رب نواز صاحب زید مجدہ سات لاکھ روپے کی خطیر رقم کے مقروض تھے، اور جنازہ ایک مختصر سے کرایہ کے فلیٹ سے نکلا۔ گویا کہ دنیا سے جاتے ہوئے بھی وہ اتباعِ سنت سے پیچھے نہ رہے۔ بخاری شریف میں مذکور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دارِ فانی سے پردہ پوش ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۰ صاع جَو ایک یہودی سے قرض لے کر اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی۔ اتباعِ سنت علماء دیوبند کا طرہٴ امتیاز ہے۔ حضرت شہید رحمہ اللہ کے ہر عمل سے اتباعِ سنت کا رنگ جھلکتا تھا۔
حضرت جلالپوری شہید قدّس سرہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کا بھی خوب مزا چکھایا تھا۔ حُبّ خداوندی اور حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ سال میں دو مرتبہ حرمین شریفین کی حاضری ان کا معمول تھا۔ یورپ کے اسفار میں بھی آتے یا جاتے وہ عمرہ کی سعادت ضرور حاصل فرما لیتے۔ ایک مرتبہ احقر سے ارشاد فرمایا کہ ہمارے حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کا معمول مبارک تھا جب وہ نئی کتاب لکھتے تو کتاب کو ساتھ لے کر بیت اللہ شریف کا طواف فرماتے اور روضہٴ اطہر پر حاضری دیتے۔ اس طرح کتاب میں مقبولیت پیدا ہوتی۔ غالباً حضرت نے بھی اس معمول کو جاری رکھا۔ محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ”ختمِ نبوت“ کے ساتھ ان کی والہانہ وابستگی کا سبب تھی۔ محبت ِرسول میں استغراق کی وجہ سے خلافِ سنت ہر عمل انہیں غضبناک کر دیتا۔ مقطوع اللحیہ یا محلوق اللحیہ حضرات کے چہرہ اور ٹھوڑی پر ہاتھ پھیر کر فرماتے ”میاں ڈاڑھی نہ منڈوایا کرو“ قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ یہ شفیقانہ جملے لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتے۔ بیسیوں لوگ آپ کی اس ناصحانہ درخواست پر تائب ہو کر متبعِ سنت بن گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید لباس پسند تھا۔ اس لئے حضرت شہید بھی سفید لباس پسند فرماتے، ایک دوست کی روایت کے مطابق ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں ایک سوٹ ہدیہ پیش کیا، سوٹ سفید نہ تھا، حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ہدیہ قبول ہے لیکن اسے خود نہیں پہن سکوں گا ،اس لیے کہ یہ سوٹ سفید نہیں ہے۔
سلوک و احسان
تزکیہٴ نفس، احسان و سلوک دین کا ایک شعبہ اور صاحبانِ خدا کا ہمیشہ سے پسندیدہ عمل رہا ہے۔ یہی تصوف و سلوک اخلاص اور احسان کی منازل طے کراتا ہے۔ احسان و سلوک کی لائن حضرت شہید رحمہ اللہ کو اپنے والد محترم حضرت جام شوق محمد رحمة اللہ علیہ سے ملی۔ حضرت کے والد محترم حضرت مولانا محمد موسیٰ نقشبندی جلالپوری اور قطب الارشاد حضرت مولانا محمدعبداللہ بہلوی رحمہما اللہ سے مجاز تھے۔ حضرت جلال پوری شہید رحمہ اللہ نے بھی اپنا اصلاحی تعلق قطب الارشاد حضرت مولانا محمدعبداللہ بہلوی رحمة اللہ علیہ سے قائم فرمایا۔
