Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۳۱ھ - فروری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

4 - 11
دینی مدارس میں عصری علوم کی ضرورت امکانات اور مشکلات کا ایک جائزہ !
دینی مدارس میں عصری علوم کی ضرورت
امکانات اور مشکلات کا ایک جائزہ

پروفیشنل سرٹیفکٹ کورس کے عنوان سے جامعہ کراچی کے تحت یہ کورس( جو کہ تقریبا ۵۰ گھنٹوں پرمحیط ہو تاہے) گذشتہ سال سے منعقد ہورہا ہے۔ ہماری جامعہ سے بھی اس کورس میں شرکت ہو تی ہے ۔ اس مرتبہ جامعہ سے جامعہ کی شاخ کے استاد مولانا عبدا لغفار صاحب اور مولانا عرفان حمید صاحب نے شرکت کی ، کورس کے منتظمین کی طرف سے انہیں دینی مدارس میں عصری علوم کی ضرورت …کے عنوان سے لکھنے کے لئے کہا گیا تھا۔ جامعہ کی بنیادی فکر اور وفاق المدار س العربیہ کے موٴقف کے تناظر میں جوموٴقف تحریری طور پران علماء نے پیش کیا، وہ افادہٴ عام کی غرض سے نذر قارئین ہے۔ ادارہ

پس منظر
دینی مدارس میں عصری علوم کی ضرورت ، اساتذہ کے لئے امکانات اور مشکلات کاایک جائزہ
اس عنوان کے پس منظر سے زیادہ اگر پیش منظر کا تجزیہ کر لیا جائے توموضوع کو سمجھنا آسان ہوگا، دینی مدارس میں عصری علوم کی ضرورت کے عنوان پر دو پہلووٴں سے بات ہو سکتی ہے:
۱- یک ماضی کے تجربات کے حوالے سے۔
۲- دوسرے گرد و پیش کے احوال کے تناظر میں۔
ہم ماضی کے تجزیہ سے زیادہ موجودہ احوال کے تناظر میں بات کریں گے۔
دینی مدارس کے لئے عصری علوم کی ضرورت!
دینی مدار س کا ایک تعلیمی نصاب ہے جس کے تحت مدارس اپنے دائرہ کا ر میں کام کررہے ہیں، حریت فکر و عمل کی پاسداری کرتے ہوئے،زمانی تغیرات اور عصری تقاضوں کی رعایت رکھتے ہوئے تعلیمی نصاب میں کمی بیشی کی ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اہل مدارس کا اتفاق ہے کہ عصری علوم کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے سے دینی مدارس کا مزاج و منہج رکاوٹ نہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی ضرری ہے کہ اگر ” ضرورت“ کا لفظ اپنے حقیقی اور عرفی معنی ٰمیں استعمال کیا جائے تو اہل مدارس اور مدارس سے متعلق غلط فہمیوں کا شکار طبقہ، دونوں ایک دوسرے کا موٴقف بسہولت سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں۔
ضرورت کا مفہوم
ضرورت ، ضرر(بمعنی نقصان ) سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ: انسان کا وہ بنیادی تقاضا اور مسئلہ جس کے حل ہوئے بغیر انسان نقصان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور انسان ،انسانی زندگی باقی نہ رکھ سکتا ہو،اس کوضرورت کہا جاتا ہے اور س کا ایک محدود دائرہ ہے۔
دینی مدارس کے نصاب میں عصری علوم کی ضرورت کے تجزیہ سے پہلے ہم اپنے انصاف پسند دانشوروں سے یہ سوال کرسکتے ہیں کہ دینی مدارس جن مناصب کے لئے معاشرے کو رجال کار مہیا کررہے ہیں،امت کی دینی اور اسلامی راہنمائی، مثلاََ:حلال و حرام ، جائز و ناجائز ،صحیح اور غلط کا فرق بتلانا، امامت وخطابت، درس و تدریس ، دعوت و تبلیغ وغیرہ ۔ کیا یہ مناصب اسلامی معاشرے کے لئے ضروری ہیں یا نہیں؟
یقینا ایک مسلمان کی حیثیت سے غیر جذباتی جواب یہی ہو سکتا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے عصری درسگاہوں کے فضلاء کی طرح دینی مدارس کے فضلاء اور دین و شریعت کا علم رکھنے والوں کا ہو نا بھی ضروری ہے۔
انسانی ضروریات کی اگرحد بندی کی جائے تب بھی کئی ایسی ضروریات شمار ہو سکتی ہیں جن کے بغیر انسان اپنا وجود کلی طور پریا صحیح طور پر باقی نہیں رکھ سکتا۔ ان لازمی ضرورتوں کے درمیان بھی درجہ بندی اوران کے لیے رجال کار کاہوناایک فطری تقاضا ہے۔
اس حقیقت کے آئینے میں اگردیکھا جائے تو مسلمان نہ تو خالصتاً روحانیت تک محدود ہے اور نہ ہی چرندوں کی مانند من چاہی روش کے لئے آزاد ہے۔یہ حقیقت ہے کہ روحانیت کو مادیت پر مقدم رکھنا مسلمان کا خاصہ ہے اور اس کی بنیادی ضرورت ہے۔
دینی مدارس کے لئے عصری علوم کی ضرورت کا تجزیہ!
