Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

7 - 12
سرور کونین ﷺ کے معاہدات !
سرور کونین ا کے معاہدات!

معاہدہ کا مفہوم:
دوفریق اگر آپس میں عہد وپیمان کرتے ہیں تو اسے معاہدہ کہا جاتا ہے، ہرایک فریق اپنا فائدہ دیکھ کر دوسرے سے قول وقرار کرتا ہے۔
معاہدے کی پابندی:
جانبین پر شرعاً، اخلاقاً، قانوناً معاہدے کی پابندی لازم ہوتی ہے اور اس کی خلاف ورزی کو غداری کہا جاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
۱:۔ ”واوفوا بالعہد ان العہد کان مسئولا ،،۔ (بنی اسرائیل:۳۴)
ترجمہ:۔”اور عہد کو پوراکرو بے شک عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا،،۔
۲:۔”یا ایہا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود،،۔ (المائدہ:۱)
ترجمہ:۔”اے لو گو! جو ایمان لاچکے ہو عہدوں کو پورا کرو،،۔
حضور ا نے منافق کی ایک نشانی یہ فرمائی کہ:
۱:۔ ”واذا وعد اخلف،،۔ (مشکوٰة:۷)
ترجمہ:۔”اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے،،۔
۲:۔ نیز فرمایا: ”لادین لمن لاعہد لہ،،۔
ترجمہ:۔”جو شخص اپنے عہد کا پابند نہیں اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں،،۔ اور فرمایا:
۳:۔ ”من قتل نفساً معاہدا…فلا یرح رائحة الجنة وان ریحہا لتوجد من مسیرة سبعین خریفا،،۔ (ترمذی:ج:۱،ص:۲۵۹)
ترجمہ:۔” جو شخص کسی ذمی کو قتل کرے گا… وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا۔حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت تک ہوگی،،۔
۴:۔”الامن ظلم معاہدا او انتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامة،،۔ (مشکوٰة:۲۵۴)
ترجمہ:…”خبردار! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اسے نقصان پہنچایا یا اس کی طاقت سے زیادہ اسے تکلیف دی یا اس سے کوئی چیز اس کی رضامندی کے بغیر لی تو قیامت کے روز میں اس ذمی کا وکیل ہوں گا،،۔
حضورانے محرم ۷ھ میں حضرت دحیہ کلبی کے ہاتھ قیصر روم کو دعوت اسلام کا گرامی نامہ بھیجا وہ اس وقت بیت المقدس میں تھا، اس نے آپ ا کا کردار جانچنے کے لئے وہاں آئے ہوئے تاجروں کو بلایا۔ ابو سفیان جو اس وقت اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، قیصر کے سامنے بٹھائے گئے ،قیصر نے ان سے کئی سوالات کئے، ان میں یہ سوال بھی تھا:فہل یغدر؟ پس کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے؟ابو سفیان نے کہا: لا۔نہیں۔آخرمیں ان جوابات پر تبصرہ کرتے ہوئے قیصر نے کہا:
”وسألتک ہل یغدر؟فذکرت :ان لا وکذلک الرسل لاتغدر،،۔ (بخاری،ج:۱،ص:۴)
ترجمہ:۔”میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے تو تم نے بتایا کہ نہیں اور پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے،،۔
الحسن ما شہدت بہ ضراتہا
والفضل ما شہدت بہ الاعداء
ترجمہ:۔”حسن وہ ہے جس کی گواہی سوکنیں دیں اور کمال وہ ہے جس کی گواہی دشمن دیں۔
تعریف دوستوں کی نہیں معتبر ایر
اچھا ہے وہ کلام کرے جو عدو پسند
دنیا کے طالب اگر عہد توڑنے میں فائدہ دیکھتے ہیں تو فوراً اپنا عہد توڑدیتے ہیں ، لیکن انبیاء علیہم السلام ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔
معاہدے کے بارے میں احکام خداوندی:
۱:۔اگر کفار عہد کی پابندی کریں تو مسلمانوں پر بھی یہ پابندی لازم ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
۱:۔”الذین عاہدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاہروا علیکم احدا فاتموا الیہم عہدہم الی مدتہم ان اللّٰہ یحب المتقین،،۔ (التوبہ:۴)