حضرت شہید کے برادرِ اکبر قاری فاروق احمد صاحب راوی ہیں کہ قطب الارشاد حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی رحمة اللہ علیہ ان کے والد محترم حضرت جام شوق محمد صاحب کی دعوت پر آپ کے گھر تشریف لائے۔ اس موقع پر بہت سے احباب حضرت کے ہاتھ پر بیعت کر کے توبہ کر رہے تھے، حضرت نقشبندی طریقہ کے مطابق ہر ایک کے قلب پر انگلی رکھ کر اللہ اللہ فرماتے۔ حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری ابھی کم سن اور نوعمر بچے تھے، والد گرامی سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ والد گرامی قدر نے فرمایا یہ لوگ اللہ اللہ سیکھ رہے ہیں۔ اس پر مولانا شہید فرمانے لگے میں نے بھی یہ کام کرنا ہے۔ چنانچہ انہیں حضرت بہلوی کی خدمت میں پیش کیاگیا۔ حضرت نے قلب پر انگلی رکھی، توجہ فرمائی تو ساتوں لطائف جاری ہو گئے۔ سچ ہے کہ بزرگوں کی نظر مٹی کو سونا اور سونے کو کندن بنا دیتی ہے۔
حضرت بہلوی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے طریقت کے ساتھ شریعت کا بھی امام بنایا تھا۔ حضرت بہلوی رحمہ اللہ کے علوم قرآن سے ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا۔ حضرت جلالپوری شہید رحمہ اللہ نے حضرت کے ہاتھ پر بیعت بھی فرمائی اور ان سے دورہٴ تفسیر قرآن کریم بھی پڑھا۔ یوں تلمذ اور استرشاد کا حسین امتزاج ہو گیا۔
شیخ سے محبت راہِ تصوف کی شرطِ اول اور استفادہ کی پہلی سیڑھی ہے۔ آپ کو اپنے شیخ حضرت بہلوی سے بے پناہ محبت تھی۔ شیخ کے ساتھ اسی کامل محبت کا نتیجہ تھا کہ آپ تواضع، انکساری اور قرآنی بصیرت میں اپنے شیخ اول کا پَرتو اور عکس تھے۔ شجاع آباد تشریف آوری پر ہمیشہ اپنے شیخ کے مزار پر حاضری دیتے۔ اپنے شیخ کے خاندان اور اہلِ تعلق کی زیارت و خدمت فرماتے۔ حضرت شیخ مولانا محمدعبداللہ بہلوی رحمة اللہ علیہ کے حالات ِزندگی اجمالاً ہمارے بعض اکابر نے تحریر فرمائے تھے، حضرت بہلوی نے خود بھی ”رحمت صمدانی“ میں اپنے کچھ حالات جمع فرمائے تھے، لیکن حضرت کے متعلقین اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس فرما رہے تھے کہ حضرت بہلوی رحمہ اللہ کے تفصیلی حالات جمع کئے جائیں۔ حضرت مولانا جلال پوری شہید رحمہ اللہ نے نہایت ہی عرق ریزی کے ساتھ اپنے شیخ کے حالات ِزندگی پر ایک تفصیلی مقالہ تحریر فرمایا جو حضرت شہید کی تصنیف ”بزمِ حسین“ کی جلد اول میں اور معارفِ بہلوی کے مقدمہ میں طبع ہو چکا ہے۔
حضرت بہلوی نے اپنی حیات مبارکہ میں قرآن مجید کی تفسیر ، فنِ حدیث میں ”مستدلات الفقہ الحنفیہ“ اور اصلاح و سلوک میں متعدد رسائل تصنیف فرمائے، یہ رسائل مرورِ زمانہ کے ساتھ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہو گئے تھے۔ پھر ان رسائل میں پرانی اردو اور نہایت ہی مشکل علمی اسلوب اختیار کیا گیا تھا، جن سے استفادہ ہر خاص و عام کے لیے مشکل تھا۔ حضرت جلال پوری شہید رحمہ اللہ نے اپنے شیخ کے علوم و معارف کو عام کرنے کے لئے نہایت جانفشانی سے ان رسائل کو ملک کے مختلف حضرات سے حاصل فرمایا ، پھر ان کی تسہیل فرمائی اور ”معارفِ بہلوی“ کے نام سے چار جلدوں میں مرتب فرمایا، جسے مکتبہ لدھیانوی کراچی نے شائع کر دیا ہے اور اس کے ایک سے زائد ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لے لئے گئے ہیں۔ اس کتاب نے اہلِ علم و فضل سے خوب داد و تحسین حاصل کی ہے۔
