Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۳۱ھ - فروری ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

10 - 11
حضرت قاری عبدالحلیم صاحب !
حضرت قاری عبدالحلیم صاحب

جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا کراچی کے سرپرست اعلیٰ ، برادر محترم مولانا مفتی محمد نعیم کے والد بزرگوار، تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن ، قرآن کریم کے عاشق زار، شیخ القراء حضرت مولانا قاری فتح محمد پانی پتی کے نامور شاگرد،باخدا انسان، شب زندہ دار ، زاہد ،خود دار اور اسلاف و اکابر کی یادگار جناب حضرت قاری عبدالحلیم  حرکت قلب بند ہوجانے سے ۷/ جنوری ۲۰۱۰ء مطابق۲۰/ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بعد نماز عشا رحلت فرمائے عالم آخرت ہو گئے۔ انا لله وانا الیہ راجعون۔انلله مااخذولہ مااعطیٰ وکل عندہ باجل مسمی۔
حضرت قاری صاحب نے ۱۹۳۰ء میں ہندوستان کے صوبہ گجرات کے ضلع سورت کے قریبی گاوٴں نوساری میں ایک پارسی جمشید کے گھرمیں آنکھ کھولی، آپ کا ددھیال و ننہیال پورا کا پورا پارسی مذہب سے تعلق رکھتا تھا، آپ کے والد ماجد غیر منقسم ہندوستان کے محکمہ کسٹم میں افسر تھے، حسن اتفاق! کہ جن دنوں ملازمت کے سلسلہ میں آپ کی سکونت سوڈان میں تھی ، وہاں ایک سوڈانی مسلمان نے آپ کو اسلام کی دعوت دی تو آپ اسلام کی لازوال خوبیوں اور محاسن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، چنانچہ آپ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا، شروع شروع میں تو کافی مشکلات پیش ائیں، دوسرا خاندان تو کجا خودخوشدامن ہی آپ کے قبول اسلام بدترین مخالف تھی، بہر حال آپ نے ہمت کرکے ۱۹۳۴ء میں اپنے قبول اسلام کا اعلان کردیا، اور آپ کا اسلامی نام عبداللہ تجویز کیا گیا۔
ظاہر ہے گھر کے سربراہ اور باپ کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے زیر کفالت چھوٹے بچے برجور(قاری عبدالحلیم)اورسہراب بھی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے، آپ کے افراد خانہ میں سے جن خوش نصیبوں نے اسلام قبول کیا ،ان سعادت مندوں میں سے ایک ہمارے ممدوح حضرت قاری عبدالحلیم صاحب بھی تھے، جنہوں نے صرف چار سال کی عمر میں پارسی مذہب کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشن و تابندہ دہلیزپر قدم رکھا۔
جناب عبداللہ صاحب  کے اسلام قبول کرنے کے بعد نہ صرف پورا خاندان مخالف ہو گیا، بلکہ مشہور ہوگیا کہ عبداللہ صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا منحوس ہے، جب ہی تو اس کی پیدائش کے بعد سے ان کے خاندان میں اسلام داخل ہو گیا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ بچہ بدنصیب کے بجائے خوش نصیب تھا ،جس کی پیدائش کے بعد اس کے والدین پر کفر کی غلاظت آشکارا ہوئی اورکفر کی غلاظت سے نکل کر اسلا م کے معطر ماحول میں آگئے۔
بہر حال عبداللہ صاحبنے قبول اسلام کے بعد سورت کو خیر باد کہہ کرپہلے حیدرآباددکن کااورپھر بمبئی کا رخ کیا ، ایک تو عبداللہ صاحب نے نقل مکانی کرلی اور دوسرے ان کا خاندان بھی کٹر مذہبی تھا، اس لئے ان کے مختصر سے خوش نصیب گھرانے کے علاوہ ان کے خاندان کا دوسرا کوئی فرد مسلمان نہ ہوا ، بلکہ وہ اس درجہ متعصب تھے کہ عبداللہ صاحب کواور ان کے خاندان کو زندگی بھر منحوس اور قابل نفرت گردانتے رہے۔
