Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ - اپریل ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

7 - 12
صحابہ کرام  کی نبی کریم ﷺسے محبت !
صحابہ کرام  کی نبی کریم ﷺسے محبت


اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت دوسروں کی نسبت زیادہ تھی ، اس لیے کہ یہ محبت مشاھدے اوردیکھنے کی تھی ، اور دیکھنااور سننا برابر نہیں ، (شنیدہ کے بود مانند دیدہ)
یہاں تک کہ جو حضرات آخر میں اسلام لائے ، وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فضل و کمال کے معترف تھے ، کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال اورآپ کی نبوت کے دلائل کاخود مشاہدہ کیا تھا ۔ لیکن ان کیلئے قبول حق سے جو چیز رکاوٹ بنی ،وہ حمیتِ جاہلیت اور اپنے باپ دادوں پر فخر کرنا تھا ،لیکن جوں ہی اس حمیت کا پردہ چاک ہوا، وہ ایمان لے آئے ، اور ان کا ایمان بھی عظیم ایمان تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی محبت بھی عظیم تھی ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مال اور اپنی جانیں آپ پر قربان کر دیں ۔حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان سنیے :
”ما کان احد احبّ الیّ من رسول الله صلی الله علیہ و سلم ۔۔۔“
ترجمہ :”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیاد ہ مجھے کوئی بھی محبو ب نہ تھا “۔
اور ان ہی جیسے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں ، جن کی عقل سلیم نے ان کی راہنمائی کی اور وہ اسلام لے آئے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر دیا ، جن کورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ” سیف اللہ ،، اللہ کی تلوار کا لقب دیا ۔ یہی وہ خالد ہیں جن کی زبان سے وفات کے وقت یہ الفاظ نکل رہے ہیں :
”حضرت مائة معرکة ، وما فی جسمی موضع إلّا فیہ ضربة بسیف ، أو طعنة برمح ، او رمیة بسہم ، ثم ھا انذا أموت علی فراشی کما یموت البعیر ، فلا نامت أعین الجبناء“․
ترجمہ :”میں سو معرکوں میں شریک رہا ہوں اور میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار ،نیزہ یا تیر کے زخم کا نشان نہ ہو ،لیکن اب بستر پر مر رہا ہوں جیسے اونٹ اپنی جگہ مر تا ہے، اللہ کرے بزدلوں کو نیند نہ آئے۔“
عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات مشہور اور تواتر سے ہم تک پہنچے ہیں اور خاص خاص افرادکے حالات بھی صحیح اور ثابت ہیں، اس لیے یہاں ہم ان کے حالات کو نہایت اختصار سے ذکر کرتے ہیں ۔ اور اس کی ابتداء ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات سے کرتے ہیں جن کو مکہ مکرمہ میں سخت ترین ایذائیں دی گئیں اور انہوں نے اللہ کے ذکر اور اس کی توحید سے اس کا مقابلہ کیا، حضرت بلال  جن کی زبان سے :” أحد أحد “ کی آواز بلندہوتی ہے ، اور وہ اس شدید ترین عذاب کو ایمان کی حلاوت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چاشنی سے ملادیتے ہیں ،اور جس کے بعد حضرت بلال اوران جیسے دوسرے حضرات ۔رضی اللہ عنہم ۔ اس ایذاء اور عذاب کی پرواہ نہ کرتے تھے، چاہے وہ کتناہی سخت ہو ۔
غزوہ بد ر میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
اہل بد ر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنی جانوں کا قربان کرنا سب کو معلوم ہے۔
معرکہ بدر کی تیاری کے وقت حضرت سعد بن معاذرضی اللہ عنہ جوانصار کے بڑے سرداروں میں سے تھے ، اور جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنانے کا مشورہ دیا، تاکہ آپ اس کے سائے میں بیٹھیں۔انہوں نے فرمایا:
”یارسول اللہ ! مدینہ میں کچھ لوگ ایسے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم ان کے مقابلہ میں آپ سے زیادہ محبت کرنے والے نہیں ،اگر ان کو معلوم ہوجاتا کہ آپ کو جنگ درپیش ہوگی تو وہ ہرگز آپ کے پیچھے نہ رہتے ، اللہ ان کی وجہ سے آپ کی حفاظت فرمائے گا،وہ آپ کے خیر خواہ ہیں ، آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والے ہیں “۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی اور ان کے لئے خیر کی دعاء فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سائبان بنایا گیا ،جس میں آپ نے آرام فرمایا اور سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کسی کو تلوار اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیدار ی کی جرأت نہیں ہوئی، پھر جب معرکہ شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمنوں کی صفوں میں داخل ہوگئے ، اور زرہ پہنے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:
﴿ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ ویُوَلُّوْنَ الدُّبُر﴾ (القمر :۴۵)
ترجمہ:۔” اب شکست کھائے گا یہ مجمع اور بھاگیں گے پیٹھ پھیر کر۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی درجہ کی محبت پر یہ غزوئہ بدر شہادت ہے، ایسی محبت جس میں اپنی جان اور ہر قیمتی چیز کی قربانی ہے ، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرار فرمایا ۔
غزوہ ِ رجیع میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
مشرکین نے قرّاء صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلا کر عہد شکنی کی اور جب مقابلہ ہوا تو بعض کو قتل کردیا اور دو صحابہ ان مشرکین کے امن کے وعدہ سے دھوکا کھا کر ان کی قید میں چلے گئے ۔اور پھر وہ ان کو مکہ مکرمہ لے گئے، تاکہ مکہ کے مشرک ان کو اپنے ان مقتولین کے بدلے میں قتل کریں، جن کو مسلمانوں نے بد ر میں قتل کیا تھا ۔وہ دوحضرات : زیدبن دَثِنَہ اور خبیب بن عدی رضی اللہ عنہما تھے ۔
حضرت خبیب رضی اللہ سے مشرکین نے کہا : کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تمہاری جگہ محمدہوتے؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا:اللہ عظیم کی قسم! ہرگز نہیں ۔ مجھے تویہ بھی پسند نہیں کہ میری جان کے بدلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤ ں مبارک میں کانٹا چبھ جائے ۔
حضرت زید بن دَثنہ رضی اللہ عنہ سے مشرکین کے سردار ابو سفیان نے قتل کے وقت کہا: اے زید! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، بتاؤ! کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ محمد اس وقت ہمار ے پاس تمہاری جگہ ہوتے اور ان کی گردن مارڈالی جاتی ، اور تم اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتے ؟ تو انہوں نے جوا ب دیا : کہ بخدا مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جہاں بھی اس وقت تشریف فرماہیں ،وہاں ان کے پاؤں مبارک میں کانٹا چبھے اور اس سے ان کو تکلیف ہو، اور میں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں ۔
اس پر ابو سفیان نے کہا: میں نے لوگوں میں کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتا نہیں دیکھا جتنا کہ محمد کے صحابہ محمد سے محبت کرتے ہیں ۔عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت پریہ شہادت کافی ہے ۔
غزوہ مصطلق میں صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو المصطلق اپنے سردار حارث بن ابوضرار کی قیادت میں آپ سے جنگ کی تیاری کررہا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل اس کے کہ وہ حملہ کریں، آپ نے ان پر حملہ کردیا ، اور بے شمار لوگوں کو قیدی بنالیا ، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا،اور ان کی تعداد بھی بہت تھی اور پھر ان کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا ، ان غلاموں میں اس قبیلہ کے سردار حارث بن ابوضرار کی بیٹی جُویریہ بھی تھی، جویریہ نے اپنے مالک سے (جس کے حصہ میں آئی تھی) مکاتبت کردی یعنی اس سے یہ معاہدہ کرلیا تھا کہ اگروہ اتنا مال اسے دے دے گی تووہ اسے آزاد کردے گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے مکاتبت کے سلسلہ میں مدد کی درخواست کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا اس سے بھی بہترصورت پسند کروگی؟ وہ کہنے لگی، یارسو ل اللہ! وہ کیا صورت ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری کتابت کا سارا مال ادا کردوں اور تجھ سے نکاح کرلوں ، اس نے کہا ہاں !یارسول اللہ ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے ایسا کردیا ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :یہ خبر جب لوگوں تک پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویرہ بنت حارث بن ابوضرار سے شادی کرلی ہے تو صحابہ کرام  فرمانے لگے :
حضرت جویریہ کا قبیلہ وقوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرال والے بن گئے ہیں ، اور صحابہ کرام نے تمام ان غلاموں کو جن کے وہ مالک بن گئے تھے، آزاد کردیا ،یعنی بغیر کوئی بدلہ لئے ہوئے اللہ کے لئے آزاد کردیا ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح سے بنو مصطلق کے ایک سو خاندان آزاد ہوئے اور میں نے اس عورت سے زیادہ اپنی قوم کے لئے برکت والی کوئی عورت نہیں دیکھی ۔