حضرت بہلوی رحمہ اللہ کی حدیث کی کتاب ”مستدلات الفقہ الحنفیہ“ بھی اہلِ علم کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ حضرت بہلوی کے سلسلہ کے ایک عالم ربانی حضرت مولانا ضیاء الرحمن ارشد جلالپوری رحمہ اللہ نے اس کتاب پر محنت فرمائی ،اس کی مکمل تخریج اور ایک مبسوط مقدمہ کے ساتھ بیروت سے طبع فرمائی۔ حضرت مولانا ضیاء الرحمن ارشد رحمة اللہ علیہ صرف ایک نسخہ پاکستان اپنے ہمراہ لائے تھے کہ ان کا اچانک انتقال ہو گیا ، احقر بھی ان دنوں سفر پہ تھا، جنازہ میں شرکت سے محرومی ہوئی، بعد میں تعزیت کے لئے مولانا مرحوم کے گھر بہادرپور جلالپور پیروالا ضلع ملتان حاضری دی تو ان کے صاحبزادگان اور بھائیوں نے یہ کتاب دکھائی جو نہایت ہی نافع، مفید اور دیدہ زیب محسوس ہوئی۔ حضرت جلالپوری شہید رحمہ اللہ کو مولانا کی وفات حسرت آیات کی فون پر اطلاع دی اور ساتھ ہی کتاب کا تذکرہ کیا۔ حضرت شہید رحمہ اللہ اپنے سفر پنجاب میں تعزیت کے لیے احقر کے ہمراہ بہادرپور تشریف لے گئے۔ مولانا مرحوم کے والد محترم اور صاحبزادگان سے اظہارِ تعزیت فرمایا اور کتاب کا تقاضا فرمایا۔ کتاب منگوا کر دیکھی اور اسے سراہا، بعد میں قطر سے اسی کتاب کے چار نسخے منگوائے اور اپنے شیخ کی اس کتاب کو پاکستان میں بھی اپنے ذاتی مصارف سے طبع فرما دیا۔
حضرت بہلوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد حضرت شہید رحمہ اللہ نے اپنا ہاتھ حضرت اقدس مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید نوّراللہ مرقدہ کے ہاتھ میں دے دیا اور پھر ہمیشہ کے لئے اپنے شیخ کے رفیق و مصاحب بن کر خرقہٴ خلافت حاصل فرمایا۔ یہ رفاقت و محبت ایسی کامل ہوئی کہ عالمِ دنیا کے ساتھ عالمِ برزخ میں بھی قائم رہی اور انشاء اللہ آخرت میں بھی ضرور قائم رہے گی۔ حضرت لدھیانوی شہید نے بھی ہمیشہ آپ کو اپنی شفقتوں اور توجہات سے نوازا۔ صوفیاء کرام کی اصطلاح میں توجہ کی چار قسمیں ہیں:
۱․․․ انعکاسی ۲․․․ القائی ۳․․․․صلاحی ۴․․․․․ اتحادی
ان چار اقسام میں سے کامل توجہ ”توجہ اتحادی“ ہوتی ہے، جس کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ شیخ اپنے مرید پر ایسی توجہ ڈالتا ہے کہ مسترشد پر شیخ کا کامل رنگ چڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ مسترشد اپنے شیخ کا عکس اور مثل بن جاتا ہے۔ جیسے حضرت خواجہ باقی باللہ رحمہ اللہ نے اپنے نان بائی مرید کو شیخ کے مہمانوں کی خدمت کرنے پر خوش ہو کر فرمایا :مانگ کیا مانگتا ہے؟ اس نے کہا :مجھے اپنے جیسا بنا دیجئے۔ آپ نے فرمایا ”تُو اس کا متحمل نہیں ہو سکے گا“ لیکن اس کے بار بار اصرار پر شیخ اسے کمرے میں لے گئے اور توجہ اتحادی فرمائی، جب باہر نکلے تو دونوں ایسے ہم شکل ہو گئے کہ پہچان مشکل ہو گئی۔ بس یہی ایک فرق رہا کہ خواجہ صاحب پُرسکون تھے اور مرید مضطرب و پریشان۔ بالآخر مرید اس مقام کا تحمل نہ کر سکا اور تین دن بعد دنیا سے رخصت ہو گیا۔