بہر حال یہ تو تقدیر کے فیصلے اور انتخا ب الٰہی کے کرشمے ہیں کہ جس کو چاہیں ہدایت دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ بایں ہمہ مولانا مفتی محمد نعیم صاحب کے بقول: حضرت قاری عبدالحلیم  زندگی بھر اپنے ان اعزہ کے بارے میں فکر مند رہے ، چنانچہ چند سال قبل حضرت قاری صاحب نے اس پیرانہ سالی میں محض اس لیے ہندوستان کا طویل سفر کیا کہ اپنے بڑے بھائی کو ․․․․جو اسلام نہیں لائے تھے، اور وہ مرض الوفات میں مبتلا تھے․․․․ اسلام کی دعوت دیں۔ چنانچہ حضرت قاری صاحب اپنے اس بڑے بھائی کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو ایمان کی دعوت دی، مگر افسوس کہ انہوں نے یہ کہہ کر اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا کہ جب میں نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تو اب بھی میں اس کے لئے امادہ نہیں ہوں۔ یوں حالت کفر میں ان کا انتقال ہو گیا۔
حضرت قاری صاحب کی ابتدائی تعلیم بمبئی میں ہوئی ،دینیات اور ناظرہ وحفظ کی تعلیم کے لئے آپ کو اپنے آبائی وطن سورت کی مشہور زمانہ اسلامی یونیور سٹی جامعہ اسلامیہ ڈھابیل میں داخل کر دیاگیا۔ آپ  نے ابتدائی دینیات کے علاوہ ناظرہ اور حفظ قرآن مکمل کیا ۔
یہ وہ دور تھا جب جامعہ اسلامیہ ڈھابیل میں حضرت اقدس مولانا سید محمد یوسف بنوری ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی  ، اور امام العصرحضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری  جیسے اکابر اور اساطین علم وعمل کی وجہ سے جامعہ اسلامیہ ڈھابیل دیوبند ثانی کا نقشہ پیش کررہا تھا۔
تقسیم کے بعد ۱۹۴۸ء میں حضرت قاری صاحب کے والدین تو ہندوستان سے ہجرت فرماکر سیدھے سعودی عرب اور حجاز تشریف لے گئے۔ اور زندگی بھر وہاں رہے، البتہ حضرت قاری صاحب اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے ہمراہ پاکستان اور کراچی تشریف لے آئے۔ کراچی آنے کے بعد آپ  نے دار العلوم نانک واڑہ میں حضرت مولانا قاری فتح محمد پانی پتی قدس سرہ سے تجوید و قرأت کے علوم حاصل کئے اور تکمیل کے بعد مختلف مساجد و مدارس میں درس و تدریس اور امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے۔
چنانچہ حضرت قاری صاحب نے جہاں جہاں خدمات انجام دیں، ان میں چند ایک درجہ ذیل ہیں:
الف:۔کراچی کے تبلیغی جماعت کے مرکز مکی مسجد گارڈن میں آپ نے کوئی تیرہ سال تک امامت و تدریس کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ اسی دوران کراچی کے ایک تبلیغی بزرگ کے گھر میں آپ کا عقد نکاح ہوا۔اور آپ کا باقاعدہ تبلیغی جماعت سے انسلاک ہوگا۔ اور تبلیغی سلسلہ کے اکابر میں گردانے گئے۔
ب:۔ اسٹار کالونی کی مسجدجہاں آپ نے زندگی کا بیش تر حصہ گزارا۔
ج:۔اس کے علاوہ آپ کو مختلف بڑی مساجد میں رمضان المبارک میں محراب سنانے کا شرف و اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ان مساجدمیں سے جامع مسجد قباء سولجز بازار اور جامع مسجد نیوٹاوٴن حال جامع مسجد علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی ،قابل ذکر ہیں۔ حضرت قاری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن صوت اور قرآن کریم کو صحیح ادائیگی کے ساتھ بے تکلف پڑھنے کا خوب خوب ملکہ عطاء فرمایا تھا۔ بلا شبہ آپ تلاوت قرآن کے وقت تلاوت کا حق ادا فرماتے۔
حضرت قاری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے تکثیر اولاد کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا،لیکن بایں ہمہ وہ ان کی حسن تربیت سے کبھی غافل نہیں رہے۔ ماشاء اللہ متعدد بچے حافظ ہیں ،جن میں سے ایک مولانا مفتی محمد نعیم صاحب بھی ہیں۔
جن دنوں آپ اسٹار کالونی کی مسجد میں امام و مدرس تھے اوردرس وامامت کی تنخواہ ان کے بڑے کنبے کے گزر بسر کے لئے ناکافی تھی ،تو انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے حلال روزگار اور کسب معاش کے لئے ایک رکشہ خرید کر رکھا تھا، جس پر روزانہ صبح سبزی منڈی سے سبزی خرید کر مختلف ہوٹلوں پر سپلائی کرکے اضافی آمد نی کا انتظام فرماتے رہے۔