صحابہ کرام  کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کیا خوب محبت ہے ،بنی مصطلق کے سو گھر انے یعنی سو خاندان ، جن کے افراد کی تعداد سات سو بتائی گئی ہے ، جن میں ہر فرد کی قیمت ہمارے آج کے دور میں عمدہ قسم کی گاڑی کے برابر ہے ، ان سب کو صرف اس لئے صحابہ کرام نے آزاد کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کی ایک خاتون سے شادی کی ہے ، یہ سب ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا نتیجہ تھا ، کیوں کہ وہ قبیلہ والے آپ کے سسر ال بن چکے تھے ۔
غزوہ حدیبیہ میں صحابہ کرام کی آپ سے محبت
مشرکین مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اور عمرہ اداکرنے سے روک دیا تھا ، جب کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اعلان فرمارہے تھے اور عوام و خواص کو تاکید کے ساتھ فرمارہے تھے کہ وہ قتال کے لئے نہیں آئے بلکہ بیت اللہ کی تعظیم اور عمرہ اداکرنے آئے ہیں ، ادھر قریش کے نمائندے بھی برابر آرہے تھے اور اس سلسلے میں گفتگو کررہے تھے، ان نمائندوں میں ایک عروہ بن مسعود ثقفی بھی تھا اور اس کے مذاکرات بخاری اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مذکور اور مشہور ہیں اور اس میں یہ بھی ہے کہ عروہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو غور سے دیکھ رہا تھا، جن کا نقشہ اس نے ان الفاظ میں کھینچا ہے ۔
”بخدا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تھوکتے تو وہ ان صحابہ کرام کے ہاتھ میں پڑتا ہے جسے وہ اپنے منہ اور جسم پر مل لیتے ہیں،جب آپ کسی چیز کا حکم دیتے ہیں تو اس کی تعمیل میں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کو شش کرتا ہے ، اور جب آ پ وضو فرماتے تو قریب تھا کہ اس پانی کو لینے کے لئے جھگڑ پڑیں اور جب آپ گفتگو فرماتے تو وہ سب خاموش ہوجاتے ۔اور ادب و تعظیم کی بنا پر آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔“
عروة نے واپس جاکر اپنے لوگوں سے کہا : اے میری قوم ! بخدا میں بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہواہوں، میں قیصر ، کسریٰ ، اور نجاشی کے دربار میں حاضر ہوا، لیکن بخدا میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کی رعایااس کی اتنی تعظیم کرتی ہو جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں ۔اور عام اوقات میں (صحابہ کرام کی محبت کی) یہ دو مشہور حدیثیں ہیں ۔
امام بیہقی نے انصار میں سے ایک صحابی سے روایت نقل کی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرماتے یا تھوکتے تو آپ کے پانی اور تھوک کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک شخص آگے بڑھتا اور اسے لے کر اپنے چہروں اور جسم پر ملتا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم ایساکیوں کرتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ: برکت حاصل کرنے کے لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کریں تو اسے چاہیے کہ ہمیشہ سچ بولے، امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ دے ۔“
آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمانااس لئے تھا کہ صحابہ کرام کے جواب میں محبت جھلک رہی تھی تو آپ نے ان کو ایسے سلوک کی رہنمائی فرمائی جو اس محبت کی طرف لے جانے والا ہے ،حالانکہ پہلے سے صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی محبت حاصل تھی ، کہ آپ کے بچے ہوئے پانی کو چہروں پر ملتے تھے ۔
امام طبرانی نے حضرت عبدالرحمن بن حارث سُلَمی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ : ہم ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے پانی منگایا ، اس میں ہاتھ ڈال کر وضو فرمایا،ہم نے وہ پانی لے کر پی لیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہیں کس چیز نے اس عمل پر آمادہ کیا ؟ ہم نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو تم( یہ کام کرو) اگر تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اسے ادا کرو، اور جب بات کرو تو سچ بولو ، اور جو تمہارے پڑوس میں آکر رہے، اس سے اچھا سلوک کرو۔“
غزوہ ِ حنین میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا انصارکو خوشخبری دینا