مولانا جلال پوری شہید رحمہ اللہ کو غالباً حضرت لدھیانوی شہید سے توجہ اتحادی میسر ہوئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چال، ڈھال، حال و قال، تقریر و تحریر، طرزِ حیات اور بالآخر طرزِ وصال اور پھر کفن دفن، جنازہ وغیرہ میں بھی وہ حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کا عکس و نمونہ بن گئے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جن لوگوں نے مولانا لدھیانوی شہید کی زیارت و رفاقت اختیار کی اور پھر مولانا جلال پوری شہید کی رفاقت میں بھی رہے، ان کا بیان ہے کہ دونوں بزرگوں کی تقریر، اندازِ تقریر، تحریر، مضمونِ تحریر، مزاج و مذاق میں مکمل یک رنگی نظر آتی تھی، حتیٰ کہ مولانا شہید کے کُرتے کا سائز بھی مولانا لدھیانوی شہید  کے کرتے کے سائز جیسا ہی ہو گیا۔ مولانا لدھیانوی شہید کی جملہ دینی مساعی ان کے حصہ میں آئیں، جملہ مناصب پر وہ اپنے شیخ کا عکس نظر آتے، حتیٰ کہ دونوں بزرگوں کا یومِ شہادت، طریقِ شہادت، رفقاءِ شہادت میں بھی یکسانیت ہو گئی۔ عجب اتفاق ہے کہ مولانا لدھیانوی کے ڈرائیور کا نام عبدالرحمن تھا، وہ حضرت کے ساتھ شہید ہوئے اور انہی کے ساتھ دفن ہوئے، ایسے ہی مولانا جلالپوری شہید کے ڈرائیور عبدالرحمن بھی آپ کے ساتھ شہید ہوئے اور دفن ہوئے۔ دونوں بزرگوں کا جنازہ بنوری ٹاؤن میں ادا کیا گیا، شیخ اور مرید دونوں کو مسجد خاتم النبیین میں دفن کیا گیا، دونوں کو دنیوی رفاقت کے ساتھ برزخی رفاقت نصیب ہو گئی۔
حضرت مولانا جلال پوری شہیدنے اپنے شیخ حضرت لدھیانوی شہید نوّراللہ مرقدہ کی شہادت کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کے نامکمل کام مکمل فرمائے بلکہ صحیح معنوں میں ان کی جانشینی کا حق ادا فرمایا۔ انہوں نے مولانا لدھیانوی شہید کے ساتھ حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید رحمہ اللہ اور مولانا نذیراحمد تونسوی شہید رحمہ اللہ کے چھوڑے ہوئے ادھورے کام بھی آگے بڑھائے۔ بینات کی ادارت ہو یا حضرت کی خانقاہ کی مسند، فتنوں کا تعاقب ہو یا علمی خدمات، دارالافتاء ختم نبوت کی مسند ہو یا روزنامہ جنگ کے اسلامی صفحہ میں ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ ، ختم نبوت کا مشن ہو یا ناموسِ صحابہ کا دفاع، سلف بیزاری کے خلاف تلوار کی دھار رکھنے والا تیز قلم ہو یا قومی اخبارات کے ادارتی صفحوں پر حق کی جنگ، اقراء روضة الاطفال کی سرپرستی ہو یا مدارسِ دینیہ کی خدمت، وہ ان تمام مشنوں میں اپنے پیش روشہداء کے صحیح جانشین ثابت ہوئے۔
حضرت جلال پوری شہید رحمہ اللہ نے اپنے شیخ حضرت لدھیانوی شہید کی شہادت کے بعد ہمہ صفت کمالات کے حامل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اپنے اکابر کا محتاج گردانا، چنانچہ انہوں نے اپنا اصلاحی تعلق امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمة اللہ علیہ سے قائم فرمایا اور مسلسل کسبِ فیض کے لئے آمد و رفت کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ سال میں کئی مرتبہ کراچی سے گکھڑ منڈی کا طویل و عریض سفر فرما کر اپنے شیخ کی خدمت میں حاضری دیتے۔ حضرت امام اہل سنت بھی اپنے اس مسترشد کے کمالات کو بھانپ گئے اور جو فیض حضرت نے رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حاصل فرمایا تھا وہ نقشبندی سلسلہ حضرت مولانا جلال پوری شہید کی طرف جاری فرما کر انہیں خلافت سے سرفراز فرمایا۔
