Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ذوالحجہ ۱۴۳۰ھ - دسمبر ۲۰۰۹ء,

ہ رسالہ

2 - 12
مسائل اعتقادی واجتہادی کی پہچان !
مسائل اعتقادی واجتہادی کی پہچان!


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ:
بندہ ایک مدرسہ کا فارغ التحصیل ہے، اب اسکول کا ٹیچر ہے، کچھ سوالات آئے ہیں جن کی تحقیق بندہ سے نہیں ہوسکتی، کیونکہ بندہ میں نہ استعداد ہے نہ وسائل، لہذا براہ کرم ان کا جواب بحوالہ تحریر فرمادیں، بندہ بے حد مشکور ہوگا۔
۱:…کچھ مسائل اعتقادی ہوتے ہیں اور کچھ اجتہادی۔ اب سوال یہ ہے کہ اعتقادی مسائل کون سے ہوتے ہیں اور ان کے ثبوت کے لئے کون سے دلائل درکار ہوتے ہیں اور ان کے منکر کا کیا حکم ہوگا؟ مع امثلہ وضاحت فرمادیں۔ اسی طرح کا سوال اجتہادی مسائل پر ہے کہ وہ کون سے ہیں؟ دلائل کا معیار کیا ہوگا؟ بحوالہ مع امثلہ وضاحت فرمادیں۔
۲:…کچھ مسائل اصولی ہوتے ہیں اور کچھ فروعی : اب سوال یہ ہے کہ اصولی اور فروعی مسائل کی حقیقت کیا ہے؟ ان کے ثبوت کے لئے دلائل کا معیار کیا ہوگا اور منکر کا کیا حکم ہوگا؟ بحوالہ مع امثلہ وضاحت فرمادیں تاکہ بوقت ضرورت مراجعت آسان ہو، جو اب دہی کا بندہ بے حد ممنون ہے۔
خالد محمد استاد عربی ماہڑہ براستہ روھلانوالی تحصیل وضلع مظفر گڑھ
الجواب ومنہ الصدق والصواب
واضح رہے کہ اجتہاد کا ایک رکن ان مسائل کی تعیین ہے جن میں اجتہاد کیا جاسکتا ہے، ایسے مسائل کو مجتہد فیہ مسائل کہا جاتا ہے، مجتہد فیہ مسائل میں اگر کوئی اجتہادی غلطی کرجائے تب بھی گنہگار نہیں ہوگا، یہ وہ عملی اور فروعی احکام ہیں جن میں کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو،اعتقادی مسائل میں اجتہاد کی گنجائش نہیں اور اس میں غلطی باعث گناہ ہے، جن مسائل میں قطعی دلیل موجود ہو، مثلاً: نماز پنجگانہ اور زکوٰة کی فرضیت وغیرہ، ان میں بھی اجتہادکو دخل نہیں، اسی لئے بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ مجتہد فیہ مسائل وہ ہیں جن میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہو، اس کا منشاء بھی یہی ہے، کیونکہ جو احکام قطعی اور یقینی دلیلوں سے اخذ کئے جائیں وہ عام طور پر امت کے درمیان مسلمات کا درجہ رکھتے ہیں اوران پر اجماع واتفاق پایا جاتاہے، ایسے مسائل میں اجتہاد واختلاف نہیں کیا جاسکتا۔
دراصل احکام شریعت کے استنباط میں دوباتیں بنیادی عنصرکا درجہ رکھتی ہیں:
۱:…نصوص کا ذریعہ ثبوت: قرآن مجید تو تمام تر قطعی اور یقینی ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے، حدیث متواتر بھی قطعی غیر مشکوک ذریعہ سے مجتہدین تک پہنچی ہے، اس کے علاوہ جو حدیثیں ہیں ان کا ذریعہ نقل وثبوت اس درجہ یقینی نہیں، ان کو ظنی الثبوت کہا جاتا ہے۔
۲:…نصوص کی معنیٰ پر دلالت: بعض نصوص اپنے معنیٰ پر اس درجہ وضاحت وصراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں کہ ان میں کوئی ابہام نہیں ہوتا، یہ قطعی الدلالة ہیں۔