دینی مدارس کے لئے جس قدر عصری تعلیم ضروری ہے،اہل ِ مدارس قولی و عملی طور پر اس ضرورت کا اعتراف بھی کرتے ہیں،اور اس کوپورا کرنے لئے مدارس میں معیاری درجہ کا اہتمام بھی موجود ہے، چنانچہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ دینی مدارس کے طلباء وفضلاء عصری علوم (انگلش ، سائنس، ریاضی)اورکمپیوٹروغیرہ سے اتنی مناسبت رکھتے ہیں جتنی عصری درسگاہوں میں پڑھنے والے بچے ۔ حالانکہ عصری علوم کے بغیر ایک مسلمان، مسلمان رہ سکتا ہے۔
لیکن اس کے مقابلے میں عصری علوم پڑھنے والے مسلمان بچے ضروری دینی معلومات اتنی نہیں رکھتے۔ جب کہ بنیادی دینی تعلیمات کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے فرض کے درجہ میں ہے۔
دینی علوم پڑھنے ،پڑھانے والوں سے عصری علوم کی تعلیم و تدریس کا مطالبہ تو کیا جاتاہے مگر عصری علوم پڑھنے والوں کے لئے ان کی بنیادی دینی ضروریات سے نہ تو بحث کی جاتی ہے اور نہ ہی عصری تعلیم کے ہر شعبہ کے لئے دینی علوم کو لازمی حصہ قرار دینے کی تگ و دو کی جاتی ہے۔
ہماری اس نوعیت کی کاوشیں اگر واقعتا نیک نیتی اور اخلاص پر مبنی ہیں تو پھر اسلامی معاشرے کے تعمیری مفاد کا بنیادی تقاضا ہے کہ ان توجہات کا رُخ عصری تعلیم گاہوں کی طرف بھی کیا جائے اور عصری تعلیم کے ہر شعبہ کے طلباء کے لئے ان کے مقررہ نصاب کے ساتھ دینی علوم بھی شامل کیٴے جائیں۔
ضرورت کے ذکر کردہ مفہوم کے تناظر میں اگر ہم دینی مدارس کے لئے عصری علوم کی ضرورت کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی بحث کو سمیٹنا چاہیں تو مندرجہ ذیل نکات میں اس کا احاطہ کیا جاسکتا ہے:
۱:․․․عصری علوم ، دینی مدارس کے دینی نصاب کے ساتھ جس امکانی حد تک شامل کئے جاسکتے ہیں، وہ پہلے سے شامل نصاب ہیں، اور قدرے کفایت دینی مدارس کے طلباء ان سے واقفیت بھی رکھتے ہیں اور مزید بہتری کے لئے اپنے طور پر موقع باموقع غور و فکر کرتے رہتے ہیں ۔ البتہ اس غور و فکر کے لئے بیرونی ہدایات پر عمل درآمد کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ جس کی بناء پر اس چیز کو پروپیگنڈے کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔
۲:․․․دینی مدارس کی طرح عصری تعلیم گاہوں کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کے لئے ” عصری درسگاہوں میں دینی علوم کی ضرورت“ کے زیر عنوان ورکشاپ کا سلسلہ بھی ہو نا چاہیے، یہ وہاں کے مسلمان طلباء کی دینی ضرورت ہونے کے علاوہ اس قسم کے کور سز کے بنیادی مقصد یعنی باہمی خیر خواہی اور افادہ و استفادہ کی برآری میں ممدو معاون بھی ہو گا۔