مولانا جلال پوری شہید کا امام اہل سنت سے تعلق ان کے وصال تک برابر رہا، ایک سفر میں راقم الحروف بھی حضرت جلالپوری شہید کے ساتھ حضرت امام اہل سنت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ انہیں خلافت و اجازت تو دے چکے تھے، حضرت جلال پوری شہید کو حضرت کے ان ایامِ مرض کے شرفِ تلمذ کا بھی اشتیاق ہوا۔ چنانچہ اپنے شیخ کے کمرہ کی الماری سے تفسیر قرآن اور قرآنی ربط پر عربی کتاب ”نظم الدرر“ کی ایک جلد نکالی اور اس کی عبارت حضرت کے سامنے پڑھنا شروع کر دی۔ حضرت کتاب سنتے رہے ، یہ قرأة التلمیذ علی الشیخ کی صورت تھی، جس سے علمِ تفسیر کی نسبت بھی امام اہل سنت سے حضرت جلالپوری شہید کی طرف منتقل ہو رہی تھی۔ حضرت جلال پوری شہید نے اس اعزاز میں احقر کو بھی شریک فرمایا اور احقر نے بھی کتاب کا ایک حصہ حضرت امام اہل سنت کے سامنے پڑھا۔
حضرت جلال پوری شہید صحبت ِصالحین کے لئے بے تاب رہا کرتے تھے۔ چنانچہ اپنے وقت کے گرامی قدر صلحاء کی خدمت میں حاضری اور کسبِ فیض کا سلسلہ جاری رکھتے۔ وہ سراج السالکین حضرت خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم سے بھی متعلق ہو گئے، اس سلسلہ میں وہ تاحیات خانقاہ سراجیاں حضرت کی خدمت ِ اقدس میں حاضری دیتے رہے، حتیٰ کہ اپنی شہادت سے تقریباً ایک ہفتہ قبل وہ اپنے موجودہ شیخ حضرت خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم سے الوداعی ملاقات کر کے واصلِ حق ہوئے۔
حضرت شہید کو سید السادات حضرت سید انور حسین نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ سے بھی بے حد عقیدت تھی۔ ان کی خدمت میں حاضری کا شرف ہمیشہ حاصل کرتے رہے۔ انہیں اپنی علمی خدمات سے بھی مطلع فرماتے۔ کام کے سلسلہ میں مشورے بھی حاصل فرماتے اور ہمیشہ ان سے دعاؤں کے طلب گار رہتے۔ ایک سفر میں احقر بھی حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حضرت شہید کے ہمراہ تھا، احقر کا اصلاحی تعلق بھی حضرت شاہ صاحب سے تھا، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنی مجلس کو موقوف فرما کر اپنا پورا وقت اور توجہات حضرت جلال پوری شہید کو مرحمت فرمائیں۔ گھنٹوں یہ ملاقات جاری رہی۔ حضرت شہید نے حضرت لدھیانوی شہید کے فتنوں کے خلاف چند مضامین اور مولانا عبدالعزیز پرہاروی رحمہ اللہ کی دفاعِ سیدنا امیرمعاویہ پر کتاب ” الناہیہ عن طعن معاویہ “کا ترجمہ (حضرت لدھیانوی شہید) یکجا کر کے طبع کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا، اس کے نام کے سلسلہ میں بھی حضرت شاہ صاحب سے مشورہ فرمایا۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ:۱۴۳۱ھ - جون: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: اسلام اور اس سے صحیح فائدہ اٹھانے کا راستہ !
Flag Counter