بعض الفاظ اور عبارتیں جس مضمون کو بتلاتی ہیں ان میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال رہتا ہے مثلاً: ایک سے زیادہ معنیٰ رکھنے والے مشترک الفاظ، تعبیر میں کنایہ واستعارہ اور اصل معنیٰ کے بجائے کسی اور استعمالی معنیٰ کی طرف عدول ان سب کو ظنی الدلالة کہا جاتاہے۔
پس ایسی تمام نصوص جو اپنے ذریعہ ثبوت یا مقصدومراد پر دلالت کے اعتبار سے ظنی ہوں اور وہ احکام جو قیاس سے ثابت ہوں، ظنی ہیں۔ ان نصوص اور قیاس سے جو مسائل متعلق ہوں وہ مجتہد فیہ ہیں اور یہی مجتہدین کے غور وتدبر اور سعی وجہد کا میدان ہے۔
چنانچہ اعتقادی اور اجتہادی مسائل کا حکم یہ ہے کہ جو چیزیں اصول دین اور ضروریات دین میں سے ہیں ان کا منکر بالاتفاق کافر ہے۔رد المحتار میں ہے:
”لکن صرح فی کتابہ المسایرة بالاتفاق علی تکفیر المخالف فیما کان من اصول الدین وضروریاتہ کالقول بقدوم العالم ونفی حشر الاجساد ونفی العلم بالجزئیات وان کان الخلاف فی غیرہ کنفی مبادئ الصفات ونفی عموم الارادة والقول بخلق القرآن الخ وکذا قال فی شرح منیة المصلی ان ساب الشیخین ومنکر خلافتہما ممن بغاہ علی شبہة لہ لایکفر، بخلاف من ادّعیٰ ان علیا الٰہ، وان جبریل غلط، لان ذلک لیس عن شبہة واستفراغ وسع فی الاجتہاد بل محض ہوی اھ،،۔ (فتاوی شامی:ج:۴، ص:۲۶۳)
وفیہ ایضاً:
”واما ما ثبت قطعا ولم یبلغ حد الضرورة کاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت الصلبیة باجماع المسلمین فظاہر کلام الحنفیة الا کفار بجحدہ بانہم لم یشترطوا فی الاکفار سوی القطع فی الثبوت… ویجب حملہ علی ما اذا علم المنکر ثبوتہ قط ۔“ (ج:۴،ص:۲۲۳)
وفیہ ایضاً:
”ثم نقل فی نور العین عن رسالة الفاضل الشہیر حسام جلبی من عظماء السلطان سلیم بن با یزید خان ما نصہ اذا لم تکن الایة او الخبر المتواتر قطعی الدلالة او لم یکن الخبر متواتر او کان قطعیا لکن فیہ شبہة او لم یکن الاجماع اجماع الجمیع او کان ولم یکن اجماع الصحابة او کان ولم یکن اجماع جمیع الصحابة او کان اجماع جمیع الصحابة ولم یکن قطعیا بان لم یثبت بطریق التواتر او کان قطعیا لکن کان اجماعا سکوتیا ففی کل من ہذہ الصور لایکون الجحود کفرا یظہر ذلک لمن نظر فی کتب الاصول فاحفظ ہذا الاصل،،۔ (فتاویٰ شامی: ج:۴،ص:۲۲۳)
المحصول فی علم الاصول میں ہے:
”الرکن الثالث المجتہد فیہ وہو کل حکم شرعی لیس فیہ دلیل قاطع واحترزنا بالشرعی عن العقلیات ومسائل الکلام وبقولنا لیس فیہ دلیل قاطع عن وجوب الصلوٰت الخمس والزکوٰة ومااتفقت علیہ الامة… وقال ابو الحسن البصری رحمہ اللہ: المسألة الاجتہادیة ہی التی اختلف فیہا المجتہدون من الاحکام الشرع۔“ (ج:۲،ص:۴۳۶)
ارشاد الفحول میں ہے:
”المسائل الشرعیة فذہب الجمہور… الي انہا تنقسم الی قسمین: الاول ما کان قطعیا معلوما بالضرورة… فلیس کل مجتہد فیہا مصیب بل الحق فیہا واحد فالموافق لہ مصیب والمخطئ غیر معذور وکفرہ جماعة منہم لمخالفتہ للضروری … (لقسم الثانی المسائل الشرعیة التی لاقاطع فیہا… وذہب ابوحنیفة ومالک والشافعی واکثر الفقہاء الی ان الحق فی احد الاقوال ولم یتعین لنا وہو عند الله متعین،،۔ (ص:۲۳۰)
معارف السنن میں ہے:
”المسألة الثالثة: فی اختلاف مراتب الدلالة فنقول دلالة النص علی حکم لہا اقسام اربعة: الاول: ماکانت الدلالة علی الحکم الذی ارید اثباتہ قطعیة ویکون ثبوت النص قطعیا ایضاً، الثانی: ما کانت الدلالة قطعیة والثبوت ظنیا، الثالث: علی عکس الثانی… الرابع: ما کانت الدلالة ظنیة وکذلک الثبوت ظنیا… فالقسم الاول منہما یفید اثبات الفرضیة… والثانی والثالث یفید ان الوجوب حینا والسنیة تارة… والکراہة تحریما والرابع یفید الندب والاستحباب والکراہة تنزیہا،،۔ (ج:۱،ص۵۹)
اکفار الملحدین لانور شاہ الکشمیری میں ہے:
”فکونہا من الدین ضروری وتدخل فی الایمان لایریدون ان الاتیان بہا بالجوارح لابد منہ کما یتوہم فقد یکون استحباب شئ او اباحتہ ضروریا یکفرجاحدہ ولایجب الاتیان بہ قالضرورة فی الثبوت عن حضرة الرسالة، وفی کونہ من الدین لامن حیث العمل ولامن حیث الحکم المتضمن فیہ نظریا، فقد یکون حدیث متواتر ویعلم ثبوتہ عنہا ضرورة ولابد ویکون الحکم المتضمن فیہ نظریا من حیث العقل کحدیث عذاب القبر ثبوتہ عنہ ا مستفیض وفہم کیفیة العذاب مشکل والایمان عمل من اعمال القلب… واذا علمت ہذا فنقول… والسواک سنة واعتقاد سنیتہ فرض وتحصیل علمہ سنة وجحودہا کفر وجہالہ حرمان وترکہ عقاب او عتاب… وذہبت الحنفیة بعد ہذا الی ان انکار الامر القطعی وان لم یبلغ حد الضرورة کفر،،۔ (ص:۲-۹)
حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے احکام اسلامیہ کی مختلف قسمیں ہوگئی ہیں، تمام اقسام کا اس بارہ میں ایک حکم نہیں، کفر وارتداد صرف ان احکام کے انکار سے عائد ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اور قطعی الدلالة بھی… پھر اس قسم کے احکام قطعیہ اگر مسلمانوں کے ہر طبقہ خاص وعام میں اس طرح مشہور ومعروف ہوجائیں کہ ان کا حاصل کرنا کسی خاص اہتمام اور تعلیم وتعلم پر موقوف نہ رہے بلکہ عام طور پر مسلمانوں کو وراثتاََ وہ باتیں معلوم ہوجاتی ہوں جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰة کا فرض ہونا، چوری، شراب خوری کا گناہ ہونا، آنحضرت ا کا خاتم الانبیاء ہونا وغیرہ تو ایسے احکام قطعیہ کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور جو اس درجہ مشہور نہ ہوں وہ صرف قطعیات کہلاتے ہیں، ضروریات نہیں، اور ضروریات اور قطعیات کے حکم میں یہ فرق ہے کہ ضروریات دین کا انکار باجماع امت مطلقا کفر ہے، ناواقفیت وجہالت کو اس میں عذر نہ قرار دیاجائے گا اور نہ کسی قسم کی تاویل سنی جائے گی اور قطعیات محضہ جو شہرت میں اس درجہ کو نہیں پہنچتیں تو حنفیہ کے نزدیک اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی عامی آدمی بوجہ واقفیت وجہالت کے ان کا انکار کر بیٹھے تو ابھی اس کے کفر وارتداد کا حکم نہ کیا جائے گا بلکہ پہلے اس کو تبلیغ کی جائے گی کہ یہ حکم اسلام کے قطعی البثوت اور قطعی الدلالة احکام میں سے ہے، اس کا انکار کفر ہے، اس کے بعد اگر وہ اپنے انکار پر قائم رہے تب کفر کا حکم کیا جائے گا۔ “ (جواہر الفقہ ج:۱،ص:۲۷-۲۸)