چونکہ آپ نے جامعہ اسلامیہ ڈھابیل کے زمانہ طالب علمی میں حضرت اقدس مولاناسیدمحمد یوسف بنوری قدس سرہ کو دیکھا تھا اور ان سے ایک گونا محبت و عقیدت کا تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ اس لئے حضرت بنوری  کی کراچی آمد اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاوٴن کراچی کی داغ بیل ڈالنے پر آپکی خدمت میں آمد ورفت شروع کی تو آپ کے حضرت بنوری سے محبت وعقیدت کے قدیم مراسم بحال ہوگئے، چنانچہ جب صاحبزادہ حافظ محمد نعیم صاحب حفظ مکمل کرکے درس نظامی کے قابل ہوئے توآپ نے اپنی اسی پرانی محبت و عقیدت کی بناء پر اپنے لخت جگر کو حضرت بنوری قدس سرہ کے ا دارہ میں علوم نبوت کی تعلیم و تربیت کے لئے داخل کردیا۔ افسوس کہ حافظ محمد نعیم صاحب ابھی درمیانی درجات کے طالب علم تھے کہ حضرت بنوری قدس سرہ راہی عالم آخرت ہوگئے۔ تاہم جامعہ علوم اسلامیہ کے اساتذہ، خصوصاََ مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی اور حضرت بنوری کے جانشین امام اہل سنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن رحمہ اللہ نے حضرت قاری صاحب کی حضرت بنوری سے محبت و عقیدت کے تعلقات کے پیش نظر اس نونہال کی بھر پور سرپرستی فرمائی اور اسے محبت و شفقت سے سرفراز فرمایا، اور فراغت کے بعد اس کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اسے اپنی مادر علمی میں درس و تدریس پر مامور فرمایا۔ دوسری جانب اس نوجوان نے بھی اپنی ا ستعداد و صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ فرمایا۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کی تدریس کے دوران حضرت قاری صاحب کی برکت سے اس نوجوان کو سائٹ ایریا میں ایک قطعہ زمین میسر آیا تو جانشین حضرت بنوری مولانا مفتی احمد الرحمن اور مفتی ولی حسن ٹونکی کے مشورہ سے وہاں ایک مدرسہ کی بنیادی ڈالی گئی۔ حضرت قاری صاحب کی حضرت بنوری قدس سرہ سے اسی محبت و عقیدت کے پیش نظر اس ادارہ کا نام بھی” جامعہ بنوریہ “ تجویز کیا گیا۔
یہ اساتذہ کی محبت ، شفقت اور سرپرستی بلکہ بھر پور حوصلہ افزائی کا مظہر تھا کہ مفتی محمد نعیم صاحب کو جامعہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے ساتھ ساتھ ایک مدرسہ کا مہتمم بھی بنادیا گیا۔ صرف یہی نہیں ،بلکہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کے مدیر حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن نے ہر اعتبار سے اس کی کفالت و سرپرستی فرمائی، یہاں تک کہ یہ تاثر عام ہونے لگا بلکہ اب بھی بعض ناواقف لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جامعہ بنوریہ اور جامعہ علوم اسلامیہ دونوں ایک ہی ہیں یا پھرجامعہ بنوریہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کی شاخ ہے۔حالانکہ یہ دو الگ الگ ادارے ہیں، جس طرح ان دونوں کے نام …ان کے بانیوں کے اسماء …ہر دو کے محل وقوع …تاریخ ِ تاسیس … اور مقام الگ الگ ہیں ،اسی طرح ہر دو کے میدان عمل بھی الگ الگ ہیں۔
بہر حال آج جامعہ بنوریہ اور اس کے مدیر مفتی محمد نعیم جو کچھ ہیں یہ در اصل ان کے والد ماجد حضرت قاری عبدالحلیم قدس سرہ کی حضرت بنوری اور اکابر علماء سے محبت عقیدت، ان کے خلوص و اخلاص ،ان کی دعاوٴں اور بالخصوص حضرت بنوری قدس سرہ کے اخلاف و جانشیوں: حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی اور حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن قدس سرہ کی محبت و شفقت اور سر پرستی و حوصلہ افزائی کے ثمرات و نتائج ہیں۔