ترجمہ:۔”جن مشرکین کے ساتھ تم نے عہد کیا تھا پھر انہوں نے اس میں کچھ کوتاہی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، تو ان سے یہ کیا ہوا عہد مدت کے مکمل ہونے تک پورا کرو ،یقینا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت رکھتا ہے…،،۔
۲:۔”فما استقاموا لکم فاستقیموا لہم ان اللّٰہ یحب المتقین،،۔ (التوبہ:۷)
ترجمہ:۔” پس جب تک وہ تمہارے لئے (عہد پر) قائم رہیں تم بھی ان کے لئے (عہد پر) قائم رہو، یقینا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت رکھتا ہے،،۔
۲…اگر کوئی غیر مسلم اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے یا اپنے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنا چاہتا ہے تو اس کی حفاظت اسلامی حکومت پر لازم ہے، معلومات لینے کے بعد وہ اسلام نہ بھی لائے تب بھی مسلمانوں پر لازم ہے کہ اسے اس کے محفوظ مقام پر پہنچادیں۔جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:
”وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتی یسمع کلام الله ثم ابلغہ مأمنہ، ذلک بانہم قوم لایعلمون،،۔ (التوبہ:۶)
ترجمہ:۔”اور اگر مشرکوں میں سے کسی ایک نے بھی تم سے پناہ مانگی ہو تو تم اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے پھر اسے اس کی جگہ پہنچا دو، یہ اس لئے ہے کہ یقینا وہ لوگ ایسے ہیں جو کچھ نہیں جانتے،،۔
۳․․․․․مظلوم مسلمان اسلامی حکومت سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کی جائے لیکن اگر وہ ایسی قوم کے خلاف مدد طلب کریں جس سے مسلمانوں کا امن معاہدہ طے پاچکا ہے تو پھر ان کی مدد نہیں کی جاسکتی:
”وان استنصروکم فی الدین فعلیکم النصر الا علی قوم بینکم وبینہم میثاق والله بما تعملون بصیر،،۔ (الانفال:۷۲)
ترجمہ:۔”اور اگر وہ تم سے دین کے بارے میں مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا واجب ہے، سوائے اس قوم کے کہ تمہارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی عہد وپیمان ہوا ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھنے والا ہے،،۔
اس کی روشن مثال حضرت ابو جندل ہیں، جنہیں اسلام لانے کی پاداش میں سخت سزائیں دی جاتی تھیں، وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر وہ کسی طرح بھاگ کر آگئے، اپنے جسم پر تشدد کے نشان دکھائے،مسلمانوں سے فریاد کی کہ مجھے اس ظلم سے بچاؤ اور اپنے ساتھ مدینہ لے جاؤ، مسلمان یہ منظر دیکھ کر تڑپ اٹھے، لیکن حضور انے ابوجندل سے فرمایا :تم صبر کرو اللہ تمہیں نجات دے گا، ہمارا ان لوگوں سے امن معاہدہ ہوچکا ہے، اس لئے ہم معاہدہ توڑ کر تمہیں ساتھ نہیں لے جاسکتے۔
۴…اگر کفار صلح کرنا چاہیں اور اس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو تو صلح کرلی جائے۔ جیساکہ ارشاد ہے:
”وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی الله انہ ہو السمیع العلیم،،۔ (الانفال:۶۱)
ترجمہ:۔”اور اگر وہ صلح کے لئے جھکیں تو تم بھی ان کے لئے جھک جاؤ اور اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھو یقینا وہ سب کی سننے والا جاننے والا ہے،،۔