۳:․․․اگر عصری درسگاہوں کے ارباب حل وعقد عصری تعلیم گاہوں میں ضروری دینی علوم کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کردیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ متعلقہ ادارے ،طلبہ اور اس کے معلمین کی طرف سے انہیں کتنا پذیرائی ملتی ہے، اس سے ” امکانات“ کا تجزیہ بہت آسان ہوگا ۔اور یہ بھی اچھی طرح معلوم ہوسکے گا کہ اساتذہ کو اس سلسلے میں کیا ”مشکلات “ پیش آسکتی ہیں ۔ان مشکلات کا ازالہ کیسے ہو سکتاہے ؟ اگر ہماری عصری تعلیم گاہوں کے معزز اساتذہ کرام” امکانات و مشکلات“ کے ان عملی تجربات و مشاہدات سے گزرتے ہوئے دینی مدارس کے اساتذہ کرام کے ساتھ تبادلہٴ خیال کریں تو اس سے نیک مقاصد کے لئے کار آمد خطوط سامنے آسکتے ہیں۔
۴:․․․عصری علوم کی جتنی ضرورت ہے ،الحمدللہ !دینی مدارس میں وہ پڑھائے جاتے ہیں۔عصری علوم پڑھانے میں اساتذہ کرام امکانی حد تک طلباء کو ان علوم سے روشناس کراتے ہیں۔ انہیں اس سلسلے میں کوئی مشکل یا دشواری ہر گز درپیش نہیں ہے۔
ہاں! اگر دونوں نصاب متوازی طور پر خلط ملط ہو جائیں تو اس سے صرف اساتذہ کو نہیں،مدارس کے پورے نظام کو پریشانی ہوگی اور اس کا حلیہ بگڑ جائے گا اور پھر دینی علوم کا وہی حشر ہو گا جو جامعہ عباسیہ کے اختلاطی تجربے میں ہوا تھا اور عصری علوم کا وہی تماشہ بنے گا جو اس وقت بعض سرکاری تعلیمی اداروں میں ہو رہا ہے۔
تجویز
آخر میں اس کورس کے حوالے سے جذبہٴ نصح و خیر خواہی کے طور پراس کورس کی بہتری ، اس کی افادیت اور کورس پر اعتمادبڑھانے کے لئے دو باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں:
۱:․․․․ان کورسز کابنیادی مقصد جامعہ کراچی اور دینی مدارس کے درمیان قربتیں پیدا کرنا بتایا گیا ہے ، اس لحاظ سے ضروری ہے کہ یہ کورسز جامعہ کراچی میں منعقد ہوں۔
۲:․․․دینی مدارس کے جائز مقام کا احترام کرتے ہوئے ان کے دینی تشخص اور اسلامی مذاق و مزاج کو مکّدر کرنے والے اقدامات سے ان کورسز کو پاک کیا جائے ،مثلاََ :مرد و زن کا اختلاط نہ ہو،کیونکہ اسلامی احکام سے قطع نظرہمارا دینی معاشرہ بھی اس کو گوارا نہیں کرتا ، اگر اہل مدارس کو اس عملی مظاہرے کے لئے جمع کرنا مقصود ہو تو ایسے مناظر کا حصہ بننے کے لئے اہل مدارس قطعا تیار نہیں ۔ بلکہ اس سے کورس کے نیک مقاصد پر شکوک و شبہات کی شدیدضرب بھی پڑے گی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , صفر المظفر:۱۴۳۱ھ - فروری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: تعلیم نسواں کے مقاصد․․․علامہ اقبال کی نظر میں !
Flag Counter