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضر ت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے جب حنین کا معرکہ ہوا تو ھَوازِن اور غَطَفان وغیرہ قبائل آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنے جانوروں اور عورتوں اور بچوں کے ساتھ آکھڑے ہوئے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار صحابہ اور مکہ کے نو مسلم تھے ، جب مقابلہ ہوا تو ابتداء میں صحابہ ادھر ادھر ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہارہ گئے ،اس موقع پر آپ نے دو الگ الگ آوازیں لگائیں ،دونوں کو ملایا نہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دائیں جانب نگاہ فرمائی اور آوا ز دی : او انصار کی جماعت! تو سب نے بیک آواز جوا ب دیا : ہم حاضر ہیں یارسول اللہ! آپ خوش ہو جائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں ، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بائیں جانب نگاہ فرمائی اور آواز دی :”او انصار“ تو انصا ر نے جواب دیا : ہم حاضر ہیں یارسول اللہ !آپ خوش ہوجائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے ، آپ صلی الله علیہ وسلم اس سے اتر ے اور فرمایا : میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔مشرکین کو شکست ہوئی اور اس دن بہت زیادہ مالِ غنیمت حاصل ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مال مہاجرین اور نومسلموں میں تقسیم کردیا اور انصار کو کچھ نہیں دیا تو بعض نوجوان انصار نے کہا: سختی کے وقت تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور مالِ غنیمت دوسروں کو دیا جاتا ہے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کا یہ مقولہ پہنچا تو آپ نے ان کو ایک خیمہ میں جمع کر کے فرمایا: اے انصار کی جماعت ! مجھے کیا بات پہنچی ہے ؟ وہ خاموش ہوگئے، پھر آپ نے فرمایا : اے انصار کی جماعت ! کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ تو دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اورتم اللہ کے رسول کو ساتھ لے کراپنے گھروں کو جاؤ؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرلوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا “۔
قبیلہ ثقیف اورھوازن وغیرہ اپنے ساتھ معرکہ میں مال، مویشی ، عورتیں اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے ،تاکہ ان کی موجودگی میں خوب جوش سے لڑیں اور شکست سے بچ جائیں ، لیکن اس کے برعکس وہ سب کچھ مسلمانوں کے ہاتھ مالِ غنیمت کے طور پر آگیا،یہاں تک کہ قیدیوں اور غلاموں سے گھر ،جھونپڑیاں اور جگہیں بھر گئیں ، لیکن مہاجرین اور انصار قیدیوں اور غلاموں میں اپنا حصہ وصول کرنے سے دستبردار ہوگئے، اس طرح وہ سب آزاد ہوگئے ، اور یہ سب صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے کیا ، اوریہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت کی دلیل ہے ۔
اسی واقعہ کے ساتھ یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ ” صفا“ پر کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالی سے دعا فرمانے لگے ، انصار آپ کو غو ر سے دیکھ رہے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ ایسا تو نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جب اللہ تعالی ان کے شہر اور سرزمین کو فتح فرمادے تو آپ یہاں ہی اقامت فرمالیں؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاسے فارغ ہوئے تو انصار سے فرمایا : تم کیا بات کررہے تھے ؟ انصار نے عرض کیا :کوئی خاص بات نہیں تھی ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اصرار فرماتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی بات ظاہر کردی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” معاذ اللہ! میرا تو جینا بھی آ پ کے ساتھ اور مرنا بھی آپ کے ساتھ ہے ۔“ اس واقعہ میں انصار کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس بات کا خوف کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چھوڑ نہ دیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے محبت واضح ہے ۔ اور اس میں آپ کا غیب کی خبر دینا معجزہ ہے ، کیوں کہ کسی شخص کو معلوم نہیں کہ کس زمین میں اس کی وفات ہوگی۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۱ھ - اپریل: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: الجزائر کی آزادی میں شیخ الاسلام حضرت مدنی کا کردار !
Flag Counter