اگر مسلمان کفار کے نرغے میں آجائیں تو کفار کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کوئی بھی تدبیر کرسکتے ہیں۔غزوہٴ احزاب میں حضورا کو علم ہوا کہ خیبر کے یہودی بنی غطفان کو خیبر کی کھجوروں کا ۱/۳ دینے کا یہ وعدہ کرکے ساتھ لائے ہیں تو آپ ا نے ان کے قائدین عیینہ بن حصین فزاری اور حارث بن عوف المرّی کو بلایا اور فرمایا: تم قریش کا ساتھ چھوڑ کر بمع اپنے لاؤ لشکر کے واپس چلے جاؤ تو تمہیں مدینہ کی کھجوروں کی ایک تہائی دیا جائے گا، وہ اس پر آمادہ ہوگئے، اب آپ ا نے سعد بن معاذ رئیس اوس اور سعد بن عبادہ رئیس خزرج کو مشورہ کے لئے بلایا، ان دونوں نے عرض کی کہ حضور! کیا یہ اللہ کا حکم ہے یا آپ کی اپنی خواہش ہے یا آپ ا ہمارے بچاؤ کے لئے ایسا کرنا چاہتے ہیں؟ آپ ا نے فرمایا :نہ یہ خدا کا حکم ہے نہ میری چاہت ہے، بات یہ ہے کہ میں انہیں قریش سے الگ کرنا چاہتاہوں تاکہ ان کی طاقت کم ہوجائے، دونوں نے کہا حضور! اس کی کوئی ضرورت نہیں، یہ جو کچھ کرسکتے ہیں، کرلیں ،ہمارا اور ان کا فیصلہ تلوار سے ہوگا۔
۵…امن معاہدہ کرتے وقت یہ فکر نہ کی جائے کہ کہیں کفار ہمیں دھوکہ نہ دے رہے ہوں اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کرے گا اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا:
”وان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک الله ہو الذی ایدک بنصرہ وبالمؤمنین،،۔ (الانفال:۶۲)
ترجمہ:۔”اور اگر وہ یہ چاہیں کہ تمہیں دھوکا دیں… تو یقینا تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ وہی ہے جس نے تمہاری تائید اپنی نصرت اور مؤمنوں کے ساتھ کی،،۔
۶…اگر کفار عہد توڑدیں تو انہیں اس کی ایسی سزا دی جائے کہ وہ نمونہ ٴ عبرت بن جائیں:
”الذین عاہدت منہم ثم ینقضون عہدہم فی کل مرة وہم لایتقون، فاما تثقفنہم فی الحرب فشرد بہم من خلفہم لعلہم یذکرون،، ۔(الانفال:۵۶،۵۷)
ترجمہ:۔”وہ لوگ جن سے تم نے معاہدہ کیا پھر وہ ہربار اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور نہیں ڈرتے ہیں پس تم اگر ان پر لڑائی میں قابو پاجاؤ تو ان کے ساتھ ہی ان لوگوں کو بھی جو ان کے پیچھے ہیں تتر بتر کر دو تاکہ وہ بھی یارکھیں،،۔
ندانست آنکہ رحمت کرد برمار
کہ ایں ستم است برفرزند آدم
ترجمہ:۔”جو شخص سانپ پر مہربانی کرتا ہے وہ نہیں جانتا کہ اس طرح وہ ان پر ظلم کررہا ہے،،۔
۷… اگر آثار وقرائن سے یہ نظر آرہا ہو کہ دشمن عہد شکنی کرے گا تب بھی اسے اندھیرے میں نہ رکھا جائے بلکہ دشمن کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہم اس معاہدہ کو باقی رکھنا نہیں چاہتے جب دونوں فریق برابر کی سطح پر ہو جائیں تو پھر بیشک تیاری کرلی جائے، اس سے پہلے نہیں ، ارشاد خداوندی ہے:
”واما تخافن من قوم خیانة فانبذ الیہم علی سواء ان الله لایحب الخائنین،،۔
(الانفال:۵۸)
ترجمہ:۔”اور اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت کا ڈر ہو تو تم بھی برابر کی حیثیت سے (ان کا عہد) ان کی طرف پھینک دو یقینا اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا،،۔
ایک یادگار مثال:
حضرت امیر معاویہ کا رومی حکومت سے میعادی معاہدہ تھا، آپ  نے شام کی سرحد کی طرف اپنی فوجیں بڑھانی شروع کردیں، مقصد یہ تھا کہ جونہی میعاد ختم ہوگی ، رومیوں کی تیاری کرنے سے پہلے حملہ کردیا جائے گا، دیکھا کہ ایک بزرگ گھوڑے پر سوار یہ پکارتے ہوئے آ رہے ہیں: الله اکبر الله اکبر وفاء لاغدرا کہ عہد پورا کرو خیانت نہ کرو اور کہا میں نے رسول کریم ا سے سنا تھا کہ کسی قوم سے معاہدہ ہو تو مدت پوری ہونے سے پہلے کوئی گرہ نہ کھولی جائے نہ باندھی جائے ،جیسے معاہدہ ہے ویسے ہی رکھا جائے یہ بزرگ عمر وبن عنبسہ  تھے، یہ ارشاد نبوی ا سن کر امیرمعاویہ  نے اپنی فوجیں سرحد سے واپس بلالیں۔(مشکوٰة:۳۴۷)