اس مذکورہ تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اجتہادی مسائل کے منکر کو کافر نہیں کہا جاسکتا ،البتہ مسائل اجتہادیہ کے منکر کو فاسق کہا جائے گا۔
جواب ۲: اصول وفروع: اصل کے لغوی معنیٰ جڑ اور بنیاد کے ہیں، فقہاء اس کو مختلف مواقع پر مختلف معنوں میں استعمال کرتے ہیں، کبھی اس کو ادلہ اربعہ پر بولا جاتا ہے اور کبھی فقہی اصول وکلیات پر۔
قیاس میں اصل اس نص کو کہتے ہیں جس پر دوسری چیز کو قیاس کیا جاتا ہے، اس طرح گویا مقیس علیہ ہی کا دوسرا نام اصل ہے۔
قضاء میں اصل وہ چیز کہلاتی ہے جس کی تائید میں ظاہر حال ہو، فقہی قواعد کو بھی اصل سے تعبیر کیا جاتا ہے ،بلکہ بعض اہل علم فقہی قواعد کو” الاصل “ہی سے تعبیر کرتے ہیں، البتہ فقہی قواعد اور اصول میں کئی باتوں کا فرق ہے:
۱:…اصول فقہ استنباط احکام کا ذریعہ ہیں اور قواعد فقہ مستنبط کئے جانے والے احکام کو سامنے رکھ کر مرتب کئے جانے والے قضایا۔
۲:… اصول کلی ہوتے ہیں اور قواعد اکثری۔
۳:… قواعد کا تعلق زیادہ تر شریعت کی مصالح اور حکمتوں سے ہے اور اصول کا تعلق زیادہ تر عربی زبان کے قواعد اور طریقہ استنباط سے ہوتا ہے۔
۴:…اصول کا وجود فروع سے پہلے ہوتا ہے، کیونکہ وہ فروع کے لئے استنباط کا ذریعہ ہوتے ہیں اور قواعد فروع کے بعد وجود میں آتے ہیں ،کیونکہ فروع کو سامنے رکھ کر قواعد وضع کئے جاتے ہیں۔
قواعد سے قریبی اصطلاح اشباہ ونظائر کی ہے، اشباہ، شبہ کے معنیٰ مماثل اور مانند کے آتے ہیں اور نظائر ،نظیر کی جمع ہے، جس کے معنیٰ مماثل اور ہمسر ویکساں کے ہیں، اصطلاح میں ایسے مسائل کو کہتے ہیں جن پر دو مختلف اصل کو منطبق کیا جاسکتا ہے، مجتہد اجتہاد اور غور وفکر کے ذریعہ متعین کرتا ہے کہ یہ کس اصل سے زیادہ قریب اور اس کے مشابہ ہے۔دوسرے اسلامی علوم کی طرح قواعد فقہ کا خمیر بھی اصل میں کتاب وسنت سے ہی تیار ہوا ہے، قرآن مجید میں بہت سے احکام فقہی قواعد کی صورت میں وارد ہوئے ہیں، مثلاً:
”یرید الله بکم الیسر ولایرید بکم العسر،، ۔ (البقرہ:۱۸۴)
اسی سے فقہاء کرام نے ”المشقة تجلب التیسیر،، کا قاعدہ لیا ہے۔
”وما جعل علیکم فی الدین من حرج۔“ (الحج:۷۶)
اسی پر فقہی قاعدہ ”الحرج مدفوع،، مبنی ہے۔ اسی طرح ”الخارج بالضمان، المسلمون علی شروطہم وغیرہ قواعد بھی احادیث سے اخذ کئے گئے ہیں، قرآن وحدیث کے بعد آثار صحابہ میں بھی بہت سے ایسے فرمودات ملتے ہیں جو یقینا قواعد کہے جاسکتے ہیں ، خاص کر حضرت عمر کے یہاں ،جیسے
البینة علی المدعی والیمین علی من انکر، ذروا الربا والریبة۔
صحابہ کرام کے بعد تابعین وتبع تابعین کے عہد میں اور فقہ اسلامی کی اولین تالیفات میں ایسے اصولی نظریات ملتے ہیں جن کو قاعدہ فقہیہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً:
” لایؤخذ شئ من اموالہم الا بحق یجب علیہم، ان کان ہذا النہر قدیما یترک علی حالہ وغیرہ ذلک۔ “
شرح الاشباہ والنظائر للحموی میں ہے:
”الاصول، جمع اصل: وہو لغة: اسفل الشئ، وفی العرف: ما یبتنی علیہ غیرہ، والمراد بہا الکتاب والسنة والاجماع والقیاس، والفروع: جمع فرع، ضد الأصل … والمراد بہا الاشیاء الثابتة احکامہا بالأصول المقدمة من الفرض والواجب والمسنون والمندوب والحلال والحرام والمکروہ کراہة تحریم وتنزیہ … الاشباہ جمع شبہ ،والشبہ والتشبہ والشبیہ ،المثل، والنظائر: جمع نظیر وہو الناظر والمثل والمراد بہا المسائل التی تشبہ بعضہا بعضا مع اختلافہا فی الحکم لامور خفیة ادرکہا الفقہاء بدقة انظارہم… لان القاعدة عند الفقہاء وغیرہا عند النحاة والاصولیین اذ ہی عند الفقہاء حکم اکثری لاکلی ینطبق علی اکثر جزئیاتہ لتعرف احکامہا منہ… والفرق بین الضابطة والقاعدة الخ فی عبارة بعض المحققین ما نصہ ورسموا الضابطة بانہا امر کل ینطبق علی جزئیاتہ… قال وہی اعم من القاعدة،،۔ (ج:۱، ص:۴۰۸،۶۳،۵۳،۴۱)
الموسوعة الفقہیة میں ہے:
”ویطلق الاصل فی الاصطلاح بمعان ترجع کلہا الی استناد الفرع الی الأصل وابتنائہ علیہ ومن تلک المعانی الاصطلاحیة :
۱- الدلیل فی مقابلة المدلول، ۲- القاعدة الکلیة، ۳-المستحب وہو الحالة الماضیة، ۴- ما یقابل الاوصاف، ۵- وعلی اصول الانسان: ابیہ وامہ واجدادہ وان علوا ، ۶- علی المبدل منہ فی مقابلة البدل، ۷- وعلی اصل القیاس (المحل المقیس علیہ) ۔“ (ج:۵،ص:۵۶،۵۵)
معجم المصطلحات والالفاظ الفقہیة میں ہے:
”الاصول جمع اصل وہو ما یبنی علیہ غیرہ وقیل ما یتفرع غیرہ علیہ … واصول الفقہ: الادلة للفقہ الاجمالیة وطرق استفادة جزئیاتہا وحال مستفیدہا… العلم بالقواعد التی یتوصل بہا الی استنباط الاحکام الشریعة عن ادلتہا التفصیلیة… فالاصول، الادلة،،۔ (ج:۱،ص:۲۰۷)
القواعد الفقہیة لعلی احمد الندوی میں ہے:
۱- ان علم اصول الفقہ بالنسبة للفقہ میزان وضابط للاستنباط الصحیح شأنہ فی ذلک شأن علم النحو لضبط النطق والکتابة وقواعد ہذا الفن ہی وسط بین الادلة والاحکام فہی التی یستنبط بہا الحکم من الدلیل التفصیلی وموضوعہا دائما الدلیل والحکم۔
۲- القواعد الاصولیة ہی ذریعة لاستنباط الاحکام الشرعیة العملیة وبذا تنفصل القواعد الفقہیة عنہا، لانہا عبارة عن مجموعة الاحکام المتشابہة التی ترجع الی علة واحدة تجمعہا او ضابط فقہی یحیط بہا والغرض منہا تقریب المسائل الفقہیة وتسہیلہا۔
۴- القواعد الفقہیة متأخرة فی وجودہا الذہنی والواقعی عن الفروع ،لانہا جمع لاشتاتہا وربط بینہا وجمع لمعانیہا، اما الاصول فالفرض الذہنی یقتضی وجودہا قبل الفروع… ان معظم مسائل اصول الفقہ لاترجع الی خدمة حکمة الشریعة ومقصدہا ولکنہا تدور حول محور استنباط الاحکام من الفاظ الشارع بواسطة قواعد یتمکن العارف بہا من انتزاع الفروغ منہا… ہی علی عکس القواعد الفقہیة التی تخدم المقاصد الشرعیة العامة والخاصة وتمہد الطریق للوصول الی اسرار الاحکام وحِکَمِہا۔“ (القواعد الفقہیة: ص:۷۰-۶۸)

الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری
محمد عبد القادر
شعیب عالم
ابوبکرسعید الرحمن
صالح محمد
محمد داؤد
کتبہ
میر حارث
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ذوالحجہ:۱۴۳۰ھ - دسمبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 12

    پچھلا مضمون: حج․․․ایک عاشقانہ رمز !
Flag Counter