سچ ہے کہ جو لوگ اکابر سے سچی محبت و عقیدت رکھتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی اولادوں کو دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے نواز تے ہیں اور جو لوگ اکابر ، اسلاف ، اپنے اساتذہ اور محسنین کی بے ادبی و گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں ،وہ خود بھی اور ان کی اولادیں بھی محروم ہو جاتی ہیں۔
بلا شبہ حضرت قاری صاحب قدس سرہ سراپا محبت و شفقت اور عجز و انکسار تھے، ان کو جن لوگوں نے دیکھاہے وہ اس کی گواہی دیں گے کہ وہ کبھی اپنے بڑوں بلکہ برابر کے لوگوں سے بھی اونچی آواز میں بولنے کے روادار نہ تھے۔
حضرت قاری صاحب اپنے اسلاف و اکابر کی یاد گار تھے، اور زہد و استغناان کی گھٹی میں تھا۔
ان کے صاحبزادے مولانا مفتی محمد نعیم صاحب نے بتلایا :جب حضرت قاری صاحب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی ملکیت میں ایک کوڑی بھی نہ تھی۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے سعادت مند بچے ان کو حج و عمرے اور تبلیغی اسفار کے اخرجات مہیا کرتے تھے مگر سفر کے اخرجات سے جو کچھ بچ رہتا حضرت قاری صاحب واپسی پرباقی ماندہ ساری رقم واپس فرمادیتے۔
اسی طرح ان کو ان کے تلامذہ یا عقیدت مند جو ہدیہ تحفہ دیتے، وہ بھی مدرسہ میں یا غریب و نادار طلبہ کے مصارف میں لگا دیتے۔
حضرت قاری صاحب کسی کر و فر کے آدمی نہ تھے ،بلکہ وہ اس نام و نمود کے دور میں بھی کپڑوں پر استری کے روادار نہ تھے۔ مولانا مفتی نعیم صاحب نے بتلایا کہ حضرت قاری صاحب آخر عمر میں فرمایا: میری اسکوٹر کا خیال رکھنا! میں نے اس پر سات سو قرآن کریم پڑھے ہیں۔کیا نصیبہ کی جائے ہے۔
حضرت قاری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جن اکابر و اسلاف کی صحبت و تربیت کا شرف عطاء فرمایا تھا، یہ انہی کی برکت تھی کہ حضرت قاری صاحب پکے اور سچے حنفی اور متصلب دیوبندی تھے ۔
مولانا مفتی نعیم صاحب نے بتلایا کہ: حضرت قاری صاحب جن دنوں اقامہ پر طائف میں قیام پذیر اور ایک چھوٹی سی مسجد میں امام تھے، ایک بار طائف کے گورنر کو ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تو گورنر کو ان کی تلاوت اس قدر پسند آئی کہ اس نے باقاعدہ حکم جاری کیا کہ ان صاحب کو ہماری مرکزی مسجد میں بطورامام لایا جائے، چنانچہ حسبِ حکم جب حضرت قاری صاحب گورنر کی مسجد کے امام مقرر ہوئے تو آپ نے پوچھا: یہاں میری ذمہ داریاں کیاہوں گی؟ بتلایا گیانمازہی پڑھانی ہوگی۔ ہاں!البتہ جس دن آندھی یا بارش ہو گی تو دو وقت کی نمازیں ایک ساتھ پڑھاکر جمع بین الصلاتین کرنا ہوگی۔ اس پر حضرت قاری صاحب نے فرمایا :چونکہ احناف کے ہاں ایسا کرنا ناجائز ہے، لہٰذا میں ایسایہ نہیں کرسکوں گا۔جب مقامی لوگوں نے زور دے کر کہا کہ آپ کو ایسا کرنا ہوگا۔ تو حضرت قاری صاحب نے نہ صرف گورنر طائف کی مسجد سے استعفیٰ دے دیا،بلکہ اقامہ ختم کرکے مستقل طور پر واپس پاکستان تشریف لے آئے ۔
اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کے درجات بلند فرمائے ،بلا شبہ بہت ہی خوبیوں کے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی زند گی بھر کی سیئات کو معاف فرماکر درجات عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کے اخلاف کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے ۔ آمین
ادارہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ کے مدیر، نائب مدیر اور اساتذہ و کارکنان مولانا نعیم صاحب اور حضرت قاری صاحب کے جملہ پسماندگان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , صفر المظفر:۱۴۳۱ھ - فروری: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: مجمع البحوث الاسلامیہ مصرکاتعارف !
Flag Counter