۸… حجاز مقدس اسلام کا مرکز ہے، رب العزت کا فرمان ہے کہ یہاں صرف مسلمان ہی رہیں، چنانچہ ۹ھ میں آپ ا نے سیدنا علی  کو حج کے موقع پر سورة البراء ة کی ابتدائی آیات مجمع عام میں سنانے کے لئے بھیجا اور آپ نے وہ آیات سنائیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ کفار ناپاک ہیں اس لئے انہیں طواف کعبہ کی اجازت نہیں۔نیز لباس اتار کر طواف کرنے سے بھی منع کردیا گیا، آپ نے وصیت بھی فرمائی کہ سر زمین عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں یہاں صرف اسلام ہو اور فرمایا:
”لاخرجن الیہود والنصاریٰ من جزیرة العرب،،۔ (مشکوٰة:۳۵۵)
ترجمہ:۔ ”یہود ونصاریٰ کو جزیرہ ٴ عرب سے نکال دوں گا،،۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”براء ة من الله ورسولہ الا الذین عاہدتم من المشرکین فسیحوا فی الارض اربعة اشہر… فان تبتم فہو خیر لکم وان تولیتم فاعلموا انکم غیر معجزی الله،،۔ (التوبہ:۱تا۳)
ترجمہ:…”(یہ) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں میں سے ان لوگوں کی طرف بیزاری (کا اعلان) ہے جس سے تم نے معاہدہ کیا تھا پس (اے مشرکوا) تم زمین میں چار مہینے چلو پھرو، پس اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کروگے تو جان لو کہ تم یقینا اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو،،۔
۹… اسلامی برادری میں شامل ہونے کی شرطیں ایمان اور احکام اسلام کی پابندی میں ہے:
”فان تابوا واقاموا الصلوٰة واتوا الزکوٰة فاخوانکم فی الدین،،۔(التوبہ:۱۱)
ترجمہ:۔”پس اگر انہوں نے توبہ کرلی اور نماز قائم کرلی اور زکوٰة دے دی تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں،،۔
حلف الفضول:
سب سے پہلا معاہدہ جس میں حضور ا شریک ہوئے ”حلف الفضول،، تھا، آپ ا کی عمر مبارک اس وقت صرف ۲۰/سال کی تھی ،لیکن خاندانی وجاہت، فہم وفراست، صدق وامانت اور سیرت وکردار کی پاکیزگی کے سبب آپ کو اس میں شریک کیا گیا۔
یہ معاہدہ عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں طے پایا، عبد اللہ بڑے فیاض اور عمر رسیدہ بزرگ تھے ،انہوں نے کھانے کا اہتمام کیا اور معززین کو بلایا، جنہوں نے حسب ذیل الفاظ میں معاہدہ کیا:
”وتعاہدوا علی ان لایجدوا بمکة مظلوما من اہلہا وغیرہم ممن دخلہا الا قاموا معہ وکانوا علی من ظلمہ حتی ترد علیہ مظلمتہ،،۔
ترجمہ:۔”انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ وہ مکہ میں جس مظلوم کو بھی پائیں گے خواہ وہ مکہ کا باشندہ ہو یا پردیسی ہو وہ اس کی مدد کریں گے اور ظالم کے خلاف مل کر کوشش کریں گے یہاں تک کہ مظلوم کو اس کا حق واپس مل جائے،،۔
بلاشبہ ان لوگوں نے اپنے عہد کو خوب نبھایا اور بے شمار مظلوموں کی بڑی جرأت سے مدد کرتے رہے، حضورا اس شرکت پر بہت خوش تھے اور آپ نے فرمایا:
”لقد شہدت فی دار عبد الله بن جدعان حلفا ما احب ان لی بہ حمر النعم ولو ادعی بہ فی الاسلام لاجبت،،۔
ترجمہ:۔”میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر ایک معاہدے میں شامل ہوا تھا، میں اس کے مقابلے میں سرخ اونٹوں کو بھی پسند نہیں کرتا اور اگر اسلام کے زمانے میں بھی مجھے ایسے کسی معاہدے میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے تو میں اسے ضرور قبول کروں گا،،۔
(جاری ہے)
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: یوم سیاہ اور مروجہ طریقہ ٴ سوگ اسلامی نقطہٴ نظر سے !
Flag Counter